جمعرات، 20 اگست، 2015

دعوتِ دین اور داڑھی کی شرعی مقدار

فیس بک پر میرا ایک اسٹیٹس اپڈیٹ (تاریخ یاد نہیں):
مقلدین مودودی ﮐﻮ ﻻﮐﮫ ﺳﻤﺠﮭﺎﺅ ﮐﮧ ﺑرادرانِ اسلام, ﺍﮔﺮ آپ ﮐﻮ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﮐﺮنی ﮨﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﺸﺖ ﺑﮭﺮ ﺩﺍﮌﮬﯽ سنت کے مطابق ﺭکھیں, تفریحی اغراض سےﺍﭘﻨﯽﺗﺼﻮﯾﺮﯾﮟﮐﮭﻨﭽﺎﻧﺎ ﺑﻨﺪ ﮐﺮیں, ﻓﻠﻢ ﺑﯿﻨﯽ ﺳﮯ ﺳﺨﺖ ﺍﺣﺘﺮﺍﺯ ﮐﺮیں, ﺍﻟﻐﺮﺽ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﻣﮑﺎﻧﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﺍﺕ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮ لیں, ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﻋﻮﺕِ ﻋﺎﻡ فرمائیں, ﻟﯿﮑﻦ ﻗﺮﺁﻥ ﻭ ﺳﻨﺖ ﺳﮯ ﻗﻄﻌﯽ معروضی ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺛﺎﺑﺖ ﺍﻥ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺟﺐ بھی انہیں متوجہ کیا ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ, ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﺬﺍﻕ ﺍﮌﺍﻧﮯ ﻟﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ.
ﺟﺐ ﻭﮦ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﮌﮬﯽ کی مقدار ﺷﺮﻁ ﻧﮩﯿﮟ تو وہ اس مسئلے میں مولانا مودودی کے من مانے فتوے پر چل رہے ہوتے ہیں. ﭼﻮﻧﮑﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﻮﻝ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺲ سے ﺩﺍﮌﮬﯽ ﮐﯽ صریحی ﻣﻘﺪﺍﺭ ﻣﺘﻌﯿﻦ ہوتی ہو, اس لیے  علامہ مودودی نے حدیث میں گنجائش پیدا کرتے ہوئے داڑھی کی روایتی مقدار میں تخفیف فرما دی تھی (دیکھیں رسائل و مسائل) جس کے نتیجے میں مشت بھر سے خاصی ﮐﻢ ﺩﺍﮌﮬﯽ رکھنے کی ایک نئی سنت (صحیح معنوں میں بدعت) رائج ہو گئی. مجھے علم نہیں کہ مولانا مودودی نے اس رخصت سے کس حد تک فائدہ اٹھایا, لیکن آج دنیائے علم و ادب, یونیورسیٹیوں, کالجوں اور دفاتر  میں پائے جانے والے تجدد پسند اسلامسٹوں میں داڑھی کا مودودی ماڈل بیحد مقبول ہے.
ﺍتنی ﮐﻢ ﺩﺍﮌﮬﯽ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﺳﮯ ﺑﻈﺎﮨﺮ یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ شخص "کٹھ ملا" ہے، بلکہ اول اول ایک سنجیدہ مفکر کا تاثر قائم ہوتا ہے.
ایک مشت داڑھی کی قید سے شرعاً نجات پانے کے بعد رفتہ رفتہ سینٹی میٹر بلکہ میلی میٹر میں بھی ٹریمر سے داڑھی ٹرم کرنے کی ایک روایت عملاً وجود میں آ گئی, اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام پسندوں کی خاصی اسمارٹ صورت نکل آئی. ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺷﮑﻞ ﻭ صورت ﻣﯿﮟ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﺫﻭﻕ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺭﻋﺎﯾﺖ ﮨﻮ گئی ﺍﻭﺭ ﻗﻮﻝ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﯽ ﭘﺎﺳﺪﺍﺭﯼ ﺑﮭﯽ. ﺭﻧﺪ ﮐﮯ ﺭﻧﺪ ﺭﮨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺟﻨﺖ ﻧﮧ ﮔﺌﯽ!
جب کبھی روایتی علما نے ان سے سوال کیا کہ یہ سنت کی پیروی کا کون سا طریقہ آپ نے اپنایا ہے تو ان کا جواب یہی تھا کہ تم اسلام کو داڑھی میں قید سمجھتے ہو؟ اسلام  کرتے پاجامے کی مخصوص کاٹ اور داڑھی کا طول و عرض نہیں, یہ سب تو چھوٹی موٹی اور فروعی بحثیں ہیں, اصل چیز تو تقوی ہے جس کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ وہ دل میں ہوتا ہے. ان مودودیوں کو ایسی تاویلیں کرتے ہوئے یہ بھی نہ سوجھا کہ قرآن و سنت سے معنی اخذ کرنے کا ان کا طریقہ بھی وہی ہے جو روایتی علما کا ہے, اور احکام شریعت کے نفاذکے معاملے میں یہ ہرگز نہیں دیکھا جاتا کہ معاملہ چھوٹا ہے یا بڑا, بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ خود مذہبی متن سے کیا معنی برآمد ہوتے اور صحابہ و سلف ان سے کیا مراد لیتے آ رہے ہیں. اور داڑھی کی مقدار کا مسئلہ اس قدر چھوٹا موٹا اور غیراہم ہے تو کیوں نہیں یہ مودودیے ایک مشت داڑھی رکھ ہی لیتے ہیں؟ اور اگر یہ اتنی ہی غیر اہم فروعی بات ہوتی تو داڑھی نہ رکھنے پر روایتی علمائے کرام فاسق اور مردود الشہادۃ ہونے کا فتوی کیوں دیتے؟ اور یہ فتوی تو اسی روایتی فقہی طریقے سے لگایا جاتا ہے جس طریقے سے نکاح و طلاق کے مسائل میں فتوے لگائے جاتے ہیں. پھر روایتی فقہ کے ایک نتیجے کو ماننے اور ایک کو نہ ماننے کا کیا مطلب ہے؟

اس پر ایک صاحب نے درج ذیل تبصرہ کیا:

ڈاڑھی کا رکھنا معاملات کی قبیل سے ہے یا عبادات کی؟  اس بات کو سمجھنے سے شرعی حکم کی نوعیت بمعنی فتوی بالکل بدل جائے گی اور بالخصوص جب کہ اس کا تعلق بھی فروعی احکام سے ہو.

میں نے ان کے تبصرہ کا درج ذیل جواب دیا:

پس, آپ کے فتوے کی رو سے ستر عورت کے مروجہ حدود بھی ختم ہو جائیں گے, اور دوپٹہ رکھنا بھی لازم نہیں ہوگا, بلکہ منی اسکرٹ پہن کر نامحرم مردوں سے تنہائی میں ملنا بھی عورت کے لیے جائز ہو جائے گا کیونکہ ان سب باتوں کا تعلق بھی عبادات سے نہیں معاملات سے ہے. اسی طرح چور کے ہاتھ کاٹنے کی سزا بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی کیونکہ یہ بھی عبادات میں سے نہیں ہے. آپ یہ کہہ کر نہیں بچ سکتے کہ یہ قرآن کا حکم ہے (اس لیے اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی)  کیونکہ قرآن خود یہ کہتا ہے کہ جو کچھ اللہ کے رسول تمہیں دیں اسے لے لو, اور جس چیز سے منع کریں, اس سے رک جاؤ.
اس لیے ایک بار کسی حدیث کے متعلق یہ بات ثابت ہو گئی کہ یہ واقعی قول رسول ہے اور اس میں کسی بات کا حکم دیا جا رہا ہے تو آپ کے فتوے کے مطابق اگر وہ عبادات میں سے نہ ہو کر معاملات میں سے ہو, تو اس کو بدلا جا سکتا ہے؟ یہی کہنا چاہتے ہیں نہ آپ؟ تو اب میں آپ کے مطابق تبدیل شدہ فقہی احکام کی ایک فہرست مرتب کروں, یا آپ خود ہی کریں گے؟

میرے مذکورہ بالا تبصرے کے بعد انہوں نے درج ذیل جواب دیا:
آپ کے مذکور نکات درست ہوتے اگر ڈاڑھی کا تعلق معاملات میں سے ہوتا. میں اس کو عبادات کے فروعی احکام میں سے سمجھتا ہوں.  "معاملات" کی لفظی ترکیب خود اس بات کی وضاحت ہے کہ ایسے امور جو سماج کے باہمی اتصال و احکام پر مشتمل ہوں. کسی کی ڈاڑھی بڑی ہے یا چھوٹی، ایک مشت ہے یا کم یا سرے سے ہے ہی نہیں اس بات کا "معاشرتی معاملات" سے کیا تعلق؟؟

میرا جواب:
یوں تو انسان کا ہر کام عبادت ہے جو اللہ کے حکم کے مطابق انجام دیا جائے لیکن اصطلاحی معنوں میں عبادات سے مراد  پرستش کے وہ مخصوص رسمی طریقے ہیں جن کو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نازل کیا ہے.
داڑھی رکھنا عبادت کا کوئی مخصوص اور رسمی طریقہ نہیں ہے کیونکہ ایک تو ہر انسان کے داڑھی ہو, یہ ضروری نہیں؛ دوسرے, عورتوں کو سرے سے داڑھی ہوتی ہی نہیں جس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ ایک عبادت سے محروم ہیں؛  تیسرے, مذہبی عبادات انسان کے اضطراری افعال (مثلاً سانس لینا) کے بجائے ایسے اختیاری اعمال پر مبنی ہوتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فلاں مذہب کے ماننے والوں کا طریقہ پرستش ہے, اور داڑھی کوئی اختیاری چیز نہیں یعنی داڑھی کا اگانا یا نہ اگانا بندے کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہے, بلکہ یہ سراسر ایک فطری امر ہے کہ کسی کو داڑھی ہوتی ہے اور کسی کو نہیں, چوتھے, ہر انسان کے اختیار میں چونکہ داڑھی کا اگانا یا نہ اگانا نہیں بلکہ اگر داڑھی اگے تو اس کو رکھنا یا نہ رکھنا ہے, اس لیے داڑھی کے مسئلے میں لفظ عبادت کا اطلاق خود آپ ہی کے نقطہ نظر سے تبھی درست مانا جائے گا جب آپ اس کو چھوڑ دیں یا مونڈیں. (کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ کے نزدیک داڑھی کا رکھنا عبادت ہے یا اس کا مونڈنا؟)  پانچویں, پھر آپ ہی کے نظریے کی رو سے جسم پر جس قدر بال ہیں ان میں سے بعض  کے متعلق احادیث میں مونڈنے (عانہ) یا اکھیڑنے (بغل کے بال) کا حکم آیا ہے, پس انہیں مونڈنا یا نہ مونڈنا یا اکھیڑنا یا نہ اکھیڑنابھی (آپ کی فقہ کی مقدار کے مطابق) بھی عبادات میں ہی شمار ہوگا؛ عورت کے سر کے بالوں کو خاصا لمبا رکھنے  کا حکم آیا ہے اور انہیں بہت  چھوٹا کرنے کی سخت ممانعت آئی ہے, پس یہ بھی آپ کی رو سے عبادات میں ہی شمار ہوگا.  بلکہ اسی اصول کی رو سے ناخن بڑھانا یا کاٹنا بھی رسمی عبادت کی ہی ایک شکل ہوگی. اس کے علاوہ ایک بات اور بھی آپ کہتے ہیں کہ "عبادات کے فروعی احکام میں فتوی بالکل بدل جائے گا" (اپنا پہلا تبصرہ دیکھیں) تو اب چاہےجسم پر کہیں بھی بال بڑھیں یا ناخن, ان کو کسی بھی حد تک کاٹنا/مونڈنا یا نہ کاٹنا/نہ مونڈنا بھی عبادات کے فروعی احکام قرار پائیں گے, پھر آپ ہی کے نقطہ نظر سے غسل و وضو بلکہ غسل جنابت بھی عبادات کے فروعی احکام ہیں, پھر ان میں ایک شخص چاہے تو اپنی ڈیڑھ اینٹ کی فقہ لے کر الگ بیٹھ جائے اور ان کو بالکل بدل دے! خواہ صحابہ کا عمل کچھ بھی کیوں نہ ہو! مثلاً وہ بیوی سے صحبت کرے اور غسل جنابت نہ کرے اور جب اس سے گھر کے لوگ پوچھیں کہ تم کبھی غسل نہیں کرتے اور مسجد میں جا کر نماز پڑھ لیتے ہو, تو وہ آپ کی فقہ کے مطابق جواب دے کہ یہ تو عبادات سے متعلق  فروعی حکم ہے جس کو بدلا جا سکتا ہے! معاذ اللہ.

آپ کو معلوم ہو کہ فروعی حکم بھی نہیں بدلتا اگر وہ اللہ کے رسول کی صریح احادیث سے ثابت ہو. البتہ فروعی احکام جن مذہبی متون سے برامد ہوتے ہیں ان کے معنی اگر ایک سے زیادہ نکلتے ہوں, تو یہ ایک فروعی مسئلہ اور فروعی اختلاف ہوا. غرض فروعی حکم اور فروعی احکام میں اختلاف دو باتیں ہوئیں. لیکن یہ کہنا کہ ہم سرے سے فروعی حکم کو ہی نہ مانیں گے, یا اس کو جب چاہے بدل دیں گے, اس سے بے شمار رکاوٹیں پیدا ہو جائیں گی اور اسلام پر عمل ناممکن ہو جائے گا.
بال, داڑھی, ناخن, اور لباس کی تراش  خراش اور ہماری وضع قطع کا تعلق بالذات رسمی عبادات سے نہیں بلکہ ہماری معاشرت اور ہمارے معاملات سے ہی ہے. ہماری ہر ایک حرکت کا اثر دوسروں پر پڑتا ہے, مسلمانوں میں سے کوئی شخص اگر سرعام برہنہ ہو جائے  تو اس سے دوسروں کا براہ راست کچھ نہیں بگڑتا, لیکن اس کا بالواسطہ اثر دوسروں پر ضرور پڑتا ہے. بالخصوص داڑھی کا مونڈنا حقیقی مومن عورتوں کو سخت ناپسند ہوگا اور بہت سی مسلمان خواتین کو پسند ہوگا. داڑھی اور جسم کے دوسرے بالوں کے رکھنے یا نہ رکھنے کا تعلق چونکہ جنڈر اپیل سے بھی ہے, صفائی و ستھرائی, ذوق سلیم, تزئین و آرائش, اور آداب نمائش سے بھی ہے, اور اس کا اثر پورے معاشرے پر پڑتا ہے, اگر ایک شخص داڑھی منڈا کر یا فرینچ کٹ داڑھی رکھ کر سر بازار گھومے تو اس کا اثر لازماً دوسروں پر پڑےگا, اسی طرح ملبوسات اور ستر عورت کا معاملہ ہے کہ ایک شخص غیر شرعی لباس پہنے جس سے ستر عورت کی سربازار نمائش ہوتی ہو, تو بے شک وہ ایسا کام کرتا ہے جس سے دوسرے بالواسطہ طور پر متاثر ہوتے ہیں, اس لیے شخصی طور طریقوں اور  تزئین و آرائش کا انداز بھی بالواسطہ طور پر معاملات کے اندر ہی آتا ہے. عبادات سے بھی ان کا تعلق ضرور ہے لیکن وہ عبادت کی شرطیں ہیں, اور بالذات عبادت نہیں, عبادت کے فروعی احکام میں ان کا شمار نہیں کیا جا سکتا.
میں مفتی تو نہیں ہوں, اس لیے جو کچھ میں نے کہا ہے اس میں ممکن ہے فقہی اصطلاحات سے متعلق غلطیاں پائی جائیں. جو کچھ میں کہہ رہا ہوں, اس کے مافی الضمیر کو سمجھنے کی ضرورت ہے.

پیر، 17 اگست، 2015

احسان اور تجارت

نزاع اجنبیوں سے نہیں، اپنوں سے ہوتی ہے۔ اپنوں سے ہمیں جائز و ناجائز توقعات ہوتی ہیں جن کے پورا نہ ہونے پر ہم ان سے جھگڑتے ہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ کسی کو اپنا نہ سمجھا جائے۔ اگر ہم دوسروں کو اپنا نہ سمجھیں گے تو توقع ہی ختم ہو جائے گی۔ بقول غالب:
جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
اس کے بعد نہ کسی سے دشمنی ہے اور نہ کسی سے دوستی۔ البتہ جس قدر دوسروں کا ہم نے احسان لیا ہے، اسی قدر احسان انہیں ہم ادا کر دیں۔ لیکن اس میں ایک شرط ہے، وہ یہ کہ اگر اگر ہم کسی کا احسان اپنے سر لیں تو بس اتنا کہ اس کو ہم ادا کر سکیں۔ اتنا زیادہ احسان لے لینا کہ اس کو ادا کرنا ہمارے لیے ممکن نہ ہو، مناسب نہیں ہے۔ بالفرض، کسی سے اتنا زیادہ احسان لینے کی نوبت آ ہی جائے تو پھر اسی وقت کہہ دینا چاہیے کہ بھائی میں اتنا زیادہ ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہوں گا۔ اس لیے تم میری طرف سے اپنے اس احسان کا بدلہ پانے کی توقع مت رکھنا۔ یہی وہ شرط ہے جسے عائد کرنے کی جرات احسان اٹھاتے وقت ہم کو ہو، تو ہم اپنے تئیں دوسروں کے توقعات کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر، ہم دوسروں سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ اگر ہم پر احسان کرنا ہی چاہتے ہیں تو اس کا بدلہ پانے کی توقع ہم سے بالکل نہ رکھیں۔ اسی طرح ہم دوسروں پر کوئی احسان کرنا چاہیں، تو اس کا بھی بدلہ پانے کی توقع رکھنا ہمارے لیے صحیح نہیں ہو سکتا۔
لیکن اگر ہم زندگی کو تجارت سمجھتے ہوں تو پھر اس پر تجارت کے اصول و قوانین نافذ کرنے ضروری ہیں۔ پھر اس کے بعد یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم دوسروں پر احسان کریں اور دوسروں سے احسان کی توقع نہ رکھیں۔ زندگی اگر تجارت ہے تو پھر اپنوں اور دوسروں کے احسان کو تجارت کے ترازو پر تولنا ہمارے لیے ضروری ہے۔ پھر کسی پر ایک احسان کرنے کے بعد ہم اسے یاد دلا سکتے ہیں کہ ہم نے آپ پر فلاں احسان کیا تھا۔ لیکن اگر ہم زندگی کو تجارت نہ سمجھ کر سراپا احسان سمجھیں تو پھر زندگی کی اس تجارت میں ہونے والے نفع و نقصان سے بے نیاز ہو جانا ہمارے لیے ضروری ہے۔ بلکہ زندگی کو احسان کے طور پر تسلیم کرنے کے بعد زندگی سےتجارتی رویہ کو رخصت ہو جانا چاہیے۔ پھر نہ کسی کو بدلہ دینا ہے اور نہ کسی سے بدلہ لینا ہے۔ بس احسان کرتے چلے جانا ہے اور کبھی بھول کر بھی کسی سے احسان کا بدلہ نہیں چاہنا ہے۔
احسان کا نہ کوئی بدل ہو سکتا ہے اور نہ اس کو خود تسلیم کرنے یا دوسروں سے کرانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پس، شکریہ کے الفاظ بھی غیرضروری ہیں۔ جس وقت ایک شخص ہم پر احسان کرتا ہے، اگر ہم اسی وقت اس کا شکریہ ادا کر دیں تو گویا زندگی ایک تجارت ہو گئی، ہم نے شکریہ کا لفظ کہہ کر احسان کا بدلہ چکا دیا۔ اسی طرح اپنے احسان کے بدلے کسی سے شکریہ کی توقع رکھنا بھی عبث ہے کیونکہ آپ زندگی کو تجارت نہیں احسان سمجھتے ہیں اور احسان کی نوعیت ہی یہ ہوتی ہے کہ اس کے بدلے آپ کچھ بھی نہ چاہیں، یہاں تک کہ شکریہ کے کلمات بھی نہیں۔ شکریہ احسان کی رسید نہیں ہے۔ کیونکہ احسان کوئی تجارتی قسم کی چیز نہیں۔ شکریہ ادا کرنا ہمارا فرض بھی نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ فرض وہی ہوتا ہے جس کو ہم اپنے ذمے قرض سمجھیں۔ اور کسی شخص کا ہم پر احسان کرنا قرض نہیں ہے، بلکہ بالکل مفت ہے۔ اور جو چیز بالکل مفت حاصل ہو، اس کے لیے کسی کو شکریہ کہنا نہ صرف یہ کہ وقت اور انرجی کی بربادی ہے، بلکہ اس احسان کو تجارت بنا دینا ہے جو ہم پر کسی اور نے کیا ہے۔
لیکن یہ بھی تو ممکن ہے کہ شکریہ کے وہ معنی ہی نہ ہوں جو ہم اب تک سمجھتے آئے ہیں۔ یہاں ہمیں شکریہ کے عام رائج مفہوم سے یا لغوی مفہوم سے بحث نہیں ہے۔ شکریہ کے معنی صرف مسرت کے ہیں۔ اگر ایک شخص نے آپ کو چائے پلا دی اور آپ واقعی چائے کی ضرورت محسوس کر رہے تھے تو اس پر آپ کو خوشی ہونی چاہیے اور آپ کے منہ سے اہا، واہ جیسے الفاظ نکلنے چاہئیں۔ یہ گویا اس بات کی اطلاع ہے کہ چائے دیکھ کر آپ کی طبیعت خوش ہوئی۔ چائے پلائے جانے پر جو واہ زبان سے ادا ہوئی، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ نے ایک رسید کاٹ کر دے دی کہ ہاں بھائی، میں اس وقت چائے کی ضرورت محسوس کر رہا تھا، جو تم نے پوری کر دی تو اب میں بھی تمہیں کبھی چائے پلا دوں گا۔ واہ کے معنی اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ آپ کو از حد خوشی ہوئی۔ واہ کا مطلب صرف اظہارِ مسرت سے ہے۔ اور جو مطلب واہ کا ہے، وہی شکریہ کا بھی ہے۔ اس لیے شکریہ بھی اصلاََ صرف اپنے لیے ہے کیونکہ لطف ہمیں آیا اور چونکہ ہمارے محسن کو احسان کر کے لطف ملا، اس لیے ہم نے لفظ شکریہ اس کو بھی سنایا تا کہ اجتماعی لطف آ سکے۔
اس بات کی اطلاع ہے کہ آپ کو اپنے اوپر کیے جانے والے کسی احسان سے خوش ہوئی، یا آپ کی کوئی ضرورت پوری ہوئی۔ اس اطلاع سے آپ کے محسن کو بھی مسرت کا احساس ہوگا کہ چلو میری کوشش یا سرمایہ ضائع ہونے کے بجائے کسی کے کام آ گیا۔ یعنی احسان جو ہے وہ اگر نہ کیا جائے تو سراسر ایک ضائع ہو جانے والی چیز ہے۔ نیکی کر دریا میں ڈال کا مفہوم بھی یہی ہے کہ آپ نے جو نیکی کی، اگر وہ نہ کرتے تو بھی اس نیکی پر آنے والا صرفہ یا سرمایہ ضائع ہی ہو جانے والا تھا، اب آپ نے نیکی کر ہی دی، تو اس میں آپ کی کیا تخصیص ہے، ایسی نیکی پر تو وہ لوگ بھی قادر ہیں جنہوں نے یہ نہیں کیا، آپ نے کر دیا تو اس کے معنی یہ تھوڑے ہی ہوئے کہ آپ بڑی قدرت رکھتے ہیں جس کا احسان خدا کی طرح جتا رہے ہیں اگر آپ نے کوئی نیکی کی، اور وقت بے وقت اس کی گردان کرتے رہے، تو سمجھیے کہ آپ نے جو کچھ کیا، وہ بنیادی طور پر از قسم تجارت ہے۔ اور اب آپ بازار میں کھڑے ہو کر اس کی قیمت لگوا رہے ہیں۔ اور اس دنیا کی ریت یہی ہے کہ وہ مال خریدنے سے پہلے مول جول کرتی ہے۔ پھر آپ کے مال پر خریدار جرح کیوں نہ کریں گے؟ تجارت کے ہر مال کی طرح آپ کا مال بھی بازار کی زینت بنے گا اور لوگ اس کے دام لگائیں گے۔ اس میں شک نہیں کہ تجارت کرنا بھی ایک قسم کی نیکی ہی ہے اگر آپ اس میں نہ ڈنڈی ماریں اور نہ حق سے زیادہ منافع لیں۔
معلوم ہوا کہ نیکی دو قسم کی ہوتی ہے۔ تجارتی اغراض سے کی جانے والی نیکی، اور بالکل مفت یعنی دریا میں ڈال دینے والی نیکی۔ احسان جتانے والے زیادہ تر لوگوں سے مجھے اسی لیے کوفت ہوتی ہے کہ وہ ایک طرف تو اپنے ہی ذریعے کی گئی نیکی کی نوعیت کو نہیں سمجھ پاتے اور تکلیف دہ حد تک اپنے ذریعے کے جانے والے احسانات کا بدلہ، اور وہ بھی ان کے تمام تر احسانات سے زیادہ بدلہ چاہتے ہیں جو انہوں نے کیے ہیں۔۔ وہ اس بات کو نہیں سمجھ پاتے کہ اگر وہ نہ ہوتے تب بھی کوئی نہ کوئی میری مدد کرتا ہی، اور اگر کوئی نہ ہوتا تو میں اپنی مدد آپ کرتا۔ پھر ایسا بھی نہیں کہ جن لوگوں نے میرے ساتھ کوئی احسان کیا ہو، میں نے کبھی ان کا کوئی کام سرے سے کیا ہی نہ ہو۔ اپنے بہتیرے دوستوں کے لیے میں نے بہت کچھ کیا ہے، اور اکثر کسی بدلے کی خواہش کے بغیر کیا۔ البتہ کبھی کبھار ایسا ضرور محسوس ہوا کہ میں فلاں کا کام کر رہا ہوں تو وہ بھی ضرور میرا کام کر دے گا۔ لیکن مجھے تسلیم ہے کہ یہ کوئی اچھی سوچ نہیں. 
جن دوستوں کے لیے میں نے اپنا بہت وقت صرف کیا ہے، اس پر مجھے نہ کبھی کوئی افسوس ہوتا ہے اور نہ میں نے کبھی اس کا کوئی حوالہ اپنے کسی دوست کو دیا ہے اور نہ آئندہ کبھی دینے کی خواہش ہے۔
ایک شخص جو آپ کا ساتھی ہو، آپ کا دن رات اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہو، اگر وہ اس قسم کا طرز عمل اپنائے تو ذہنی اذیت کا ہونا لازمی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا احسان، خواہ وہ قلم گر جانے پر اٹھا دینے، یا دو چار گھنٹوں سے لے کر دو چار دنوں تک دوڑ دھوپ کرنے کا احسان ہی کیوں نہ ہو، کیا اسی لیے کیا گیا تھا کہ اس کا بدلہ چاہا جائے؟ اور ہمیشہ ہمیشہ مختلف طریقوں سے اس کا حوالہ دیا جاتا رہے؟ کیا اس کا مطلب یہ نہ ہوا کہ کسی کا احسان اٹھا کر گویا ہم نے ایک دائمی اذیت مول لے لی۔ اب ہم اس کے ہاتھوں گروی ہو گئے کہ وہ جب چاہے اپنے احسانات کا حوالہ دے اور ہر مرتبہ ہم اس کے آگے دم ہلانے پر مجبور ہوں۔ ہم بارہا لوگوں کے منہ سے سنتے آئے ہیں کہ کسی کا احسان نہیں اٹھانا چاہیے، لیکن اس کا صحیح مفہوم اس وقت تک سمجھ میں نہیں آ سکتا جب تک کہ آپ عملا کسی کے احسان کے شکار نہ ہوئے ہوں۔ ہمیشہ دھیان رکھنا چاہیے کہ لوگ احسانات کر کے دراصل آپ کا شکار کر رہے ہیں، اس لیے بہتر یہی ہے کہ کسی کا احسان لینے سے پہلے بار بار سوچیں کہ تھوڑی سی زحمت سے بچنے کے لیے آپ مستقبل میں اپنے لیے کوئی بڑی مصیبت تو کھڑی نہیں کر رہے۔
لیکن زندگی میں ایسے موڑ بھی آ سکتے ہیں جب دوسروں کا احسان اٹھانا ہمارے لیے ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اس لیے ایسے احسانات کو تجارتی نوعیت کا سمجھنا چاہیے اور انہیں وقتاََ فوقتاََ چکتا کرتے رہنا چاہیے الا یہ کہ احسان کرنے والا عالی ظرف اور وسیع القلب ہو. لیکن خبردار، احسان کبھی ایسے شخص کا نہ اٹھائیں جو انتہائی جھگڑالو ہو، یا اپنی افضلیت کو تسلیم کرانا چاہتا ہو، یا اس کی خواہش یہ ہو کہ آپ اس کے چیلا رحمانی بنے اس کے آگے ہمیشہ دم ہلاتے رہیں۔ البتہ ایسے شخص کا احسان ضرور اٹھایا جا سکتا ہے جو اس کو خالصتاََ تجارتی نوعیت کی چیز سمجھتا ہے اور آپ سے بدلے کی توقع رکھتا ہے۔ لیکن اس میں ایک دقت یہ ہے کہ آخر آخر تک یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ اپنے احسان کا بدلہ کس شکل میں اور کب چاہتا ہے؟ بہتر ہے کہ اسے لوگوں سے مدد لیتے وقت، خواہ وہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو، یہ واضح کر دینا چاہیے کہ آپ اس کے بدلے مستقبل میں اس کی کوئی مدد اسی وقت کر سکتے ہیں جب آپ کے پاس اس کے لیے مطلوبہ وقت، سرمایہ، صحت اور صلاحیت وغیرہ پائی جاتی ہو۔
لیکن اس تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجود میں اب بھی یہی سمجھتا ہوں کہ احسان کا حقیقی مفہوم صرف اتنا ہے کہ یہ بالکل مفت وجود میں آنے والا عمل ہے اور جس نے کیا، اور جس پر ہوا، دونوں ایک دوسرے سے بالکلیہ آزاد ہیں اور کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں۔ محسن کی حیثیت نہ زبردست کی ہوتی ہے نہ زیردست کی۔ بلکہ جس وقت وہ ہم پر احسان کر رہا ہوتا ہے، وہی خود گویا احسانمند بھی ہوتا ہے کہ اس کو احسان کرنے کا موقع ملا۔ 

امت کی بازیافت

فیس بک پر ایک بلند پایہ عالم دین سے ہونی والی گفتگو سے ایک اقتباس. ان کا نام حذف کر دیا گیا ہے:

عالم دین: شیعہ اور سنی فرقہ بندی مجهے بہت زیادہ مضحکہ خیز لگتی ہے. ڈیڑه ہزار سال پہلے اقتدار کے مسئلے پر جنگ ہوئی اور ختم ہوگئی. پر بعد میں آنے والے احمقوں کی جنگ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی.

طارق صدیقی: اتحاد امت کا ہر درس جعلی/ بناوٹی ہے, یا سادہ لوحی ہے, اور اتحاد امت کے نعرے سے انتخابی پروپگنڈے کی باس آتی ہے.

عالم دین: میں اتحاد امت کی بات نہیں کررہا ہوں. میں تو امت کی بازیافت کی فکر میں ہوں. اور اسی لئے کسی فرقے کی بات مجهے نہیں بهاتی.

طارق احمدصدیقی: یہ امت فرقوں اور ذیلی فرقوں میں عقائد کی بنا پر منقسم ہو چکی ہے. اور ہر ایک فرقہ اور ذیلی فرقہ اب بجائے خود ایک امت ہے. اس لیے امت کی بازیافت کا عمل فرقوں اور ذیلی فرقوں کے اندر کی چیز ہے. اور جیسے جیسے ان فرقوں کے اندر "امت کی بازیافت" اور اس جیسی دوسری علمی کوششیں ہوتی ہیں, ویسے ویسے مزید جدید فرقے اور ذیلی فرقے وجود میں آتے چلے جاتے ہیں. اصل سے رجعت کی ہر کوشش کا نتیجہ مزید فصل, افتراق اور انتشار کی شکل میں برآمد ہوتا ہے. پس, مسلمانوں کی مذہبی وحدت اب کثرت میں بدل چکی ہے, اور امت واحدہ کا تصور پارہ پارہ ہو چکا ہے. عقائد و افکار کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کے ذریعے "اصل اسلام" کے  "بازیافتی عمل" سے پہلے تو خود مروجہ لفظی عقائد غیر معتبر ہوں گے, پھر ان عقائد و افکار کی ماتحت جماعتیں اور فرقے غیر معتبر ہوں گے, اور انتشار کا ایک دور اپنی انتہا کو پہنچے گا جس کے بعد مسلمان ایک دوسرے سے عقائد کی بنا پر نہیں بلکہ ماضی کی  اپنی مجرد مذہبی شناخت کی بنا پر خاندانی و معاشرتی تعلقات قائم کر سکیں گے. صرف نکاح و طلاق, اور تدفین سے متعلق رسوم و رواج عملاً باقی رہ جائیں گے لیکن ان کا اسی دنیا کی انسانی روایت سے تعلق ہوگا نہ کہ کسی اور دنیا سے:
ہم موحد ہیں, ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں, اجزائے ایماں ہو گئیں
دیکھیے غالب تو ملتوں کو مٹانے کی بات کرتا ہے, دانشور وہی ہے جو قبل از وقت آنے والے حالات کی نشاندہی کرے.
ملت کی بازیافت کا یہ عمل متعدد دوسرے ناموں کے ساتھ چل رہا ہے اور اس میں امت کے ہر فرقے کے لوگ زور و شور سے لگے ہوئے ہیں لیکن وہ دراصل امت کو مزید منتشر کرنے کا کارنامہ انجام دے رہے ہیں, لیکن انہیں اس کا احساس نہیں ہو سکتا. اور یہ ملت مزید منتشر ہو, مزید سر سید, مزید شبلی و فراہی, مودودی و غامدی, جیراجپوری و پرویز, چکڑالوی و گورایہ, حنیف ندوی, فضل الرحمان, طاہرالقادری جیسے لوگ پیدا ہوں, یہی وقت کا تقاضا بھی ہے. لیکن بہت جلد, سو پچاس سالوں کے اندر اندر, امتداد زمانہ سے درکتا اور دھسکتا بوسیدہ منقولاتی تصور مذہب کا تاریخی ڈھانچہ تجددپسندانہ تاویلات و تعبیرات کے اوپری پلاسٹر اور سطحی رنگ و روغن کے باوجود بالآخر زمیں بوس ہو جائے گا اور اس کا ملبہ ایک جدید انسانی تہذیب کی تعمیر میں کام آسکے گا.
عالم دین:
انا نحن نزلنا الذکر وانا له لحافظون.
باقي سو سال بعد کیا ہوگا وہ طارق صاحب جیسے غیب داں بتاسکتے ہیں. اور چونکہ مستقبل کی بات ہے اس لئے ان کو دلیل پیش کرنے کی بهی ضرورت نہیں پڑے گی.

طارق صدیقی: آپ کا یہ تبصرہ ذاتی نوعیت کا ہے. میرے دعوے کی دلیل تبصرے میں ہی موجود ہے کہ امت کی بازیافت یا تعمیر نو یا امت سازی کا کام "اصل اسلام" کی بازیافت کے علمی کارنامے پر موقوف ہے اور جس قدر اصل اسلام (بشمول عقائد و افکار) کی بازیافتیں ہوں گی, اسی قدر نئے نئے فرقے اور ذیلی فرقے وجود میں آتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ فرقوں کی کثرت سے خود لفظی عقیدہ غیرمعتبر ہو جائے گا, اور ان کے ماتحت فرقے بھی بے اثر ہو جائیں گے. امت کی بازیافت کا کوئی ایک طریقہ نہیں بلکہ جس قدر جماعتیں کام کر رہی ہیں, وہ سب اپنے طریقے سے عہد رسالت کے اصل اسلام ہی کو وجود میں لانا چاہتی ہیں, اس طرح تحقیق ماضی کے عمل میں دیکھنے کا ہمارا زاویہ ہی ایک سے زیادہ "اصل اسلام" کو وجود میں لاتا یے. اور ہمارا اسلام ہی اصل اسلام ہے اس لیے اسی کی بنیاد پر امت کی بازیافت, تشکیل نو یا تعمیر نو ہونی چاہیے, ایسا دعوی کسی ایک فرد یا جماعت کا نہیں ہے بلکہ بے شمار افراد اور جماعتیں یہی کر رہی ہیں, اور اصل یا حقیقی اسلام کے نام پر جو کچھ وہ پیش کرتی ہیں, اس پر قیل وقال کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے, جس سے افتراق و انتشار کی نئی نئی صورتیں پیدا ہوتی ہیں.
ہر وہ شخص جس نے کم از کم دو مخالف جماعتوں کے درمیان ہونے والی علمی بحثوں کو پڑھا ہو, اس موجودہ صورتحال کا بخوبی اندازہ کر سکتا ہے جس کی طرف میں ابتدا سے ہی اشارہ کر رہا ہوں.

اتوار، 16 اگست، 2015

کیا ’سیکولر مسلم‘ کی اصطلاح درست ہے؟

گزشتہ روز فیس بک پر ایک صاحب کے اسٹیٹس کے نیچے میں نے ' سیکولر مسلم' کی اصطلاح اور اس سے جڑے ہوئے کچھ اہم مسائل پر درج ذیل تبصرہ لکھا:
سیکولر مسلم کی اصطلاح کی حقیقت  کی مدلل وضاحت سے  پہلے ہم کو مذہبی اور سیکولر کی ایک تعریف متعین کرنی ہوگی۔ یہ بتانا ہوگا کہ مذہبی کیا ہے اور سیکولر کیا، اس کے بعد ہی ہم دونوں میں مشترک قدروں کی تلاش کر سکتے ہیں۔
مذہب مافوق الفطری/ معجزاتی طریقے سے حاصل شدہ علم کی بنا پر انسان کی مابعد موت نجات کے اصول مقرر کرتا ہے اور اسی علم کی بنا پر انسان کو نجات یافتہ بنانے کے غرض سے پیدائش، موت، شادی و غمی کے موقعوں کے لیے رسوم و رواج کی تخلیق، تنقید، حذف و اضافہ اور ترتیب و تہذیب کرتا ہے۔ اس طرح ہر وہ شئے اور رسم بالآخر مذہبی نوعیت کی ہو جاتی ہے جس کو مذہب اپنے اصول نجات سے متصادم نہ پائے۔
سیکولر کے معنی ‘‘دنیاوی’’ کے ہوتے ہیں۔ دنیاوی یعنی محسوسات سے متعلق چیزیں۔ یہ مذہب یا دین سے مختلف  ہے۔ ایک سیکولر شخص مافوق الفطری طریقے سے حاصل شدہ کسی علم کی بنا پر انسان کے لیے مابعد موت نجات کے اصول پیش نہیں کرتا بلکہ وہ دین و مذہب کے بالمقابل کسی اور دنیا کی فکر کرنے کے بجائے اسی دنیا کو بہتر طور پر چلانے کے کچھ اصول بتاتا ہے اور ان اصولوں تک ہر شخص اپنے علم کے ذریعے پہنچ سکتا ہے۔ سیکولر نظریہ کوئی پراسرار شئے نہیں ہے اور اس کا علم و فہم حاصل کرنا، اس علم و فہم میں حذف و اضافہ اور نظرثانی  کرنا محض اہل کشف و کرامت، برگزیدہ اور منتخب انسانوں کا حق نہیں ہے بلکہ یہ ہر انسان  کا حق ہے۔ سیکولر نظریہ مرنے کے بعد مرنے والے کی روح کا کیا ہوگا (و علی ہذا) کی فکر نہیں کرتا بلکہ وہ مرتے دم تک انسان کو دکھ درد سے محفوظ رکھنے کے طریقے سوچتا ہے۔ جن چیزوں کو انسان کی دنیاوی زندگی کے لیے وہ مفید پاتا ہے، ان کا تحفظ کرتا ہے، اور جن میں وہ نوع انسانی کا نقصان دیکھتا ہے اس کو مٹاتا ہے۔
مذہب کے لیے اس کا مافوق الفطری ذریعہ ٔعلم  بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے، جس تک کسی منتخب یا برگزیدہ ہستی کی ہی رسائی ہو سکتی ہے۔ حضرت گوتم بدھ کو جو گیان پراپت ہوا، یا حضرت عیسی کو جو وحی آتی تھی، وہ سب کے حصے میں نہیں ہو سکتی۔ عیسی و گوتم بننا ہما و شما کے بس کی بات نہیں۔ سیکولر نظریہ   تخلیق و تفہیم ، بڑا اور برگزیدہ بن سکنے کے اعتبار سے   سائنس کی طرح ہے کہ جس میں  نیوٹن کے بعد آئن اسٹائن  پیدا ہو سکتا ہے ، کل تک جو دنیا نیوٹن کو پوج رہی تھی آج آئن اسٹائن کو بھی  اسی  یا زیادہ ذوق و شوق سے پوج رہی ہے۔ یہاں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اب نیوٹن سے زیادہ سائنسداں ہونا، زیادہ علم رکھنا ممکن نہیں، بلکہ یہ مانا جاتا ہے  کہ نوع انسانی کے علم میں ہر لمحہ اضافہ ہوتا  ہے اور بعد میں  آنے والے پہلے آنے والوں سے زیادہ عالم ہوتے ہیں۔
مافوق الفطری ذرائع سے جو  علم  حاصل ہوتا ہے اس کے نتیجے میں انسان کے اندر  ٹھیک اس کے برعکس رویہ پیدا ہوجاتا ہے۔ مذہب میں آپ متقدمین  سے بازی نہیں لے جا سکتے۔ ان سے بڑے نہیں بن سکتے۔ اس کا سبب صرف ایک ہے کہ مافوق الفطری ذریعہ علم ہما و شما  کے لیے نہیں بلکہ  چند برگزیدہ اور چنے ہوئے لوگوں کے لیے ہے۔ اور ہم کو ان کے فرمودات کی صرف   تفہیم و  توضیح، تاویل و   تعبیر  یا کہیں لیں کہ  الفاظ کی ’’    شرح ‘‘ لکھتے رہنا ہے۔یہی سبب ہے کہ مذہب کا  تخلیقی دور  اب گزر گیا۔ بالفرض محال مستقبل میں کوئی شخص آئے اور کسی مافوق الفطری دعوے کا سہارا لے کر دنیا کی سب برگزیدہ اور چنی ہوئی  مذہبی شخصیتوں کے کارناموں کے نقش   کو دھندلا کر دے تو اس مذہبی رہنما کو اپنے جیسے  مذہبی رہنماوں کا ایک سلسلہ قائم کر کے بتانا پڑے گا کہ نوع انسانی تک اس کا یہ پیغام جاودانی ہمیشہ پہنچتا رہا ہے اور ہر دور کے لوگوں کے سامنے حق و باطل میں سے کسی ایک  پر چل کر اپنی جنت یا اپنا جہنم چن لینے کا آپشن تھا۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس پر یہ الزام آئے گا کہ سابقہ افراد اس کے  جدید مذہبی  اصول نجات سے محروم رہے  جس کو اس نے اتنے ہزار سال بعد پیش کیا!  پس، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مذہب پر لازم ہے کہ وہ  ہمیشہ کچھ خاص لوگوں پر ہدایت و رہنمائی کا بار ڈالے  اور بقیہ عوام کو اس سے محروم کر دے۔
مذہب ایسا کیوں کرتا ہے؟ صرف اس لیے کہ ایک انسان اپنے بزرگوں سے دریافت کرتا ہے کہ وہ کہاں سے آیا ہے ، کہاں جائے گا، اور مرنے کے بعد اس کا کیا انجام ہوگا۔ سیکولرازم  میں ان تین سوالوں  کا سائنسی  جواب   موجود  نہیں ہے جبکہ ہر مذہب ان سوالات کا  ایسے  جوابات  فراہم کرتا ہے جو  عقائد  کی شکل میں ذہنوں میں راسخ ہو جاتے ہیں۔ یہ جوابات متفق علیہ کے بجائے مختلف فیہ ہیں ۔ مختلف عقائد کی بنا پر مختلف قوموں کی تشکیل ہوتی ہے  جو باہم برسرپیکار رہتی  ہیں۔ ایسے سوالات چونکہ اسی دنیا میں آنے کے بعد پیدا ہوتے ہیں ، اسی دنیا میں زندگی گزارنے کے طریقوں سے متعلق ہو تے یا ہو جاتے ہیں، اس لیے  جب تک ان جوابات میں تصادم رہے گا تب تک ان کے ماننے والوں میں تصادم یقینی ہے۔ اس تصادم کو کم کیا جا سکتا ہے ،  بالکلیہ ختم نہیں کیا جا سکتا۔
یہاں سوال پیدا ہوا کہ یہ تصادم یقینی کیوں ہے؟ اس لیے کہ دنیا میں دو قومیں ایک دوسرے کے ربط میں آنے کے بعد  ایک دوسرے کے عقائد  پر مطلع ہوتی ہیں، ان  عقائد  کی بنا پر استوار اوران سے ہم آہنگ   عملی زندگی  کو دیکھتی ہیں۔ ایک قوم کے افراد یہ دیکھتے ہیں  کہ وہ مذہبی اسباب سے وہ  باہم دگر نکاح نہیں کر سکتے،  ایک  کے ہاں جو کچھ کھایا  پیا جاتا ہے وہ کھا پی نہیں سکتے، ایک کے ہاں  بعض خونی رشتوں میں   نکاح جائز ہے دوسرے کے ہاں  یہ حرام ہے۔ تو ظاہر ہے بنیادی نوعیت کے سوالات کا پیدا ہونا بالکل فطری ہے۔ اور اس کے نتیجے میں ہر قوم اپنے طریقے کو صحیح اور دوسرے کے طریقے کو غلط ہی کہے گی۔ اور بات یہیں تک رہتی تو غنیمت  تھی، لیکن جب ایک مذہب  دعوت و تبلیغ کے ذریعے اپنے  افراد قوم کی تعداد میں اضافہ کرتا ہے تو صورتحال بیحد مکروہ  اور متعفن ہو جاتی ہے ۔
یہ کوئی بین مذہبی  یا بین قومی سچویشن ہی نہیں بلکہ ایک دروں مذہبی اور دروں قومی سچویشن بھی ہے۔انسانی  عقل کی انحرافی نوعیت کے سبب ایک مذہب مزید ذیلی مذاہب اور ایک قوم مزید ذیلی قوموں میں منقسم ہوتی چلی جاتی ہے۔ تقسیم در تقسیم کا یہ عمل  جس قدر گہرا ہوتا جاتا ہے ، جامعیت بشری تار تار ہوتی چلی جاتی ہے، ایک دوسرے کے ہاں کھانا پینا،  شادی و غم، ملنا جلنا، سلام کلام سب حرام ہو جاتا ہے۔پس دروں مذہبی اور بین مذہبی  تقسیم کی ایسی صورتحال میں فرقہ واریت کی تقریریں وجود میں آتی ہیں اور باہمی خون خرابے کے سبب مذہب کا  کم از کم ایک  مقصد  تو فوت ہو جاتا ہے جس کے لیے    مذہبی رہنماوں نے اس کو پیش کیا تھا۔
اور یہیں  مغربی افق سے  سیکولرازم کا آفتاب طلوع ہوتا ہے۔ چونکہ یہ طلوع ہی مغرب سے ہوتا ہے اس لیے یہ قیامت کی ایک نشانی ہے۔ سیکولرازم کہتا ہے کہ ہم قضیہ زمین برسرزمین کے اصول پر زندگی گزاریں گے اور جو سوالات اس دنیا میں پیدا ہوتے ہیں، ان سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنی سیاسی زندگی کو دنیاوی اصولوں  پر گزاریں گے نہ کہ اسے مافوق  الفطری علم کی رو سے پیدا ہونے والے مختلف فیہ عقائد  کی بنیاد پر استوار کریں گے۔ چونکہ تجربے  سے ثابت ہوا کہ کسی جغرافیائی خطے میں ایک سے زیادہ قوموں  اور ذیلی قوموں  یا فرقوں کے آباد ہونے کی صورت میں  عقیدہ اور عمل کا اختلاف قتال و جدال کے سوا کسی اور نتیجے تک نہیں پہنچتا اس لیے  مذہبی عقیدہ ہر قوم، فرقہ ، فرد اور جماعت کا ذاتی معاملہ  ہونا چاہیے۔  مرنے کے بعد کی زندگی کیسی ہے، مابعد موت نجات کے صحیح اصول کیا ہیں، ان سوالات کا اس دنیا کے سیاسی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ جب تک یہ تعلق باقی رہے گا، باہمی خون خرابہ، فساد اور خونریزی سے محفوظ نہیں رہا جا سکتا ۔پس،  مذہب  سیکولراز م کو نہیں گردان سکتا کیونکہ وہ انسان کی سیاسی زندگی کو مذہب کے دائرے سے نکال کر اس کی تحدید کا مرتکب ہوتا ہے۔ 
مذہب اور سیکولرازم  کے درمیان فکری اختلاف اتنا شدید ہے کہ دونوں کے مابین مصالحت کی ہر کوشش بالآخر ناکام ہو جاتی ہے، اس لیے ایسی کوشش ناکام کے بجائے  ان دونوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ رکھنے کی ضرورت ہے۔یعنی یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سیکولرازم  میں مذہب کی گنجائش ہے یا مذہب میں سیکولرازم کی گنجائش ہے۔لیکن اس  اختلاف کے باوجود مذہب اور سیکولرازم دونوں ایک ساتھ ایک ہی  شخص میں جمع ہو سکتے ہیں۔ جیسے ایک ہی کینواس پر سفید اور سیاہ رنگ ساتھ رہ سکتے ہیں بلکہ دوسرے بے شمار رنگ ساتھ رہ سکتے ہیں اور ایک جمالیاتی اثر پیدا کرتے ہیں۔ میں خود کو مسلمان سمجھتا ہوں لیکن اس کے ساتھ ہی میں سیکولر بھی ہوں۔ اور میں اس کے لیے قرآن و سنت سے کوئی دلیل  پیش نہیں کرتا اور نہ سیکولر ازم کی تاریخ  یا نظریے  سے اپنے مذہبی عقیدے کی گنجائش برامد کرتا ہوں۔ مذہب اور سیکولرازم میں کوئی تطبیق دینا مجھے گوارا نہیں۔ اسی طرح مذہب اور ڈیموکریسی میں بھی میں کوئی مطابقت تلاش نہیں کرتا۔ ڈیموکریسی کے معنی جمہوریت کے نہیں ہوتے۔ ڈیموس کے معنی عوام، اور کریٹوس کے معنی حکومت، پس، ڈیموکریسی کے مغربی لفظ کے معنی عوام کی حکومت کے ہوں گے۔جبکہ  جمہوریت کے معنی  اکثریت کی حکومت کے ہوں گے   جس کو انگریزی میں آپ میجریٹیرین سسٹم یا میجریٹیرین ازم کہہ سکتے ہیں جو ڈیموکریسی سے مختلف ایک شئے ہے۔اس لیے  جمہوریت ڈیموکریسی کا درست ترجمہ نہیں ہے۔  اردو میں ترجمہ کی ایک غلطی  نے  اردو آبادی  میں کیسی کیسی غلط فہمیاں پیدا کر دی ہیں    ۔ یہ بالکل ظاہر ہے کہ مذہب اسلام نے عوام کو اپنا حکمراں ، اپنا قانون ساز آپ بننے کی اجازت نہیں دی ہے۔ اگر ہم قرآن کو آج کے لیے بھی ہدایت و رہنمائی مانتے ہیں تو قرآن اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہ کافر اور ظالم ہیں۔ اسلام میں عوام کو یہ حق حاصل نہیں  ہے کہ وہ اجتماعی طور پر خود حاکم مطلق  بن بیٹھے اور قانون بنانے لگے۔ ڈیموکریسی میں عوام حاکم مطلق ہوتے ہیں اور اس میں قانون سازی کا ایک طریقہ یہ ہے کہ  عوام کے افراد کی کثرت آرا سے  عوام کے نمائندوں کا انتخاب  ہوتا ہے تا کہ وہ  بقدر ضرورت جیسی قانون سازی چاہیں کریں۔ عوام کے نمائندوں کا فرض ہے کہ  وہ  ایک فرد یا جماعت کے نقطہ نظر سے  متاثر نہ ہوتے ہوئے کل عوام کی اجتماعی  فلاح کے نقطہ نظر سے قانون سازی کریں۔ ہمیشہ یہ واضح رہنا چاہیے کہ ڈیموکریسی کی مجالس قانون ساز میں جو لوگ منتخب ہو کر پہنچتے ہیں وہ اکثریت کے نمائندے نہیں ہوتے بلکہ  تمام عوام کے نمائندے ہوتے ہیں جن میں اقلیت بھی شامل ہے۔اور یہ صرف  ایک قانونی  بات ہی نہیں بلکہ اخلاقی بات بھی ہے جس کی پابندی اگر نہ کی جائے تو سب گڑ گوبر ہوجائے گا۔
اوپر کی گزارشات سے واضح ہے کہ اسلام  کے ڈھانچے میں ڈیموکریسی اور سیکولرازم کی کوئی جگہ نہیں اورنہ  ڈیموکریسی اور سیکولرازم کے  ڈھانچے میں  اسلام کی گنجائش ہے۔ لیکن اس کے باوجود دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔ یہ دنیا ایک کینواس ہے اور اس پر بہت سے رنگ ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ دنیا کے اس کینواس پر خون خرابے کا رنگ نہ پوتا جائے، ڈیموکریسی اور سیکولرازم صرف اس لیے ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ ڈیموکریسی اور سیکولرازم ایک دوسرے کے پورک  یعنی لازم و ملزوم ہیں۔ اگر سیکولرازم کو خارج کر دیا جائے تو ڈیموکریسی  کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اگر کسی ملک میں مسلمان  اکثریت اپنا مذہبی نقطہ نظر اقلیت  پر نافذ کرنے  لگے تو ظاہر بات ہے کہ یہ ڈیموکریسی یعنی تمام عوام کی حکومت نہ ہوئی بلکہ فقط  اسلامی جمہوریت  ہوکر رہ  گئی جو ڈیموکریسی سے  مختلف چیز ہے ۔بعض لوگ یہ کہیں گے کہ بات ایک ہی ہے جمہوریت کہو یا ڈیموکریسی، کیونکہ بہرحال اس نظام میں بات اکثریت ہی کی چلتی ہے،  یہ صرف گھما کر ناک پکڑنا ہے اور کچھ نہیں۔ لیکن ایسے افراد ناعاقبت اندیش ہیں کیونکہ  ڈیموکریسی کو جمہوریت کہہ کر  ہم نظری اور اصولی طور پر اکثریت کو  حاکم مطلق تسلیم کر لیتے ہیں، پھر اصولا کسی  منتخب سرکار پر یہ  قانونی اور اخلاقی  ذمہ داری نہیں رہتی کہ وہ قانون سازی کرتے وقت   تمام عوام کی فلاح  کو ذہن میں رکھے۔ سرکار یہ صاف کہہ کر نکل جائے گی کہ ہم پر ایسی کوئی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری نہیں ہے کہ ہم  اقلیت  کی فلاح کو بھی ذہن میں رکھیں۔ پھر ایسے نظام کو آپ جمہور کی بادشاہت  ہی کہیں گے کیونکہ  جب تک  کسی سیاسی  نظام میں حاکمیت مطلقہ عوام کے تمام افراد میں  منحصر نہ سمجھی جائے گی، تب تک ڈیموکریسی کا کا لفظ اس نظام  پر صادق نہ آئے  گا ۔  حاکمیت مطلقہ کوکل  عوام(   ڈیموس )کے اندر رکھ کر عوام ہی کے ایک حصے سے اس کو چھین کر کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم چونکہ جمہور ہیں اس لیے  حاکمیت مطلقہ ہم میں عود کر آئی ہے۔

مردوں کی حاکمانہ قوامیت اور نئی عورت

انسان کی نظری اخلاقیات میں ہمیشہ ترقی ہوتی رہی ہے۔ زمانہ ٔ جاہلیت میں غلامی کا رواج تھا۔ اسلام نے آ کر اس کو اخلاقی طور پر مٹا دیا۔ لیکن قانونی طور پر اس کو برقرار رکھا۔ غلامی کی حرمت پر کوئی نصِ شرعی نہیں ہے ورنہ صحابہ کرام جنگوں میں محارب خواتین کو لونڈی نہ بناتے۔ لیکن چونکہ نظری اخلاقیات میں ہمیشہ ترقی ہوتی رہتی ہے اس لیے قانون کا فرض ہے کہ وہ تبدیل شدہ اخلاقیات کی پیروی کرے۔ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے غلامی کو ناپسندیدہ قرار دیے کر ایک اخلاقی اصول قائم فرما دیا لیکن بعض مصلحتوں کے تحت اس قانون کو باقی رہنے دیا گیا۔ لیکن اب جبکہ ان مصالح کی ضرورت ختم ہو گئی ہے، یہ قانون بھی عملاً دنیا سے اٹھ چکا ہے۔ اور جو قوم بھی جنگ کے بعد محاربین کو غلام بنائے، وہ غیر انسانی سلوک کی مرتکب کہلائے گی۔ بے شک اسلام میں جنگ کی اجازت دی گئی ہے لیکن ایک دور وہ بھی آ سکتا ہے جب سرے سے جنگ کی ضرروت ہی نہ رہ جائے۔ اس صورت میں اسلامی قوانین جنگ بھی نہیں رہیں گے۔
اسی طرح عورت اور اس کی حیثیت کے سلسلے میں جو اخلاقی نظریے اور رویے چودہ سو سال پہلے پائے جاتے تھے، انہیں جدید انسانی معاشرے میں اعتبار حاصل نہیں رہا۔ اس دور میں عورت کا بدن ایک مرد کی قبائلی غیرت کا مرکز تھا جس کو نشانہ بنائے جانے پر  مرد کی رگ حمیت پھڑک اٹھتی تھی۔ وہ چیز آج بھی بڑی حد تک باقی ہے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ اگر پاکستان کی ہیروئن وینا ملک ہندوستان آ کر ہولی کھیلتی ہے تو پاکستانیوں کی رگِ حمیت پھڑک اٹھتی ہے۔ لیکن موجودہ دور کی خواتین اپنے جسم کو کسی مرد کی عزت سے جوڑ کر نہیں دیکھنا چاہتیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ ان کے جسم کے ارد گرد مردوادی غیرت کا جو بھونڈا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے،اس کا کسی طرح خاتمہ ہو۔ نظری اخلاقیات میں یہ جو  تغیر عورتوں کی مداخلت سے واقع ہوا ہے ، وہ بہت قیمتی ہے۔
اب رہا یہ اشکال کہ اس طرح تو عورت جہاں چاہے , منہ مارے اور مرد اس کو برداشت کر تا رہے ، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میرا جواب یہ ہے کہ ایسا ہی ہو رہا ہے اور اب مرد کچھ نہیں کر سکتا۔ وہ نہ عورت کے جسم کا مالک ہے اور نہ اس کے دل و دماغ کا۔ عورت اپنی ان چیزوں کو  جیسے چاہے گی استعمال کرے گی۔اس کو آپ کسی مذہبی کتاب کا حوالہ دے کر نہیں روک سکتے۔ اس کی  بہت سی مثالیں ہیں، اور میں مثالیں دینے سے یہاں  گریز کرنا چاہتا ہوں۔ مثال سنتے ہی بنیاد پرستوں کو غصہ آ جاتا ہے۔ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ عورت کو مذہب کے حوالے سے قابو میں نہیں کیا جا سکتا ۔دورِ جدید میں اس کو فنونِ لطیفہ کے ذریعے قابو میں کیا جا تا ہے۔ آرٹ اور کلچر کے نام پر بالکل ایک مختلف قسم کی غلامی میں اس کو مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ یعنی عورت کا مقدر بالکل صاف طور پر یہ ہے کہ یا تو وہ چہار دیواری میں  رہ کر غلامی کرے، یا پھر وہاں سے باہر نکل کر جدید ثقافتی بھیڑیوں کی شکار بن جائے۔ بعض روایتی مذہبی طبقے عورت کو چہار دیواری میں رہنے کا حکم دیتے اور رقص و سرود سے منع کرتے ہیں اور اس کی امنگوں کا گلا گھونٹ کر اس کو بچہ پیدا کرنے کی مشین بنا دیتے ہیں۔ وہ مرد کو عورت پر حاکمانہ قوامیت کا اختیار عطا کرتے ہیں جس کی رو سے وہ اس کو راہ راست پر لانے کے لیے آخری چارہ ٔ کار کے طور پر مار  بھی سکتا ہے۔ چہار دیواری سے باہر اس کو قانونی طور پر مارنے پیٹنے کا اختیار تو کسی کو نہیں مگر  غیر قانونی طور پر اس کا استحصال بہت کیا جاتا ہے۔ ویسے گھر کے اندر کی دنیا میں بھی اس کا جنسی استحصال ہوتا ہی ہے  تاہم  یہاں عورت کو اصولاً کم از کم ایک مقدس شئے ضرور سمجھا جاتا ہے۔ لیکن وہ تقدس کس کام کا جو اس کو گھریلو دایہ اور نوکرانی بنا کر رکھ دے؟ اس لیے وہ چہاردیواری کی اپنی  ذلیل محکومانہ حالت سے باہر  کھلے میدان میں نکل آتی ہے جہاں پہلے ہی  اپنے ہوس ہونٹوں سے رال ٹپکاتے  شہوانی درندے  منتظر ہوتے جو اس کے جسم کو بھنبھوڑتے ہیں۔  موجودہ حالات میں دونوں جگہوں پر عورت  ایک ذلیل شئے ہے۔ اس کی جدوجہد اس ذلت  و محکومی  اور استحصال و ابتذال سے نکلنا ہے خواہ وہ گھر کی زندگی میں ہورہا  ہو یا باہر کی۔ اب یہ معاملہ طے  ہو چکا ہے کہ وہ مرد کی  ماتحت بن کر نہیں رہ سکتی۔ مغرب میں  وہ تن ِ تنہا مرد کی مدد کے بغیر اپنے بچے پال رہی ہے یا نہیں؟ کتنے ہی بے وفا مرد ایسے ہیں جو سال ڈیڑھ سال ساتھ رہ کر اس کو چھوڑ جاتے ہیں اور عورت  اکیلی اپنی اولاد کی پرورش اور تربیت میں مصروف رہتی ہے۔  جس طرح بن ماں کے بچے پل جاتے ہیں، اسی طرح بن باپ کے بھی پل ہی جائیں گے۔ اور اگر اس کا کوئی بہت برا نتیجہ نکلے گا، یا نکل رہا ہے تو اس کی فکر اکیلے عورت کو ہی کیوں ہو؟ مرد اپنے اخلاق کی اصلاح کیوں نہیں کرتا؟ فرمانبردار، اطاعت شعاری، وفاداری اور پے در پے قربانیوں کا سارا مطالبہ عورت سے ہی کیوں؟
 یہ سمجھنا کہ عورت مرد سے کمزور ہے اس لیے لازماً اس کو آج نہ کل مرد کی ماتحتی میں آنا ہوگا، یا اس قسم کی باتیں کرنا کہ چاقو تربوز پر گرے یا تربوز چاقو پر، دونوں صورتوں میں نقصان صرف عورت کا ہوتا ہے، ایک ضلالت  آمیز فکر ہے۔ نہ عورت تربوز ہے، نہ مرد چاقو، عورت کی تذلیل گھر میں ہو یا باہر، اس سے مرد کا بھی اتنا ہی نقصان ہے جتنا عورت کا۔ بلکہ مرد کا کچھ زیادہ ہی نقصان ہے۔ عورت کے لیے اولاد پیدا کرنا تو اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔  آج کل تو بہت سے طریقے نکل آ ئے ہیں۔ اب یہ ایک انجکشن کی بات رہ گئی ہے۔ مرد  میں اس کی صلاحیت سرے سے ہے ہی۔  ظاہر ہے اس کے لیے بھی اس کو ایک عورت ہی کی ضرورت  پیش آئے گی۔ اولاد کی خواہش انسان کی فطری خواہش ہے اور جس قدر عورت کو اس کی ضرورت ہے ، اسی قدر مرد کو بھی ہے۔ اس لیے جب دونوں مذاکرے کی میز پرآئیں گے تو مرد کو اپنی حاکمانہ قوامیت سے دست بردار ہونا ہی پڑے گا۔ ورنہ عورت جیسے ابھی جی رہی ہے، ویسے ہی جیتی رہے گی ۔اور جب تک مرد مذہبی طور پر اپنی بالادستی اور حاکمانہ قوامیت سے دست بردار نہ ہوگا، عورت واپس مرد کی زندگی میں وہ خوشیاں نہیں بکھیر سکتی جس کا مرد ازل سے ہی شائق رہا ہے۔ یہاں اس قسم کی بوگس دلیلیں پیش کرتے رہنا کہ ــــــــــــــــــــــــــــــــــ خاندان کے ادارے کا ایک سربراہ ہونا چاہیے، اور مرد ہی میں اس کی صلاحیت پائی جاتی ہے، عورت تو صرف ایک جذباتی مخلوق ہے، وہ کیا سربراہی کر سکے گا ـــــ انتہائی درجے کی نادانی ہے اور اس سے مابعد جدید عورتیں مزید مشتعل ہوتی ہیں۔ مرد میں اگر عورت سے زیادہ جسمانی طاقت ہے تو اس کی حیثیت سربراہ کی نہیں بلکہ باڈی گارڈ کی ہے۔ اور یہ مسلم ہے کہ باڈی گارڈ کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے رکھا جاتا ہے نہ کہ حکم چلانے کے لیے۔ مابعد جدید عورت تحفظ فراہم کرنے کی مردوادی دلیل کی چالاکی کو سمجھ گئی ہے۔ اس لیے اس نے باڈی گارڈ کو معزول کر دیا ہے اور اپنے جسم کو ہی اپنا ہتھیار بنا لیا ہے۔

بدھ، 29 جولائی، 2015

فلسفہ و سائنس میں مادری، تہذیبی و مذہبی زبان کا لزوم



[یہ ایک فیس بک نوٹ ہے جو۳ فروری، ۲۰۱۲ عیسوی کو لکھا گیا۔ مخاطب کا نام حذف کر دیا گیا ہے ۔]

محترم … … …،
فکر و فلسفہ کے معیار مطلوب تک انسان تبھی پہنچ سکتا ہے جب وہ اپنی مادری زبان کو اپنے فلسفیانہ اظہارکا وسیلہ بنائے یا پھر اس زبان کو جس کو وہ اپنا سمجھتا ہو یعنی جس سے اس کی مذہبی، تہذیبی، ثقافتی یا ماحولی و جغرافیائی وابستگی ہو، نیز وہ زبان اس کے اردگرد بہ قدر ضرورت موجود ہونے کے علاوہ لسانیاتی طور پر اس کی فطرت میں پیوست ہو جانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ دور جدید میں برصغیر ہندوپاک، بلکہ عالم اسلام کے اکثر ملکوں میں بھی، عظیم فلسفی یا سائنسداں اس لیے پیدا نہ ہو سکے کہ برطانوی استعمارکے خاتمے کے بعد بھی پوری اکادمک دنیا پرانگریزی جیسی غیر موزوں زبان (مذکورہ بالا معنوں میں) کا تسلط قائم رہا۔ واضح رہے کہ ایک طویل مدت تک ہمارے درمیان رہنے کے باجود انگریزی ہماری ’’اپنی‘‘ زبان نہ بن سکی۔ اور ہماری علمی و سیاسی  قیادت نے بعض غیر حقیقی معذوریوں کا اظہار کرتے ہوئے اس کو اعلیٰ تعلیم میں تحقیق و رسرچ کی زبان کے طور پر مسلط کیا جاتا رہا۔ اسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم علم و فکر کی ہر سطح پر کم مایگی و بے بسی کا شکار بنے رہے۔ اس کا ایک سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ کئی صدیوں سے ہمارے درمیان بقدر ضرورت ایسے حکما و فلاسفہ کا ظہور نہ ہو سکا جو کسی قوم یا تہذیب کو قعرمذلت سے نکال کر بام عروج تک لے جاتے ہیں۔
لیکن آپ کا موقف یہ ہے کہ زبان ترسیل و ابلاغ کا وسیلہ ٔ محض ہے اور فکر و فلسفہ اور سائنس کے باب میں اس کی اس سے زیادہ حیثیت نہیں۔ اور خاطرخواہ محنت کے بعد بھی انگریزی جیسی  غیر زبان میں بھی فکر و فلسفہ کے معیار مطلوب تک پہنچا جا سکتا ہے۔ آپ نے اس سلسلے میں اس دلیل پر زور دیا ہے کہ ابن سینا اور فارابی، اور غزالی وغیرہ کی مادری زبان فارسی ہونے کے باوجود انہوں نے عربی زبان میں بڑے فلسفیانہ اور سائنسی کارنامے انجام دیے۔ یہ آپ کے نزدیک امرواقعہ یا فیکٹ بھی ہے۔ لیکن میرے نزدیک یہ فی الحال ایک صحیح تاریخی معلومات ہے جس کو موضوع زیر بحث کے تناظر میں ’’حقائق‘‘ یا فیکٹ سے تعبیر کرنا گمراہ کن ہوگا۔ فیکٹ کہہ کر ہم ایک طرف تو یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہمارے لیے انگریزی میں فکر و فلسفہ کے معیار مطلوب تک پہنچنا ممکن ہے اور دوسری طرف ہم یہ بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ موجودہ علمی و عالمی نظام کے تناظر میں مختلف سطحوں پر انگریزی ذریعۂ تعلیم ہمارے حق میں ہے اور اس کو جاری رہنا چاہیے۔ اور غالباً آپ کا موقف یہ بھی ہے کہ زبان خواہ کوئی بھی رائج ہو، فکر و فلسفہ اور سائنس اور ٹکنالوجی میں تاریخ ساز ترقی کرنے کی انسانی اہلیت پر اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔
’’فلسفہ کے باب میں زبان کا وظیفہ ابلاغ و ترسیل محض ہے‘‘، میں اس بحث میں جانے سے پہلے ان فیکٹس کی ایک صحیح توجیہ کی کوشش ضرور کروں گا جن پرآپ کا اصرار ہے اور جن سے میرے دعووں پر ضرب پڑ سکتی ہے:
1.     عہد وسطیٰ یا اسلامی عہد میں عربی حکومت کی زبان تھی، عربی پڑھی اور پڑھائی جا رہی تھی، بڑے پیمانے پر ترجمے کیے اور کرائے جا رہے تھے۔ لیکن صرف عربی کا مقتدر زبان کی حیثیت میں ہونا ہی بنیادی سبب نہیں تھا کہ ابن سینا اور دیگر اسلامی فلاسفہ عربی زبان کی طرف مائل ہوئے۔ اگر اس عہد کے عالم اسلام میں عربی زبان اسی طرح (یعنی اسی نوعیت، کیفیت اور حیثیت سے) ایران میں موجود ہوتی جس طرح آج انگریزی برصغیر ہند و پاک اور عالم عرب میں پائی جاتی ہے  اور فارسی ذہن میں عربی زبان کو اخذ و قبول کرنے کی فطری و تہذیبی نیز لسانی صلاحیت نہ پائی جاتی تو فارسی کے اہل زبان طبقے ہرگز عربی کا رخ نہ کرتے، اور بات وہیں ختم ہو جاتی۔
2.     میرا خیال ہے کہ برصغیر ہند و پاک میں انگریزی کی جو حیثیت ہے، اس دور کے ایران میں عربی کی وہ حیثیت نہیں تھی۔ عربی ایرانیوں کے لیے سات سمندر پار کی زبان نہیں تھی جس طرح انگریزی ہندوستانیوں کے لیے ہے۔ اردو آبادی کے کسی انگریزی مصنف کو انگریزی میں تحریری مشق بہم پہنچانے میں جن دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، فارسی کے ایک مصنف کو اس دور میں عربی میں لکھنے کے لیے انہیں دقتوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا رہا ہوگا۔ ابن سینا نے جس لسانیاتی ماحول میں آنکھ کھولی اور زندگی گزاری اس ماحول میں عربی ٹھیک اسی طرح ایک غیرملکی زبان، یعنی فارین یا سکنڈ لینگویج نہیں رہی ہوگی جس طرح آج انگریزی ہے۔ فارسی و عربی زبانین اپنے فطری اور جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بہت قریب تھیں اور دونوں زبانوں کے افراد میں ایک دوسرے کی زبان پر قدرت حاصل کرنے کی بے پناہ صلاحیت پائی جاتی تھی۔   
3.     پس ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس پورے دور اور اس پورے جغرافیائی خطے کی لسانی اور لسانیاتی صورت حال کیا تھی، نیز پوری عربی زبان و تہذیب ایرانی زبان و تہذیب پر کس طور اثرانداز ہو رہی تھی۔ صرف تبھی ہم اس سلسلے میں کوئی مثبت یا منفی رائے دے سکتے ہیں کہ سینا و فارابی صرف فارسی کے اہل زبان تھے، عربی کے نہیں، اور انہوں نے ایک غیر اہل زبان کی حیثیت سے عربی کو اپنے فلسفیانہ اظہار کے طور پر منتخب کیا، جیسے ہم آج انگریزی کو منتخب کرتے ہیں۔
4.     عربی ایرانیوں کے لیے کوئی باہری، حملہ آور زبان کی حیثیت میں باقی نہیں رہی تھی کیونکہ وہ ان کی مذہبی زبان بن گئی تھی۔ انہیں اس سے ایک قلبی لگاو ہو گیا تھا۔ وہ اس کو جذبہ عبودیت کے ساتھ سیکھتے اور پڑھتے تھے۔ ہندوستان میں یہ مقام انگریزی کو حاصل نہیں رہا۔ کسی زبان سے مذہبی نوعیت کا لگاو اس زبان کو سیکھنے، اس پر قدرت حاصل کرنے، اور اس میں اظہار کرنے کے بے پناہ امکانات پیدا کر دیتا ہے، اور وہ زبان بمنزلہ مادری زبان بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ثابت ہوتی ہے۔ آپ نے خود مجھ سے پہلے اس امرواقعہ کو تسلیم کیا ہے کہ عربی ایرانیوں کی مادری زبان تھی۔
5.     پھر یہ تاریخی سوال بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ کیا عرب اسی طرح ایران گئے جس طرح انگریزی ہندوستان آئے؟ نیز قابض و دخیل ہو جانے کے بعد عربوں کا فارسیوں کے ساتھ وہی رویہ تھا جو انگریزوں کا ہندوستانیوں کے ساتھ رہا؟ عرب جہاں بھی گئے طلب علم کی نیت کے ساتھ بھی گئے۔ وہ مشرق و مغرب کے علوم کے وارث ہونا چاہتے تھے۔ جبکہ انگریز جہاں بھی گئے اپنی تہذیبی احساس برتری کے ساتھ گئے۔ ظہور اسلام کے سبب عربوں کی تہذیبی احساس برتری کا انسداد ایران پر حملہ آور ہونے سے بہت پہلے ہو چکا تھا اور اسی لیے ان کا وہ رویہ نہیں ہو سکتا تھا جو انگریزوں کا ہندوستانیوں کے ساتھ رہا۔ البتہ عربوں میں ایک مذہبی احساس برتری ضرور پائی جا سکتی تھی۔ لیکن ایسی احساس برتری انگریزوں میں بھی پائی جاتی تھی۔ اسی لیے عیسائی مشنریوں کا تانتا سا لگا رہتا تھا۔ لیکن عربوں اور انگریزوں کی مذہبی احساس برتری میں بھی نمایاں فرق تھا۔ عرب ایرانیوں سے ویسا غیرانسانی سلوک نہیں کر سکتے تھے جو انگریزوں نے ہندوستانیوں سے کیا۔ پھر عربوں کی مذہبی احساس برتری کی قلب ماہیئت بھی اسلامی مساوات کی تعلیم کے ذریعے ہو جاتی تھی کیونکہ مسلمان ہو جانے کے بعد ایرانی بھی عربوں جیسے مسلمان ہونے کی قانونی و اخلاقی حیثیت میں آ چکے تھے۔ اس لیے عربوں کا ایرانیوں کے ساتھ جو رویہ رہا وہ بہ حیثیت مجموعی مساویانہ ہی ہو سکتا تھا۔ عرب ایرانیوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور انہیں علمی و فکری ترقی کرنے کے مواقع فراہم کرتے تھے۔ یہی تاریخی اسباب تھے کہ عربوں کے ایران پر غلبے کے تقریباً ساڑھے تین سو سال کے اندر ہی ابن سینا جیسا عبقری پیدا ہوا جو مشرق و مغرب کی علمی و فکری تاریخ پر’’معلم ثانی‘‘ کی حیثیت سے چھایا رہا (معلم اول ارسطو کے لیے مخصوص ہے)۔ اب یہیں سوال اٹھتا ہے کہ انگریزوں یا یورپیوں کےغلبے کے تقریباً اتنے ہی طویل عرصے میں ایشیا و افریقہ کے کسی خطے میں انگریزی میں لکھنے والے کتنے غیر انگریز یا کسی بھی یورپی زبان میں لکھنے والے کتنے غیر یورپی فلسفی یا سائنسداں پیدا ہوئے جن کا مقابلہ سینا و فارابی یا خیام و طوسی سے کیا جا سکے؟ جن کا مقابلہ ڈارون مارکس، فرائیڈ، نیوٹن یا آئن اسٹائن سے کیا جا سکے؟ میرا خیال ہے کہ ایسے  فلسفیوں کو تو خود انگریز بھی پیدا نہ کر سکے۔ (جرمن اور فرانسیسی فلسفیوں کے تناظر میں ) عالم مغرب کی فکری  لحاظ سے نسبتاً ایک کمزور زبان جو اپنے بولنے والوں کے قوائے عملی کی بنیاد پر ساری دنیا میں چھا گئ، کیسے کسی ڈارون یا مارکس کو پیدا کر سکتی تھی؟ انگریزی میں تو زیادہ تر اعلیٰ درجے کے مقلد ہی ہو سکتے تھے۔ میرا اندازہ ہے کہ مغربی استعمار اور اس کے بعد سے اب تک مسلمانوں، یا غیر مسلموں میں ہی سہی،  کسی ایک عظیم المرتبت فلسفی یا سائنسداں کا ظہور نہ ہو سکا جو انگریزی یا کسی بھی یورپی زبان میں لکھتا ہو اور اس کی تحریروں نے مشرق و مغرب کی علمی دنیا میں کوئی بڑا انقلاب برپا کر دیا ہو۔ بلاشبہ ایک لمحے کو اس سلسلے میں فرانسیسی یہودی فلسفی ژاک دریدا کا نام ذہن میں آتا ہے لیکن اپنے وطن الجیریا میں اس کے مذہبی، تہذیبی اور جغرافیائی حالات و مسائل بالکل دوسرے تھے، اور وہ غیر یورپی ہونے کے باوجود مسلمہ طور فرانسیسی اہل زبان تھا اور فرانسیسی لہجے میں فرانسیسی بولنے اور لکھنے پر قادر تھا۔   
6.     زبان و ادب اور فکر و فلسفہ کی ترقی پر گفتگو کرتے ہوئے ’’مادری زبان‘‘ تو ایک عام حقیقت کے اظہار کئے لیے اپنایا جانے والا لفظ ہے۔ عام لوگوں کو سمجھانے کے لیے ہی عموماً یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ مادری زبان میں ہی بڑے کارنامے ممکن ہیں۔ لیکن جب بھی علمی نوعیت کی بحث ہوگی تو دیکھا جائے گا کہ کون فلسفی یا شاعر یا ادیب اہل زبان ہے اور کون نہیں ہے۔ اردو میں لکھنے والے کئی مغربی علما کو کیا ہم اہل زبان تسلیم کرسکتے ہیں؟ مثلاً رالف رسل؟ اگر کوئی یورپی شخص ہندوستان آکر فصیح و بلیغ اردو بولنا شروع بھی کر دیتا ہے تو بھی ہم اس کو اہل زبان تسلیم نہیں کرتے اور اس کے متعلق یہی کہتے رہتے ہیں کہ دیکھیے، یہ انگریز ہیں اور اہل زبان کی طرح اردو بولتے ہیں۔ ہم کبھی اس کو یہ نہیں کہتے کہ ’’یہ اردو کے برطانوی یا انگریز اہل زبان ہیں‘‘، کیونکہ انہوں نے اردو میں خواہ جس قدر بھی مشق بہم پہنچائی ہو وہ فطری نہیں سمجھی جائے گی۔ لیکن ہم اقبال کو اہل زبان قرار دینے میں ایک لمحہ کو بھی نہ ہچکچائیں گے خواہ ان کی مادری زبان پنجابی ہو کہ ہریانوی! مادری زبان اہل زبان ہونے کی شرط لازم نہیں ہے۔ ہم جس طرح علامہ اقبال کو اہل زبان قرار دیتے ہیں، اسی طرح ابن سینا کو اہل زبان کیوں نہیں سمجھ سکتے؟ انگریزی کی بالادستی کے دو ڈھائی سو سالوں کے بعد بھی طلبا جس بڑے پیمانے پر انگریزی میں بولنے اور لکھنے کی جتنی مشق کرتے ہیں، structure drills سے لے کر word usage تک، کیا ایرانی حکما و فلاسفہ اپنی طالب علمی کے دور میں اتنی ہی کدو کاوش کے ساتھ عربی کی مشق بہم پنچاتے رہے ہوں گے؟ یا یہ نسبتاً زیادہ آسان مرحلہ ہوتا ہوگا؟ کیونکہ ابن سینا کا ظہور عربی و فارسی کے اختلاط کے تین ساڑھے تین سو سالوں کے بعد ہی ہو سکا۔ اس پورے عرصے میں فارسی نے عربی کا رسم الخط اپنا لیا ہوگا، لاتعداد عربی الفاظ اپنی اصلی اور منحرف شکل و صورت میں فارسی میں داخل ہوچکے ہوں گے اور ایرانیوں کے لیے عربی سیکھنا بڑی حد تک اتنا ہی آسان ہو چکا ہوگا جتنا کہ پنجابی والوں کے لیے اردو، یا اردو والوں کے لیے ہندی، یا ہندی والوں کے بنگلہ۔
7.     آپ نے کارل مارکس کا حوالہ دیا ہے کہ وہ انگلینڈ کے دوران قیام انگریزی میں بھی لکھتا تھا۔ لیکن مارکس بنیادی طور پر اپنی انگریزی تحریروں کے لیے نہیں جانا جاتا۔ میرا خیال ہے مارکس داس کیپیٹل کسی اور یورپی زبان میں نہ لکھ سکتا۔ اس لیے مارکس اور اس جیسے تمام بائی لنگول مغربی فلاسفہ اس بحث سے خارج ہیں۔
8.      آپ نے علامہ اقبال کا حوالہ دیا ہے کہ ان کی مدر ٹنگ یا مادری بولی پنجابی تھی لیکن مدر ٹنگ اور مدر لینگویج میں فرق ہے۔ مدر ٹنگ یا مادری بولی تو وہی ہے جس کو ہم اپنے خاندان یا بہت آس پاس کے ماحول میں سنتے بولتے ہوئے بڑے ہوتے ہیں۔ جبکہ مدر لینگویج یا مادری زبان سے مراد صرف ماں باپ کی، خاندان کی، گلی محلے یا شہر کی زبان یا بولی نہیں ہے۔ ہماری مادری زبان کا تعین یوں نہیں ہوتا کہ ہمارے ماں باپ یا خاندان کے لوگ چونکہ بھوجپوری (یا پنجابی، اودھی، مگہی یا میتھلی) بولتے آئے ہیں اس لیے ہماری مادری بھی زبان لازماً بھوجپوری ہی ہے! یا ہمارے شہر کے لوگ چونکہ ہندی بولتے ہیں اس لیے ہماری مادری زبان ہندی ہے۔ مادری زبان کے تعین کے پس پشت نسلی، تاریخی اور مذہبی وابستگی کے ساتھ ساتھ صوبائی، ملکی اور جغرافیائی عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں۔ مذکورہ تمام ترمختلف عوامل پر مبنی پہلووں سے غور و فکر کرنے کے بعد ہی ایک نسل اور ایک قوم اپنی مادری زبان کا تعین کرتی ہے۔ اس لیے مادری زبان کبھی ’’فطری‘‘ سے زیادہ ’’ترجیحی‘‘ نوعیت کی ہوتی ہے اور کبھی ترجیحی سے زیادہ فطری نوعیت کی، یا کبھی ان دونوں نوعیتوں کا تناسب یکساں ہوتا ہے۔ بہرحال یہ ایک امرواقعہ ہے کہ علامہ اقبال ’’مادری زبان‘‘ پنجابی اس لیے تھی کہ ان کے اہل خاندان پنجابی بولتے تھے۔ لیکن اس بات پر زور دینا کہ ’’اردو علامہ اقبال کی مادری زبان نہیں تھی‘‘ خود صورت واقعہ کی صحیح ترجمانی نہیں ہوگی۔ کیا اقبال کے دور میں’’مادری زبان‘‘ کی اس ترجیحی سیاست کا وجود تھا جیسا کہ منقسم ہندوستان میں ہے؟ اگر نہیں تو پھر پنجابی اقبال کی مادری زبان ہونے کے باوجود ان کے لیے علمی و فکری لحاظ سے غیر اہم زبان تھی۔ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اقبال نے اردو اسی طرح سیکھی تھی جس طرح ہم انگریزی سیکھتے ہیں؟ یا کیا خود اقبال نے اردو اسی طرح سیکھی تھی جس طرح خود انہوں نے فارسی یا انگریزی سیکھی تھی؟ ظاہر ہے نہیں۔ اقبال بچپن ہی سے اردو سنتے اور بولتے آئے تھے اور بہ نسبت فارسی کے اردو سے زیادہ قریب تھے۔ اور اسی طرح وہ انگریزی کے مقابلے میں فارسی سے زیادہ قریب تھے، اتنے قریب کہ ایک میں (یعنی فارسی میں) وہ بڑی شاعری کر سکتے تھے اور دوسری (یعنی انگریزی) میں نہیں۔
9.     آج بھی اگر تحقیق کی جائے تو کہ علامہ اقبال کی فارسی میں اور ایک ایرانی کی فارسی میں خاصا فرق پایا جا سکتا ہے، اور شعروادب اور فکروفلسفہ میں یہی فرق فیصلہ کن ہوتا ہے۔ ایران کا ایک فارسی اہل زبان فارسی کے روزمرہ، محاورات، ضرب الامثال اور دن بہ دن  بدلتی ہوئی کیفیتوں سے واقف ہوتا ہے۔ اقبال کو ہندوستان میں رہنے کی وجہہ سے ایسا موقع میسر نہیں تھا۔ اسی لیے وہ فارسی کے اس درجہ بلند پایہ اور ہمہ گیر شاعرنہیں ہو سکتے تھے جتنے کہ وہ اردو کے تھے۔ انہیں ایران کے لوگوں کے دکھ درد، مسائل، عادات و خصائل، رغبتوں اور نفرتوں کا ویسا اندازہ نہیں ہو سکتا تھا جیسا کہ ایران ہی کے ایک فارسی اہل زبان کو ہو سکتا تھا۔ اقبال کو برصغیر کے عوام کے دکھ درد اور مسائل  کا ہی کماحقہ اندازہ  ہو سکتا تھا اور وہ برصغیر ہی کی کسی زبان میں موثر شاعری کر سکتے تھے، ایسی موثر شاعری جس میں زبان زد خاص و عام ہونے کی صلاحیت پائی جاتی ہو۔
10.لیکن نہیں، آپ فرماتے ہیں کہ اقبال یکساں طور پر ایران میں مقبول ہے۔ اور آپ نے اس سلسلے میں ایک دلیل بھی دی ہے۔ لیکن وہ دلیل ’’یکساں مقبولیت‘‘ کے اس نظریے کو قبول کرنے کے لیے کافی نہیں۔ کیا اقبال کے فارسی اشعار ایران میں زبان زد خاص و عام ہو سکے ہیں؟ کیا اقبال کے فارسی اشعار ہندوپاک کی طرح ایران کی ہر سنجیدہ محفل حتی کہ مسجدوں کے خطبوں تک میں اسی شوق سے پڑھے جاتے رہے ہیں؟ اقبال کا خودی کو کر بلند اتنا والا شعر ہندوستان کی اردو آبادی میں ہی نہیں بلکہ ہندی آبادی میں بھی زبان زد خاص و عام ہے، غالب کے کسی بھی شعر سے زیادہ زبان زد خاص و عام ہے، یہاں تک زبان زد خاص و عام ہے کہ بہار کا ایک رکشا چالک بھی بے اختیار بول اٹھتا ہے: خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے! کیا اقبال کے ایسے کسی فارسی شعر کی نشاندہی کی جا سکتی ہے جو ایران میں زبان زدِ خاص و عام ہو، اور اس حد تک ہو؟ میرا خیال ہے کہ اقبال کے فارسی شعروں میں زبان زد خاص و عام بننے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی۔ ہو سکتا ہے اقبال کی ایران میں ’’یکساں مقبولیت‘‘ کوئی نئی اور تازہ صورت حال ہو لیکن برصغیر ہندوپاک میں اقبال کی شاعری کی زبان زدیت کے تسلسل میں خود اقبال کی زندگی سے لے کر آج تک ایک دن کا انقطاع بھی ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
11.                          پھر یہ کہ برصغیر کے مسلمانوں پر فکر اقبال کے جتنے گہرے اثرات مرتب ہوئے کیا اس کے ویسے اثرات ایران کے مسلمانوں پر مرتب ہوئے؟ اور اگر مرتب نہیں ہو سکے تو اس کی کیا وجہیں تھیں؟ کیا اس کی وجہہ فکر اقبال کا سنی ہونا بھی تھا یا نہیں؟ یا کیا اس کی وجہہ اقبال کی فارسی کا اردو کے مقابلے میں کمزور ہونا تھا؟
12.حالانکہ اقبال فارسی میں اردو جیسی شاعری نہیں کر سکے۔ لیکن اس کے باوجود ان کی فارسیت میں زیادہ دور تک کلام نہیں کیا جا سکتا بلکہ وہ تو فارسی کے اہل زبان بھی تسلیم کیے جا سکتے ہیں کیونکہ اس دور میں ہندوستان میں فارسی زبان مختلف سطحوں پر برقرار تھی، لیکن اردو اس سے کہیں زیادہ سطحوں پر رائج تھی۔ اگر ایک شاعر کسی بھی رائج یا مقتد زبان میں شاعری کر سکتا ہے تو اقبال نے انگریزی میں شاعری کیوں نہ کی (کہ انگریزی اس وقت بھی فارسی سے زیادہ مقتد زبان تھی)؟ میرا خیال ہے کہ صرف اس لیے کہ انگریزی ہندوستان کے عوام کی زبان نہ تھی اور نہ اقبال کی۔ عوام کی زبان تو فارسی بھی نہ تھی لیکن اقبال نے فارسی میں شاعری کی کیونکہ فارسی سے اردو کا گہرا مذہبی و تہذیبی رشتہ تھا۔
13.یہ واضح ہے کہ علامہ اقبال نے بھی مقتدر زبان ہونے کے باوجود انگریزی کو اپنے اظہار کے لیے منتخب نہیں کیا حالانکہ انہوں نے کالج میں انگریزی بھی پڑھی تھی۔ صرف اقتدار کی بنیاد پر فروغ پائی ہوئی زبان کسی قوم یا شخص کو شعروادب اور غوروفکر پر مائل نہیں کر سکتی۔ البتہ اقبال انگریزی میں ابلاغی نوعیت کے خطبے ضرور دے سکتے تھے (مثلا تشکیل الہیات اسلامیہ)۔ مگر کسی فلسفی کے ایک غیر زبان میں ابلاغی نوعیت کا خطبہ دے سکنے کا یہ مفہوم نہیں ہوتا کہ محدود معنوں میں زبان ترسیل و ابلاغ کا ذریعہ محض ہے، جیسا کہ آپ کا خیال ہے۔ وسیع تر معنوں میں ایک شخص اپنی مادری زبان یا اپنی ماحولی زبان کے علاوہ کسی سیکھی ہوئی زبان میں اپنے مافی الضمیر کا ابلاغ نہیں کر سکتا۔ ’’کیا لنگوٹی میں پھاگ کھیلنا‘‘ کا ابلاغ انگریزی میں ممکن ہے؟
14.پھر میں نے پڑھا ہے کہ علامہ اقبال نے عربی سے ایم اے بھی کیا تھا لیکن اس کے باوجود وہ اس زبان کو شاعری کے لیے انتخاب نہ کر سکتے تھے کیونکہ ہندوستان کے حالات اور ماحول انگریزی ہی کی طرح عربی کو بھی وسیلہ اظہار بنانے کی اجازت نہیں دے سکتے تھے۔ فکری و فلسفیانہ اظہار کے لیے زبان کا انتخاب کرتے وقت یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ مذہبی، سماجی، نسلی، تہذیبی اور جغرافیائی پہلووں سے ہماری ضروریات کیا ہیں اور خود ان پہلووں میں سے کسی ایک کو کیسے اور کیوں ترجیح دینا ضروری ہے۔
15.اگر اقبال کے عہد میں جو مقام اور حالت فارسی کی ہندوستان میں تھی، وہ فارسی کی نہ ہو کر انگریزی کی ہوتی تو کیا اقبال انگریزی میں شاعری کرتے؟ اور ٹھیک اسی طرز پر پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر ہندوستان میں فارسی کی جگہ عربی مقتدر زبان ہوتی تو کیا اقبال عربی کے شاعر ہوتے؟ میرا خیال ہے کہ دونوں صورتوں میں اقبال فارسی کی جگہ انگریزی یا عربی میں ضرور شعر کہتے۔ میں سمجھتا ہوں اقبال نے اردو اور فارسی میں شاعری اس لیے کی کہ وہ اردو اور فارسی کے صدیوں پرانے ہندوستانی ماحول میں رہ رہے تھے اور یہاں کے حالات و روایات سے واقف تھے۔
16.اقبال جس دور میں پیدا ہوئے تھے اس پورے دور کے ہندوستان کی لسانی حقیقت یہ تھی کہ ایک زبان یعنی اردو دوسری یعنی فارسی پر غالب آ رہی تھی۔ اس دور میں اردو زبان فارسی پر جس قدر غالب تھی اسی قدر اقبال کی اردو شاعری بھی ان کی فارسی شاعری پر غالب تھی۔ چونکہ ہندوستان میں انگریزی کی وہ حیثیت کبھی رہی ہی نہیں اس لیے اقبال جیسا شاعر انگریزی میں شاعری نہ کر سکا۔ انگریزی بالکل صحیح معنوں میں ایک غیر زبان ہے جس میں کوئی سچا ہندوستانی شاعر کچھ موزوں کر ہی نہیں سکتا۔ اور اگر موزوں کرتا بھی ہے تو اس کے کلام کی حیثیت اردو کے تیسرے درجے کے شاعرکے کلام سے بھی فروتر ہوگی۔ اور یہی بات فکروفلسفہ کے سلسلے میں بھی راست آتی ہے۔
17.جو حالت ہندوستان میں فارسی کی تھی، کیا یہ ممکن نہیں کہ بعینہ وہی حالت ایران میں عربی کی رہی ہو اور اسی لیے ایرانی یا فارسی حکما و فلاسفہ عربی میں اپنے علوم و افکار کو تشکیل دے سکے۔ اگر وہ بجائے عربی کے فارسی میں اپنے افکار لکھتے تو میرا خیال ہے کہ زیادہ بڑے کارنامے انجام دیتے۔ آخر یہ سوچنے میں کیا اور کتنا حرج ہے کہ سینا و فارابی کی عبقریت کو عربی زبان کی بالادستی نے جلا نہیں دی بلکہ کسی نہ کسی حد تک اس کی تخفیف کی  (یا جو بھی لفظ تخفیف کی جگہ مناسب ہو) ۔ کیونکہ فارسی عربی سے بہت پہلے سے ایک بڑی علمی زبان تھی۔ پھر کیا وجہ تھی کہ سینا و فارابی فارسی میں بمقابلہ عربی زیادہ بڑے فکری کارنامے انجام نہ دے سکتے؟ جیسا کہ مودودی نے لکھا ہے کہ جو قومیں تلوار میں شکست کھا جاتی ہیں وہ فکر و فلسفہ کے میدان میں بھی سرنگوں ہو جاتی ہیں۔ فرزندان فارس چونکہ عربوں سے شکست کھا چکے تھے اس لیے وہ اپنی زبان میں بھی فکری لحاظ سے کسی نہ کسی حد تک خاموش ہو جانے پر مجبورومعتوب تھے۔ پس یہ سمجھنا کہ مادری زبان یا اپنے سماجی ماحول میں پائی جانے والی کسی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں شعروادب اور فکر و فلسفہ کے معیار مطلوب تک پہنچنا ممکن ہے ایک بڑی فکری غلطی ہے (اور انگریزی ہندوستان کے سماجی ماحول میں پائی جانے والی زبان نہیں)۔  میرا تو یہ خیال ہے کہ اگرآج بھی سینا و فارابی کی عربیت پر تنقید کی جائے گی تو معلوم ہوگا کہ ان کی زبان عربوں کے مقابلے میں کسی نہ کسی حد تک ضرور فروتر تھی۔
18.چونکہ سائنسی معاملات و مسائل میں سماجی و تہذیبی روایات اور سروکاروں سے واقفیت رکھنے کی کوئی بہت (فوری) ضروت نہیں ہوتی اس لیے اپنے سماجی و ثقافتی حالات سے کٹی ہوئی زبان میں وقتی طور پر سائنسی مسائل کا کامیاب اظہار کیا جا سکتا ہے (فلسفیانہ اور سماجی، نفسیاتی، ادبی، مذہبی مسائل کا نہیں)۔ لیکن یہ عمل اگر طویل عرصے تک جاری رہے تو اس سے وہ سماج شدید طور پر متاثر ہوتا ہے جس کے افراد اپنی مادری زبان کو چھوڑ کر ایک غیرمادری زبان یا غیر تہذیبی زبان میں علمی و فکری کارنامے انجام دیتے ہیں۔ آج ہماری اعلیٰ درجے کی صلاحیتیں مغرب کے کام کیوں آ رہی ہیں؟ باصلاحیت افراد اس بڑے پیمانے پر مغرب میں کیوں منتقل ہو رہے ہیں؟ اور کیوں ساری ایجادات واختراعات صرف مغرب میں ہی انجام دی جا رہی ہیں؟ برصغیرہندوپاک اور عالم اسلام میں عبقری اور نابغہ روزگار شخصیات کا قحط کیوں ہے؟ ادبا و شعرا کو چھوڑ دیں تو سید احمد، آزاد، جمال الدین افغابی، مودودی، اقبال، سید قطب، حسن البنا وغیرہ درجن بھر شخصیتوں اور کارناموں کے علاوہ ہمارے پاس کیا ہے؟ ڈیسکارٹس، برکلے، کانٹ، ہیگل، ڈارون، مارکس اور فرائیڈ، نیوٹن، آئن اسٹائن، مارکونی ایسے پچاسوں جید و سید حکما و فلاسفہ اور سائنسداں ہمارے یہاں کیوں نہیں پیدا ہو رہے ہیں؟ جیدیت اور سیدیت کے تمام تر امکانات درجن بھر مغربی زبانوں تک کیوں محدود ہو کر رہ گئے ہیں؟ پس جناب والا بھی اگر غور فرمائیں گے تو اسی نتیجے تک پہنچیں گے کہ انگریزی زبان کے اتنے طویل المدت غلبے کے سبب ایسے عظیم نقصانات سے ہمیں دوچار ہونا پڑا۔
19.اہل فارس کے ذریعے عربی میں انجام دیے جانے والے عظیم فلسفیانہ کارنامے اس وجہہ سے وجود میں نہیں آئے کہ انسان اور اس کا ذہن اپنی سماجی و جغرافیائی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں فکروفلسفہ کے معیار مطلوب تک پہنچ سکتا ہے۔ اس وقت کے اسلامی فلاسفہ، خواہ ان کی مادری زبان جو بھی رہی ہو، عربی کو شعوری اور غیر شعوری طور پر‘اپنی زبانکا درجہ دیتے اور اس میں کوئی غیریت محسوس نہیں کرتے رہے ہوں گے، کیونکہ عربی زبان سے ان کو طبعی مناسبت رہی ہوگی، ایسی طبعی مناسبت جو دو زبانیں بولنے والی قوموں کے درمیان طویل عرصے تک باہمی اختلاط (تصادم، تنازعات، افہام و تفہیم، ادغام وغیرہ) کے بعد ہی انفرادی سطح  پر وجود میں آتی ہے۔ اور جب ایک بار ایسی طبعی مناسب وجود میں آ جاتی ہے پھر زبان اجنبی یا غیر نہیں رہتی، وہ اپنا لی جاتی ہے، اجتماعی شعور سے لے کر لاشعور تک میں سرایت کر جاتی ہے۔
20. عربی و فارسی ایک دوسرے سے قریب ہیں۔ فارسی اہل زبان کے لیے عربی، یونانی جیسی کوئی غیرزبان نہیں۔ نہ عربی کے نزدیک فارسی اس درجہ غیر زبان ہے جتنی کہ یونانی۔ ظاہر ہے عربی و یونانی میں مشرق و مغرب کا فرق ہے۔ مذہبی اعتبار سے بھی عربی و فارسی تہذیبیں طویل عرصے تک مشرکانہ مزاج کی حامل رہی تھیں۔ اس اعتبار سے بھی دونوں قوموں کے مابین اس زمانے میں ایک غیر شعوری ہم آہنگی رہی ہوگی۔ پھر یہ کہ تہذیبی اعتبار سے بھی دونوں اقوام میں مختلف الاقسام تبادلے ہوتے ہی رہے ہوں گے۔ اور سب سے بڑی حقیقت تو یہ ہے کہ اسلامی عہد میں فارسی نے عربی کا رسم الخط اپنا لیا۔ یہ فارسی کا عربی کو بحثیت ایک طاقتور اور امکانات سے بھرپور ایک زبان کے طور پر اپنا لیے جانے کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ یہ اور دیگر متعدد وجوہ سے عہد وسطیٰ میں فارسی ذہن میں عربی ذخیرۂ الفاظ سے استفادہ کرنے کی صلْاحیت بدرجہ اتم  موجود تھی۔ یہاں یہ غلط فہمی نہ ہو کہ فارسیوں میں یہ صلاحیت محض اس لیے پیدا ہوئی ہوگی کہ عربی اس وقت کی مقتدر زبان تھی۔ عربی و فارسی میں جیسی کچھ  قربتیں بھی پائی جاتی ہیں وہ صرف اس محدود اور چند روزہ اقتدار کا نتیجہ نہیں ہو سکتیں جو عربوں کو فارسیوں پر حاصل ہوا۔ وہ نتیجہ ہو سکتی ہیں مدت ہائے دراز تک دونوں قوموں کے اختلاط کا، اقتدار جس کا صرف ایک خارجی سبب تھا۔ اقتدار تو عربوں کو اسپین پر بھی حاصل ہوا لیکن کیا اسپینی زبان میں عربی اسی طرح، اور اسی بڑے پیمانے پر، داخل ہو سکی جس طرح فارسی میں ہوئی؟ نہیں، اسپنی پر عربی اثرات فارسی کے مقابلے میں آٹے کے نمک کے برابر ہی ہوں گے، جیسا کہ میرا خیال ہے۔ پس، یہ جو تاریخی دخول عمل میں آیا اس کی وجہہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ فارسی نے اس وقت بھی عربی کو انتہائی فطری طور پرقبول کیا، ٹھیک اسی طرح جس طرح اردو نے فارسی و عربی کو فطری طور پر قبول کیا اور آج بھی کر رہی ہے، اور آئندہ بھی اگر اردو کو علمی و فکری، حتی کہ کوئی عظیم الشان ادبی کارنامہ بھی، انجام دینا ہوگا تو اس کو پہلے سے کہیں زیادہ عربی و فارسی سے رجوع کرنا ہوگا، نہ کہ انگریزی و فرانسیسی سے۔ زبانیں ایک دوسرے سے اسی صورت میں متاثر ہو سکتی ہیں جب ان کے بولنے والوں میں تہذیبی قربتیں پائی جاتی ہوں۔ اسپینی زبان پر عربی کے فارسی جیسے اثرات اس لیے بھی نہیں پڑ سکے ہوں گے کہ دونوں زبانوں میں مغرب و مشرق کا تہذیبی فرق پایا جاتا ہے۔ زبانیں فطری و داخلی قربتوں کی بنیاد پر ایک دوسرے سے الفاظ مستعار لیتی ہیں، نہ کہ محض خارجی اقتدار کے سبب۔ پس، اگر فارسی عربی الفاظ کو اس حد تک جذب کرسکتی ہے تو فارسی بولنے والے افراد کیوں نہیں عربی کو بہت کچھ مادری زبان کی طرح ہی جذب کر کے اس میں کمال حاصل کر سکتے تھے؟ یہی وجہ تھی کہ ابن سینا جیسے عبقری، اور وہ تمام فلاسفہ جن کی مادری زبان فارسی تھی، عربی پر اس درجہ قدرت حاصل کر سکے جو فلسفیانہ کاوشوں کے لیے مطلوب تھی۔ (لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے عربی پر جس درجہ قدرت حاصل کی وہی فکر و فلسفہ کا معیار مطلوب بھی ہے!)۔ یہ سراسر ایک فطری صورت حال تھی، اور دو تہذیبوں کے باہمی تفاعل، ان کے فطری میلان اور ان کی ارتقائی رغبتوں کی بنیاد پر وجود میں آئی تھی۔ یہ زیادہ تر ایک خود رُو اور خود رَو صورت حال تھی نہ کہ اوپر سے بالجبر نافذ کی گئی، منصوبہ بند استحصال پر مبنی ایک ہمہ گیر کارروائی تھی جو انگریزوں نے ہندیوں کے ساتھ روا رکھی۔
21. اس پورے معاملے کو ایک اور نقطہ نظر سے دیکھیے۔ انگریزوں نے اردو زبان کی ترقی کے لیے بڑی کوششیں کی ہیں (فورٹ ولیم کالج اور دلی کالج)۔ تاہم انگریزی کا اردو پر ویسا اثر نہیں پڑ سکا جیسا کہ عربی و فارسی کا اردو پر پڑا۔ انگریزی سے اتنی قربت کے باوجود انگریزی زبان کے الفاظ اردو میں اس بڑے  پیمانے پر رائج نہ ہو سکے جس بڑے پیمانے پر اس میں عربی و فارسی کے رائج ہوئے۔ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انگریزی ہندوستانیوں کی فطرت اور ان کے ذہن و تہذیب کے لیے اجنبی اور غیر زبان ہے جس میں وہ اعلٰی ترین فکری اظہار کی اہلیت پیدا نہیں کر سکتے۔ جبکہ ایرانیوں پر تین سو سالوں کے اندر عربی کا اتنا زبردست اثر پڑا کہ لاتعداد عربی الفاظ فارسی کے اپنے الفاظ ہو گے۔ اگرعربوں کی جگہ انگریزوں نے فارس پر حملہ کیا ہوتا تو کیا اس صورت میں انگریزی الفاظ اسی پیمانے پر فارسی میں داخل ہو سکتے جس پیمانے پر عربی کے داخل ہوئے؟ ظاہر ہے یہ ناممکن ہوتا۔ پس فارسیوں کے لیے عربی ایک قریب کی زبان تھی۔ اور اسی لیے اس پر خاطر خواہ عبور حاصل کرنا ان کے لیے بہت کچھ مشکل نہ تھا۔
22. اس طرح کسی زبان میں اعلیٰ ترین فلسفیانہ یا سائنسی کارنامہ انجام دینے کے لیے اس زبان کی تہذیب و ثقافت اور اس کے ہرلحظہ تغیرپذیر اور زندہ سماج کے ’’اندر‘‘ ہونا یا کم از کم اس زبان کی تہذیب و ثقافت سے رابطے میں رہنا اور اس کو اپنی زبان سمجھنا لازم ہے۔ ایک شخص کسی زبان کو اپنی زبان تبھی سمجھ سکتا ہے جب اس کی مادری زبان اور اس زبان (جس کو اپنا سمجھنا ہے) کے مابین فطری و تہذیبی اور مذہبی قربتیں پائی جاتی ہوں۔
23. دنیا کی زبانوں میں پائی جانے والی قربتوں اور دوریوں کی بنیاد پر بھی ہم اپنے لیے مختلف زبانوں کے اجنبی، کم اجنبی یا زیادہ اجنبی ہونے کا حکم لگا سکتے ہیں۔ (واضح رہے کہ فارسی انڈو یوروپین اور عربی افروایشاٹک خاندان السنہ سے تعلق رکھتی ہے۔ دونوں زبانوں میں خاندانی قربت نہیں۔ میں نسلی یا خاندانی بنیاد پر پائے جانے والے قرب و بعد یا اجنبیت و غیریت سے قطع نظر ایک دوسرے مفہوم میں عربی و فارسی کو باہم دگر قریب کہہ رہا ہوں۔ اور وہ مفہوم ہے: فارسی کا عربی الفاظ اور رسم الخط کو اپنا لینے کی صوتی و صرفی قربت)۔  انگریزی، اردو، فارسی اور عربی سے ایک بڑے فاصلے پر واقع ہوئی ہے اور اسی لیے ان مشرقی زبانوں کے بولنے والے انگریزی پر وہ قدرت حاصل نہیں کر سکتے جو شعروادب یا فکر و فلسفہ کا معیار مطلوب ہے۔ اور اسی وجہہ سے ان زبانوں کے بولنے والوں نے انگریزی میں لکھنے کی جرات کی بھی تو کوئی ایسا  کارنامہ انجام نہ دے پائے جو دنیا کے علمی و فکری نظام میں ایک عظیم انقلاب برپا کر دے، ایسا عظیم انقلاب جو ڈارون، مارکس اور فرائڈ کی فلسفیانہ کاوشوں نے برپا کیا۔ آج ڈارون، مارکس اور فرائیڈ کی فلسفیانہ کاوشیں موجودہ علمی نظام کی بنیاد ہیں۔
24. مستثنیات کے پائے جانے سے کسی قاعدہ کلیہ کی صداقت پر حرف نہیں آتا۔ لیکن اس کے باوجود میں نے ان کی توجیہ کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ ان مستثنیات کی بھی قلب ماہیئت ہوجائے اور اردو یا ہندی کے کاز کو نقصان نہ پہنچے۔ پھر اوپر جتنا کچھ میں نے سوچا ہے اس کی بنیاد پر میں اطمینان سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ امرِ واقعہ ہوں تو ہوں، لیکن صورت واقعہ تو ہر گز نہیں ہیں۔ پس، صورت واقعہ کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ان ‘‘حقائق‘‘ کو مستثنیات کے ذیل میں رکھنا مناسب نہیں ۔ زیر بحث معاملے میں استثنی تو اس کو کہیں گے کہ ایک شخص ہندوستان میں پلا بڑھا، انگریزی میں تعلیم پائی اور اس نے فلسفہ کے میدان میں کچھ ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے جو ابن سینا، ابن رشد، ڈارون یا مارکس یا مغرب کے دیگر جید فلاسفہ کے فلسفیانہ کارناموں کے مساوی ہوں۔ لیکن ایسا ہونا سخت محال ہے۔ اور بالفرض ایسا ہو بھی جائے تو اس سے فکر و فلسفہ کے لیے مادری زبان کے لزوم والے قاعدہ کلیہ پر کچھ فرق نہیں پڑ سکتا۔
25. ور اب لگے ہاتھوں انگریزیت کو تمام برصغیرہند سے بے دخل کرنے والے چند ریڈیکل سوالات: فی زمانہ ایشیا و افریقہ میں انگریزی یا یورپی زبان میں لکھنے والے کتنے ایسے لوگ ہیں جنہیں اہل زبان کہا جا سکتا ہے؟ اور اگر ہیں تو انہوں نے اب تک کیا کارنامہ انجام دیا ہے؟ اور ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا ایشیا کے چند ملکوں مثلاً ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال وغیرہ میں ایک ہندوستانی نسل کا، یا کوئی اینگلو انڈین ہی سہی، واقعی انگریزی کا اسی پائے کا اہل زبان ہو سکتا ہے جس پائے کے اہل زبان یورپ امریکہ میں پائے جاتے ہیں؟ اور بالفرض محال اگر وہ اس پائے کا اہل زبان ہو بھی جائے، تو ایسے اہل زبان کا سماجی رول برصغیر ہندوپاک کے سماجی ماحول میں کیا ہو سکتا ہے؟ اور ایسے ہی کسی اہل زبان کے سماجی استعمالات اور فوائد کیا ہیں؟ اور کیا ایسے اہل زبان انگریزی میں برصغیر ہند کے پونے دو ارب افراد کے حقیقی مسائل، ان کے دکھ درد، ان کے جمالیاتی احساسات میں کیسے شریک ہو سکتے ہیں؟ اور شریک ہونا تو دور، ایسے اہل زبان برصغیر کے تمامتر حالات و مسائل سے کیسے واقف ہو سکتے ہیں؟ پھر یہ کہ ادب اگر سماجی حالات کا آئینہ دار ہے تو بتایا جائے کہ ہندوستانی انگریزی ادب نے ہندوستانی افراد کے حقیقی مسائل کی کتنی عکاسی کی ہے؟ اور اگر مان بھی لیا جائے کہ انگریزی نے ہندوستان کے تمام تر سماجی حالات کی خاطرخواہ عکاسی کی بھی ہے تو ہندوستانی انگریزی ادب، ہندوستانی اردویا ہندی ادب سے کس درجہ بلند تر ہے؟ ہندوستان کی انگریزی شاعری اور ناول میں اور اردویا ہندی کی انگریزی شاعری اور ناول میں بہ اعتبار کیفیت اور کوالٹی کیا فرق ہے؟ اور کیا ہندوستان کا پورا انگریزی ادب ایسے تقابلی مطالعے کے بعد نقلی ثابت ہو کر ڈسٹ بن کی نذر نہیں ہو جائے گا ؟
26. پس، اگر ادب کے میدان میں ہندوستان میں انگریزی کا یہ حال ہے توپھر کیسے کہا جا سکتا ہے کہ انگریزی میں سوچا جانے والا فلسفہ ہندی یا اردو میں سوچے جانے والے فلسفے سے بہ اعتبار گہرائی و گیرائی اور بہ اعتبار کیفیت زیادہ وقیع اور کارآمد ہوگا؟ کیونکہ ادب پہلے آتا ہے اور فلسفہ اس کے بعد، ادبی ہیئتوں اور اصناف کی تشکیل پہلے ہوتی ہے اور فلسفیانہ تجرید کی اس کے بعد؛ کیونکہ شعر و ادب فلسفی کو زبان سکھاتے ہیں، اس کو فلسفیانہ اسالیب کی تعلیم دیتے ہیں، اس کو علمی مسائل میں کلام کرنے کے آداب فراہم کرتے ہیں، کیونکہ فلسفہ کا عمل زبان کے اندر ہوتا ہے اور زبان بہ اعتبار ماہیئت و نوعیت آرٹ سے زیادہ قریب ہے نہ کہ سائنس سے۔
میرا خیال ہے اس سلسلے میں مجھے مزید مطالعہ اور غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ میں نے انتہائی عجلت میں لکھا ہے جس میں نہ معلوم کیا کیا خلاف واقعہ نکات در آئے ہوں گے۔ لیکن غوروفکر کا عمل اسی طرح جلا پاتا ہے۔ آپ سے استدعا ہے کہ میری علمی غلطیوں پرگرفت نہ کرتے ہوئے (لیکن ان کی نشاندہی کے استثنیٰ کے ساتھ) میرے پیش کردہ فکری نکات پر توجہ فرمائیں گے۔ 
آپ کا
 طارق احمد صدیقی، حیدرآباد
۳ فروری، ۲۰۱۲ عیسوی