یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈیزائن...
حالیہ دنوں میں ارطغرل غازی نامی سیریل نے مذہب کے نام پر جو غیرمعقول رجعت پسندانہ کیفیت ہمارے نوجوانوں کے ذہنوں میں پیدا کر دی ہے، اس کو کم لوگ ہی محسوس کر سکتے ہیں۔ غیرمعقول میں نے اس لیے کہا کہ یہ سیریل جس مذہبی طنطنے کے ساتھ تیار کیا گیا ہے اس کے چند ہی سین دیکھنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ اسلام کی سچی ترجمانی نہیں کرتا اور اسلام کے نام پر ایک خاص قسم کا فریب دیتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ میں اس نکتے کو ثابت کروں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ جس تاریخی کردار ارطغرل کو اس سیریل میں پیش کیا گیا ہے، ہمارے بعض ماضی پرست اردو مبصروں نے اس کا عقیدہ اور