نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

نومبر, 2017 سے مراسلات دکھائے جا رہے ہیں

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈیزائن...

سر سید اور علامہ شبلی نعمانی کا علمی رشتہ

اردوزبان وادب  کی ایک ناموراور شہیر ہستی اور صحیح العقیدہ عالم مولٰنا مولوی عبدالحلیم شرر نے معتزلہ  اوران کے عروج و زوال پر ابطالی نوعیت کا ایک  طویل لیکچرمسلم اکیڈیمی کے اجلاس مورخہ ۱۹ نومبر ۱۹۲۶ءکو دیاتھا جس میں  انہوں نے  سر سید کے تصورِ دین و شریعت پر ایک زبردست تنقید بھی کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سر سید جدید اعتزال کے پیش رو ہیں۔ انہوں نے قرآنِ کریم اورسائنس میں تطبیق دینے کی سر سید کی تعبیراتی  کوششوں کو وہم و گمان سے بھی زیادہ بعید اوراور قابلِ مضحکہ قرار دینے کے ساتھ ہی مولانا شبلی نعمانی ایسے جلیل القدر عالم کے کارناموں کو بھی سر سید کی صحبت کا ثمرہ  بتایا ہے ۔ شرر کے مطابق سر سید کی صحبت میں آنے سے پہلے شبلی  ‘‘مشدد حنفی’’ ہوا کرتے تھے  اور امام ابوحنیفہ کے جوشِ محبت میں اپنے کو ‘‘نعمانی’’ کہلاتے تھے، تاکہ ‘‘حقیقت میں ان کا رتبہ  معمولی حنفیوں کے درجے سے بڑھا ہوا ہو’’ اور  وہابیوں کے مقابلے میں ‘‘بدعتیوں کے وکیل’’بن رہے تھے۔

قصہ آدم اور نظریہ ارتقا: تطبیق کے امکانات

علم اللہ صاحب کے ایک فیس بک اسٹیٹس پر ابوفہد صاحب نے قصہ آدم اور نظریہ ارتقا میں تطبیق دینے کے امکانات پر ایک تبصرہ لکھا تھا اور میں نے اس کا جواب لکھا ہے۔ یہاں میں ابوفہد صاحب کا مذکورہ تبصرہ اور اپنا جواب نقل کر رہا ہوں: ابوفہد: ویسے آدم وحوا کی کہانی اور نظریۂ ارتقاء کی تطبیق کے امکانات بھی پیداہوسکتے ہیں۔ اقبال نے تو یہ کہہ کر دامن چھڑا لیا تھا۔خردمندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے۔ میں اس فکر میں رہتا ہوں کہ میری انتہا کیا ہے۔۔۔ تطبیق کی صورت فی الحال تو یہی ہوگی کہ جہاں جہاں سائنس اور قرآن میں تضاد نظرآتا ہے وہاں قرآن کو مقدم رکھا جائے گا۔ یا پھر  یہ سمجھا جائے گا کہ قرآن سے ہم نے جوسمجھا ہے وہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ درست ہی ہو۔ اور یہ کہ قرآن میں آدم وحوا کی تخلیق کا جو بیان ہے ہوسکتا ہے کہ وہ تمٰثیلی انداز کا بیان ہو۔ قرآن سے یہ تو معلوم ہوا کہ آدم کو مٹی سے پیدا کیا البتہ اس کی عملی صورت کیا ہوئی اس کا کچھ پتہ نہیں، اب ایسا تو نہیں ہے کہ اللہ نے بھی آدم کو اسی طرح پیدا فرمایا ہو جس طرح کمھارچاک پر مٹی کے برتن بناتا ہے۔ کہ مٹھی بھر مٹی لی اور اسے چاک پر ...