جمعرات، 2 جون، 2016

ادب، احتجاج اور دم ہلانا

احتجاجی ادب بھی پسند و ناپسند کا معاملہ ہے اور یہ بھی آئیڈیالوجی سے متاثر ہوتا ہے۔ معاملہ احتجاج کے ادب کا ہو یا ادب کے احتجاج کا، اگر ایک شخص ہماری آئیڈیالوجی کے دائرے میں لکھتا ہے یعنی کہیں نہ کہیں ہمارے حق میں اس کی دم ہلتی رہتی، وہی بڑا ادیب اور ایکٹیوسٹ۔ جیسے ہی دم کا ہلنا بند ہوا، کہ وہ برادری سے ہی نہیں بلکہ انسانیت کے دائرے سے بھی خارج ہو جاتا ہے۔ دراصل یہ جو دم ہے وہ مالک کے اقتدار کی علامت ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ ادیب پہلے بنے، دم بعد میں ہلایا اور کچھ نے ابتدا ہی سے دم ہلایا، اور ادیب قرار پا گئے۔ اس میں شک نہیں کہ پہلی قسم کا ادیب زیادہ باصلاحیت ہوتا ہے لیکن جوں ہی کہ اس نے دم ہلانا شروع کیا، اس کی صلاحیتوں میں زنگ لگنا شروع ہو جاتا ہے۔ مگر وہ اپنی زندگی کے آخر تک یہ محسوس نہیں کر پاتا کہ اس نے جس آئیڈیالوجی کے حق میں دم ہلانا شروع کیا ہے، اس کی صلاحیتوں کو پیدا کرنے میں اس آئیڈیالوجی کا کوئی خاص ہاتھ نہیں ہے۔ یہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اپنی ادبی زندگی کی ابتدا میں وہ آئیڈیالوجیکل نہیں تھا، لیکن جوں ہی کہ اس کو شہرت ملی، اور وہ مقبولِ خاص و عام ہوا، اس کو خود بخود دم ہلانے کی ضرورت محسوس ہونے لگی اور وہ اس نے اسے عین انسانی فطرت کا تقاضا خیال کیا۔
مقبولِ خاص و عام بن جانے کے بعد ادیب ایک پورا دارالافتا بن جاتا ہے۔ لوگ اس سے پوچھنے لگتے ہیں کہ آپ فلاں معاملے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جس میں اگر وہ دم ہلانے سے چوکا تو قبولِ عام و شرفِ دوام کی نعمتِ عظمی سے محروم ہوا۔ کیا پوچھنے والا نہیں جانتا کہ ایک حساس مسئلے میں صحیح رائے کیا ہو سکتی ہے؟ شہرۂ آفاق ادیب سے رائے پوچھنے کا مطلب یہ نہیں کہ لوگ اس کو پیغمبر سمجھتے اور اس سے رہنمائی کے طالب ہیں بلکہ اس کا ایک ہی مفہوم ہے کہ تم کس طرف ہو؟ حق کی طرف یا باطل کی طرف؟ حق و باطل کی پرسش کا جواب شاعر اپنی تخلیقات میں بھی فراہم کرتا ہے اور انٹرویو کی شکل میں بھی۔
جون ایلیا سے جب پوچھا جاتا ہے تو ایک مقام پر یہ جواب ملتا ہے:
میں تو خدا کے ساتھ ہوں، تم کس کے ساتھ ہو؟
ہر لمحہ ‘لا’ کے ساتھ ہوں، تم کس کے ساتھ ہو؟
لیکن میر ایسی پرسش کا یہ جواب دیتا ہے
میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا
کہنے کی ضرورت نہیں کہ دم یہاں مذکورہ بالا دونوں میں سے کسی شعر میں نہیں ہل رہی، لیکن ایک میں تصوفانہ حکمت کا پیچ ہے اور دوسرے میں لہجہ نرم تو ہے لیکن احتجاج کی تکمیل ہو گئی ہے۔ ادبیت کس شعر میں زیادہ ہے، یہاں مجھے اس سے غرض نہیں ہے اور نہ اس سے غرض ہے کہ کسی خاص معاملے میں میر یا ایلیا کا فکری موقف کیا ہے، البتہ میر کے اس شعر کو اس کے درجِ ذیل شعر کے ساتھ ملا کر پڑھنا چاہیے، تب جا کر بات واضح ہو گی۔
کس کا کعبہ کیسا قبلہ کون حرم ہے کیا احرام
کوچے کے اُس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا

مذہب اور صلح جوئی

مذہب جس قدر انسانوں کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے، اسی قدر وہ انہیں توڑتا بھی ہے۔ یہ نوعِ انسانی کا اجتماعِ باہمی ہی نہیں بلکہ ان کے مابین افتراقِ دائمی بھی ہے۔ مذہب اگر انسان میں بھائی چارہ پیدا کرتا اور انہیں امن و آشتی کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتا ہے تو اقوام و ملل کو اپنے عقائد کے تحفظ، مدافعت اور تبلیغ و اشاعت کی خاطر باہم لڑاتا بھی ہے۔ مذہب یہی چاہتا ہے کہ انسان اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں صرف اسی کی خاطر جیے اور مرے۔ اسی کے حسبِ منشا دوسرے انسانوں سے تعلق بنائے اور منقطع بھی کرے۔ چنانچہ مذہب نکاح ہی نہیں کراتا، جبری طلاق بھی دلواتا ہے۔ اور مذہب عبارت ہے انسانوں کو جماعتوں اور گروہوں میں منقسم کرنے اور ہھر انہیں باہم لڑا بھڑا کر ان کی دنیاوی زندگی کو برباد کر دینے سے۔ دنیا میں کسی اور چیز کی بنیاد پر تمام انسانوں کے درمیان اتفاق ہو سکتا ہے، لیکن مذہب کی بنیاد پر صلح نا ممکن ہے۔ خود ایک مذہب کے مختلف فرقوں کے درمیان طویل المیعاد طور پر اتحاد ممکن نہیں کجا کہ دو مذاہب والوں میں اتحاد ہو جائے۔ انسان جب گروہ در گروہ منقسم ہو جائیں تو ان کے درمیان مذہباً کیا مشترک ہے، اس کی اہمیت صفر ہو جاتی ہے، اور دفعتاً وہ شئے اہمیت اختیار کر لیتی ہے جو ان کے درمیان مختلف فیہ ہے۔ یعنی انسانی گروہوں کے درمیان مشترکہ مذہبی خصائص کی کوئی فیصلہ کن اہمیت نہیں ہو سکتی بلکہ اصل اہمیت اس اختلاف کی ہے جس کی بدولت وہ گروہ کی شکل میں منظم ہوئے ہیں اور اسی کی بنیاد پر وہ اپنوں اور غیروں کی تفریق کرتے ہیں۔
جیسے ہی کسی مذہبی اختلاف، امتیاز یا وصف کی بنا پر ایک جماعت یا گروہ کی تشکیل ہوتی ہے، ویسے ہی انسانیت کی زمین میں تنگ نظری کے شجرِ خبیث کا بیج پڑ جاتا ہے۔ اگر مذہبی اختلاف کی نوعیت انفرادی ہو تو کچھ مضائقہ نہیں، لیکن جیسے ہی یہ اجتماعی شکل اختیار کرتا ہے، ویسے ہی انسان کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے۔ یکساں مذہبی خصائص، اوصاف یا اختلافات یا جداگانہ مقاصد کی بنا پر جماعت سازی اور اِس کو اخروی فلاح کی بنیاد بنانا ہی وہ لعنت ہے جس سے کام لے کر شیطان انسانوں سے انتہائی طویل مدتی خون خرابہ کا ناپاک عمل سرزد کراتا ہے۔ مذہب کا یہی اجتماعی تصور ہے جو انسانی قلوب کو جذبۂ قتال سے آلودہ کرتا ہے جس کے نتیجے میں حیاتِ دنیوی فتنہ و فساد سے بھر اٹھتی ہے۔
اگر مذہب کا یہ اجتماعی تصور ختم ہو جائے، پھر کوئی ایسی ط۔ویل المعیاد شئے باقی نہیں رہتی جو سیکڑوں ہزاروں سالوں تک حق و باطل کی لایعنی کشمکش کو برقرار رکھ سکے۔ نسل، رنگ، زبان، ذات پات، یہ سب چیزیں انسانوں کے اختلاطِ باہمی سے بدل جاتی ہیں لیکن اہلِ مذہب اپنے عقائد کو ان کی اولین خالص شکل میں باقی رکھنا چاہتے ہیں. چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے اندر ‘‘اصل’’ مذہب سے رجوع کرنے کی بے پناہ تڑپ ہوتی ہے۔ اور چونکہ ہر اجتماعی مذہب اور ہر مذہبی فرقہ کا ماننے والا اپنے مذہبی اور فرقہ وارانہ عقائد کے اصلی اور خالص ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور دوسروں کے عقائد کو بے اصل اور غلط بتاتاہے اس لیے اہلِ مذاہب کے اندر نہ بین مذہبی اتحاد ممکن ہے اور نہ دروں مذہبی۔  
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہر ایک مذہب یا فرقہ میں شامل شخص اپنے عقائد  کو خالص اور دوسروں کے عقائد کو غیرخالص قرار دیتا رہے. یہ گویا مذہب نہ ہوا دودھ گھی، شہد اور سونے چاندی کا کاروبار ہو گیا۔ اب اسی کی دوکان زیادہ چلے گی جو اپنے آپ کو واقعات کی دنیا میں خالص ثابت کردے۔ اور یہ اس دنیا کی زندگی میں ممکن نہیں ہے۔ دودھ میں اگر پانی ملا ہوا ہو یا سونے چاندی میں دیگر دھاتوں کی آمیزش کر دی گئی ہو تو سائنسی آلات کی مدد سے اس کا پتا لگایا جا سکتا ہے لیکن مذہب میں جو آمیزش ہو چکی، اس کی تحقیق کا کوئی یکساں معروضی آلہ ہمارے پاس ہمارے پاس نہیں ہے جس سے کام لے کر ہم ثابت کر دیں کہ ایک ہمارا ہی مذہب حق اور خالص ہے اور بقیہ تمام باطل اور ملاوٹ والے ہیں۔
اس لیے مذہبی مسائل بنیادی طور پر ناقابلِ حل ہیں۔ اور جب مذہب کی بنیاد پر جماعت سازی اور گروہ بندی ہو تو ان کے درمیان جو تنازعات ہوں گے، وہ بھی حتمی طور پر لاینحل ہوں گے۔ پھر جب وہ تنازعات مذہبی گروہوں کے مابین جنگ و جدال میں بدلیں گے تو ظاہر ہے انسانی خون کا بہنا بھی رک نہ سکے گا۔ اس کے برعکس، اگر مذہب کو ہر فرد کا نجی معاملہ بنا دیا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ اہلِ مذاہب کے درمیان امن و سکون کی ایک دائمی حالت پیدا ہو گئی ہے اور ہر شخص اپنا من پسند عقیدہ چننے یا ایک نئے عقیدے کی تخلیق کرنے کے لیے آزاد ہے اور کسی دوسرے کے کان پر جوں نہیں رینگتی کہ وہ کس مذہب کو ترک کر کے کیا عقیدہ اختیار کر رہا ہے یا اس کے ایسا کرنے سے کس مذہبی قوم کے افراد کی تعداد گھٹ یا بڑھ رہی ہے!
مذہب کو اگر قوموں اور جماعتوں کی بنیاد نہ بنایا جائے تو اس کے بعد اول تو یہی ممکن نہیں کہ کوئی دوسری چیز اس کی جگہ لے سکے گی، دوسرے یہ کہ اگر زبان، نسل یا کوئی اور شئے اس کی جگہ لینے کی کوشش کرتی بھی ہے اور اس کے سبب مسائل پیدا ہوتے ہیں تو وہ شئے، اور اس سے پیداشدہ مسائل چونکہ اسی دنیا سے متعلق ہوں گے نہ کہ حیات بعد الموت یا مابعدالطبیعات سے، اس لیے انہیں بحسن و خوبی حل کیا جا سکتا ہے۔
مذہب کو ایک نجی و ذاتی، داخلی و موضوعی، اور انفرادی نوعیت کی شئے بنانے کے بعد ان تمام فتنوں کا سدّ باب ہو جائے گا جو مذہب کو اجتماعی شئے کے طور پر برتنے سے پیدا ہوتی ہیں۔

اتوار، 29 مئی، 2016

خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں

جوں جوں عامۃ الناس بالخصوص عامۃ المسلمین اور اس کے تعلیم یافتہ خواص کے درمیان یہ نقطہ نظر مضبوط ہوگا کہ بیوی کو کتنی ہی ہلکی مار مارنا بہرحال اخلاقاً اور قانوناً ہر لحاظ سے ایک قبیح فعل ہے, ویسے ویسے تجدد پسند اسلامسٹ طبقہ کی کوشش ہوگی کہ قرآن کریم کی "وضربوھنَّ" والی آیت کی کوئی دوسری تاویل کر دی جائے اور دنیا سے یہ بتایا جائے کہ "یہ صرف لوگوں کی ایک غلط فہمی ہے کہ قرآن کریم میں بیوی کو سرکشی پر مارنے کی اجازت دی گئی ہے".
تجدد پسندوں کے نزدیک اسلام کے متعلق پھیلی ہوئی "غلط فہمیوں" کی فہرست بہت طویل ہے. ان میں کچھ کو ہم ذیل میں درج کرتے ہیں:
1. شادی شدہ زانی کے لیے رجم کا قانون
2. مرتد کے لیے قتل کا قانون
3. چوری پر ہاتھ کاٹنے کا قانون
4. قومِ لوط کا عمل (بشمول ایل جی بی ٹی حقوق) کرنے پر سزائے موت
5. محاربین کو غلام اور باندی بنانے کی شرعی رخصت
6. باندی سے بلانکاح تمتع کر سکنے کی ابدی شرعی رخصت (جس میں تعداد کی کوئی قید نہیں)
7. مردوں اور عورتوں کے لیے کام کی جگہوں, تعلیم گاہوں اور دیگر معاشرتی امور میں ایک ساتھ مل کر کام کرنے کی ممانعت
8. عورتوں کا دائرہ کار مردوں سے مختلف ہونا
عورتوں پر مردوں کو ایک درجہ حاصل ہونا
بیوی کی سرکشی پر مرد کو مارنے کا قانونی اختیار ہونا.
9. عورت کے لیے سر پر دوپٹہ رکھنا
10. عورت کی حکمرانی کی ممانعت یعنی اسلامی خلافت میں عورت خلیفۃ المسلمین نہیں بن سکتی.
11. عورت نماز میں مردوں کی امامت نہیں کر سکتی.
12. ذی روح کی مصوری (بشمول فوٹو گرافی و ویڈیوگرافی) کی حرمت
13. سنگ تراشی و مجسمہ سازی کی حرمت
14. اداکاری یعنی تھیئٹر میں کام کرنے کی حرمت
15. داڑھی رکھنے کی سنت جس کی تاکید احادیث میں آئی ہے...
یہ صرف کچھ مثالیں ہیں, تجدد پسندوں کی یہ فہرست بہت لمبی ہے...
واضح رہے کہ یہ احکام, ہدایات اور قوانین چودہ سو سالوں سے اسلام کا ناگزیر حصہ رہے ہیں. لیکن ماڈرن اسلام کے حامی چونکہ مغرب کو مسلمان کرنا چاہتے اور مغرب اسی مجموعہ قانون پر ایمان لا سکتا ہے جس میں اس قسم کے قوانین نہ ہوں, اس لیے وہ اسلام کے متعلق پھیلی ہوئی ان غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہتے ہیں! (نعوذباللہ من ذالک).
اسلام جو ہے وہی رہے گا اور عصری تقاضوں کے مطابق نہیں بدلے گا. اگر عصری تقاضے اتنے ہی پرکشش اور ناگزیر ہیں تو مسلمانوں کو ان کے مطابق اپنے آپ کو بدلنا چاہیے. قرآن و سنت کے ثابت شدہ احکام بدلنے سے ذرہ برابر فائدہ نہ ہوگا.

 (فیس بک اسٹیٹس اپڈیٹ، ۱۶ مئی ۲۰۱۶)

ایک اہم فیس بک اسٹیٹس

 میں نے ۲۷ مئی کو فیس بک پر درجِ ذیل تحریر لکھی:

یہ مابعد مودودی اور غامدی و رمضانی اسلامسٹوں کی ایک بڑی غلط فہمی ہے کہ اسلام وہ نہیں ہے جو روایتی علما فرماتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ اسلام وہی کچھ ہے جو روایتی علما کتاب و سنت اور فقہ کی روشنی میں چودہ سو سالوں سے فرماتے آ رہے ہیں. مابعد مودودیوں اور غامدیوں اور رمضانیوں کی اسلام کی متعلق اس عظیم الشان غلط فہمی کا سبب ان کی مغرب زدگی ہے جس کے زیرِ اثر وہ اسلام کو جدید مغربی تہذیب کے پیدا کردہ عصری تقاضوں کے مطابق ڈھالنا اور اسلام کو ایک قابلِ عمل سیاسی آئیڈیالوجی بنا دینا چاہتے ہیں. اسلامی شریعت کے روایتی احکام میں تحریف, ڈیڑھ ہزار سالوں سے چلی آتی حرمتوں کو حلتوں سے بدل دینا, اسلام میں جنڈر ایکویٹی کے مغربی تصور کو متعارف کرانا نیز جدید اصطلاحات و لفظیات کو دین میں داخل کرنے کے ذریعے اسلام کے سرچشمہ صافی کو آلودہ کرنا دراصل مابعد مودودی اور دیگر تجدد پسند اسلامسٹوں کی نازیبا حرکتیں ہیں جنہیں قبول نہیں کیا جا سکتا. اسلام ایک مقدس روایتی مذہب ہے اور اس کی ہر نئی تعبیر قابلِ تردید اور قابلِ ملامت ہے, اس کو تسلیم کرنے کے بعد ایک شخص نہ گھر کا رہتا ہے نہ گھاٹ کا. روایت کے فیض سے محروم یہ تجدد پسند مذہبی آئیڈیولوجی تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دی جائے گی, انشا اللہ العزیز.
اس کے ردعمل میں ایک صاحب نے یہ سوال کیا:  
طارق صاحب کیا اپ سمجہتے ہیں که مستقبل کے انسان کو مذہب کی ضرورت نہیں ہو گی؟
میں نے اس سوال کا یہ جواب لکھا: 
مستقبل کے انسان بھی زمانہ حال کے انسانوں سے ہی برامد ہوں گے. اس لیے دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس وقت انسانوں کے نزدیک مذہب کی حیثیت کیا ہے. تو یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس وقت انسانوں کی اکثریت مذہب پر ہی چلتی ہے. انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو کسی مذہب کو نہیں مانتی.

بہت سے لوگوں کا خیال یہ ہے کہ مذہبی جنگ و جدل اور دہشت گردی کے سبب موجودہ صورتحال کے نتیجے میں لوگ مذہب کو ترک کر دیں گے. یہ کسی حد تک درست ہے کہ لوگ مذہب کے منفی نتائج کو دیکھ کر ایسا ضرور کریں گے, اور بہت سے لوگوں نے ایسا کیا بھی ہے, لیکن یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ مذہب کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا. میں بھی بہت دنوں تک ایسا ہی سمجھتا رہا لیکن بعد میں مجھے اس نقطہ نظر کو ترک کرنا پڑا. اس کے کئی اسباب ہیں جنہیں میں درجِ ذیل طور پر لکھتا ہوں:

1. پچھلے ادوار میں مذہب ایک علمی ضرورت بھی تھا اور معاشرت کی بنیاد بھی. اب فلسفیانہ اور سائنسی علوم کی زبردست ترقی کے سبب مذہب کا تعلق حصولِ علم سے بہت کم رہ گیا ہے, البتہ مذہب اب بھی معاشرت کی بنیاد ہے, اور مذہبی عقائد, خواہ وہ کتنے ہی غیرمعقول یا غیرمنطقی نظر آتے ہوں, آج بھی ہم عقیدہ انسانوں کو باہم جوڑتے ہیں. پیدائش اور موت کی رسوم, نکاح و طلاق کے طریقے, اور اجتماعی جشن (مثلاً کرسمس, عید, ہولی دیوالی) کا انعقاد وغیرہ مذہب کو باقی رکھنے کا کام کرتے ہیں. انسانوں کی بہت بڑی اکثریت مذہبی ہے اور عقائد کی بنیاد پر قوموں, ذیلی قوموں اور فرقوں میں منقسم ہے. اور تمام فرقوں کے لوگوں میں ایک بڑی تعداد ایسی پائی جاتی ہے جو مذہب سے متنفر ہے لیکن اس کے باوجود ایسے لوگوں کی زندگی بھی مذہبی ہی ہے کیونکہ وہ اپنی پیدائش سے لے کر موت تک مذہبی رسومات ہی کے زیرِ نگیں ہیں, وہ اپنے ہم مذہب لوگوں میں مذہب کی عائد کردہ طریقوں اور ممنوعات و محرمات کا لحاظ رکھتے ہوئے نکاح کرتے ہیں, اپنے ہم مذہب لوگوں کے طریقے سے اپنے ہاں پیدائش, موت کے رسوم کا اہتمام کرتے ہیں (ختنہ, منڈن, تدفین، داہ سنسکار وغیرہ), مذہبی خوشیوں یعنی عیدوں میں شرکت کرتے ہیں, اور یہ سب رسوم و قیود ایسی ہیں کہ اجتماعی طور پر ان کے تسلسل میں کوئی ٹوٹ نہیں ہے, گو شخصی انحرافات ہر مذہب کے لوگوں میں پائے جاتے ہیں لیکن منحرفین کی نسلیں بہت جلد قوم کے مرکزی دھارے سے آ کر مل جاتی ہیں. ان مظاہر کے مشاہدے کے بعد ایک شخص اگر یہ سمجھتا ہو کہ مذہب کا خاتمہ ہو جائے گا تو وہ ایک بہت بڑی نادانی میں مبتلا ہے. مذہب قائم ہے عوام الناس میں رائج سنتوں یعنی پٹے ہوئے راستوں کے صراط مستقیم پر. اور ٹیڑھا راستہ اختیار کرنے والے چند لاکھ ملاحدہ ایک مذہب کے عوام الناس کو اس سنت سے منحرف نہیں کر سکتے. چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ جس قدر غالی ملاحدہ مذہب کو فنا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں, مذہب اسی قوت سے عوام پر اپنی گرفت بڑھاتا جا رہا ہے, خاص طور سے اہلِ اسلام میں مذہبی بنیاد پرستی ساری دنیا میں بڑھتی جا رہی ہے اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ وہ دنیا کے مختلف خطوں میں دروں مذہبی اور بین مذیبی کشمکش میں گرفتار ہیں. پھر یہ بھی دیکھنے کی بات ہے کہ مذہبی بنیاد پرستی جس تیزی سے جڑ پکڑ رہی ہے, اسی تیزی کے ساتھ الحاد بھی بڑھ رہا ہے. لیکن مذہب و الحاد کے تناسب میں بالترتیب 9 اور 1 کا تناسب بھی معلوم نہیں ہوتا. اس صورتحال میں رہ کر اگر آپ غور کریں تو پائیں گے کہ مذہب کا خاتمہ مشکل ہی نہیں, ناممکن بھی ہے.

 2. مذہب اس لیے باقی نہیں ہے کہ اس کے ماننے والے حق و صداقت یا علم کے حامی ہیں, بلکہ اس کے قائم رہنے کا اولین سبب وہ معاشرتی, جماعتی اور تہذیبی بنیاد ہے جو مذہب فراہم کرتا ہے. مذہبی شخص علمی نکتوں کو نہیں سنتا بلکہ جماعتی عصبیت کی بنیاد پر متحرک ہوتا ہے. جماعتی عصبیت ایک طرف ایک مذہب یا فرقہ کے انسانوں کو باہم جوڑتی ہے تو انہیں دوسرے مذاہب کے انسانوں سے توڑتی اور کاٹتی بھی ہے. یعنی مذہب علمی حقیقت سے زیادہ اجتماعی اور گروہی حقیقت ہے. اور جہاں گروہی عصبت کارفرما ہو, وہاں علمی سوالات کی کوئی وقعت نہیں.

3. یہ نکتہ بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ مذہب انسان کی مابعد موت نجات کے متعلق کچھ عقائد کامل یقین کے ساتھ پیش کرتا ہے. فلسفہ اور سائنس میں انسان کی مابعد موت نجات پر اتنے شرح صدر اور یقین کامل کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا. زندگی اور کائنات کا وجود کیوں ہے؟ انسانی زندگی کا مقصد کیا ہے, انسان کہاں سے آیا ہے اور کہاں جائے گا, ان سوالات کا جواب دینا معاشرتی اور اجتماعی زندگی گزارنے کے لیے قطعی ضروری ہے. ان سوالات کے جواب سے عاری معاشرہ کے افراد کے درمیان کوئی جذبِ باہم نہیں رہ سکتا.چنانچہ اقبال نے ٹھیک ہی کہا:
قوم مذہب سے ہے, مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں, محفل انجم بھی نہیں
فلاسفہ و ملاحدہ کے سامنے سب سے بڑا سوال اگر یہ ہے کہ مذہب کا خاتمہ کیسے کیا جائے تو انہیں مذکورہ بالا سوالات کا جواب بالکل یقین کے ساتھ دینا ہوگا, یعنی ایسے نئے عقائد کی تخلیق کرنی ہوگی جو انسانوں کے درمیان جذبِ باہم کی کیفیت کو پیدا کرے. اور جوں ہی کہ ایسے نئے عقائد وجود میں آئے, ایک نئے مذہب کی داغ بیل پڑ جائے گی, اور ان عقائد کے خلاف کچھ دوسرے عقائد کی پیشکش ممنوع قرار دے دی جائے گی. کیونکہ مسئلہ یہ نہ ہوگا کہ کون سا عقیدہ برحق ہے بلکہ یہ ہوگا کہ کون سے عقیدے پر ملاحدہ کے معاشرہ اور تہذیب کی بنیاد قائم ہے. اور جیسے ہی کوئی عقیدہ اس حد تک مقتدر ہو جائے کہ وہ جماعت کی بنیاد سمجھا جانے لگے, ویسے ہی اس پر تنقید کا باب بند ہو جائے گا, اس عقیدہ کو پیش کرنے والے شخص کا مذاق اڑانا ممنوع ہوگا. یہ پھر وہی صورتحال ہوگی جس سے آج کے اردو ملاحدہ بھی متنفر ہیں.


4. اب تک آپ بھی اس حقیقت تک پہنچ چکے ہوں گے کہ مرکزی مسئلہ زندگی اور کائنات سے متعلق ان ابتدائی سوالوں کا ہے جو انسان کے اندر پیدا ہوتے ہیں اور وہ ان کے حتمی جوابات چاہتا ہے, تاکہ اپنی اجتماعی زندگی کو ان جوابات کے اعتبار سے سنوار سکے. لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان سوالات کا کوئی ایک جواب نہیں ہے, اور اس لیے نہیں ہے کہ خود انسانی عقلوں اور طبعیتوں میں اختلاف ہے. ہر عقیدے پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے, اور ہر عقیدے کو طنز و استہزا کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے, اور اس کے مقابلے میں ایک مختلف عقیدہ پیش کیا جا سکتا ہے. اور اس سب سے کسی انسانی جماعت کا شیرازہ بکھرتا ہے, یا اس سے ٹوٹ کر نئی جماعتیں بنتی ہیں, پھر ان نئی جماعتوں میں مزید عقائدی نوعیت کی شکست و ریخت ہوتی ہے, اور مزید نئی جماعتیں ظہور میں آتی ہیں.
 5. اگر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ زندگی اور کائنات سے متعلق بنیادی سوالوں سے فرار حاصل کیا جا سکتا ہے اور مذہب کو اجتماعیت کی بنیاد سے بے دخل کیا جا سکتا ہے, اور خالص دنیوی مقاصد کے تحت ایک قوم کی بنیاد ڈالی جا سکتی ہے, تو ممکن ہے ان کا سمجھنا صحیح ہو, لیکن میرا خیال یہ ہے کہ ان سوالات سے فرار حاصل کرنا ممکن نہیں, البتہ یہ ممکن ہے کہ جماعت بنیاد ان سوالوں کے جواب پر نہ ہو کر کسی دوسری بنیاد پر ہو. مثلاً جغرافیائی خطہ, زبان, مجرد تہذیبی, تمدنی اور ثقافتی روایات, تو یہ سب بھی کوئی مستقل بنیادیں نہیں ہیں, اور یہ بھی شکست و ریخت سے دو چار ہوتی رہتی ہیں.

6. اس سلسلے میں ایک سوال یہ ہے کہ فلسفیانہ سطح پر نوعِ انسانی کو ایک جماعت بن کر رہنا چاہیے یا متفرق جماعتیں بن کر. نوعِ انسانی کا متفرق جماعتیں بن کر رہنا تو ایک سامنے کی بات ہے, لیکن ذرا سے غور و فکر کے بعد ہی معلوم ہوجاتا ہے سارے انسانوں کا ایک جماعت بن کر رہنا ممکن نہیں, انسان گروہ در گروہ منقسم ہو کر ہی زندگی گزار سکتا ہے. اس لیے وہ لوگ غلطی پر ہیں جو متفرق جماعتوں کو مٹا کر تمام نوع انسانی کو ایک قوم بنا دینا چاہتے ہیں.
7. اب آئیے, اس سوال پر غور کریں کہ مستقبل کے انسان کو مذہب کی ضرورت ہوگی یا نہیں؟ تو میرا جواب یہ ہے کہ نہ انسان ایک ہے, اور نہ مذہب ایک ہے. زندگی اور کائنات کے سوالوں کا جواب بھی ایک نہیں ہے. اس لیے سوال مستقبل کے انسان کا نہیں بلکہ "انسانوں" کا ہے. انسانوں کا جماعتوں میں منقسم ہونا بھی ایک حقیقت ہے. اور انسانی جماعت کی بنیاد کچھ بھی ہو سکتی ہے, زندگی اور کائنات سے متعلق سوالات کا جواب بھی کسی انسانی جماعت کی بنیاد بن سکتا ہے, اور زبان, نسل, جغرافیائی خطہ, مجرد تہذیب و ثقافت, روایتی مذاہب اور جدید ترین نظریات بھی انسانی جماعتوں کی بنیاد بن سکتے ہیں. البتہ مذاہب یا نظریوں اور فلسفوں کی بنا پر جو قومیں وجود میں آئیں گی, وہ زیادہ دیرپا ہوں گی. کوئی مذہبی یا غیرمذہبی جماعت ایسی بھی وجود میں آ سکتی ہے جو اپنے عقائد میں ہمہ وقت سائنسی اور فلسفیانہ نوعیت کی تحقیقات کے ذریعے ترمیم کرتی رہے, لیکن ایسی جماعتوں میں ذیلی جماعتیں اور فرقے بکثرت ظہور میں آئیں گے. اس طرح نوعِ انسانی کو کسی ایک عقیدے یا جماعت کا پابند رکھنا ممکن نہیں ہوگا.
رہی بات روایتی مذاہب کے باقی رہنے کی تو میرا خیال ہے کہ وہ یا تو مٹ جائیں گے یا ایک مزار کی طرح باقی رہیں گے. روایتی مذاہب جامد ہوتے ہیں اور اپنے اندر کسی تغیر کو اصولاً راہ نہیں دیتے. جیسے ہی وہ کسی اصولی تغیر کو برداشت کریں گے, ان کا پچھلا مذہبی اصول باطل ہو جائے گا. مثلاً اہلِ اسلام میں جو لوگ اب صرف قرآن کو حجت قرار دیتے ہیں اور حدیث سنت کی حجیت سے دست بردار ہو چکے ہیں, ان کے لیے اسلام کا یہ قدیم اور اصلی اصول باطل ہو چکا کہ شرعی احکام معلوم کرنے کے ماخذ چار ہیں: قرآن, سنت, اجماع اور قیاس و اجتہاد. حدیث و سنت اور اجماع کی حجیت سے انکار ان اہلِ اسلام نے جدید مغربی عقل کے ذریعے اٹھائے گئے ناقابلِ شکست اعتراضات کے بعد کیا ہے. حدیثوں سے ثابت ہے کہ ذی روح کی مصوری حرام ہے, مجسمہ سازی نہیں کرنی چاہیے, عورت ناقص العقل ہے, جہنم میں عورتوں کی کثرت ہوگی, یا 999 فی ہزار لوگ جہنم میں جائیں گے وغیرہ. اس قسم کے مذہبی تصورات سے سے اپنا پیچھا چھڑانے کے لیے مابعد مودودیوں اور غامدیوں کے لیے حدیث و سنت کی حجیت سے انکار کرنا, یا متنوع تاویلات کے ذریعے ان حدیثوں سے پیدا ہونے والے سوالات کو تحلیل کر دینا بالکل ضروری ہے. ایسا کرنے کے ذریعے یہ لوگ اسلام کو مغربی نظریہ اور فلسفہ کے مقابلے میں ایک قابلِ عمل سیاسی آئیڈیولوجی بنانا چاہتے ہیں تاکہ اہلِ مغرب اسلام کو قبول کر سکیں. لیکن اہلِ مغرب اتنے کم علم تو نہیں اور نہ ہمارے ہاں کے علما و فضلا اتنے کم علم ہیں کہ اس قسم کی لیپاپوتی کو نہ سمجھیں گے. مذہب میں غرب زدگی پر مبنی تجدد پسندی کا حشر بہت برا ہوگا, لیکن مابعد مودودیوں اور غامدیوں کو اس کا شعور نہیں ہے.
مغرب زدہ تجدد پسندوں کے ملیامیٹ ہو جانے کے بعد ہماری نظر روایتی اسلاموں کی طرف اٹھے گی اور چونکہ اس کا ہر حکم مغربی جدیدیت کی پیدا کردہ علمی و تکنیکی ماحول میں قابلِ قبول نہ ہوگا, مثلاً ذی روح کی مصوری و سنگتراشی, تو شریعت کا یہ حکم آپ سے آپ معطل ہو جائے گا. اس قسم کے تعطل کو اسلام کی شکست نہیں سمجھنا چاہیے, خواہ یکے بعد دیگرے اسلام کے کتنے ہی احکامات ناقابلِ عمل ہوتے چلے جائیں. مابعد مودودیوں اور غامدیوں کو اپنی مغرب زدگی میں یہ یقین نہیں آتا کہ یہ احکامات جو دورجدید میں آ کر معطل ہو گئے, اللہ تعالی کی طرف سے ہو سکتے ہیں, ان کی نظر میں آخر خدا تعالی کیونکر ایسے ناقابلِ عمل احکامات صادر کر سکتا ہے؟ چنانچہ وہ اسی مذہبی متن سے تعبیری و تاویلی کھینچ تان کے ذریعے اس چیز کا جواز نکال لیتے ہیں جس مذہبی متن سے گزشتہ چودہ سو سالوں تک اس چیز کو حرام کیا جاتا رہا. ظاہر ہے یہ ایک بڑی شرمناک بات ہے, لیکن جب شرم ہی کو طاق پر اٹھا کر رکھ دیا تو اب جو چاہو کرو, اسلام کو مغربی عقل کی پیدا کردہ صورتحال میں بذریعہ تاویل جو چاہو بنا دو, لیکن علمی سطح پر اس کی پرِ کاہ کے برابر اہمیت نہیں.
 8. اب سوال ہے کہ روایتی مذاہب جو مغربی ماحول میں ناقابلِ عمل ہو گئے, کیا وہ زندہ رہیں گے؟ تو دنیا میں ایک اسلام ہی نہیں, بہت سے مذاہب ہیں جو زندہ ہیں, لیکن اسلام کو چھوڑ کر اور سب مذاہب فوسل کی صورت اختیار کر چکے ہیں. مذہب کا علمی کردار اب چونکہ بہت کم باقی رہ گیا ہے, اور معاشرتی کردار ابھی باقی ہے, اور شاید ہمیشہ باقی رہے, اس لیے مذہب کا تعلق فکر و عقیدہ سے کم اور مذہبی روحانی شخصیات سے زیادہ ہو گیا ہے. چنانچہ مذہبی احساس اب آپ کو تبلیغی سنٹروں میں نہیں بلکہ مزارات اور آستانوں میں دکھائی دے گا. یہ اجمیر و کلیر اور نظام الدین کی گلیوں میں جلوہ فگن ہے. محتاج اور بے بس انسانوں کے انبوہ ان مزارات پر حاضری دیتے اور اپنی روحانی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں. استاد نصرت فتح علی خاں اور دیگر فنکاروں کی صوفی قوالیاں اور گانا بجانا اس بات کے شاہد ہیں کہ مذہب کا یہ تصور مسلمانوں میں بہت مقبول ہو چکا ہے. ان قوالیوں کو سننا اور ان سے حظ اٹھانا ہی اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ اب مذہب اور مزار لازم و ملزوم ہو چکے. اور جن لوگوں کو اپنی وہابیانہ آئیڈیالوجی پر بڑا غرہ ہے, وہ صوفی میوزک کا متبادل پیش کر کے دکھائیں.

پس, روایتی مذہب اپنے احکام کی حد تک معطل ہونے کے بعد متصوفانہ رنگ میں ظاہر ہوگا, اور قوم کو متحد کرے گا, یہ متصوفانہ مذہب نہ فلسفہ و سائنس کا دشمن ہوگا اور نہ خواتین پر کوئی ڈریس کوڈ لادے گا اور نہ ایک مذہبی آئیڈیولوجی کی پیش کش اور تبلیغ کے ذریعے دنیا کی دوسری قوموں پر غلبہ حاصل کرنے کی پرامن دعوتی جدو جہد سے لے کر مذہبی جدال و قتال کی سچویشن پیدا کرے گا.
[میری یہ بحث ابھی ادھوری ہے۔ وقت ملنے پر اس صفحہ کو اپڈیٹ کروں گا]

پیر، 4 جنوری، 2016

مولوی ذکاءاللہ پر میری ایک تحقیق

اردو میں ساختیات و پس ساختیات کا تفصیلی تعارف و تجزیہ  پیش کرنے والوں میں نمایاں ترین نام گوپی چند نارنگ کا ہے اور اس موضوع پر ان کی انعام یافتہ کتاب "ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات"  میں مغربی حکمائے لسانیات اور مصنفوں کی عمدہ ترجمانی ملتی ہے۔
ساختیاتی فلسفہ لسان کے بنیاد گزار فرڈی ننڈ ڈی سوسیئر کے ہاں  ایک بنیادی  بحث لفظ یعنی "سگنی فائر"   اور اس سے مراد ذہنی تصور   یعنی "سگنی فائیڈ" میں" فطری رشتہ "نہ ہونے کی ہے. واضح رہے کہ زبان کے سوسیئری ماڈل میں شے کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
سوسیئر ی فلسفہ لسان کے اس ایک بنیادی نکتے سے بعینہ نہیں تو حیرت انگیز حد تک مماثلت رکھنے والی ایک بحث برصغیر کے ایک  اردو دانشور  مولوی محمد ذکاءاللہ دہلوی کے  رسالہ تقویم اللسان میں  پائی جاتی ہے۔  موصوف کا یہ رسالہ 1893 میں مطبع شمس المطابع دہلی میں طبع ہو کر شائع ہوا تھا. سوسیئر نے  جنیوا یونیورسٹی میں  جنرل لنگوئسٹکس پر اپنے تاریخی خطبات 1906سے 1911 تک  تک دیے تھے جو آگے چل کر ساختیاتی فلسفہ لسان کی بنیاد بنے.  اس لیے, مولوی ذکاءاللہ نے لفظ اور معنی کے متعلق موٹا موٹی وہی خیالات جو عام طور پر سوسیئر سے منسوب کیے جاتے ہیں ,سوسیئر سے کم از کم 12 سال پہلے پیش کیے تھے. حالانکہ علما لسانیات اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ لفظ و معنی کے رشتے کے فطری نہ ہونے کی بات سوسیئر سےپہلے بھی کسی نہ کسی شکل میں متعدد فلاسفہ (مثلاً  جان لاک) کہہ چکے ہیں.  
سوسیئر  کی طرح اس خاص معاملے میں اس کے پیش رو مولوی ذکاءاللہ کے ہاں بھی سگنی فائر اور سگنی فائیڈ کا تصور بالکل واضح ہے  جس کا اردو ترجمہ نارنگ صاحب نے بالترتیب  ’’معنی نما ‘‘اور ’’تصور معنی‘‘ کیا ہے  جس کے لیے بالترتیب اردو میں "دال" اور "مدلول" کی اصطلاح بھی مستعمل ہے، حالانکہ مولوی ذکاءاللہ نے  ایک ممکنہ حکمت کے پیش نظر دال اور مدلول کی ڈائیکا ٹومی پیش نہیں کی  اور اس  کی جگہ  انہوں نے  ’’لفظ اور مدلول‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔  اتنا ہی نہیں ، ان کے ہاں لفظ و معنی کی جو بحث پائی جاتی ہے اس میں مستعمل لفظیات و اصطلاحت کی اگر صحیح تعبیر نہ کی جائے تو بادی النظر میں کہا جا سکتا ہے کہ مولوی ذکاءاللہ بھی لفظ اور مدلول میں کسی "فطری رشتے"  کے نہ پائے جانے کے قائل  ہیں۔ لیکن یہ  محض تعبیر کی غلطی ہوگی ۔ میرے نزدیک مولوی ذکاءاللہ نے اپنے رسالہ تقویم اللسان میں لفظ اور معنی میں  ’’طبعی مناسبت نہ ہونے ‘‘کا نکتہ پیش کیا ہے  جو اس مسئلے پر ساختیاتی موقف ’’ سگنی فائر اور سگنی فائیڈ  میں فطری  رشتہ نہ ہونے ‘‘ سے مماثلت رکھتے ہوئے بھی ایک زاویہ کا فرق اپنے اندر رکھتا ہے ۔ اور یہی زاویاتی فرق   مولوی ذکاءاللہ کو پہلے اور بعد کے علمائے لسانیات سے ممتاز کرتا ہے۔  میں اس سلسلے میں تقریباً بیس صفحات پر مشتمل ایک مقالہ قریب قریب پورا لکھ چکا ہوں.
یہ تحقیق  میں  نے اب سے تقریباً دو سال پہلے   ۲۰۱۳  میں   مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسیٹی میں  زبان بحیثیت ترجمہ  کے موضوع پر  ایم فل کا مقالہ لکھنے کے دوران کی تھی اور  اپنے ابتدائی مسودے میں  اپنی اس تحقیق کو بھی حسب ضرورت تفصیل کے ساتھ درج بھی کیا تھا, پھر اپنے نگراں ڈاکٹر فہیم الدین احمد   کو وہ پورا مسودہ مولوی ذکا اللہ کے رسالہ تقویم اللسان کی سافٹ کاپی کے ساتھ ۲۵ دسمبر  ۲۰۱۳ عیسوی کو بذریعہ جی میل ارسال کر دیا تھا تا کہ سند رہے. ڈاکٹر فہیم الدین احمد صاحب نے   اس سلسلے میں  بھی میری بڑی حوصلہ افزائی فرمائی ہے جس کے لیے میں ان کا ہمیشہ شکرگزار رہوں گا۔
اسی زمانے میں  اپنی اس اہم تحقیق کے بعض نکتے میں نے عزیز دوست محمد سعید  کو فون پر بتائے تو انہوں نے مجھے انتہائی مفید مشورے دیے جن میں سے ایک  یہ تھا کہ مجھے اس تحقیق کو اردو میں ساختیاتی و پس ساختیاتی   افکار پر ہونے والی بحثوں کے  پس منظر میں پیش کرنا چاہیے۔  آگے چل کر مجھے ان کا یہ مشورہ بہت  پسند آیا۔ میں  اکثر مختلف النوع  فکری مسائل  پر ان سے  طویل بحثیں  کرتا رہا ہوں اور ان   کی فکری صلاحتیوں کا قائل ہوں۔
گزشتہ دو سالوں سے گوں ناگوں مصروفیات کے سبب  مولوی ذکاءاللہ کے تصور لفظ و معنی پر   مقالہ لکھنے کا یہ کام ادھورا تھا ۔ ادھر کچھ فرصت ملی تو میں نے اس  پر توجہ کی اور تصنیف حیدر، مدیر  ادبی دنیا  ڈاٹ کوم کو ارسال کیا  اور انہوں نے اسے اپنے نئے رسالے 'جدید ترین'  کے پہلے شمارے میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا، میں اس کے لیے ان کا بہت  زیاد ہ شکرگزار ہوں۔

جمعرات، 17 دسمبر، 2015

سہ روزہ دعوت اور "داعش": میٹھا میٹھا ہپ, کڑوا کڑوا تھو

1

پرواز رحمانی صاحب اسلامسٹ اخبار سہ روزہ دعوت کے اڈیٹر ہیں۔ وہ خبر و نظر کے نام سے سہ روزہ دعوت میں ایک مستقل کالم بھی لکھتے ہیں جو پہلے صفحے پر جگہ پاتا ہے اور اسلامسٹوں میں بہت مقبول ہے۔ میں یہاں ۱۳ جولائی ۲۰۱۴ اور ۲۵ نومبر ۲۰۱۵ کے دعوت میں شائع ہونے والے خبرونظر کے دو کالموں کو پیش کر رہا ہوں جو داعش یعنی اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا (آئی ایس آئی ایس) سے متعلق ہیں۔ 
جیسے جیسے داعش کے خلاف ساری دنیا میں رائے عامہ ہموار ہوئی ہے، (بالخصوص پیرس حملوں کے بعد) ویسے ویسے مودودی اسلامسٹوں نے بھی اس دہشت گرد گروپ کے خلاف بولنا شروع کر دیا ورنہ شروع میں ان کا نقطہ نظر داعش کو لے کر بہت مثبت تھا اور وہ مغربی میڈیا کی ایسی رپورٹوں پر بھروسہ نہیں کرتے تھے جن میں داعش کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا ذکر ہوتا تھا۔ ان کا نقطہ نظر تھا کہ مغربی میڈیا کتاب و سنت پر عمل پیرا مسلم عسکری گروپوں کی کردار کشی کرتی ہے۔ 
اب جبکہ داعش کے متعلق کھل کر بہت سی باتیں سامنے آ چکی ہیں، مودودی اسلامسٹوں نے اس مسئلے پر اپنی پرانی لائن بدل لی ہے لیکن وہ اب بھی مغربی میڈیا کی رپورٹوں پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اب وہ کچھ ایسی باتیں کہنے لگے ہیں کہ ’’داعش کے دہشت گرد صیہونی سازشوں کا نتیجہ ہیں۔ داعش کے دہشت گردوں کا اسلام اور مسلمان سے کوئی تعلق نہیں، داعش کے افراد کرائے پر مہیا کیے گئے ہیں تاکہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کیا جائے۔‘‘
مودودی اسلامسٹوں کا یہ رویہ نیا نہیں ہے۔ افغانی طالبان کے متعلق بھی انہوں نے یہی روش اختیار کی تھی اور افغانستان میں ملا عمر کی طالبانی حکومت کو اسلامی حکومت کہتے تھے جس نے افغانستان میں گوتم بدھ کے مجسمہ کومسمار کیا تھا۔ 
واقعہ یہ ہے کہ ان اسلامسٹوں کو ’’اقامت دین‘‘ سے بڑی دلچسپی ہے اوردنیا میں کہیں بھی کوئی بھی شدت پسند گروہ کتاب و سنت کی بنیاد پر اسلامی خلافت کے قیام کے نعرے کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، یہ بے اختیار اس کو اپنا دل دے بیٹھتے ہیں۔ چنانچہ جب طالبانیوں کی قید ی ایک مغربی خاتون صحافی یووان رڈلی نے طالبان کے مبینہ حسن اخلاق سے متاثر ہو کراسلام قبول کیا تھا تو ان مودودی اسلامسٹوں کو بڑی خوشی ہوئی تھی۔ ہو سکتا ہے یووان رڈلی کے ساتھ افغانی طالبان نے اچھا سلوک کیا ہو ، لیکن دین و سیاست کی یکجائی کا قائل کوئی شدت پسند گروہ حسن اخلاق کا کتنا ہی مکمل نمونہ کیوں نہ ہو، جب وہ ڈیموکریٹک یا فوجی طریقے سے اقتدار میں آتا ہے تو اسلام کی اپنی بنیادپرستانہ تعبیرات کو ہی رواج دیتا ہے۔ وہ قطع ید، سنگسار، محاربین کو غلام اور لونڈی بنانا وغیرہ مذہبی قوانین کو انتہائی سختی سے نافذ کرتا ہے اور موقع و محل اور دنیا و زمانہ کے تقاضوں کی بالکل پروا نہیں کرتا۔ 
داعش کے معاملے میں بھی اسلامسٹوں نے یہی ٹھوکر کھائی اور اپنے ابتدائی تجزیوں میں انہوں نے اسے ایک مسلمان عسکریت پسند گروہ تسلیم کر لیا ۔ چنانچہ پرواز رحمانی، اڈیٹر سہ روزہ دعوت ۱۳ جولائی ۲۰۱۴ کے خبر و نظر میں بتایا ہے کہ کیرلاکی جو نرسیں ہندوستان واپس آئیں انہوں نے داعش کے حسن سلوک کا ذکر کیا ہے۔داعش کے دہشت گرد ان ہندوستانی نرسوں کو بہن کہتے تھے۔ پرواز صاحب نے اس خبر کو دلچسپ پیرائے میں بیان کیا اور فرمایا: 
[’’اور یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی عسکری مسلم گروپ نے جسے دنیا کے سامنے انتہائی سفاک بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہو، اپنے مقید افراد کے ساتھ یہ سلوک کیا ہو۔ اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔‘‘]
گویا ان کے حافظے میں متعدد مسلم عسکری گروپوں کی رحمدلی کی مثالیں روشن ہیں جنہیں دنیا کے سامنے سفاک بنا کر پیش کیے جانے کی پوری ایک روایت موجود ہے۔ آگے لکھتے ہیں: 
[’’داعش یا آئی ایس آئی ایس کے بارے میں انٹرنیشنل میڈیا جو کچھ بتا رہا ہے اس کی صڈاقت روز اول سے مشکوک ہے۔‘‘]
وہ داعش کے متعلق حسن ظن کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں: 
[’’ حقیقت صرف یہ معلوم ہوتی ہے کہ امریکی قبضے کے مخالف مسلح گروپ جو عراق میں پہلے سے موجود تھے، اب امریکہ کی کٹھ پتلی نوری المالکی سرکار کے مظالم اور سنی آبادیوں کے ساتھ اس کے بے رحمانہ سلوک کی وجہ سے مزید سرگرم ہوگئے ہیں۔ البتہ یہ یقین کرنے کے اسباب موجود ہیں کہ اب اسلام دشمن قوتیں اپنے منصوبوں کے لیے انہیں استعمال کر رہی ہیں، ان کی یہ زبردست عسکری قوت اور پیش قدمی، خلیفہ کے تقرر، عالمی خلافت کے قیام کے سلسلے میں ان کے غیرحکیمانہ بیانات اور ان کے نقشے میں ہندوستان جیسے ملکوں کی شمولیت جیسے اعلانات یا تو انہیں بدنام کرنے کے لیے کوئی اور جاری کر رہا ہے اور اگر وہ خود یہ بیانات دے رہے ہیں تو یقیناً اسلام کے ازلی دشمنوں کے سازشی جال میں پھنس کر یہ سب کر رہے ہیں۔ تاکہ ان کی آڑ میں اسلام اور امت مسلمہ کے خلاف عالمی رائے ہموار کی جا سکے۔‘‘]
خبر و نظر کے اس پورے کالم میں پرواز رحمانی یہ تاثر دیتے نظر آتے ہیں کہ داعش یا آئی ایس آئی ایس کے متعلق رپورٹیں مشکوک ہیں۔ ایک طرف ’’کیرلا کی نرسوں کا تجربہ‘‘ ہے جو انہیں یہ یقین دلا رہا ہے کہ داعش ایک اسلامی گروہ ہے اوردوسری طرف انٹرنیشنل میڈیا کی رپورٹیں ہیں جن کے مطابق وہی گروہ اسلامی خلافت کے قیام کا اعلان کر رہا ہے۔ اور بقول پرواز رحمانی اگر ایسا اعلان واقعی داعش والے ہی کر رہے تھے تو وہ ’’غیرحکیمانہ‘‘ تھے۔ کہہ سکتے ہیں کہ اس داعشی اعلان خلافت کو دہشت گردانہ قرار دینے کے بجائے حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اسے ’’غیرحکیمانہ‘‘ کہہ کر پرواز رحمانی صاحب نے اس متشددانہ بیان کی شدت کو کم کر دیا۔

ایسا نہیں ہے کہ پرواز رحمانی صاحب یہ نہ جانتے ہوں کہ داعش کس چڑیا کا نام ہے۔جس شخص نے ایک طویل عرصے تک میڈیا میں کام کیا ہو اور اس کی نظر سے روزانہ متعدد اخبارات و رسائل ہی نہ گزرتے ہوں بلکہ خود اس کے اپنے اخبار میں داعش کی حقیقت پر طول طویل تجزیے شائع ہوتے ہوں، اس کے متعلق یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ وہ داعش کے متعلق کوئی واضح رائے نہیں رکھتا، اور محض چند رپورٹوں پر اسلامی نقطہ نظر سے محض قیاس آرائی کر رہا ہے۔دعوت کی ۱۶ جولائی ۲۰۱۴ کی اشاعت میں صفحہ اول پر ، پرواز رحمانی صاحب نے لکھا تھا: 
[’’اب رہ جاتا ہے داعش یا آئی ایس آئی ایس (اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا) تو یہ حقیقت ہے کہ عراق و شام کے کچھ گروپوں نے مل کر اپنا یہ نام رکھ لیا ہے لیکن وہ اس قدر مضبوط عسکری قوت رکھتا ہے کہ پوری دنیا کے لیے خطرہ بن گیا ہے، دنیا کے ایک بڑے حصے پر اپنی ’’خلافت‘‘ قائم کرنا چاہتا ہے، فہم سے بالاتر اور سمجھ سے قطعی باہر ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے اسلام دشمن قوتیں اسے بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں اور اس کے غیرحکیمانہ ہی نہیں، احمقانہ بیانات اور اعلانات اس کا واضح ثبوت ہیں۔‘‘] 
داعش کے جو بیانات پرواز رحمانی صاحب کی نظر میں’’غیرحکیمانہ‘‘ تھے (خبر و نظر ۱۳ جولائی ۲۰۱۴) وہ اب ۱۶ جولائی ۲۰۱۴ کو ‘‘احمقانہ‘‘ بھی ہو گئے۔ بہرحال، پرواز رحمانی صاحب کی اس بات سے یہ معلوم ہوا کہ داعش کے لڑاکے کوئی اور نہیں مسلمان ہی ہیں، خواہ اسلام دشمن قوتوں کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہوں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو مسلم عسکری گروہ نرسوں کے ساتھ کوئی غلط سلوک نہیں کرتا وہ اتنا عقلمند کیوں نہیں ہے کہ اسلام دشمن قوتوں کے ہاتھوں استعمال نہ ہو سکے؟ 
دعوت کی ۱۶ جولائی ۲۰۱۴ کی اسی اشاعت میں پرواز رحمانی صاحب نے داعش کے متعلق یہ جملہ بھی لکھا تھا: 
[’’عراق پر امریکی قبضے کے خلاف داعش کی مسلح مہم کو مستقلاً سنی دہشت گردی کہا جا رہا ہے اور اسے ثابت کرنے کے لیے شیعہ مقدس مقامات اور شیعہ آبادیوں پر حملے کروائے جا رہے ہیں۔‘‘]
دیکھا آپ نے۔ کسی تعبیر کی حاجت نہیں۔ ان کی بات بالکل صاف ہے۔ ’’عراق پر امریکی قبضے کے خلاف داعش کی مسلح مہم کو مستقلاً سنی دہشت گردی کہا جا رہا ہے‘‘۔ ان کے اس جملے سے تاثر کیا بنا؟ کہ داعش نامی تنظیم امریکی قبضے کے خلاف مسلح جہاد کرتی ہےاسی لیے اسے سنی دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے جس کے ثبوت کے طور پر شیعوں اور ان کے مقدس مقامات پر حملہ ’’کرایا جاتا‘‘ ہے گویا داعش کوئی ایسا گروہ نہیں ہے کہ جو شیعوں پر حملہ کرنے جیسا کام کرے!
اچھا، اب ۲۵ نومبر ۲۰۱۵ کے دعوت کا خبرونظر ملاحظہ فرمائیے ۔ وہی پرواز رحمانی صاحب داعش کے متعلق لکھتے ہیں: 
[’’انسانیت کے دشمنوں نے ڈیڑھ سال قبل ’’اسلامک اسٹیٹ‘‘ کے نام سے خود ہی ایک دہشت گرد گروپ کھڑا کیا، خود اسے افراد اور اسلحہ فراہم کر رہے ہیں اور خود ہی اسے انسانیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنا کر دنیا کو اپنے ارد گرد متحد کر رہے ہیں۔ خود ہی اس سے ملکوں میں حملے کرواتے ہیں پھر خود ہی اس کی مذمت میں ایک ساتھ چیختے چلاتے ہیں۔ ابتدا میں اسلامک اسٹیٹ یا داعش کو کھڑا کرنے کے پیچھے کوئی عالمگیر منصوبہ شاید نہیں تھا، وہ اس سے صرف عراق و شام میں کام لینا چاہتے تھے۔۔۔
تھوڑی دیر کے لیے فرض کر لیا جائے کہ داعش وہی کچھ ہے جو امریکہ اور اسرائیل دنیا کو بتا رہے ہیں یعنی یہ جنگجو مسلمانوں کا گروپ ہے جو دنیا میں اسلامی خلافت قائم کرنا چاہتا ہے تو کیا یہ واقعی اتنا مضبوط ہے کہ امریکہ تنہا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا؟ اس سے لڑنے کے لیے اسے پوری دنیا کی متحدہ قوت درکار ہے جب کہ اکیلا امریکہ ایسے دس داعشوں کو ایک دن میں دس دس بار تباہ کر سکتا ہے۔۔۔ 
لہذا نام نہاد اسلامک اسٹیٹ کا پورا کھیل اسلام کو بدنام اور امت مسلمہ کو کمزور کرنے کے لیے کھیلا جا رہا ہے۔۔۔۔ ‘‘]
اب ۱۳ جولائی ۲۰۱۴ والے خبرونظر کالم کو ایک بار پھر پڑھیے کہ مدیر دعوت نے داعش کے متعلق کیا فرمایا تھا: 
[’’اور یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی عسکری مسلم گروپ نے جسے دنیا کے سامنے انتہائی سفاک بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہو، اپنے مقید افراد کے ساتھ یہ سلوک کیا ہو۔ اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔‘‘ ]
سوال پیدا ہوتا کہ مدیر دعوت اب ’’کیرلا کی نرسوں کے تجربے ‘‘کو کس کھاتے میں ڈالیں گے؟

2
16 جولائی 2014 کے اسلامسٹ اخبار سہ روزہ دعوت نے ‘‘عراق کا بحران اور امت مسلمہ‘‘ کے نام سے ایک خصوصی جائزہ پیش کیا تھا جس میں مفتی ارشد فاروقی، سکریٹری، مرکزی جمعیت علمائے ہند کے حوالے سے سوالات پر مبنی ایک تحریر شائع ہوئی تھی، عنوان تھا: ‘‘داعش عراق کو مغربی تسلط سے آزاد کرانا چاہتا ہے‘‘۔ میں ذیل میں اس تحریر سے قابل توجہ پیراگرافوں اور جملوں کو ٹائپ کررہاہوں۔ مفتی ارشد فاروقی نے اسلامسٹ اخبار سہ روزہ دعوت میں داعش کے متعلق درج ذیل بیانات دیے تھے:

[’’مغربی میڈیا ہمیشہ سے حقائق پر پردہ ڈال کر غلط طریقے سے پیش کرتا آ رہا ہے۔ اس وقت یہ کوشش ہو رہی ہے کہ عراق کو شیعہ بلاک بنا کر شام لبنان اور بحرین کو ملا کر ایک بلاک اور سنی محاذکے خلاف کھڑا کیا جائے۔ 
داعش وہ گروپ ہے جو طویل عرصے سے مالکی افواج کے ظلم کا شکار رہا ہے اور عراق کو مغربی تسلط سے بچانا چاہتا ہے، یہ لوگ اسلام پسند ہیں، اس میں مختلف گروپ شامل ہو گئے ہیں جو عراق میں ظلم کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تین ہزار لوگوں نے مالکی فوجیوں کی بڑی تعداد کو کھدیڑ کر رکھ دیا اور اب بغداد سے محض پچاس کلومیٹر کی دوری پر ہیں۔۔۔
دنیا میں اسلام پسند گروپوں میں سب سے بڑا نام الاخوان المسلمون کا ہے انہیں جن حالات سے دو چار ہونا پڑ رہا ہے، دنیا کے سامنے عیاں ہے کہ کس طرح ان کا گلا گھونٹا جا رہا ہے، داعش اور اخوان میں طریق کار کا فرق ہے، اخوان کا طرہ امتیاز رہا ہے کہ وہ حالات سے کس قدر سمجھوتا کر کے اسلامی نظام کے قیام کی دعوت دیتے ہیں جب کہ داعش کے لوگ کوئی سمجھوتا کیے بغیر براہ راست خلافت اسلامیہ کا نام لے رہے ہیں اور انہوں نے یہ دعوی کر دیا ہے کہ انہوں نے خلافت قائم کر دی ہے۔ 
اس پورے معاملے میں ڈاکٹر یوسف القرضاوی کا جو تبصرہ آیا ہے وہ توجہ طلب ہے۔ انہوں نے خلافت کے قیام کے طریق کار کو غلط قرار دیا ہے، ان کی اسلام پسندی کو غلط قرار نہیں دیا ہے۔ 
طالبان اور القاعدہ کے بارے میں ہمیشہ سے ایک گروپ کی رائے یہ رہی ہے کہ یہ لوگ امریکہ کے پروردہ ہیں جنہیں روس کے خلاف امریکہ نے کھڑا کیا تھا، لیکن روس کی جنگ کے خاتمے کے بعد یہ لوگ امریکہ کے اثرات سے آزاد ہو گئے تو امریکہ نے انہیں تباہ کر دیا۔ جبکہ حقائق یہ ہیں کہ طالبان میں جو لوگ رہے ہیں ہ انتہائی دین دار واقع ہوئے ہیں۔ برطانوی صحافی یونی ریڈلی کے تاثرات یہ بتاتے ہیں کہ یہ لوگ دین پر عمل کرنے والے تھے۔ 
ایک بار خبر یہ آئی تھی کہ کچھ جعلی طالبان بھی پکڑے گئے تھے جو مسلمان نہیں تھے، اصل طالبان کو بدنام کرنے کے لیے فرضی طالبان کا استعمال کیا گیا تھا۔ اس وقت شام میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ اصل اسلام پسند گروپوں کے درمیان ایسے لوگوں کو داخل کر دیا ہے جو ان کے درمیان رہ کر اسلام پسندوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔۔۔
داعش کے مظالم کی جو صورتیں پیش کی جا رہی ہیں اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ حالیہ دنوں ہندوستانی نرسوں کے ساتھ ان کا معاملہ سامنے آیا تو دنیا حیران رہ گئی۔ انہوں نے انہیں عزت و عافیت سے رکھا۔ اس کا اعتراف نرسوں نے اپنی گفتگو میں کیا ہے۔ رہی بات جنگ میں سختی کی تو ہر جنگ میں دشمن کے خلاف مدمقابل کرتا ہے اور امن کے قیام کے لیے اگر یہ سختی کی جا رہی ہو تو ایسا کرنا درست ہوگا۔ (گفتگو اشرف بستوی)] حوالہ: سہ روزہ دعوت، 16 جولائی 2014 عیسوی۔ 

ملاحظہ فرمایا آپ نے! کس طرح مفتی ارشد فاروقی صاحب نے داعش اور اخوان المسلمون دونوں کو اسلام پسند قرار دیا اوربتایا کہ ان کے درمیان فرق صرف طریق کار کا ہے۔کس طرح انہوں نے فرمایا کہ طالبان ایک دیندار گروہ ہیں ، اور کس طرح انہوں نے داعش کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے متعلق فرمایا کہ قیام امن کی غرض سے دشمن کے خلاف سختی کرنا درست ہوگا! اور ایسا کون کہہ رہا ہے؟ مرکزی جمعیت علمائے ہند کے جنرل سکریٹری جناب مفتی ارشد فاروقی، اور ان کی ایسی باتیں شائع کہاں ہو رہی ہیں؟ مودودی اسلام پسندوں کے ترجمان اخبار سہ روزہ دعوت نئی دہلی میں! 
واضح رہے کہ جیسے جیسے انٹرنیشنل میڈیا میں داعش کی دہشت گردی کی رپورٹیں شائع ہوئی ہیں، ویسے ویسے ہندوستان کے اسلامسٹوں نے اپنا موقف تبدیل کر لیا بالخصوص پیرس حملوں کے بعد وہ داعش کو بڑی طاقتوں کی سازش قرار دینے لگے ہیں ۔ اب اسلامسٹ حضرات کسی صورت یہ ماننے کو تیار نہیں کہ داعش نامی یہ دہشت گرد مسلمانوں کا حصہ ہیں بلکہ اب ان کا کہنا ہے کہ مغربی میڈیا داعش کو مسلمانوں کا حصہ بنا کر پیش کر رہا ہے یعنی داعش کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے!
سوال یہ ہے کہ یہ حضرات دہشت گرد گروپوں (جنہیں یہ "اسلامی عسکریت پسند گروپ" قرار دیتے ہیں) کے متعلق شروع ہی سے یہ موقف کیوں نہیں اپناتے کہ ان کی سرگرمیاں غیراسلامی ہیں اور ان کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے؟ اگر انہیں میڈیا کے بیانات پر بھروسہ نہیں تو آخر کیرلا کی نرسوں کے تجربے والی رپورٹ پر کیسے یقین کر لیتے ہیں؟ کیا یہ میٹھا میٹھا ہپ, کڑوا کڑوا تھو کی مثال نہیں؟