یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈیزائن...
ادھر کچھ عرصے سے میں کیا دیکھتا ہوں کہ اچھے خاصے ذہین افراد کی ذہنی و فکری صلاحیتیں ادنی درجے کی جاہلانہ یا منتقمانہ بحثوں کی نذر ہوئی جا رہی ہیں لیکن انہیں اس کا شعور نہیں کہ وہ سوائے مزید لغویت پھیلانے کے کوئی فلسفیانہ کارنامہ انجام نہیں دے پا رہے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے تو زندگی اور کائنات سے متعلق اصل حقائق کی تہہ تک پہنچنے میں اہم سنگ میل نصب کر سکتے تھے۔ میں یہاں کسی شخص کا خصوصیت سے نام نہیں لوں گا بلکہ چند باتیں عمومی طور پر احباب کے گوش گزار کرنا چاہوں گا۔