ہفتہ، 23 مارچ، 2019

سر سید سے دو قدم آگے: ڈاکٹر اسرار احمد کا انکار حدیث

ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم, عصر حاضر کے ایک تجدد پسند رجحان رکھنے والے مفسر قرآن ہیں. انہوں نے انکار حدیث کی انوکھی راہ نکالی ہے. ایک ویڈیو میں فرماتے ہیں کہ قرآن کی وہ آیات جن میں سائنسی مضامین بیان ہوئے ہیں, ان کے سلسلے میں اسلاف (صحابہ, تبع تابعین, مفسرین وغیرہ) کی رائیں تو ایک طرف, خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی قطعی نہیں ہوگا. ڈاکٹر صاحب کے اصل الفاظ ملاحظہ فرمائیں:

"...قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے, نہ سائنس کی ہے نہ ٹیکنالوجی کی ہے. اس حوالے سے ایک بڑا منطقی نتیجہ نکلتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر ہمارے اسلاف نے قرآن کی ان آیات کا کوئی خاص مفہوم معین کیا اپنے دور کی معلومات کی سطح پر, ہمارے لیے لازم نہیں ہے کہ ہم اس کی پیروی کریں. سائنسی فینومنا کو جو سائنسی ترقی ہو رہی ہے اس کے حوالے سے سمجھیں گے. یہاں تک کہ اب آخری بات عرض کر رہا ہوں, خود حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کا فرمان بھی اس میں قطعی نہیں ہوگا. یہ بات بہت ثقیل اور گراں گزرے گی بہت سے لوگوں پر. سائنس اور ٹکنالوجی میں اگر حضور کی کوئی حدیث بھی سامنے آ جائے تو اس کو بھی ہم کوئی دلیلِ قطعی نہیں سمجھیں گے. اس کی وجہ کیا ہے؟ ایک واقعہ بہت اہم ہوا حضور کی زندگی میں. حضور جب ہجرت فرما کر تشریف لائے مدینہ منورہ تو آپ کو معلوم ہے کہ حضور کی پیدائش مکے کی, ساری زندگی آپ نے وہاں گزاری, وہ وادی غیر ذی ذرعہ ہے, وہاں کوئی پیداوار, کوئی زراعت, کوئی کاشت ہوتی ہی نہیں تھی, آپ کو کوئی تجربہ سرے سے نہیں تھا, ہاں تجارت کا تجربہ تھا, بھرپور تجارت کی تھی, یہاں آئے تو آپ نے دیکھا کھجوروں کے سلسلے میں انصار مدینہ تعبیر نخل, وہ ایک اصطلاح ہے, کھجور ایک ایسا پودا ہے جس کا ایک فی میل فلاور ہوتا ہے اور ایک میل علیحدہ, اب میل فلاور اور فی میل فلاور ان دونوں کو قریب لے آئیں, تو اس سے اس بات کا زیادہ امکان ہو جاتا ہے (کہ) فرٹیلائزیشن ہو, اور پھل بنے اور زیادہ آپ کو پھل حاصل ہو, فصل زیادہ ہو, اگر وہ فاصلے پر رہیں گے تو ہو سکتا ہے اس کا امکان کم ہو, تو وہ اس کو قریب جوڑ دیتے تھے. حضور نے دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ آپ لوگ ایسا نہ کریں تو کیا ہے؟ یعنی نیچر جو ہے, نیچر کین ٹیک کیئر آف اٹسیلف, آخر فطرت ہے, فطرت نے یہ ساری چیزیں بنائی ہیں, آپ ایسا نہ کریں تو کیا ہے؟ صرف یہ کہا آپ نے, آپ نے روکا نہیں, لیکن ظاہر بات ہے صحابہ کرام کے لیے, رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین, حضور کا اتنا کہنا بھی گویا کہ حکم کے درجے میں (تھا), انہوں نے اس سال وہ کام نہیں کیا, فصل کم ہو گئی, اب وہ ڈرتے ڈرتے, جھجھکتے جھجھکتے حضور کی خدمت میں آئے, حضور آپ نے وہ فرمایا تھا, ہم نے وہ نہیں کیا, تعبیر نخل اس سال نہیں کی ہم نے, فصل کم ہوئی ہے. آپ نے فرمایا, انتم اعلم بامور دنیاکم, اس کا ایک ایک لفظ یاد کر لیجیے, انتم اعلم بامور دنیاکم, اپنے ... دنیوی و مادی معاملات میں تم زیادہ تجربہ کار ہو, تم زیادہ حقائق سے واقف ہو. ... اعلم کا لفظی ترجمہ کرنے کی جرات مجھے نہیں ہو رہی ہے, تم زیادہ واقف ہو ان چیزوں سے, میں یہ چیزیں سکھانے نہیں آیا, آپ ٹیکنالوجی پڑھانے نہیں آئے تھے, آپ طب سکھانے نہیں آئے تھے, آپ کوئی اور سائنس پڑھانے نہیں آئے تھے, ورنہ تو ہم شکوہ کرتے کہ آپ نے ہمیں ایٹم بم بنانا کیوں نہیں سکھا دیا پہلے ہی, نہیں, یہ موضوع ہی نہیں ہے, قرآن کا موضوع معین ہونا چاہیے. قرآن کا موضوع انسان کی ہدایت, اس ہدایت کے لیے جس قدر اس کو ضرورت ہے علم کی, کہ...جو یہ فیزیکل فینومینا ... (ہیں), ان کے حوالے سے بھی ہدایت حاصل کرے, اس حد تک ان کا تذکرہ ہے, لیکن یہ یقین اور ایمان ہونا چاہیے کہ قرآن مجید کے الفاظ میں جو شئے مضمر ہے وہ کبھی غلط ثابت نہیں ہوگی. یہ ہو سکتا ہے کہ قرآن کی کسی آیت کا کوئی مفہوم ہمارے اسلاف نے ایک ہزار برس پہلے یا چھ سو برس پہلے سمجھا ہو, اور وہ مفہوم غلط ثابت ہو جائے, وہ ایک علیحدہ بات ہو گئی لیکن قرآن مجید کا ٹیکسٹ جو ہے اس کے اندر کہیں ایسی بات نہیں آ سکتی."
(حوالہ نیچے تبصرے میں دیکھیں)
دیکھا آپ نے ڈاکٹر اسرار احمد کس قدر جرات و بیباکی سے یہ کہہ رہے ہیں کہ قرآن میں موجود سائنسی نوعیت کی آیات کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بھی قطعی نہیں ہوگی. یعنی ڈاکٹر صاحب کے نقطہ نظر کے مطابق کوپرنیکس, گیلیلیو, نیوٹن اور آئن اسٹائن اور اسٹیفن ہاکنگ ایسے علمائے سائنس کی تحقیقات کی روشنی میں تو قرآن کی سائنسی آیات کی نئی تعبیر کی جا سکتی ہے لیکن اسلاف نے اپنے زمانے کی معلومات کی سطح پر قرآن کی سائنسی آیات کا جو مفہوم معین کیا وہ قطعی نہیں ہوگا. اتنا ہی نہیں
"خود حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کا فرمان بھی اس میں قطعی نہیں ہوگا".

کیا یہ عجیب نہیں لگتا کہ اللہ تعالی نے جن پر قرآن نازل کیا ہو ان کا فرمان بھی قرآن کے معنی معین کرنے میں قطعی نہیں ہوگا. غنیمت ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ نہ فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے "اپنے زمانے کی معلومات کی سطح پر قرآن کی آیات کے مفہوم معین کیے تھے!"
اتنی مہارت کے ساتھ حدیث کا انکار کر کے قرآن کی نئی تعبیر کی جرات تو سر سید کو بھی نہ ہوئی تھی جنہوں نے صحف مقدسہ کی تعبیر کا ایک جدید اصول "تبیین الکلام فی تفسیر التوراۃ و الانجیل علی ملۃ الاسلام" میں بیان فرمایا تھا:

"كلام الهي کي اصلي مراد سمجهنے کے لیئے بعض مقامات پر اس طرح معنوں کا لینا جایزهي نہیں ھے بلكه نہایت ضروري ہے. غور کرنے کی بات ھے که الله تعالی نے هماری تہذیب اخلاق اور پاکیزگي روح کے لیے انبیا بھیجے اور ان کو وحی عنایت کی تاکه اس سے هم اپنے اخلاق بهي درست کریں اور نجات ابدي بهي حاصل کریں پھر وہ تعلیمیں ہمارے خیال اور گمان میں بهي نہ تھیں علاوہ اس کے ایسے دقیق اور نازک مضامین بھي تھے جنکا سمجهه میں آنا اور آنکي اصليت اور حقیقت کا دریافت کرنا انسان کی سمجهه اور فکر سے باهر تها اور ایسے مضامین تو بہت کثرت سے تھے جنکا بغیر ترقي علم کے سمجهه میں آنا غير ممکن تها اور رحمت اور حکمت الهي مقتضي إسبات کي تهي که هماري تمام جماعت انسانی بقدر اپني اپني استعداد کے اس سے فائده اٹھائے خصوما اس وقت میں بھی جبکہ هماري سوسائٹی بچپن کی حالت میں تهي اور کسی طرح علم نے ترقی نہیں پائي تهي اسلیئے مقتضاے حکمت یهه تها که خدا کي وحي ايسی طرز و انداز بیان سے نازل هو که آسکے اصلي نتيجه سے کسی زمانہ میں اور کوئي شخص محروم نه رهی ، پس ضرور هوا که ایسے مضامین جو درحقیقت انسان کی سمجهه سے باهرهیں یا بچپن کي حالت هماري سوسیٹی کی ان کے سمجهنے کي لياقت نہ رکهتي تهي وہ بطور مثال اور تشبيهه کے بیان کی جاویں اور گو کہ وہ مضامین مثالی اور تشبيهي کسي زمانه میں حقيقي سمجهے گئے هوں ، مگر اس سے کچهه نقصان اور قباحت هماري خلقي اور روحانی تربیت کو نہیں تھا کیونکه اسکے نتیجه میں خواه وہ مضامین مثالی اور تشبيهي سمجهي جاویں جس طرح پر کہ بیان ہوئے تھے خواہ اصلي اور حقيقي كسی طرح کا تفاوت نه تها
ان باتوں کے سبب ضرور تھا که کلام الهي صرف بطور حقیقت هي کے نه بیان کیا جائے بلکه بطور مثال اور تشبيه کے بهي هو تاکه هماري ضعيف عقل اسکے ذریعه سے اس اصلی تعلیم اور اسکے متحد نتيجه سے محروم نرهے پس کلام الہي کو يکسر تمثيل أور تشبيه سے خالي سمجهنا اور آسکے سیاق اور اسکے مقتضی سے درگذرنا ایسا ہی جیسیکہ اس کے تمام کلام کو تمثيلي اور تشبيهي اور خیالات شاعرانه سمجھنا.
جسطرح که اقسام مذکورہ بالا کے مضامین نے جو کلام الهي میں واقع هیں اسپر اعتقاد رکھنے والوں کو کھبرا لیا ھے آسي طرح ان الفاظ نے بھی جو کلام الهي ميں واقع هیں اور حال کي ترقي علم نے انکے برخلاف ثابت کیانہے حد سے زیادہ ان کو گھبرا دیا ہے مگر وہی ترقی علم ہم کو یہ بھی دکھاتی ھے که ان الفاظ کے تعبير معانی میں جس قدر قصور تھا ہمارے علم کا تھا نه كلام الهي کا، درحقیقت انبیاء کے بھیجنے اور وحی کے نازل کرنے سے اصلی مقصود انسان کي روحاني تربيت هے جو امور که تجربه اور ترقي علم پر منحصر ہیں جو روز بروز انسان پر هوتي جاتی ھے ان سے کچهه بهي علاقه نہیں ہے اسلیئے ضرور تها که جو الفاظ انبیاء کے دل میں ڈالی جاویں وہ انسان کي هرحالت علم اور سمجهه سے باهر نہ ہوں مگر اس کے ساتهه يه بهي ضرور تها که وة الفاظ حقيقت کے بهي برخلاف نہوں تاکه هر ایک زمانه کے آدمي بقدر اپنے علم کے جو اس زمانہ میں رکهتے هین اس سے روحاني فائده اٹھاویں اور جبکہ انسان کے علم کو  زیادہ تر ترقي هو اور حقیقت اشياء نسبت سابق کے زیاده تر اسپر منکشف هوں تو وہ جان لے کہ جو الفاظ انبیاء کے دلوں میں ڈالے گئے تھے وہ بھي اسي ترقي يافتم علم کی طرف اشارہ کرتے تھے انکے معانے کی تعبیر میں جہانتک قصور تها همارے ہي علم کا تها نه آن الفاظ کا اس بیان سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کلام انبیا کا کس قدر عظمت اور منزلت رکھتا ہے کہ باوجود هماری مخالف اور متبائن خیالات کے مطابق حقیقت اور هر ایک وقت هماري روحانی تربیت کو مفید اور کافي تها."
(حوالہ: سر سید احمد خاں, تبیین الکلام, حصہ دوسرا, صفحہ 31 تا 34)

ذرا غور فرمائیے کہ سر سید کی فکر کیسے کیسے گل کھلا رہی ہے اور کس قسم کے لوگ ان سے استفادہ کر رہے ہیں! اور سیاسی اسلامسٹوں کو سر سید کی فکر کس کس کروٹ راس آ رہی ہے. حالانکہ سر سید نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فرمان سے اس طرح کھلے بندوں انکار نہ کیا تھا.

بدھ، 28 نومبر، 2018

تہذیبوں کا تصادم اور مولانا مودودی

مولانا مودودی کا مضمون "ہماری ذہنی غلامی اور اس کے اسباب" ماہنامہ ترجمان القرآن کے ستمبر 1934 عیسوی کے شمارے میں شائع ہوا تھا. درج ذیل اقتباس سے معوم ہوتا ہے کہ مولانا مودودی نے گو "تہذیبوں کا تصادم" کو اصطلاح کے طور پر نہ استعمال کیا ہو لیکن وہ تہذیبوں کے مابین تصادم کے تصور سے پوری طرح آگاہ تھے. اور اس اعتبار سے وہ سیموئیل پی ہنٹنگٹن کے پیش رو کہے جا سکتے ہیں.

"مغربی تہذیب کے ساتھ جن قوموں کا تصادم ہوا ان میں سے بعض تو وہ تھیں جن کی کوئی مستقل تہذیب نہ تھی۔ بعض وہ تھیں جن کے پاس اپنی ایک تہذیب تو تھی مگر ایسی مضبوط نہ تھی کہ کسی دوسری تہذیب کے مقابلہ میں وہ اپنے خصائص کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتی۔ بعض وہ تھیں جن کی تہذیب اپنے اصول میں اس آنے والی تہذیب سے کچھ بہت زیادہ مختلف نہ تھی۔ ایسی تمام قومیں تو بہت آسانی سے مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگ گئیں، اور کسی شدید تصادم کی نوبت نہ آنے پائی۔ لیکن مسلمانوں کا معاملہ ان سب سے مختلف ہے۔ یہ ایک مستقل اور مکمل تہذیب کے مالک ہیں۔ ان کی تہذیب اپنا ایک مکمل ضابطہ رکھتی ہے جو فکری اور عملی دونوں حیثیتوں سے زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔ مغربی تہذیب کے اساسی اصول کلیتہً اس تہذیب کے مخالف واقع ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قدم قدم پر یہ دونوں تہذیبیں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہیں اور ان کے تصادم سے مسلمانوں کی اعتقادی اور عملی زندگی کے ہر شعبے پر نہایت تباہ کن اثر پڑ رہا ہے۔"

سید ابوالاعلی مودودی, "ہماری ذہنی غلامی اور اس کے اسباب", مشمولہ تنقیحات, ناشر: دفتر رسالہ ترجمان القرآن, لاہور. سن اشاعت: درج نہیں لیکن دیباچہ 1939 عیسوی میں لکھا گیا, صفحہ 8

(مولانا مودودی کا مذکورہ بالا مضمون انٹرنیٹ پر موجود ہے اور اس کا یہ اقتباس انٹرنیٹ سے ہی کاپی کیا گیا ہے).

بدھ، 10 اکتوبر، 2018

مسئلہ ٔ ارتداد پر ایک حدیث کا تجزیہ

[چند سال قبل ہمارے ایک دوست نے مسئلہ ٔ ارتداد پر مولانا عنایت اللہ سبحانی کے حوالے سے حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کی تاویل پیش کی تھی۔ ان کی تاویل کے مطابق اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ اسلام میں تبدیلی مذہب ارتداد کے مترادف نہیں ہے اس لیے مذہبِ اسلام ترک کرنے کی سزا ‘‘قتل ’’ نہیں ہے۔میں نے اس کے جواب میں ایک طویل تبصرہ لکھا تھا جس پر آج اتفاق سے میری نظر پڑ گئی۔ میں نے اپنے لکھے تبصرے کو دوبارہ پڑھا اور قارئین کے فائدے کی غرض سے اس میں چند حذف اور اضافے کے بعد اسے بلاگر پر پوسٹ کر رہا ہوں:۔]

منگل، 9 اکتوبر، 2018

اسلام میں چہرے کا پردہ اور تجدد پسندوں کا فہم قرآن

1
بعض اسلامی تجدد پسند یہ کہتے ہیں کہ قرآن سے چہرے کا پردہ ثابت نہیں ہے۔ لیکن میں جب قرآن پڑھتا ہوں تو نتیجہ اس کے برعکس نکلتا ہے۔ ملاحظہ ہو ایک فیسس بک دوست ا۔ش۔ صاحب کے ایک اسٹیٹس پر میرا درجِ ذیل تبصرہ:
ذرا تفصیل کے ساتھ احزاب کی ان آیات پر غور کریں:
وَ اِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔلُوْهُنَّ۠ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ١ؕ ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَ قُلُوْبِهِنَّ١ؕ
نبیؐ کی بیویوں سے اگر تمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے باہر سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔ (احزاب ۵۳)
يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ۠١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۰۰۵۹
اے نبیؐ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکالیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے (احزاب ۵۹)

تلاوت یعنی پڑھنا اور سمجھنا دونوں؟

عصرِ حاضر کے ایک بلند پایہ عالم دین مولانا ڈاکٹر محی الدین غازی صاحب نے ۳۱ مئی ۲۰۱۸ کو فیس بک پر’قرآن کو سمجھ کر پڑھنے‘‘ سے متعلق ایک اسٹیٹس پوسٹ کیا تھا جو درجِ ذیل ہے:
’’قرآن کے الفاظ اللہ کے ہیں انہیں پڑھنا مطلوب۔ یہ الفاظ بامعنی ہیں، انہیں سمجھنا مطلوب۔ یہی پڑھنا اور سمجھنا تلاوت ہے۔‘‘
میں نے موصوف کے اس اسٹیٹس اپڈیٹ پر ایک مختصر گفتگو کی تھی جسے میں ذیل میں نقل کر رہا ہوں:

اسلام میں شورائیت پر ایک سوال

کیا اسلام میں سرشماری کے بعد کثرت آرا پر مبنی شورائیت قرآن سے ثابت ہوتی ہے؟ یعنی صدر حکومت اس کو چنا جائے جس کے حق میں زیادہ ووٹ پڑیں؟ اور ریاست کے معاملات میں صدر ریاست اپنے مشیروں کی اکثریت کی رائے ماننے کا پابند ہو؟ فرض کیجیے، اگر مشیر پانچ ہوں اور چھٹا خود صدر ریاست ہو تو پانچ مشیر مل کر صدر کو تگنی کا ناچ نچا دیں گے، اور اگر مشیر چار ہوں تو ان میں سے تین اگر آپس میں مل جائیں تو صدر صاحب کو ناکوں چنے چبوا دیں۔ اسی لیے اسلام میں اکثریت کی حاکمیت پر مبنی شورائی نظام نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ سب لوگ مشورے میں شریک ضرور ہوں لیکن چلے وہی بات جو حق ہو، اور حق وہ ہے جو طاقت کی بنیاد پر واقع ہو۔ اور طاقت وہ ہے جس کا لوہا طوعا و کرہاً سب کو ماننا پڑے۔

اتوار، 3 جون، 2018

ابن صفی اور اسلامی ادب

بعض نیم عقلی دانشور کہتے ہیں کہ ابن صفی اسلامی رجحان کے حامل تھے اس لیے ان کے ناولوں میں اسلامی پسندی کی جھلک پائی جاتی ہے۔ اور محض اسی لیے وہ ابن صفی کو ناولوں کو بڑا ادب باور کرانے پر تل گئے ہیں۔ دراصل اردو میں اسلامی ادب قحط الرجال کا شکار ہے۔ اسلامی ادب کے نام پر لکھی گئی کہانیوں اور شاعری میں اس قدر واعظانہ اور مفتیانہ باتیں ہوتی ہیں کہ آدمی بوریت کا شکار ہوجاتاہے۔ معاشرہ میں بھی ایسے مذہبی ادب کے کردار کہیں چلتے پھرتے نظر نہیں آتے۔اس قسم کا پاکیزہ ادب لکھنے والوں کے فن میں بھی کوئی خاص ترقی نہیں دیکھی گئی۔ ساری ادبی شہرت اور وقار تو عصمت اور منٹو جیسے ’’فحش‘‘ لکھنے والوں کے حصے میں آئی اور پاکیزہ اسلامی ادب لکھنے والوں کو ادب کے بلند ترین معیار پر نہیں رکھا جا سکتا۔