منگل، 24 نومبر، 2015

علامہ ارشدالقادری کی ایک دلیل

علامہ ارشد القادری کی کتاب جماعت اسلامی سے درج ذیل اقتباس پڑھیں, پھر یا تو ان کے زور قلم کی داد دیں یا قیل و قال شروع کر دیں. داد کی توقع ان سے ہے جو غیر جانبدار اور انصاف پسند ہوں اور قیل و قال کی توقع ان سے جو فکر مودودی کے اسیر ہیں:

"... مولانا مودودی انبیا و اولیا کے ان عقیدت مند مسلمانوں کو جو ظاہر سے باطن تک زندگی کے تمام مراحل میں مومن ہیں, موحد ہیں, کلمہ گو ہیں, بے دریغ مشرک سمجھتے ہیں. 
...
ثبوت کے لیے مولانا کی مندرجہ ذیل عبارت ملاحظہ فرمائیں:
[انبیا علیہ السلام کی تعلیم کے اثر سے جہاں لوگ اللہ واحد و قہار کی خدائی کے قائل ہو گئے. وہاں سے خداؤں کی دوسری اقسام تو رخصت ہو گئیں مگر انبیا, اولیا, شہدا, صالحین, مجاذیب, اقطاب, ابدال, علما, مشائخ اور ظل اللہوں کی خدائی پھر بھی کسی نہ کسی طرح عقائد میں اپنی جگہ نکالتی رہی. جاہل دماغوں نے مشرکین کے خداؤں کو چھوڑ کر ان نیک بندوں کو خدا بنالیا (تجدید و احیائے دین از مولانا مودودی ص 11)] 
آگے چل کر پوری وضاحت کے ساتھ اس مشرک طبقے کی نشاندہی ان الفاظ میں کی گئی ہے. ملاحظہ ہو: 
[مشرکانہ پوجا پاٹ کی جگہ فاتحہ, زیارت, نیاز, نذر, عرس, صندل, چڑھاوے, نشان, علم, تعزیے اور اسی قسم کے دوسرے مذہبی اعمال کی ایک نئی شریعت تصنیف کر لی گئی. (حوالہ سابق ص 11)] 
دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ گل افشانی فرماتے ہیں: 
[جاہلیت مشرکانہ نے عوام پر حملہ کیا اور توحید کے راستہ سے ہٹا کر ان کو ضلالت کی بے شمار راہوں میں بھٹکا دیا. ایک صریح بت پرستی تو نہ ہو سکی, باقی کوئی قسم شرک کی ایسی نہ رہی جس نے مسلمانوں میں رواج نہ پایا. 
پرانی جاہلی قوم کے جو لوگ اسلام میں داخل ہوئے تھے وہ اپنے ساتھ بہت سے مشرکانہ تصورات لئے چلے آئے اور یہاں ان کو صرف اتنی تکلیف کرنی پڑی کہ پرانے معبودوں کی جگہ بزرگان اسلام میں سے کچھ معبود تلاش کریں, پرانے معبدوں (بت خانوں) کی جگہ مقابر اولیا سے کام لیں. (حوالہ سابق ص 25) ]
... 
دنیا کا کون مسلمان ہے جو انبیا و اولیا کو اپنا معبود سمجھتا ہے اور اصنام کی جگہ قبروں کی پرستش کرتا ہے؟ اس طرح کا کوئی فرضی مسلمان مولانا مودودی کی دنیائے خیال میں ہو تو ہو, واقعات کی دنیا میں ہرگز نہیں ہے. 
خدا کا محبوب اور مقرب بندہ سمجھ کر بزرگوں کے مقابر کی زیارت و روحانی استفاضہ اور مقدس ہستیوں کے آثار کا تحفظ اگر مولانا کے تئیں بت پرستی ہے تو میں عرض کروں گا کہ ذرا پیچھے پلٹ کر دیکھیے! یہ جاہلیت مشرکانہ کی نہیں خود عہد اسلام کی یادگار ہے. خود قرآن نے مقام ابراہیم کو سجدہ گاہ اور صفا و مروہ کو مسعٰی بنانے کا حکم دے کر تعظیم آثار کے عقیدہ پر اپنی مہر تصدیق ثبت کردی ہے. 
پھر جن مزارات و مقابر کو مولانا مودودی صنم خانے سے تعبیر کرتے ہیں, ان کے متعلق پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ آئے کہاں سے؟ ظاہر ہے کہ روضہ رسول پاک ہو یا مزارات اہل بیت و صحابہ, اولیائے عرب کے مقابر شریفہ ہوں یا یا عجم کے, یہ کچھ آج نہیں بنا لیے گئے ہیں. بلکہ عہد صحابہ سے لے کر ائمہ مجتہدین, مشائخ و محدثین, اور فقہائے اسلام کے دور تک جس دن کسی مقرب خداوندی کو سپرد خاک کیا گیا, اسی دن سے اس کے مدفن کی حفاظت شروع ہو گئ, اس کی تربت کے نشانات کو باقی رکھنے کے لیے ارد گرد صالحین کا پہرہ بیٹھ گیا, یہاں تک کہ اس مزار کی رونق و آبادی کا اہتمام قرن اول سے شروع ہو کر بعد میں آنے والے صلحائے امت تک ہر قابل اعتماد دور میں ہوتا رہا. 
... 
پھر "جاہلیت مشرکانہ" کہہ کر ان روایات پر جو حملہ آور ہوتا ہے اس کا حملہ عوام پر نہیں خواص پر ہے. دینی تاریخ کے لاکھوں بکھرے ہوئے اوراق پر آج بھی ائمہ حق اور اسلام کے مقتدر پیشواؤں کی ... طویل فہرست ہمارے سامنے موجود ہے جنہوں نے مزارات انبیا و اولیا کی زیارتیں کیں اور ان سے روحانی استفاضہ کیا.
اگر اسی کا نام شرک ہے تو مجھے کہنے دیا جائے کہ اسلامی تاریخ کے تمام طبقات کو مشرک تسلیم کرنے کی نسبت یہ تسلیم کرنا زیادہ آسان اور قرین عقل ہے کہ مولانا مودودی کا ذہن ہی مشرک ساز اور کافر گر ہے." 
(حوالہ: کتاب "جماعت اسلامی", مصنف: علامہ ارشد القادری, ناشر: مکتبہ جام نور, دہلی, صفحہ 82 تا 85)

تو یہ طویل اقتباس آپ نے پڑھا. یہاں علامہ ارشد القادری نے بھی اپنی دلیل قرآن ہی سے فراہم کی ہے کہ اللہ تعالی نے "مقام ابراہیم کو سجدہ گاہ اور صفا و مروہ کو مسعٰی بنانے کا حکم دے کر تعظیم آثار کے عقیدہ پر اپنی مہر تصدیق ثبت کردی ہے." علامہ ارشد القادری کی یہ دلیل بھی توجہ طلب ہے کہ اگر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے روضے کی زیارت کا مفہوم رسول کو معبود بنانا نہیں ہے تو خدا کے مقدس اور برگزیدہ بندوں کے مزارات کی زیارت ان برگزیدہ بندوں کو معبود بنا لینے کا ثبوت کیونکر ہو سکتا ہے؟

پیر، 16 نومبر، 2015

تکثیری معاشرہ کا مذہبی شعور

ایک تکثیری معاشرہ (پلورل سوسائٹی) میں مذہب کا کون سا اڈیشن چل سکتا ہے اور کون سا نہیں؟ کون سا اڈیشن اس میں امن و سکون کا ضامن ہے اور کون سا فساد فی الارض کا موجب؟ کس اڈیشن سے معاشرہ کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینے والے افراد پیدا ہوتے ہیں اور کس اڈیشن سے دیر سویر مذہبی دہشت گردوں کا ہی ظہور ہوتا ہے؟
کیا وہ اڈیشن جس میں دین و سیاست کی تفریق ہو یا وہ اڈیشن جس میں انہیں یکجا کر دیا گیا ہو؟ وہ اڈیشن جو انسان کی اجتماعی زندگی کے قوانین کو تغیر پذیر تسلیم کرتا ہو یا وہ اڈیشن جو صحف مقدسہ میں درج ہر ایک قانون کے نفاذ کی تحریک چلاتا ہو؟ وہ اڈیشن جو دیگر مذاہب کو اپنی جگہ صحیح سمجھتا ہو یا وہ اڈیشن جو اپنے سوا سب مذاہب کو باطل, گمراہ کن اور تحریفات کا مجموعہ قرار دیتا ہو؟ وہ اڈیشن جو ایک سیکولر اور ڈیموکریٹک معاشرہ میں دوسرے مذایب کے ساتھ پرامن طور پر رہ سکتا ہو یا وہ اڈیشن جو ایک تحریکی دعوت کے ذریعے یا بزور بازو ایک تھیوکریٹک اسٹیٹ قائم کرنا چاہتا ہو؟ وہ اڈیشن جو ہر نیک شخص کو بلا تفریق مذہب و ملت نجات کی بشارت دیتا ہو یا وہ اڈیشن جو نجات کو صرف اپنے ماننے والوں کے لیے مخصوص کردیتا ہو؟ ایک تکثیری معاشرے کے لیے مذہب کا کون سا اڈیشن, اس کی کون سی تعبیر موزوں ہے؟

اسلامسٹوں کا فریبِ تکثیریت


ایک اسلامسٹ جب تکثیریت (پلورلزم) کی اہمیت پر لیکچر دیتا ہے تو میں سوچنے لگتا ہوں کہ یا خدا, یہ عجوبہ کیونکر ممکن ہوا! جو لوگ سر تا پا وحدانیت (سنگولرازم) میں ڈوبے ہوں اور ساری دنیا میں اسلام ایک مکمل نظام حیات مارکہ دعوتی جد و جہد میں مصروف ہوں اور اس کے ذریعے مسلمان نوجوانوں کو اقامت دین کی فرضیت کا سبق پڑھاتے اور ایک وحدانی مذہبی ریاست یعنی خلافت علی منہاج النبوۃ کے قیام کا خواب دکھاتے ہوں, اور اپنی ان سرگرمیوں کو رضائے الٰہی اور فلاح آخرت کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہوں, ایسے لوگ تکثیریت کی گردان کرنے لگیں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ وہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتے ہیں. انہیں دنیا میں جب اور جہاں بھی اقتدار حاصل ہوگا, وہ  اجتماعی زندگی کی تنظیم اپنے وحدانی اصولوں کے علاوہ کس دوسرے اصول پر کر ہی نہیں سکتے.

کتنی الٹی بات ہے کہ فکری سطح پر تکثیریت کا اثبات اور وحدانیت کی نفی وہ رجعت پسند کریں جو اپنے مذہب کو حق کا واحد ترجمان اور دوسروں کے مذہب کو بدعات و خرافات اور تحریفات کا مجموعہ بتاتے ہوں, جو اپنے مذہبی افکار و نظریات کے سوا ہر دوسرے نظریہ کی تردید کرتے ہوں, جن کے ابطالی اور تغلیطی لٹریچر میں جدید اور مابعد جدید مغربی افکار و نظریات کے خلاف طنز و استہزا, ملامت, دشنام طرازی اور زہر افشانی کے سوا کچھ نہ پایا جاتا ہو, اور جو قدم قدم پر مذہب و عقائد کے وحدانی تصور پر ایمان نہ لانے والے کو جہنم کی بشارت دیتے ہوں!

تکثیریت کے معنی یہ ہیں کہ حق کا کوئی ایک اڈیشن نہیں اور زندگی گزارنے کا کوئی ایک طریقہ بقیہ طریقوں سے برتر یا کمتر نہیں. کوئی ایک مذہب, کوئی ایک تہذیب, کوئی ایک نظام, کوئی ایک مجموعہ قانون بقیہ تمام مذاہب, تہذیبوں, نظاموں اور قوانین کے مقابلے میں کوئی تخصیص, کوئی امتیاز نہیں رکھتا, سب اپنی اپنی جگہ برحق ہیں الا یہ کہ ان میں کوئی چیز ایسی ہو جو روح عصر اور نوع انسانی کے ارتقایافتہ شعور کے صریحی خلاف ہو.اصل بات یہ ہے کہ یہ اسلامسٹ تکثیریت کا راگ اس لیے الاپ رہے ہیں کہ اس کی آڑ میں ان کی وحدانی سیاسی دعوت فروغ پاتی رہے یہاں تک کہ وہ کثرت آرا سے ایک میجریٹیرین مذہبی نظام قائم کر سکیں جس کو وہ اقامت دین کے نام سے یاد کرتے اور تاریخ دعوت و جہاد کا ایک حصہ سمجھتے ہیں ۔ اسلامسٹوں کی تکثیریت ایک تقیہ اور لبادہ ہے۔ یہ ان کی مصلحت اور اسٹریٹجی ہے جس سے کام لے کر وہ آخرش اسی تکثیریت کو فنا کر دیں گے جس کی فراہم کردہ  آزادانہ  فضا میں وہ اپنے وحدانی اپروچ کو زندہ رکھتے اور تمکن فی الارض کے نصب العین تک پہنچنا چاہتے ہیں۔

پیر، 2 نومبر، 2015

فکری پسماندگی کی کچھ علامتیں

فکری طور پر پسماندہ وہ ہوتا ہے جو دنیائے فکرو نظر میں اپنی تمام تر ذہنی قوت کے ساتھ ازکار رفتہ مذہبی یا قومی عقائد و افکار کا راگ الاپتا رہے اور آگے نکل جانے والی قوموں سے بغض و حسد رکھتا ہو. ایسے لوگوں کی بہت سی علامتیں ہیں:  تعقل پسندی اور مغربی فلسفہ و سائنس کی تحقیر کرنا, مغربی فلسفہ و سائنس کے مقابلے میں اپنی ڈیڑھ اینٹ کے منقولاتی اجدادی فلسفہ و سائنس کی  بنا ڈالنا, نوع انسانی پر اپنی تاریخی قوم کے ذریعے کیے جانے والے علمی احسانوں کو یاد دلاتے رہنا کہ ہم نے فلاں تحقیق سب سے پہلے پیش کی اور ہم نہ ہوتے تو دنیا  علمی و تکنیکی ترقی کے موجودہ مقام تک ہرگز نہ پہنچتی, اوریجنل اور گہرے فکری, تحقیقی کام کے ذیل میں صرف مقدس کتابوں کی شرحیں اور حاشیے لکھنا, مذہب اور سائنس میں تطبیق دینے کی ناکام کوشش کرتے رہنا, جدید تہذیب کو گمراہ, بے حیا اور بے شرم قرار دینا, اپنے اخلاقی نقطہ نظر کو پورے قوم کا اخلاقی نقطہ نظر بنانے کی کوشش کرنا, ماضی بعید کی عظمت و شوکت کی گردان کرتے رہنا, کوئی بھی نئی بات سنتے ہی آگ بگولا ہو کر پوچھنا کہ یہ کہاں لکھا ہے اور یہ کس سے ثابت یا منقول ہے؟

جمعرات، 20 اگست، 2015

دعوتِ دین اور داڑھی کی شرعی مقدار

فیس بک پر میرا ایک اسٹیٹس اپڈیٹ (تاریخ یاد نہیں):
مقلدین مودودی ﮐﻮ ﻻﮐﮫ ﺳﻤﺠﮭﺎﺅ ﮐﮧ ﺑرادرانِ اسلام, ﺍﮔﺮ آپ ﮐﻮ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﮐﺮنی ﮨﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﺸﺖ ﺑﮭﺮ ﺩﺍﮌﮬﯽ سنت کے مطابق ﺭکھیں, تفریحی اغراض سےﺍﭘﻨﯽﺗﺼﻮﯾﺮﯾﮟﮐﮭﻨﭽﺎﻧﺎ ﺑﻨﺪ ﮐﺮیں, ﻓﻠﻢ ﺑﯿﻨﯽ ﺳﮯ ﺳﺨﺖ ﺍﺣﺘﺮﺍﺯ ﮐﺮیں, ﺍﻟﻐﺮﺽ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﻣﮑﺎﻧﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﺍﺕ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮ لیں, ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﻋﻮﺕِ ﻋﺎﻡ فرمائیں, ﻟﯿﮑﻦ ﻗﺮﺁﻥ ﻭ ﺳﻨﺖ ﺳﮯ ﻗﻄﻌﯽ معروضی ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺛﺎﺑﺖ ﺍﻥ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺟﺐ بھی انہیں متوجہ کیا ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ, ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﺬﺍﻕ ﺍﮌﺍﻧﮯ ﻟﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ.
ﺟﺐ ﻭﮦ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﮌﮬﯽ کی مقدار ﺷﺮﻁ ﻧﮩﯿﮟ تو وہ اس مسئلے میں مولانا مودودی کے من مانے فتوے پر چل رہے ہوتے ہیں. ﭼﻮﻧﮑﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﻮﻝ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺲ سے ﺩﺍﮌﮬﯽ ﮐﯽ صریحی ﻣﻘﺪﺍﺭ ﻣﺘﻌﯿﻦ ہوتی ہو, اس لیے  علامہ مودودی نے حدیث میں گنجائش پیدا کرتے ہوئے داڑھی کی روایتی مقدار میں تخفیف فرما دی تھی (دیکھیں رسائل و مسائل) جس کے نتیجے میں مشت بھر سے خاصی ﮐﻢ ﺩﺍﮌﮬﯽ رکھنے کی ایک نئی سنت (صحیح معنوں میں بدعت) رائج ہو گئی. مجھے علم نہیں کہ مولانا مودودی نے اس رخصت سے کس حد تک فائدہ اٹھایا, لیکن آج دنیائے علم و ادب, یونیورسیٹیوں, کالجوں اور دفاتر  میں پائے جانے والے تجدد پسند اسلامسٹوں میں داڑھی کا مودودی ماڈل بیحد مقبول ہے.
ﺍتنی ﮐﻢ ﺩﺍﮌﮬﯽ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﺳﮯ ﺑﻈﺎﮨﺮ یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ شخص "کٹھ ملا" ہے، بلکہ اول اول ایک سنجیدہ مفکر کا تاثر قائم ہوتا ہے.
ایک مشت داڑھی کی قید سے شرعاً نجات پانے کے بعد رفتہ رفتہ سینٹی میٹر بلکہ میلی میٹر میں بھی ٹریمر سے داڑھی ٹرم کرنے کی ایک روایت عملاً وجود میں آ گئی, اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام پسندوں کی خاصی اسمارٹ صورت نکل آئی. ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺷﮑﻞ ﻭ صورت ﻣﯿﮟ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﺫﻭﻕ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺭﻋﺎﯾﺖ ﮨﻮ گئی ﺍﻭﺭ ﻗﻮﻝ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﯽ ﭘﺎﺳﺪﺍﺭﯼ ﺑﮭﯽ. ﺭﻧﺪ ﮐﮯ ﺭﻧﺪ ﺭﮨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺟﻨﺖ ﻧﮧ ﮔﺌﯽ!
جب کبھی روایتی علما نے ان سے سوال کیا کہ یہ سنت کی پیروی کا کون سا طریقہ آپ نے اپنایا ہے تو ان کا جواب یہی تھا کہ تم اسلام کو داڑھی میں قید سمجھتے ہو؟ اسلام  کرتے پاجامے کی مخصوص کاٹ اور داڑھی کا طول و عرض نہیں, یہ سب تو چھوٹی موٹی اور فروعی بحثیں ہیں, اصل چیز تو تقوی ہے جس کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ وہ دل میں ہوتا ہے. ان مودودیوں کو ایسی تاویلیں کرتے ہوئے یہ بھی نہ سوجھا کہ قرآن و سنت سے معنی اخذ کرنے کا ان کا طریقہ بھی وہی ہے جو روایتی علما کا ہے, اور احکام شریعت کے نفاذکے معاملے میں یہ ہرگز نہیں دیکھا جاتا کہ معاملہ چھوٹا ہے یا بڑا, بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ خود مذہبی متن سے کیا معنی برآمد ہوتے اور صحابہ و سلف ان سے کیا مراد لیتے آ رہے ہیں. اور داڑھی کی مقدار کا مسئلہ اس قدر چھوٹا موٹا اور غیراہم ہے تو کیوں نہیں یہ مودودیے ایک مشت داڑھی رکھ ہی لیتے ہیں؟ اور اگر یہ اتنی ہی غیر اہم فروعی بات ہوتی تو داڑھی نہ رکھنے پر روایتی علمائے کرام فاسق اور مردود الشہادۃ ہونے کا فتوی کیوں دیتے؟ اور یہ فتوی تو اسی روایتی فقہی طریقے سے لگایا جاتا ہے جس طریقے سے نکاح و طلاق کے مسائل میں فتوے لگائے جاتے ہیں. پھر روایتی فقہ کے ایک نتیجے کو ماننے اور ایک کو نہ ماننے کا کیا مطلب ہے؟

اس پر ایک صاحب نے درج ذیل تبصرہ کیا:

ڈاڑھی کا رکھنا معاملات کی قبیل سے ہے یا عبادات کی؟  اس بات کو سمجھنے سے شرعی حکم کی نوعیت بمعنی فتوی بالکل بدل جائے گی اور بالخصوص جب کہ اس کا تعلق بھی فروعی احکام سے ہو.

میں نے ان کے تبصرہ کا درج ذیل جواب دیا:

پس, آپ کے فتوے کی رو سے ستر عورت کے مروجہ حدود بھی ختم ہو جائیں گے, اور دوپٹہ رکھنا بھی لازم نہیں ہوگا, بلکہ منی اسکرٹ پہن کر نامحرم مردوں سے تنہائی میں ملنا بھی عورت کے لیے جائز ہو جائے گا کیونکہ ان سب باتوں کا تعلق بھی عبادات سے نہیں معاملات سے ہے. اسی طرح چور کے ہاتھ کاٹنے کی سزا بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی کیونکہ یہ بھی عبادات میں سے نہیں ہے. آپ یہ کہہ کر نہیں بچ سکتے کہ یہ قرآن کا حکم ہے (اس لیے اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی)  کیونکہ قرآن خود یہ کہتا ہے کہ جو کچھ اللہ کے رسول تمہیں دیں اسے لے لو, اور جس چیز سے منع کریں, اس سے رک جاؤ.
اس لیے ایک بار کسی حدیث کے متعلق یہ بات ثابت ہو گئی کہ یہ واقعی قول رسول ہے اور اس میں کسی بات کا حکم دیا جا رہا ہے تو آپ کے فتوے کے مطابق اگر وہ عبادات میں سے نہ ہو کر معاملات میں سے ہو, تو اس کو بدلا جا سکتا ہے؟ یہی کہنا چاہتے ہیں نہ آپ؟ تو اب میں آپ کے مطابق تبدیل شدہ فقہی احکام کی ایک فہرست مرتب کروں, یا آپ خود ہی کریں گے؟

میرے مذکورہ بالا تبصرے کے بعد انہوں نے درج ذیل جواب دیا:
آپ کے مذکور نکات درست ہوتے اگر ڈاڑھی کا تعلق معاملات میں سے ہوتا. میں اس کو عبادات کے فروعی احکام میں سے سمجھتا ہوں.  "معاملات" کی لفظی ترکیب خود اس بات کی وضاحت ہے کہ ایسے امور جو سماج کے باہمی اتصال و احکام پر مشتمل ہوں. کسی کی ڈاڑھی بڑی ہے یا چھوٹی، ایک مشت ہے یا کم یا سرے سے ہے ہی نہیں اس بات کا "معاشرتی معاملات" سے کیا تعلق؟؟

میرا جواب:
یوں تو انسان کا ہر کام عبادت ہے جو اللہ کے حکم کے مطابق انجام دیا جائے لیکن اصطلاحی معنوں میں عبادات سے مراد  پرستش کے وہ مخصوص رسمی طریقے ہیں جن کو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نازل کیا ہے.
داڑھی رکھنا عبادت کا کوئی مخصوص اور رسمی طریقہ نہیں ہے کیونکہ ایک تو ہر انسان کے داڑھی ہو, یہ ضروری نہیں؛ دوسرے, عورتوں کو سرے سے داڑھی ہوتی ہی نہیں جس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ ایک عبادت سے محروم ہیں؛  تیسرے, مذہبی عبادات انسان کے اضطراری افعال (مثلاً سانس لینا) کے بجائے ایسے اختیاری اعمال پر مبنی ہوتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فلاں مذہب کے ماننے والوں کا طریقہ پرستش ہے, اور داڑھی کوئی اختیاری چیز نہیں یعنی داڑھی کا اگانا یا نہ اگانا بندے کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہے, بلکہ یہ سراسر ایک فطری امر ہے کہ کسی کو داڑھی ہوتی ہے اور کسی کو نہیں, چوتھے, ہر انسان کے اختیار میں چونکہ داڑھی کا اگانا یا نہ اگانا نہیں بلکہ اگر داڑھی اگے تو اس کو رکھنا یا نہ رکھنا ہے, اس لیے داڑھی کے مسئلے میں لفظ عبادت کا اطلاق خود آپ ہی کے نقطہ نظر سے تبھی درست مانا جائے گا جب آپ اس کو چھوڑ دیں یا مونڈیں. (کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ کے نزدیک داڑھی کا رکھنا عبادت ہے یا اس کا مونڈنا؟)  پانچویں, پھر آپ ہی کے نظریے کی رو سے جسم پر جس قدر بال ہیں ان میں سے بعض  کے متعلق احادیث میں مونڈنے (عانہ) یا اکھیڑنے (بغل کے بال) کا حکم آیا ہے, پس انہیں مونڈنا یا نہ مونڈنا یا اکھیڑنا یا نہ اکھیڑنابھی (آپ کی فقہ کی مقدار کے مطابق) بھی عبادات میں ہی شمار ہوگا؛ عورت کے سر کے بالوں کو خاصا لمبا رکھنے  کا حکم آیا ہے اور انہیں بہت  چھوٹا کرنے کی سخت ممانعت آئی ہے, پس یہ بھی آپ کی رو سے عبادات میں ہی شمار ہوگا.  بلکہ اسی اصول کی رو سے ناخن بڑھانا یا کاٹنا بھی رسمی عبادت کی ہی ایک شکل ہوگی. اس کے علاوہ ایک بات اور بھی آپ کہتے ہیں کہ "عبادات کے فروعی احکام میں فتوی بالکل بدل جائے گا" (اپنا پہلا تبصرہ دیکھیں) تو اب چاہےجسم پر کہیں بھی بال بڑھیں یا ناخن, ان کو کسی بھی حد تک کاٹنا/مونڈنا یا نہ کاٹنا/نہ مونڈنا بھی عبادات کے فروعی احکام قرار پائیں گے, پھر آپ ہی کے نقطہ نظر سے غسل و وضو بلکہ غسل جنابت بھی عبادات کے فروعی احکام ہیں, پھر ان میں ایک شخص چاہے تو اپنی ڈیڑھ اینٹ کی فقہ لے کر الگ بیٹھ جائے اور ان کو بالکل بدل دے! خواہ صحابہ کا عمل کچھ بھی کیوں نہ ہو! مثلاً وہ بیوی سے صحبت کرے اور غسل جنابت نہ کرے اور جب اس سے گھر کے لوگ پوچھیں کہ تم کبھی غسل نہیں کرتے اور مسجد میں جا کر نماز پڑھ لیتے ہو, تو وہ آپ کی فقہ کے مطابق جواب دے کہ یہ تو عبادات سے متعلق  فروعی حکم ہے جس کو بدلا جا سکتا ہے! معاذ اللہ.

آپ کو معلوم ہو کہ فروعی حکم بھی نہیں بدلتا اگر وہ اللہ کے رسول کی صریح احادیث سے ثابت ہو. البتہ فروعی احکام جن مذہبی متون سے برامد ہوتے ہیں ان کے معنی اگر ایک سے زیادہ نکلتے ہوں, تو یہ ایک فروعی مسئلہ اور فروعی اختلاف ہوا. غرض فروعی حکم اور فروعی احکام میں اختلاف دو باتیں ہوئیں. لیکن یہ کہنا کہ ہم سرے سے فروعی حکم کو ہی نہ مانیں گے, یا اس کو جب چاہے بدل دیں گے, اس سے بے شمار رکاوٹیں پیدا ہو جائیں گی اور اسلام پر عمل ناممکن ہو جائے گا.
بال, داڑھی, ناخن, اور لباس کی تراش  خراش اور ہماری وضع قطع کا تعلق بالذات رسمی عبادات سے نہیں بلکہ ہماری معاشرت اور ہمارے معاملات سے ہی ہے. ہماری ہر ایک حرکت کا اثر دوسروں پر پڑتا ہے, مسلمانوں میں سے کوئی شخص اگر سرعام برہنہ ہو جائے  تو اس سے دوسروں کا براہ راست کچھ نہیں بگڑتا, لیکن اس کا بالواسطہ اثر دوسروں پر ضرور پڑتا ہے. بالخصوص داڑھی کا مونڈنا حقیقی مومن عورتوں کو سخت ناپسند ہوگا اور بہت سی مسلمان خواتین کو پسند ہوگا. داڑھی اور جسم کے دوسرے بالوں کے رکھنے یا نہ رکھنے کا تعلق چونکہ جنڈر اپیل سے بھی ہے, صفائی و ستھرائی, ذوق سلیم, تزئین و آرائش, اور آداب نمائش سے بھی ہے, اور اس کا اثر پورے معاشرے پر پڑتا ہے, اگر ایک شخص داڑھی منڈا کر یا فرینچ کٹ داڑھی رکھ کر سر بازار گھومے تو اس کا اثر لازماً دوسروں پر پڑےگا, اسی طرح ملبوسات اور ستر عورت کا معاملہ ہے کہ ایک شخص غیر شرعی لباس پہنے جس سے ستر عورت کی سربازار نمائش ہوتی ہو, تو بے شک وہ ایسا کام کرتا ہے جس سے دوسرے بالواسطہ طور پر متاثر ہوتے ہیں, اس لیے شخصی طور طریقوں اور  تزئین و آرائش کا انداز بھی بالواسطہ طور پر معاملات کے اندر ہی آتا ہے. عبادات سے بھی ان کا تعلق ضرور ہے لیکن وہ عبادت کی شرطیں ہیں, اور بالذات عبادت نہیں, عبادت کے فروعی احکام میں ان کا شمار نہیں کیا جا سکتا.
میں مفتی تو نہیں ہوں, اس لیے جو کچھ میں نے کہا ہے اس میں ممکن ہے فقہی اصطلاحات سے متعلق غلطیاں پائی جائیں. جو کچھ میں کہہ رہا ہوں, اس کے مافی الضمیر کو سمجھنے کی ضرورت ہے.