پیر، 16 نومبر، 2015

اسلامسٹوں کا فریبِ تکثیریت


ایک اسلامسٹ جب تکثیریت (پلورلزم) کی اہمیت پر لیکچر دیتا ہے تو میں سوچنے لگتا ہوں کہ یا خدا, یہ عجوبہ کیونکر ممکن ہوا! جو لوگ سر تا پا وحدانیت (سنگولرازم) میں ڈوبے ہوں اور ساری دنیا میں اسلام ایک مکمل نظام حیات مارکہ دعوتی جد و جہد میں مصروف ہوں اور اس کے ذریعے مسلمان نوجوانوں کو اقامت دین کی فرضیت کا سبق پڑھاتے اور ایک وحدانی مذہبی ریاست یعنی خلافت علی منہاج النبوۃ کے قیام کا خواب دکھاتے ہوں, اور اپنی ان سرگرمیوں کو رضائے الٰہی اور فلاح آخرت کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہوں, ایسے لوگ تکثیریت کی گردان کرنے لگیں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ وہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتے ہیں. انہیں دنیا میں جب اور جہاں بھی اقتدار حاصل ہوگا, وہ  اجتماعی زندگی کی تنظیم اپنے وحدانی اصولوں کے علاوہ کس دوسرے اصول پر کر ہی نہیں سکتے.

کتنی الٹی بات ہے کہ فکری سطح پر تکثیریت کا اثبات اور وحدانیت کی نفی وہ رجعت پسند کریں جو اپنے مذہب کو حق کا واحد ترجمان اور دوسروں کے مذہب کو بدعات و خرافات اور تحریفات کا مجموعہ بتاتے ہوں, جو اپنے مذہبی افکار و نظریات کے سوا ہر دوسرے نظریہ کی تردید کرتے ہوں, جن کے ابطالی اور تغلیطی لٹریچر میں جدید اور مابعد جدید مغربی افکار و نظریات کے خلاف طنز و استہزا, ملامت, دشنام طرازی اور زہر افشانی کے سوا کچھ نہ پایا جاتا ہو, اور جو قدم قدم پر مذہب و عقائد کے وحدانی تصور پر ایمان نہ لانے والے کو جہنم کی بشارت دیتے ہوں!

تکثیریت کے معنی یہ ہیں کہ حق کا کوئی ایک اڈیشن نہیں اور زندگی گزارنے کا کوئی ایک طریقہ بقیہ طریقوں سے برتر یا کمتر نہیں. کوئی ایک مذہب, کوئی ایک تہذیب, کوئی ایک نظام, کوئی ایک مجموعہ قانون بقیہ تمام مذاہب, تہذیبوں, نظاموں اور قوانین کے مقابلے میں کوئی تخصیص, کوئی امتیاز نہیں رکھتا, سب اپنی اپنی جگہ برحق ہیں الا یہ کہ ان میں کوئی چیز ایسی ہو جو روح عصر اور نوع انسانی کے ارتقایافتہ شعور کے صریحی خلاف ہو.اصل بات یہ ہے کہ یہ اسلامسٹ تکثیریت کا راگ اس لیے الاپ رہے ہیں کہ اس کی آڑ میں ان کی وحدانی سیاسی دعوت فروغ پاتی رہے یہاں تک کہ وہ کثرت آرا سے ایک میجریٹیرین مذہبی نظام قائم کر سکیں جس کو وہ اقامت دین کے نام سے یاد کرتے اور تاریخ دعوت و جہاد کا ایک حصہ سمجھتے ہیں ۔ اسلامسٹوں کی تکثیریت ایک تقیہ اور لبادہ ہے۔ یہ ان کی مصلحت اور اسٹریٹجی ہے جس سے کام لے کر وہ آخرش اسی تکثیریت کو فنا کر دیں گے جس کی فراہم کردہ  آزادانہ  فضا میں وہ اپنے وحدانی اپروچ کو زندہ رکھتے اور تمکن فی الارض کے نصب العین تک پہنچنا چاہتے ہیں۔

پیر، 2 نومبر، 2015

فکری پسماندگی کی کچھ علامتیں

فکری طور پر پسماندہ وہ ہوتا ہے جو دنیائے فکرو نظر میں اپنی تمام تر ذہنی قوت کے ساتھ ازکار رفتہ مذہبی یا قومی عقائد و افکار کا راگ الاپتا رہے اور آگے نکل جانے والی قوموں سے بغض و حسد رکھتا ہو. ایسے لوگوں کی بہت سی علامتیں ہیں:  تعقل پسندی اور مغربی فلسفہ و سائنس کی تحقیر کرنا, مغربی فلسفہ و سائنس کے مقابلے میں اپنی ڈیڑھ اینٹ کے منقولاتی اجدادی فلسفہ و سائنس کی  بنا ڈالنا, نوع انسانی پر اپنی تاریخی قوم کے ذریعے کیے جانے والے علمی احسانوں کو یاد دلاتے رہنا کہ ہم نے فلاں تحقیق سب سے پہلے پیش کی اور ہم نہ ہوتے تو دنیا  علمی و تکنیکی ترقی کے موجودہ مقام تک ہرگز نہ پہنچتی, اوریجنل اور گہرے فکری, تحقیقی کام کے ذیل میں صرف مقدس کتابوں کی شرحیں اور حاشیے لکھنا, مذہب اور سائنس میں تطبیق دینے کی ناکام کوشش کرتے رہنا, جدید تہذیب کو گمراہ, بے حیا اور بے شرم قرار دینا, اپنے اخلاقی نقطہ نظر کو پورے قوم کا اخلاقی نقطہ نظر بنانے کی کوشش کرنا, ماضی بعید کی عظمت و شوکت کی گردان کرتے رہنا, کوئی بھی نئی بات سنتے ہی آگ بگولا ہو کر پوچھنا کہ یہ کہاں لکھا ہے اور یہ کس سے ثابت یا منقول ہے؟

جمعرات، 20 اگست، 2015

دعوتِ دین اور داڑھی کی شرعی مقدار

فیس بک پر میرا ایک اسٹیٹس اپڈیٹ (تاریخ یاد نہیں):
مقلدین مودودی ﮐﻮ ﻻﮐﮫ ﺳﻤﺠﮭﺎﺅ ﮐﮧ ﺑرادرانِ اسلام, ﺍﮔﺮ آپ ﮐﻮ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﮐﺮنی ﮨﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﺸﺖ ﺑﮭﺮ ﺩﺍﮌﮬﯽ سنت کے مطابق ﺭکھیں, تفریحی اغراض سےﺍﭘﻨﯽﺗﺼﻮﯾﺮﯾﮟﮐﮭﻨﭽﺎﻧﺎ ﺑﻨﺪ ﮐﺮیں, ﻓﻠﻢ ﺑﯿﻨﯽ ﺳﮯ ﺳﺨﺖ ﺍﺣﺘﺮﺍﺯ ﮐﺮیں, ﺍﻟﻐﺮﺽ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﻣﮑﺎﻧﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﺍﺕ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮ لیں, ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﻋﻮﺕِ ﻋﺎﻡ فرمائیں, ﻟﯿﮑﻦ ﻗﺮﺁﻥ ﻭ ﺳﻨﺖ ﺳﮯ ﻗﻄﻌﯽ معروضی ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺛﺎﺑﺖ ﺍﻥ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺟﺐ بھی انہیں متوجہ کیا ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ, ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﺬﺍﻕ ﺍﮌﺍﻧﮯ ﻟﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ.
ﺟﺐ ﻭﮦ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﮌﮬﯽ کی مقدار ﺷﺮﻁ ﻧﮩﯿﮟ تو وہ اس مسئلے میں مولانا مودودی کے من مانے فتوے پر چل رہے ہوتے ہیں. ﭼﻮﻧﮑﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﻮﻝ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺲ سے ﺩﺍﮌﮬﯽ ﮐﯽ صریحی ﻣﻘﺪﺍﺭ ﻣﺘﻌﯿﻦ ہوتی ہو, اس لیے  علامہ مودودی نے حدیث میں گنجائش پیدا کرتے ہوئے داڑھی کی روایتی مقدار میں تخفیف فرما دی تھی (دیکھیں رسائل و مسائل) جس کے نتیجے میں مشت بھر سے خاصی ﮐﻢ ﺩﺍﮌﮬﯽ رکھنے کی ایک نئی سنت (صحیح معنوں میں بدعت) رائج ہو گئی. مجھے علم نہیں کہ مولانا مودودی نے اس رخصت سے کس حد تک فائدہ اٹھایا, لیکن آج دنیائے علم و ادب, یونیورسیٹیوں, کالجوں اور دفاتر  میں پائے جانے والے تجدد پسند اسلامسٹوں میں داڑھی کا مودودی ماڈل بیحد مقبول ہے.
ﺍتنی ﮐﻢ ﺩﺍﮌﮬﯽ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﺳﮯ ﺑﻈﺎﮨﺮ یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ شخص "کٹھ ملا" ہے، بلکہ اول اول ایک سنجیدہ مفکر کا تاثر قائم ہوتا ہے.
ایک مشت داڑھی کی قید سے شرعاً نجات پانے کے بعد رفتہ رفتہ سینٹی میٹر بلکہ میلی میٹر میں بھی ٹریمر سے داڑھی ٹرم کرنے کی ایک روایت عملاً وجود میں آ گئی, اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام پسندوں کی خاصی اسمارٹ صورت نکل آئی. ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺷﮑﻞ ﻭ صورت ﻣﯿﮟ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﺫﻭﻕ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺭﻋﺎﯾﺖ ﮨﻮ گئی ﺍﻭﺭ ﻗﻮﻝ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﯽ ﭘﺎﺳﺪﺍﺭﯼ ﺑﮭﯽ. ﺭﻧﺪ ﮐﮯ ﺭﻧﺪ ﺭﮨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺟﻨﺖ ﻧﮧ ﮔﺌﯽ!
جب کبھی روایتی علما نے ان سے سوال کیا کہ یہ سنت کی پیروی کا کون سا طریقہ آپ نے اپنایا ہے تو ان کا جواب یہی تھا کہ تم اسلام کو داڑھی میں قید سمجھتے ہو؟ اسلام  کرتے پاجامے کی مخصوص کاٹ اور داڑھی کا طول و عرض نہیں, یہ سب تو چھوٹی موٹی اور فروعی بحثیں ہیں, اصل چیز تو تقوی ہے جس کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ وہ دل میں ہوتا ہے. ان مودودیوں کو ایسی تاویلیں کرتے ہوئے یہ بھی نہ سوجھا کہ قرآن و سنت سے معنی اخذ کرنے کا ان کا طریقہ بھی وہی ہے جو روایتی علما کا ہے, اور احکام شریعت کے نفاذکے معاملے میں یہ ہرگز نہیں دیکھا جاتا کہ معاملہ چھوٹا ہے یا بڑا, بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ خود مذہبی متن سے کیا معنی برآمد ہوتے اور صحابہ و سلف ان سے کیا مراد لیتے آ رہے ہیں. اور داڑھی کی مقدار کا مسئلہ اس قدر چھوٹا موٹا اور غیراہم ہے تو کیوں نہیں یہ مودودیے ایک مشت داڑھی رکھ ہی لیتے ہیں؟ اور اگر یہ اتنی ہی غیر اہم فروعی بات ہوتی تو داڑھی نہ رکھنے پر روایتی علمائے کرام فاسق اور مردود الشہادۃ ہونے کا فتوی کیوں دیتے؟ اور یہ فتوی تو اسی روایتی فقہی طریقے سے لگایا جاتا ہے جس طریقے سے نکاح و طلاق کے مسائل میں فتوے لگائے جاتے ہیں. پھر روایتی فقہ کے ایک نتیجے کو ماننے اور ایک کو نہ ماننے کا کیا مطلب ہے؟

اس پر ایک صاحب نے درج ذیل تبصرہ کیا:

ڈاڑھی کا رکھنا معاملات کی قبیل سے ہے یا عبادات کی؟  اس بات کو سمجھنے سے شرعی حکم کی نوعیت بمعنی فتوی بالکل بدل جائے گی اور بالخصوص جب کہ اس کا تعلق بھی فروعی احکام سے ہو.

میں نے ان کے تبصرہ کا درج ذیل جواب دیا:

پس, آپ کے فتوے کی رو سے ستر عورت کے مروجہ حدود بھی ختم ہو جائیں گے, اور دوپٹہ رکھنا بھی لازم نہیں ہوگا, بلکہ منی اسکرٹ پہن کر نامحرم مردوں سے تنہائی میں ملنا بھی عورت کے لیے جائز ہو جائے گا کیونکہ ان سب باتوں کا تعلق بھی عبادات سے نہیں معاملات سے ہے. اسی طرح چور کے ہاتھ کاٹنے کی سزا بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی کیونکہ یہ بھی عبادات میں سے نہیں ہے. آپ یہ کہہ کر نہیں بچ سکتے کہ یہ قرآن کا حکم ہے (اس لیے اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی)  کیونکہ قرآن خود یہ کہتا ہے کہ جو کچھ اللہ کے رسول تمہیں دیں اسے لے لو, اور جس چیز سے منع کریں, اس سے رک جاؤ.
اس لیے ایک بار کسی حدیث کے متعلق یہ بات ثابت ہو گئی کہ یہ واقعی قول رسول ہے اور اس میں کسی بات کا حکم دیا جا رہا ہے تو آپ کے فتوے کے مطابق اگر وہ عبادات میں سے نہ ہو کر معاملات میں سے ہو, تو اس کو بدلا جا سکتا ہے؟ یہی کہنا چاہتے ہیں نہ آپ؟ تو اب میں آپ کے مطابق تبدیل شدہ فقہی احکام کی ایک فہرست مرتب کروں, یا آپ خود ہی کریں گے؟

میرے مذکورہ بالا تبصرے کے بعد انہوں نے درج ذیل جواب دیا:
آپ کے مذکور نکات درست ہوتے اگر ڈاڑھی کا تعلق معاملات میں سے ہوتا. میں اس کو عبادات کے فروعی احکام میں سے سمجھتا ہوں.  "معاملات" کی لفظی ترکیب خود اس بات کی وضاحت ہے کہ ایسے امور جو سماج کے باہمی اتصال و احکام پر مشتمل ہوں. کسی کی ڈاڑھی بڑی ہے یا چھوٹی، ایک مشت ہے یا کم یا سرے سے ہے ہی نہیں اس بات کا "معاشرتی معاملات" سے کیا تعلق؟؟

میرا جواب:
یوں تو انسان کا ہر کام عبادت ہے جو اللہ کے حکم کے مطابق انجام دیا جائے لیکن اصطلاحی معنوں میں عبادات سے مراد  پرستش کے وہ مخصوص رسمی طریقے ہیں جن کو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نازل کیا ہے.
داڑھی رکھنا عبادت کا کوئی مخصوص اور رسمی طریقہ نہیں ہے کیونکہ ایک تو ہر انسان کے داڑھی ہو, یہ ضروری نہیں؛ دوسرے, عورتوں کو سرے سے داڑھی ہوتی ہی نہیں جس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ ایک عبادت سے محروم ہیں؛  تیسرے, مذہبی عبادات انسان کے اضطراری افعال (مثلاً سانس لینا) کے بجائے ایسے اختیاری اعمال پر مبنی ہوتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فلاں مذہب کے ماننے والوں کا طریقہ پرستش ہے, اور داڑھی کوئی اختیاری چیز نہیں یعنی داڑھی کا اگانا یا نہ اگانا بندے کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہے, بلکہ یہ سراسر ایک فطری امر ہے کہ کسی کو داڑھی ہوتی ہے اور کسی کو نہیں, چوتھے, ہر انسان کے اختیار میں چونکہ داڑھی کا اگانا یا نہ اگانا نہیں بلکہ اگر داڑھی اگے تو اس کو رکھنا یا نہ رکھنا ہے, اس لیے داڑھی کے مسئلے میں لفظ عبادت کا اطلاق خود آپ ہی کے نقطہ نظر سے تبھی درست مانا جائے گا جب آپ اس کو چھوڑ دیں یا مونڈیں. (کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ کے نزدیک داڑھی کا رکھنا عبادت ہے یا اس کا مونڈنا؟)  پانچویں, پھر آپ ہی کے نظریے کی رو سے جسم پر جس قدر بال ہیں ان میں سے بعض  کے متعلق احادیث میں مونڈنے (عانہ) یا اکھیڑنے (بغل کے بال) کا حکم آیا ہے, پس انہیں مونڈنا یا نہ مونڈنا یا اکھیڑنا یا نہ اکھیڑنابھی (آپ کی فقہ کی مقدار کے مطابق) بھی عبادات میں ہی شمار ہوگا؛ عورت کے سر کے بالوں کو خاصا لمبا رکھنے  کا حکم آیا ہے اور انہیں بہت  چھوٹا کرنے کی سخت ممانعت آئی ہے, پس یہ بھی آپ کی رو سے عبادات میں ہی شمار ہوگا.  بلکہ اسی اصول کی رو سے ناخن بڑھانا یا کاٹنا بھی رسمی عبادت کی ہی ایک شکل ہوگی. اس کے علاوہ ایک بات اور بھی آپ کہتے ہیں کہ "عبادات کے فروعی احکام میں فتوی بالکل بدل جائے گا" (اپنا پہلا تبصرہ دیکھیں) تو اب چاہےجسم پر کہیں بھی بال بڑھیں یا ناخن, ان کو کسی بھی حد تک کاٹنا/مونڈنا یا نہ کاٹنا/نہ مونڈنا بھی عبادات کے فروعی احکام قرار پائیں گے, پھر آپ ہی کے نقطہ نظر سے غسل و وضو بلکہ غسل جنابت بھی عبادات کے فروعی احکام ہیں, پھر ان میں ایک شخص چاہے تو اپنی ڈیڑھ اینٹ کی فقہ لے کر الگ بیٹھ جائے اور ان کو بالکل بدل دے! خواہ صحابہ کا عمل کچھ بھی کیوں نہ ہو! مثلاً وہ بیوی سے صحبت کرے اور غسل جنابت نہ کرے اور جب اس سے گھر کے لوگ پوچھیں کہ تم کبھی غسل نہیں کرتے اور مسجد میں جا کر نماز پڑھ لیتے ہو, تو وہ آپ کی فقہ کے مطابق جواب دے کہ یہ تو عبادات سے متعلق  فروعی حکم ہے جس کو بدلا جا سکتا ہے! معاذ اللہ.

آپ کو معلوم ہو کہ فروعی حکم بھی نہیں بدلتا اگر وہ اللہ کے رسول کی صریح احادیث سے ثابت ہو. البتہ فروعی احکام جن مذہبی متون سے برامد ہوتے ہیں ان کے معنی اگر ایک سے زیادہ نکلتے ہوں, تو یہ ایک فروعی مسئلہ اور فروعی اختلاف ہوا. غرض فروعی حکم اور فروعی احکام میں اختلاف دو باتیں ہوئیں. لیکن یہ کہنا کہ ہم سرے سے فروعی حکم کو ہی نہ مانیں گے, یا اس کو جب چاہے بدل دیں گے, اس سے بے شمار رکاوٹیں پیدا ہو جائیں گی اور اسلام پر عمل ناممکن ہو جائے گا.
بال, داڑھی, ناخن, اور لباس کی تراش  خراش اور ہماری وضع قطع کا تعلق بالذات رسمی عبادات سے نہیں بلکہ ہماری معاشرت اور ہمارے معاملات سے ہی ہے. ہماری ہر ایک حرکت کا اثر دوسروں پر پڑتا ہے, مسلمانوں میں سے کوئی شخص اگر سرعام برہنہ ہو جائے  تو اس سے دوسروں کا براہ راست کچھ نہیں بگڑتا, لیکن اس کا بالواسطہ اثر دوسروں پر ضرور پڑتا ہے. بالخصوص داڑھی کا مونڈنا حقیقی مومن عورتوں کو سخت ناپسند ہوگا اور بہت سی مسلمان خواتین کو پسند ہوگا. داڑھی اور جسم کے دوسرے بالوں کے رکھنے یا نہ رکھنے کا تعلق چونکہ جنڈر اپیل سے بھی ہے, صفائی و ستھرائی, ذوق سلیم, تزئین و آرائش, اور آداب نمائش سے بھی ہے, اور اس کا اثر پورے معاشرے پر پڑتا ہے, اگر ایک شخص داڑھی منڈا کر یا فرینچ کٹ داڑھی رکھ کر سر بازار گھومے تو اس کا اثر لازماً دوسروں پر پڑےگا, اسی طرح ملبوسات اور ستر عورت کا معاملہ ہے کہ ایک شخص غیر شرعی لباس پہنے جس سے ستر عورت کی سربازار نمائش ہوتی ہو, تو بے شک وہ ایسا کام کرتا ہے جس سے دوسرے بالواسطہ طور پر متاثر ہوتے ہیں, اس لیے شخصی طور طریقوں اور  تزئین و آرائش کا انداز بھی بالواسطہ طور پر معاملات کے اندر ہی آتا ہے. عبادات سے بھی ان کا تعلق ضرور ہے لیکن وہ عبادت کی شرطیں ہیں, اور بالذات عبادت نہیں, عبادت کے فروعی احکام میں ان کا شمار نہیں کیا جا سکتا.
میں مفتی تو نہیں ہوں, اس لیے جو کچھ میں نے کہا ہے اس میں ممکن ہے فقہی اصطلاحات سے متعلق غلطیاں پائی جائیں. جو کچھ میں کہہ رہا ہوں, اس کے مافی الضمیر کو سمجھنے کی ضرورت ہے.

پیر، 17 اگست، 2015

احسان اور تجارت

نزاع اجنبیوں سے نہیں، اپنوں سے ہوتی ہے۔ اپنوں سے ہمیں جائز و ناجائز توقعات ہوتی ہیں جن کے پورا نہ ہونے پر ہم ان سے جھگڑتے ہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ کسی کو اپنا نہ سمجھا جائے۔ اگر ہم دوسروں کو اپنا نہ سمجھیں گے تو توقع ہی ختم ہو جائے گی۔ بقول غالب:
جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
اس کے بعد نہ کسی سے دشمنی ہے اور نہ کسی سے دوستی۔ البتہ جس قدر دوسروں کا ہم نے احسان لیا ہے، اسی قدر احسان انہیں ہم ادا کر دیں۔ لیکن اس میں ایک شرط ہے، وہ یہ کہ اگر اگر ہم کسی کا احسان اپنے سر لیں تو بس اتنا کہ اس کو ہم ادا کر سکیں۔ اتنا زیادہ احسان لے لینا کہ اس کو ادا کرنا ہمارے لیے ممکن نہ ہو، مناسب نہیں ہے۔ بالفرض، کسی سے اتنا زیادہ احسان لینے کی نوبت آ ہی جائے تو پھر اسی وقت کہہ دینا چاہیے کہ بھائی میں اتنا زیادہ ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہوں گا۔ اس لیے تم میری طرف سے اپنے اس احسان کا بدلہ پانے کی توقع مت رکھنا۔ یہی وہ شرط ہے جسے عائد کرنے کی جرات احسان اٹھاتے وقت ہم کو ہو، تو ہم اپنے تئیں دوسروں کے توقعات کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر، ہم دوسروں سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ اگر ہم پر احسان کرنا ہی چاہتے ہیں تو اس کا بدلہ پانے کی توقع ہم سے بالکل نہ رکھیں۔ اسی طرح ہم دوسروں پر کوئی احسان کرنا چاہیں، تو اس کا بھی بدلہ پانے کی توقع رکھنا ہمارے لیے صحیح نہیں ہو سکتا۔
لیکن اگر ہم زندگی کو تجارت سمجھتے ہوں تو پھر اس پر تجارت کے اصول و قوانین نافذ کرنے ضروری ہیں۔ پھر اس کے بعد یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم دوسروں پر احسان کریں اور دوسروں سے احسان کی توقع نہ رکھیں۔ زندگی اگر تجارت ہے تو پھر اپنوں اور دوسروں کے احسان کو تجارت کے ترازو پر تولنا ہمارے لیے ضروری ہے۔ پھر کسی پر ایک احسان کرنے کے بعد ہم اسے یاد دلا سکتے ہیں کہ ہم نے آپ پر فلاں احسان کیا تھا۔ لیکن اگر ہم زندگی کو تجارت نہ سمجھ کر سراپا احسان سمجھیں تو پھر زندگی کی اس تجارت میں ہونے والے نفع و نقصان سے بے نیاز ہو جانا ہمارے لیے ضروری ہے۔ بلکہ زندگی کو احسان کے طور پر تسلیم کرنے کے بعد زندگی سےتجارتی رویہ کو رخصت ہو جانا چاہیے۔ پھر نہ کسی کو بدلہ دینا ہے اور نہ کسی سے بدلہ لینا ہے۔ بس احسان کرتے چلے جانا ہے اور کبھی بھول کر بھی کسی سے احسان کا بدلہ نہیں چاہنا ہے۔
احسان کا نہ کوئی بدل ہو سکتا ہے اور نہ اس کو خود تسلیم کرنے یا دوسروں سے کرانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پس، شکریہ کے الفاظ بھی غیرضروری ہیں۔ جس وقت ایک شخص ہم پر احسان کرتا ہے، اگر ہم اسی وقت اس کا شکریہ ادا کر دیں تو گویا زندگی ایک تجارت ہو گئی، ہم نے شکریہ کا لفظ کہہ کر احسان کا بدلہ چکا دیا۔ اسی طرح اپنے احسان کے بدلے کسی سے شکریہ کی توقع رکھنا بھی عبث ہے کیونکہ آپ زندگی کو تجارت نہیں احسان سمجھتے ہیں اور احسان کی نوعیت ہی یہ ہوتی ہے کہ اس کے بدلے آپ کچھ بھی نہ چاہیں، یہاں تک کہ شکریہ کے کلمات بھی نہیں۔ شکریہ احسان کی رسید نہیں ہے۔ کیونکہ احسان کوئی تجارتی قسم کی چیز نہیں۔ شکریہ ادا کرنا ہمارا فرض بھی نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ فرض وہی ہوتا ہے جس کو ہم اپنے ذمے قرض سمجھیں۔ اور کسی شخص کا ہم پر احسان کرنا قرض نہیں ہے، بلکہ بالکل مفت ہے۔ اور جو چیز بالکل مفت حاصل ہو، اس کے لیے کسی کو شکریہ کہنا نہ صرف یہ کہ وقت اور انرجی کی بربادی ہے، بلکہ اس احسان کو تجارت بنا دینا ہے جو ہم پر کسی اور نے کیا ہے۔
لیکن یہ بھی تو ممکن ہے کہ شکریہ کے وہ معنی ہی نہ ہوں جو ہم اب تک سمجھتے آئے ہیں۔ یہاں ہمیں شکریہ کے عام رائج مفہوم سے یا لغوی مفہوم سے بحث نہیں ہے۔ شکریہ کے معنی صرف مسرت کے ہیں۔ اگر ایک شخص نے آپ کو چائے پلا دی اور آپ واقعی چائے کی ضرورت محسوس کر رہے تھے تو اس پر آپ کو خوشی ہونی چاہیے اور آپ کے منہ سے اہا، واہ جیسے الفاظ نکلنے چاہئیں۔ یہ گویا اس بات کی اطلاع ہے کہ چائے دیکھ کر آپ کی طبیعت خوش ہوئی۔ چائے پلائے جانے پر جو واہ زبان سے ادا ہوئی، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ نے ایک رسید کاٹ کر دے دی کہ ہاں بھائی، میں اس وقت چائے کی ضرورت محسوس کر رہا تھا، جو تم نے پوری کر دی تو اب میں بھی تمہیں کبھی چائے پلا دوں گا۔ واہ کے معنی اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ آپ کو از حد خوشی ہوئی۔ واہ کا مطلب صرف اظہارِ مسرت سے ہے۔ اور جو مطلب واہ کا ہے، وہی شکریہ کا بھی ہے۔ اس لیے شکریہ بھی اصلاََ صرف اپنے لیے ہے کیونکہ لطف ہمیں آیا اور چونکہ ہمارے محسن کو احسان کر کے لطف ملا، اس لیے ہم نے لفظ شکریہ اس کو بھی سنایا تا کہ اجتماعی لطف آ سکے۔
اس بات کی اطلاع ہے کہ آپ کو اپنے اوپر کیے جانے والے کسی احسان سے خوش ہوئی، یا آپ کی کوئی ضرورت پوری ہوئی۔ اس اطلاع سے آپ کے محسن کو بھی مسرت کا احساس ہوگا کہ چلو میری کوشش یا سرمایہ ضائع ہونے کے بجائے کسی کے کام آ گیا۔ یعنی احسان جو ہے وہ اگر نہ کیا جائے تو سراسر ایک ضائع ہو جانے والی چیز ہے۔ نیکی کر دریا میں ڈال کا مفہوم بھی یہی ہے کہ آپ نے جو نیکی کی، اگر وہ نہ کرتے تو بھی اس نیکی پر آنے والا صرفہ یا سرمایہ ضائع ہی ہو جانے والا تھا، اب آپ نے نیکی کر ہی دی، تو اس میں آپ کی کیا تخصیص ہے، ایسی نیکی پر تو وہ لوگ بھی قادر ہیں جنہوں نے یہ نہیں کیا، آپ نے کر دیا تو اس کے معنی یہ تھوڑے ہی ہوئے کہ آپ بڑی قدرت رکھتے ہیں جس کا احسان خدا کی طرح جتا رہے ہیں اگر آپ نے کوئی نیکی کی، اور وقت بے وقت اس کی گردان کرتے رہے، تو سمجھیے کہ آپ نے جو کچھ کیا، وہ بنیادی طور پر از قسم تجارت ہے۔ اور اب آپ بازار میں کھڑے ہو کر اس کی قیمت لگوا رہے ہیں۔ اور اس دنیا کی ریت یہی ہے کہ وہ مال خریدنے سے پہلے مول جول کرتی ہے۔ پھر آپ کے مال پر خریدار جرح کیوں نہ کریں گے؟ تجارت کے ہر مال کی طرح آپ کا مال بھی بازار کی زینت بنے گا اور لوگ اس کے دام لگائیں گے۔ اس میں شک نہیں کہ تجارت کرنا بھی ایک قسم کی نیکی ہی ہے اگر آپ اس میں نہ ڈنڈی ماریں اور نہ حق سے زیادہ منافع لیں۔
معلوم ہوا کہ نیکی دو قسم کی ہوتی ہے۔ تجارتی اغراض سے کی جانے والی نیکی، اور بالکل مفت یعنی دریا میں ڈال دینے والی نیکی۔ احسان جتانے والے زیادہ تر لوگوں سے مجھے اسی لیے کوفت ہوتی ہے کہ وہ ایک طرف تو اپنے ہی ذریعے کی گئی نیکی کی نوعیت کو نہیں سمجھ پاتے اور تکلیف دہ حد تک اپنے ذریعے کے جانے والے احسانات کا بدلہ، اور وہ بھی ان کے تمام تر احسانات سے زیادہ بدلہ چاہتے ہیں جو انہوں نے کیے ہیں۔۔ وہ اس بات کو نہیں سمجھ پاتے کہ اگر وہ نہ ہوتے تب بھی کوئی نہ کوئی میری مدد کرتا ہی، اور اگر کوئی نہ ہوتا تو میں اپنی مدد آپ کرتا۔ پھر ایسا بھی نہیں کہ جن لوگوں نے میرے ساتھ کوئی احسان کیا ہو، میں نے کبھی ان کا کوئی کام سرے سے کیا ہی نہ ہو۔ اپنے بہتیرے دوستوں کے لیے میں نے بہت کچھ کیا ہے، اور اکثر کسی بدلے کی خواہش کے بغیر کیا۔ البتہ کبھی کبھار ایسا ضرور محسوس ہوا کہ میں فلاں کا کام کر رہا ہوں تو وہ بھی ضرور میرا کام کر دے گا۔ لیکن مجھے تسلیم ہے کہ یہ کوئی اچھی سوچ نہیں. 
جن دوستوں کے لیے میں نے اپنا بہت وقت صرف کیا ہے، اس پر مجھے نہ کبھی کوئی افسوس ہوتا ہے اور نہ میں نے کبھی اس کا کوئی حوالہ اپنے کسی دوست کو دیا ہے اور نہ آئندہ کبھی دینے کی خواہش ہے۔
ایک شخص جو آپ کا ساتھی ہو، آپ کا دن رات اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہو، اگر وہ اس قسم کا طرز عمل اپنائے تو ذہنی اذیت کا ہونا لازمی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا احسان، خواہ وہ قلم گر جانے پر اٹھا دینے، یا دو چار گھنٹوں سے لے کر دو چار دنوں تک دوڑ دھوپ کرنے کا احسان ہی کیوں نہ ہو، کیا اسی لیے کیا گیا تھا کہ اس کا بدلہ چاہا جائے؟ اور ہمیشہ ہمیشہ مختلف طریقوں سے اس کا حوالہ دیا جاتا رہے؟ کیا اس کا مطلب یہ نہ ہوا کہ کسی کا احسان اٹھا کر گویا ہم نے ایک دائمی اذیت مول لے لی۔ اب ہم اس کے ہاتھوں گروی ہو گئے کہ وہ جب چاہے اپنے احسانات کا حوالہ دے اور ہر مرتبہ ہم اس کے آگے دم ہلانے پر مجبور ہوں۔ ہم بارہا لوگوں کے منہ سے سنتے آئے ہیں کہ کسی کا احسان نہیں اٹھانا چاہیے، لیکن اس کا صحیح مفہوم اس وقت تک سمجھ میں نہیں آ سکتا جب تک کہ آپ عملا کسی کے احسان کے شکار نہ ہوئے ہوں۔ ہمیشہ دھیان رکھنا چاہیے کہ لوگ احسانات کر کے دراصل آپ کا شکار کر رہے ہیں، اس لیے بہتر یہی ہے کہ کسی کا احسان لینے سے پہلے بار بار سوچیں کہ تھوڑی سی زحمت سے بچنے کے لیے آپ مستقبل میں اپنے لیے کوئی بڑی مصیبت تو کھڑی نہیں کر رہے۔
لیکن زندگی میں ایسے موڑ بھی آ سکتے ہیں جب دوسروں کا احسان اٹھانا ہمارے لیے ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اس لیے ایسے احسانات کو تجارتی نوعیت کا سمجھنا چاہیے اور انہیں وقتاََ فوقتاََ چکتا کرتے رہنا چاہیے الا یہ کہ احسان کرنے والا عالی ظرف اور وسیع القلب ہو. لیکن خبردار، احسان کبھی ایسے شخص کا نہ اٹھائیں جو انتہائی جھگڑالو ہو، یا اپنی افضلیت کو تسلیم کرانا چاہتا ہو، یا اس کی خواہش یہ ہو کہ آپ اس کے چیلا رحمانی بنے اس کے آگے ہمیشہ دم ہلاتے رہیں۔ البتہ ایسے شخص کا احسان ضرور اٹھایا جا سکتا ہے جو اس کو خالصتاََ تجارتی نوعیت کی چیز سمجھتا ہے اور آپ سے بدلے کی توقع رکھتا ہے۔ لیکن اس میں ایک دقت یہ ہے کہ آخر آخر تک یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ اپنے احسان کا بدلہ کس شکل میں اور کب چاہتا ہے؟ بہتر ہے کہ اسے لوگوں سے مدد لیتے وقت، خواہ وہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو، یہ واضح کر دینا چاہیے کہ آپ اس کے بدلے مستقبل میں اس کی کوئی مدد اسی وقت کر سکتے ہیں جب آپ کے پاس اس کے لیے مطلوبہ وقت، سرمایہ، صحت اور صلاحیت وغیرہ پائی جاتی ہو۔
لیکن اس تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجود میں اب بھی یہی سمجھتا ہوں کہ احسان کا حقیقی مفہوم صرف اتنا ہے کہ یہ بالکل مفت وجود میں آنے والا عمل ہے اور جس نے کیا، اور جس پر ہوا، دونوں ایک دوسرے سے بالکلیہ آزاد ہیں اور کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں۔ محسن کی حیثیت نہ زبردست کی ہوتی ہے نہ زیردست کی۔ بلکہ جس وقت وہ ہم پر احسان کر رہا ہوتا ہے، وہی خود گویا احسانمند بھی ہوتا ہے کہ اس کو احسان کرنے کا موقع ملا۔ 

امت کی بازیافت

فیس بک پر ایک بلند پایہ عالم دین سے ہونی والی گفتگو سے ایک اقتباس. ان کا نام حذف کر دیا گیا ہے:

عالم دین: شیعہ اور سنی فرقہ بندی مجهے بہت زیادہ مضحکہ خیز لگتی ہے. ڈیڑه ہزار سال پہلے اقتدار کے مسئلے پر جنگ ہوئی اور ختم ہوگئی. پر بعد میں آنے والے احمقوں کی جنگ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی.

طارق صدیقی: اتحاد امت کا ہر درس جعلی/ بناوٹی ہے, یا سادہ لوحی ہے, اور اتحاد امت کے نعرے سے انتخابی پروپگنڈے کی باس آتی ہے.

عالم دین: میں اتحاد امت کی بات نہیں کررہا ہوں. میں تو امت کی بازیافت کی فکر میں ہوں. اور اسی لئے کسی فرقے کی بات مجهے نہیں بهاتی.

طارق احمدصدیقی: یہ امت فرقوں اور ذیلی فرقوں میں عقائد کی بنا پر منقسم ہو چکی ہے. اور ہر ایک فرقہ اور ذیلی فرقہ اب بجائے خود ایک امت ہے. اس لیے امت کی بازیافت کا عمل فرقوں اور ذیلی فرقوں کے اندر کی چیز ہے. اور جیسے جیسے ان فرقوں کے اندر "امت کی بازیافت" اور اس جیسی دوسری علمی کوششیں ہوتی ہیں, ویسے ویسے مزید جدید فرقے اور ذیلی فرقے وجود میں آتے چلے جاتے ہیں. اصل سے رجعت کی ہر کوشش کا نتیجہ مزید فصل, افتراق اور انتشار کی شکل میں برآمد ہوتا ہے. پس, مسلمانوں کی مذہبی وحدت اب کثرت میں بدل چکی ہے, اور امت واحدہ کا تصور پارہ پارہ ہو چکا ہے. عقائد و افکار کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کے ذریعے "اصل اسلام" کے  "بازیافتی عمل" سے پہلے تو خود مروجہ لفظی عقائد غیر معتبر ہوں گے, پھر ان عقائد و افکار کی ماتحت جماعتیں اور فرقے غیر معتبر ہوں گے, اور انتشار کا ایک دور اپنی انتہا کو پہنچے گا جس کے بعد مسلمان ایک دوسرے سے عقائد کی بنا پر نہیں بلکہ ماضی کی  اپنی مجرد مذہبی شناخت کی بنا پر خاندانی و معاشرتی تعلقات قائم کر سکیں گے. صرف نکاح و طلاق, اور تدفین سے متعلق رسوم و رواج عملاً باقی رہ جائیں گے لیکن ان کا اسی دنیا کی انسانی روایت سے تعلق ہوگا نہ کہ کسی اور دنیا سے:
ہم موحد ہیں, ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں, اجزائے ایماں ہو گئیں
دیکھیے غالب تو ملتوں کو مٹانے کی بات کرتا ہے, دانشور وہی ہے جو قبل از وقت آنے والے حالات کی نشاندہی کرے.
ملت کی بازیافت کا یہ عمل متعدد دوسرے ناموں کے ساتھ چل رہا ہے اور اس میں امت کے ہر فرقے کے لوگ زور و شور سے لگے ہوئے ہیں لیکن وہ دراصل امت کو مزید منتشر کرنے کا کارنامہ انجام دے رہے ہیں, لیکن انہیں اس کا احساس نہیں ہو سکتا. اور یہ ملت مزید منتشر ہو, مزید سر سید, مزید شبلی و فراہی, مودودی و غامدی, جیراجپوری و پرویز, چکڑالوی و گورایہ, حنیف ندوی, فضل الرحمان, طاہرالقادری جیسے لوگ پیدا ہوں, یہی وقت کا تقاضا بھی ہے. لیکن بہت جلد, سو پچاس سالوں کے اندر اندر, امتداد زمانہ سے درکتا اور دھسکتا بوسیدہ منقولاتی تصور مذہب کا تاریخی ڈھانچہ تجددپسندانہ تاویلات و تعبیرات کے اوپری پلاسٹر اور سطحی رنگ و روغن کے باوجود بالآخر زمیں بوس ہو جائے گا اور اس کا ملبہ ایک جدید انسانی تہذیب کی تعمیر میں کام آسکے گا.
عالم دین:
انا نحن نزلنا الذکر وانا له لحافظون.
باقي سو سال بعد کیا ہوگا وہ طارق صاحب جیسے غیب داں بتاسکتے ہیں. اور چونکہ مستقبل کی بات ہے اس لئے ان کو دلیل پیش کرنے کی بهی ضرورت نہیں پڑے گی.

طارق صدیقی: آپ کا یہ تبصرہ ذاتی نوعیت کا ہے. میرے دعوے کی دلیل تبصرے میں ہی موجود ہے کہ امت کی بازیافت یا تعمیر نو یا امت سازی کا کام "اصل اسلام" کی بازیافت کے علمی کارنامے پر موقوف ہے اور جس قدر اصل اسلام (بشمول عقائد و افکار) کی بازیافتیں ہوں گی, اسی قدر نئے نئے فرقے اور ذیلی فرقے وجود میں آتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ فرقوں کی کثرت سے خود لفظی عقیدہ غیرمعتبر ہو جائے گا, اور ان کے ماتحت فرقے بھی بے اثر ہو جائیں گے. امت کی بازیافت کا کوئی ایک طریقہ نہیں بلکہ جس قدر جماعتیں کام کر رہی ہیں, وہ سب اپنے طریقے سے عہد رسالت کے اصل اسلام ہی کو وجود میں لانا چاہتی ہیں, اس طرح تحقیق ماضی کے عمل میں دیکھنے کا ہمارا زاویہ ہی ایک سے زیادہ "اصل اسلام" کو وجود میں لاتا یے. اور ہمارا اسلام ہی اصل اسلام ہے اس لیے اسی کی بنیاد پر امت کی بازیافت, تشکیل نو یا تعمیر نو ہونی چاہیے, ایسا دعوی کسی ایک فرد یا جماعت کا نہیں ہے بلکہ بے شمار افراد اور جماعتیں یہی کر رہی ہیں, اور اصل یا حقیقی اسلام کے نام پر جو کچھ وہ پیش کرتی ہیں, اس پر قیل وقال کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے, جس سے افتراق و انتشار کی نئی نئی صورتیں پیدا ہوتی ہیں.
ہر وہ شخص جس نے کم از کم دو مخالف جماعتوں کے درمیان ہونے والی علمی بحثوں کو پڑھا ہو, اس موجودہ صورتحال کا بخوبی اندازہ کر سکتا ہے جس کی طرف میں ابتدا سے ہی اشارہ کر رہا ہوں.