یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈیزائن...
ان کی عمریں نباتات کی عمروں کی طرح بسر ہو جاتی ہیں۔ — ابن رشد [حالانکہ مشرق اور مغرب کا فرق اب ساری دنیا میں تقریباًختم ہوگیا ہے اور ہر مشرق میں ایک مغرب اور ہر مغرب میں ایک مشرق کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، ٹھیک اسی طرح جس طرح مقناطیس کے ہر ذرے میں قطبین کا وجود ہوتا ہے، لیکن بغور دیکھا جائے اور مشرق و مغرب کو الگ الگ سوچا جائے ، تو معلوم ہوگا کہ عورت کے مشرقی و مغربی تصور میں آج وہی فاصلہ ہے جو خود مشرق اور مغرب میںہے۔ تصور کا یہ فرق ماضی بعید میں کس قدر تھا ،یہ تاریخ کا سوال ہے ، مگرجو فرق زمانہ حال میں موجود ہے اس پر غور کرنا پہلے ضروری ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ عورت آخر عورت ہے ، خواہ مشرق میں ہو یامغرب میں، اس لیے خود اس میں اور اس کے تصور میں دونوں تہذیبوں میں مشترک قد ریں بھی پائی جاتی ہیں جن کا سامنے لایا جانا بھی ضروری ہے جو اس مضمون کا موضوع نہیں۔ چونکہ یہ مضمون یکے بعد دیگرے دو انتہاﺅں پرجا جا کر لکھا گیا ہے اس لیے بعض الفاظ یا جملے ناگوار ہو سکتے ہیں ۔مگر یہ زیادہ ضروری تھا کہ مشرقی اور مغربی تہذیب کے ٹھیکے داروں کا دماغ جن دو انتہاﺅں پررہتا ہے اسے بیان کیا جائے نہ ...