پیر، 5 جون، 2017

ماضی کا اصل سبق؟

ہمارے ہاں ایک خیال یہ ہے کہ ماضی سے ہم کو جو سیکھنا چاہیے وہ ہم نہ سیکھ سکے۔ ہم نے ماضی کے اصل سبق کو بھلا دیا۔ تو اب اسی اصل سبق کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ماضی کا اصل سبق عملی طور پر تو ہم کو یاد نہیں، اور اسی لیے ہم پر زوال آیا، اس لیے ماضی کے اصل سبق کا نظریہ پڑھنے کے لیے ہم کو تاریخ سے رجوع کرنا ہوگا۔ اور تاریخ تعبیر کی متقاضی ہے۔ اور تعبیروں میں اختلاف ہونا ضروری ہے۔ تو ماضی سے متعلق جو نظریات ہم سیکھیں گے وہ مختلف فیہ ہوگا۔ اور اس طرح ماضی کا اصل سبق اختلافات کی نذر ہو کر رہ جائے گا۔ ممکن ہے بہت سی تعبیروں میں سے کوئی ایک صحیح ہو لیکن کون سی تعبیر صحیح ہے، اس کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
ماضی سے ہم کو جو کچھ سیکھنا چاہیے تھا، وہ ہمارے ساتھ ہمارے اعمال و افکار کی شکل میں حال تک چلا آیا ہے۔ ماضی سے تو ہم یقیناً کچھ نہ کچھ سیکھتے رہے اور اسی کی وجہ سے اپنی حالیہ تباہی تک پہنچے۔ اس لیے ہم کو دراصل اپنے حال سے اور حال میں سیکھنا ہے، اسی میں کچھ جوڑنا یا گھٹانا ہے، اور وہ ماضی جس کا صرف ایک موہوم خیال ہمارے اندر باقی ہے، اور جس کی گردان  ہم سیکڑوں سالوں سے کرتے آ رہے ہیں، اور جو تعبیراتی نوعیت رکھتا ہے، اور جس کے مبنی برحقیقت ہونے کی ضمانت نہیں، اس کو بھول جانا ہی بہتر ہے۔

زوال یافتہ قوموں کے چار مسائل

زوال یافتہ قوموں کا اولین مسئلہ یہ ہے کہ ان کے افراد کے اندر تجسس کا جذبہ مر جاتا ہے جس کے سبب علوم و فنون کے میدان میں ان کی عطا صفر ہو جاتی ہے اور زندگی کے ہر میدان میں ترقی یافتہ قوموں کی تقلید کرتے رہنا ان کی مجبوری بن جاتی ہے۔ ان کا دوسرا مسئلہ اپنی اسی مجبوری کے عالم میں انتہائی غیر عقلی رویہ اپنانا ہے جو یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ بدستور ترقی یافتہ اقوام کے علوم و فنون اور طور طریقوں کی پابندی کرتی رہتی ہیں اور دوسری طرف وہ ان ترقی یافتہ اقوام کے لیے بغض و حسد کے جذبات کی پرورش بھی کرتی رہتی ہیں۔ چنانچہ ترقی یافتہ اقوام کو دن رات کوسنا اور ان کی برائیاں کرنا ان کا قومی شعار بن جاتا ہے۔

منگل، 30 مئی، 2017

ردتشکیل کی نوعیت مذہبی یا انسانی؟

ردتشکیل یا ڈیکنسٹرکشن کا تعلق اگر کسی سامی مذہب سے ہے، اور اگر ایک فلسفی اس کو تسلیم کرتا ہے، تو پھر اس معاملے میں اس کو فلسفی کے بجائے مذہبی کہنا موزوں ہوگا۔
مزید وضاحت:
ہم جانتے ہیں کہ فلسفہ میں کسی بھی قسم کے علم کا ماخذ مذہبی منقولات نہیں بلکہ انسانی ذہن اور انسانی عقل ہے۔ واضح رہے کہ فلسفہ میں منقولات کی حیثیت معلومات کی ہے، علم کی نہیں کیونکہ منقولات کو علم تسلیم کرنے کے بعد فلسفی اس کا شارح محض رہ جاتا ہے اور آزادانہ غور و فکر نہیں کر سکتا۔ پھر فلسفیانہ مسائل میں منطقی طریقے سے سوچنے پر ہی پابندی لگ جاتی ہے۔

پیر، 15 مئی، 2017

اختلافی مسئلہ

’’الف ایک اختلافی مسئلہ ہے
بے ایک اختلافی مسئلہ ہے
جیم ایک اختلافی مسئلہ ہے
الف بے جیم دال  چار بنیادی اصطلاحیں ہیں
اور یہ بھی ایک اختلافی مسئلہ ہے

اتوار، 14 مئی، 2017

عقائد و رسوم میں ارتقائی اصلاحات کی ضرورت

دورِ جدید کا نظام ایسا ہے کہ جو لوگ اپنی عقل سے اپنے فیصلے نہیں لیتے انہیں دوسروں کی عقل سے کیے جانے والے فیصلے قبول کرنے پڑتے ہیں۔ ہم نے عقل کی بنیاد پر تو کبھی سوچا نہیں، بلکہ محض ماضی بعید کی لکھی لکھائی عبارتوں کی بنا پر حال کی زندگی گزارتے رہے اور یہ نہ سوچ سکے کہ ماضی کی عبارتوں کا جواز ماضی تک ہی تھا، زمانہ حال میں وہ کام نہیں دے سکتیں۔ لیکن ہم ایسے نادان ہیں انہیں عبارتوں کو ابدی حقیقتوں کا درجہ دیتے رہے۔ ہم نے اس بنیادی حقیقت کو نہیں سمجھا کہ وقت کے ساتھ انسان کے علم میں اضافہ ہوتا ہی ہے اور جب علم بدلتا ہے تو پرانا اخلاق بھی بدل جاتا ہے۔ اور جب اخلاق بدلتا ہے تو تمام تر رسوم و رواج وہی نہیں رہتے جو ہزار سال پرانی دنیا میں تھے۔ ان کی یا تو نئی تعبیر کر لی جاتی ہے یا پھر انہیں اٹھا دیا جاتا ہے۔ لیکن قدیم رسوم کی نئی تعبیرات کی بھی ایک حد ہوتی ہے جس کے بعد انہیں مٹنا ہی ہے۔ پرانے رسوم و رواج اور اخلاق و عادات کا مٹ جانا چونکہ علم کی تبدیلی کے سبب ہوتا ہے اس لیے جب ایک بار کسی سلسلے میں ہمارا علم بدل جائے تو ہمارا کام یہ ہونا چاہیے کہ علوم و فنون کے پرانے دفاتر مع اپنے رسوم و رواج کے بصد احترام یا تو دفن کر دیے جائیں یا میوزیم میں سجا دیے جائیں، یا پھر بہ یک وقت دونوں کام کیے جائیں۔

جمعہ، 12 مئی، 2017

مذہب کی فلسفیانہ تعبیر کیوں مضر ہے؟

مذہب کی فلسفیانہ تعبیرات ہی مذہب کو نئی زندگی بخشتی ہیں اور اس کو قوم کی شناخت کا آلہ محض بن کر رہ جانے سے بچاتی ہیں اور اس کے اندر عصریت و موزونیت کی ظاہری صفت پیدا کرتی ہیں۔ لیکن درحقیقت اس سے بڑے مسائل پیدا ہوئے ہیں، دہشت گردی ان میں سے ایک پے۔ اس کے اسباب کو درجِ ذیل طور پر سمجھا جا سکتا ہے:
1. ایک طرف عوام مذہب کی ظواہر پرستانہ اور روایتی تعبیرات کو مانتے رہتے ہیں اور دوسری طرف خواص اپنے مذہب کی فلسفیانہ تعبیرات کے زیرِ اثر صداقت کو مذہب کا ہم معنی سمجھ لیتے اور اپنے مذہب کو ہر دور میں قابلِ عمل سمجھتے رہتے ہیں۔
2. پس، عوام اور خواص دونوں کے درمیان مذہب ایک قدرِ مشترک کے طور پر ابھرتا ہے اور اس سبب سے سیاست پر اثرانداز ہوتا ہے۔

اتوار، 12 فروری، 2017

مودودی فکر میں فاشزم اور نازی ازم کے حوالے

مولانا مودودی کے ہاں فاشزم،  نازی ازم اور کمیونزم کے لیے نرم گوشہ کا پایا جانا ایک حقیقت ہے۔ میں آج اپنے اس دعوے کے حق میں کچھ تازہ اور ناقابل انکار ثبوت پیش کروں گا۔ واضح رہے کہ کچھ عرصہ پہلے فیس بک پر اپنی ایک بحث میں مولانا مودودی کی ایک کتاب سے من و عن ایک اقتباس نقل کر چکا ہوں جس کے مطابق ان کی نظر میں اسلامی ریاست ’’فاشستی اور اشتراکی حکومتوں سے ایک گونہ مماثلت‘‘ رکھتی ہے۔
بالفرض محال، اگر اسلام یا دیگر نظریات کے مابین بظاہر کچھ مماثلت ہے بھی (جیسا کہ مودودی فرماتے ہیں، نعوذباللہ ثم استغفراللہ! )  تو صرف ظاہری سطح کی بنا پر ایسا کوئی حکم لگانا ہرگز درست نہ تھا کیونکہ اول تو اسلام بنیادی طور پر جدید فاشزم سے تیرہ سو سال پہلے ایک بہت زیادہ مختلف سیاق میں وجود میں آیا، دوم یہ کہ اسلام خدا تعالی کے ذریعے عطا گیا دین ہے اور سوم یہ کہ فاشزم و کمیونزم جیسے نظریے انسانی ذہنوں کی پیداوار ہیں۔ پس، دینی و شرعی نقطہ نظر سے اسلام اور دیگر نظاموں میں کوئی قدر مشترک یا مماثلت ڈھونڈنا ایک سطحی اور غیرضروری بات ہے یہاں تک کہ بات سمجھانے کی غرض سے بھی ایسا کرنا ایک نازیبا فعل مانا جائے گا۔