نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

جولائی, 2015 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

فلسفہ و سائنس میں مادری، تہذیبی و مذہبی زبان کا لزوم

[یہ ایک فیس بک نوٹ ہے جو ۳ فروری، ۲۰۱۲ عیسوی   کو لکھا گیا۔ مخاطب کا نام حذف کر دیا گیا ہے ۔] محترم … … … ، فکر و فلسفہ کے معیار مطلوب تک انسان تبھی پہنچ سکتا ہے جب وہ اپنی مادری زبان کو اپنے فلسفیانہ اظہارکا وسیلہ بنائے یا پھر اس زبان کو جس کو وہ اپنا سمجھتا ہو یعنی جس سے اس کی مذہبی، تہذیبی، ثقافتی یا ماحولی و جغرافیائی وابستگی ہو، نیز وہ زبان اس کے اردگرد بہ قدر ضرورت موجود ہونے کے علاوہ لسانیاتی طور پر اس کی فطرت میں پیوست ہو جانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ دور جدید میں برصغیر ہندوپاک، بلکہ عالم اسلام کے اکثر ملکوں میں بھی، عظیم فلسفی یا سائنسداں اس لیے پیدا نہ ہو سکے کہ برطانوی استعمارکے خاتمے کے بعد بھی پوری اکادمک دنیا پرانگریزی جیسی غیر موزوں زبان (مذکورہ بالا معنوں میں) کا تسلط قائم رہا۔ واضح رہے کہ ایک طویل مدت تک ہمارے درمیان رہنے کے باجود انگریزی ہماری ’’اپنی‘‘ زبان نہ بن سکی۔ اور ہماری علمی و سیاسی  قیادت نے بعض غیر حقیقی معذوریوں کا اظہار کرتے ہوئے اس کو اعلیٰ تعلیم میں تحقیق و رسرچ کی زبان کے طور پر مسلط کیا جاتا رہا۔ اسی کا نتیجہ ...

مذہب اور واقعاتی صداقت

[یہ  بحث  ۲۰۱۲ عیسوی  میں فیس بک پر سید سعادت اللہ حسینی صاحب کے ساتھ ہوئی   تھی۔اس وقت سے   اب تک  میرے نقطہ نظر میں خاصی تبدیلی آئی ہے۔ اب میرا یہ ماننا ہے کہ روایتی علمائے دین کا نقطہ نظر ہی اس اسلام کی ترجمانی کرتا ہے جو قرآن و سنت میں منقول ہے اور جس پر چودہ سو سالوں سے مسلمانوں کے صحیح العقیدہ فرقے عمل پیرا ہیں۔  چنانچہ میں اب مذہب میں   مغربی طرز کی تعقل پسندانہ روش اور دینی  و شرعی امور و مسائل میں فلسفیانہ  افکار و نظریات کے دخول نیز  شریعت کی اصلاح کے ذریعے ایک ماڈرن اسلام کی تخلیق کا سخت  مخالف ہوں ــــــــ   طارق صدیقی، ۲۹ جولائی ، ۲۰۱۵ عیسوی] محترم سعادت اللہ حسینی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ! میں نے اپنے پچھلے تبصرے میں بخاری شریف کی ایک حدیث   کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا   کہ ۹۹۹ فی ہزار لوگوں کے جہنم میں جانے کا عقیدہ رکھنا ایک غیرمعقول بات ہے۔   آپ کے بقول    میرا ایسا کہنا علمی بددیانتی ہے   کیونکہ اسی   حدیث میں آگے یہ کہا گ...