نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

دسمبر, 2015 سے مراسلات دکھائے جا رہے ہیں

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈیزائن...

سہ روزہ دعوت اور "داعش": میٹھا میٹھا ہپ, کڑوا کڑوا تھو

1 پرواز رحمانی صاحب اسلامسٹ اخبار سہ روزہ دعوت کے اڈیٹر ہیں۔ وہ خبر و نظر کے نام سے سہ روزہ دعوت میں ایک مستقل کالم بھی لکھتے ہیں جو پہلے صفحے پر جگہ پاتا ہے اور اسلامسٹوں میں ب...

نیکی کا کریڈٹ اور بدی کا ٹھیکرا

دنیا میں جہاں کہیں بھی دہشت گردانہ جنگ و جہاد کی صورتحال پائی جاتی ہے, اس کے لیے بڑی طاقتوں کو الزام دینا ایک عام رویہ ہو گیا ہے جس میں بعض انارکسٹ خواتین و حضرات بھی مبتلا ہیں جو اپنے کو حقوق انسانی کے مدافعت کار بتاتے ہیں. وہ کہتے ہیں کہ چونکہ بڑی طاقتیں نہ صرف یہ کہ ان خطوں میں قدرتی وسائل کے حصول کے لیے مداخلت کرتی ہیں بلکہ وہاں کے لوگوں کے باہمی تنازعات کو بھی ہوا دیتی ہیں, انہیں گروہوں میں منقسم کر کے لڑاتی ہیں, یہاں تک کہ انتہائی مہلک ہتھیار سپلائی کرتی ہیں تا کہ وہ ایک دوسرے کو گاجر مولی کی طرح کاٹ سکیں, اور پھر ڈیموکریسی کے قیام کے بہانے ان پر چڑھ دوڑتی ہیں, اس لیے دنیا کے ان خطوں میں عدم استحکام کا اصل سبب یہ بڑی طاقتیں ہیں. اس قسم کی باتیں وہی کہہ سکتا ہے جو  پرلے درجے کا یکرخا اور نظریاتی بھینگے پن کا شکار ہو اور زمینی حقائق کا سامنا نہیں کرنا چاہتا ہو. واقعہ یہ ہے کہ دہشت گردی سے متاثر خطوں میں مذہبی نوعیت کی قتل و غارتگری ہمیشہ سے ہوتی آئی ہے جس سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں. اس بنیادی حقیقت کو تسلیم کرنے کے بجائے مذہبی دہشت گردی کی تخلیق کے لیے اصلاً بڑی طاقتوں کو...