نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مقلد اور شاگرد کا فرق

(ہندی سے ترجمہ، اصل متن: اوشو)

جو کچھ تمہارے اندر خوبصورت ہے اسے چھپا کر رکھو، اسے ظاہر نہ کرو۔ تمہارے اندر جو بھی سچا، حقیقی اور بیش قیمت ہے وہ چھپانے کے لائق ہے کیونکہ جب بھی حق کو دل میں چھپا کر رکھا جا تا ہے تو وہ دل میں چھپے بیج کی طرح پھوٹتا اور نشوونما پاتا ہے، ٹھیک زمین میں گہرے دبے بیج کی طرح۔ اسے باہر مت اچھالو۔ اگر تم نے بیج کو ہر ایک کو دکھانے کے لیے سڑک پر پھینک دیا تو وہ عبث ہی مر جائے گا۔ مر کر پھر وہ درخت اور نئے بیجوں کو پیدا نہ کر سکے گا۔

ٹھیک ایک بیج کی ہی طرح، تمہارے اندر جو بھی حسن، خیر اور حق ہے اس کی دیکھ بھال کرو۔ اس کا مظاہرہ نہ کرتے ہوئے، اسے دل میں چھپا کرنشو و نما پانے کے لیے جگہ دو۔ لیکن ہر شخص کے ذریعے ٹھیک اس کا الٹا کیا جاتا ہے۔ جو بھی غلط ہے، اسے تم چھپاتے ہو، تم نہیں چاہتے کہ وہ دوسروں پر ظاہر ہو۔ جو بھی قباحت آمیز ہے، اسے تم چھپاتے ہو اور جو بھی تمہارے اندر خوبصورت ہے، اگرچہ وہ حقیقت میں خوبصورت ہو یا نہ ہو، تم اسے بڑھا چڑھا کر اسے مشتہر کرتے ہو۔ یہی سب سے بڑی مصیبت ہے کیونکہ جو حسین تر ہے، وہ ضائع ہو جاتا ہے اور جو قبیح تر ہے اس کی نشوونما ہوتی ہے۔ جھوٹ پھلتا پھولتا ہے، وہ ایک بیج بن جاتا ہے اور سچ پھینک دیا جاتا ہے۔
قیمتی شئے پھینک دی جاتی ہے اور گھاس پھوس اگتی، نشو و نما پاتی ہے۔ تم جنگلی کانٹے دار بیل کی طرح ہو جاتے ہو۔ تمہاری زندگی میں پھول کھلتے ہی نہیں کیونکہ تم نے کبھی ٹھیک کام نہ کرتے ہوئے پھولوں کے بیج اپنے ہاتھ میں دبائے ہی نہیں۔ یہی الٹا راستہ ہے
ایسا شخص جو اپنی خوبیوں کو مشتہر نہیں کرتا معمولی ہی نہیں انتہائی معمولی ہوتا ہے۔ اسے کوئی بھی نہیں جانتا کہ وہ کون ہے اور وہ کون سا خزانہ اپنے اندر چھپائے ہوئے ہے۔ وہ نہ کبھی کسی بات کو مشتہر کرتا ہے نہ کسی قسم کے مظاہرے کی کوشش کرتا ہے۔ ہم کسی خوبی کو مشتہر کیوں کرتے ہیں؟ محض تکبر کی وجہ سے۔ تم خود اپنے آپ سے سے مطمئن نہیں ہو۔ تم تبھی مطمئن ہوتے ہو جب دوسرے تمہاری تعریف کریں۔ کوہ نور ہونا ہی کافی نہیں ہے۔ تمہارے پاس ایک قیمتی پتھر کا ہونا ہی کافی نہیں ۔ تم چاہتے ہو، دوسرے بھی اس کی تعریف کریں۔ تمہارا اپنا وجود نہیں، اس سے زیادہ تمہارے لیے دوسروں کی رائے قیمتی ہے۔ تم دوسروں کی آنکھوں سے دیکھتے ہو، جیسے وہ آنکھیں نہ ہو کر آئینہ ہوں۔ اگر وہ تعریف کریں یا تالیاں بجائیں، تبھی تمہیں اچھا لگتا ہے۔
تکبر ایک غیر حقیقی شئے ہے۔ وہ دوسرے افراد کے ذریعے ظاہر کی گئی رایوں یا فیصلوں کا ایک جمگھٹا ہے جس سے خود کی کوئی جانکاری نہیں ملتی۔ یہ خود، یعنی کہ نام نہاد ‘‘خود’’ ہی اصلی تکبر ہے۔ یہ اور کچھ نہ ہو کر خود کے لیے دوسروں کے خیالات کا ایک مجموعہ ہے اور یہ ہمیشہ خوفزدہ رہتا ہے۔ دوسرے اپنا ارادہ یا خیال بدل سکتے ہیں اور تم ہمیشہ ہی ان پر انحصار کرتے ہو۔ اگر وہ کہیں ، تم اچھے ہو، تو تم اچھا نے رہنے کے لیے ان کے اصولوں اور معیاروں کی پیروی کرتے ہو۔ تمہیں ان کی آنکھوں میں اچھا بنے رہنے کے لیے ان کی پیروی کرنی ہی ہوتی ہے۔ کیونکہ اگر ایک بار انہوں نے تمہارے بارے میں اپنی رائے بدل دی، تو پھر تم اچھے نہیں بنے رہ سکتے۔ تمہاری خود اپنے وجود تک کوئی سیدھی پہنچ ہی نہیں ہے۔ وہ صرف دوسروں کے ذریعے سے ہے۔ اس لیے تم نہ صرف اپنے کو مشتہر کرتے ہو، بلکہ تم بڑھا چڑھا کر جھوٹ کا سہارا لیتے ہو۔ ہو سکتا ہے تمہارے پاس ذرا سا حق ہو اور ذرا سا حسن ہو لیکن جب تم اس میں مبالغہ آرائی کرتے ہو تو وہ مضحکہ خیز ہوجاتا ہے۔
مجھ یاد ہے، اور میں اسے کبھی بھول بھی نہیں سکوں گا، جب پہلی بار مجھ سے ملا نصرالدین کا تعارف کراتے ہوئے میرے ایک دوست نے کہا، ‘‘دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ ملا نصرالدین ایک عظیم مصنف بھی ہیں۔’’ اور یہ کہتے ہوئے جان بوجھ کر مسکرانے لگا۔
اس لیے میں نے ملا نصرالدین سے پوچھا، ‘‘کیا آپ نے کچھ لکھا ہے؟’’ انہوں نے جواب دیا، ‘‘میں نے بس ابھی ابھی ‘ہیملیٹ’ ختم کیا ہے!’’
میرے کان یقین نہ کر سکے، اس لیے میں نے اس سے پھر پوچھا، ‘‘آپ نے شاید کبھی کسی ایسے شخص کے بارے میں سنا ہو یا پڑھا ہو، جسے شیکسپئیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔’’
ملا نصرالدین نے کہا، ‘‘بڑی عجیب بات ہے! کیونکہ میں نے جب پہلے میک بتھ لکھا تھا، تب بھی کسی شخص نے مجھ سے کچھ ایسا ہی سوال کیا تھا کہ یہ ولیم شیکسپئیر کون ہے! ایسا لگتا ہے کہ یہ شخص شیکسپئیر، جو کچھ میں لکھتا ہوں، اسی کی کاپی کر وہی لکھ دیتا ہے۔’’
تم سوچتے ہوکہ ہر شخص تمہاری نقل کر رہا ہے۔ جبکہ حقیقیت یہ ہے کہ تم ہی ہر ایک کی نقل کر رہے ہو۔ تم سچے آدمی نہ ہو کر دوسروں کی کاربن کاپی ہو کیونکہ ایک سچے آدمی کو کسی مظاہرہ کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔
ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کے کوٹ، اس کے زیوروں اور اس کے بچوں کے بارے میں ہی باتیں ہوتی رہیں۔ اور ہر شخص اپنی باتوں سے ہر شخص کو بور کر رہا ہے۔ اور اگر تم ایسے بور لوگوں کو برداشت کر رہے ہو تو صرف اس لیے کیونکہ تم لوگوں کے بیچ ایک آپسی سمجھوتا یا سمجھ ہے کہ کہ اگر وہ تمہیں بور کر رہا ہے تو اسے بھی تمہیں اسے بور کرنے کا موقع دینا پڑے گا۔ تم صرف انتظار کر ہے ہو کہ وہ اپنی بات ختم کرے اور تم اپنی داستان شروع کر سکو۔ اور پوری زندگی ایک نقل اور کبھی بھی نہ ختم ہونے والا ایک بھونڈا مظاہرہ بن کر رہ گیا ہے۔ تم اس کے ذریعے کیا حاصل کرتے ہو؟ صرف ایک جھوٹا احساس کہ تم اہمیت کے حامل اور غیر معمولی ہو۔
کوئی منہگے منک کوٹ اپنے پاس رکھ کر کیسے غیر معمولی بن سکتا ہے؟ قیمتی ہیرے جواہرات خرید کر کوئی کیسے غیر معمولی شخص ہو سکتا ہے؟ کوئی بھی یہ کام یا وہ کام کرتے ہوئے بھی کیسے غیر معمولی ہو سکتا ہے؟ تم جو کچھ کرتے ہواس سے غیرمعمولیت کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔
اس کا تعلق تم کیا ہو، صرف اس سے ہے۔ اور تم پہلے ہی سے غیر معمولی ہو۔ ہر شخص یکتا اور منفرد ہے۔ اسے ثابت کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ اگر تم اسے ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہو تو صرف اس کے برعکس یا الٹا ہی ثابت کر رہے ہو۔ اگر کوئی چیز پہلے ہی سے ہے تو تم اسے ثابت کیسے کر سکتے ہو؟ اگر تم اسے ثابت کرنے کوشش کر رہے ہو تو صرف یہی دکھا رہے ہو کہ جو انوکھا پن تم میں پہلے ہی سے موجود ہے تمہیں اس کا شعور نہیں ہے۔
اس لیے اگر تم کوئی چیز ثابت کرنا چاہتے ہو تو یہ صرف یہی دکھاتا ہے کہ تمہیں اس کے بارے میں شک ہے۔ تم دوسروں کی آنکھوں کے ذریعے اپنا وہ شک دور کرنا چاہتے ہو۔ درحقیقیت تمیں اپنے خوبصورت ہونے کا یقین نہیں ہے اور چاہتے ہو کہ دوسرے کہیں کہ تم خوبصورت ہو!
ایک چھوٹے سے گاوں میں یہ روایت تھی کہ جب بھی کسی کی شادی ہوتی تھی تو چرچ کا پادری دلہن کا بوسہ لیتا تھا۔ یہ ایک قدیم رسم تھی۔ ایک عورت جس کی عنقریب شادی ہونے جا رہی تھی، وہ اپنے کو بہت حسین سمجھتی تھی، جیسا کہ سبھی عورتیں سمجھتی ہیں۔ یہ عورتوں کی فطرت ہے اور اس میں نیا کچھ بھی نہیں ہے۔ حقیقیت میں ہر عورت ایسا ہی سوچتی ہے، چاہے وہ بدصورت ہی کیوں نہ ہو۔ وہ بھی سوچتی تھی کہ وہ بہت خوبصورت ہے اور اس لیے وہ پریشان ہو کر بار بار اپنے ہونے والے شوہر سے کہتی تھی، ‘‘جاؤ اور جا کر پادری سے کہو کہ میں نہیں چاہتی کہ نکاح کرانے کے بعد وہ میرا بوسہ لے۔’’
شادی ہونے سے ٹھیک پہلے اس نے ہونے والے شوہر سے پھر پوچھا، ‘‘کیا تم پادری کے پاس گئے اور اس سے وہ پوچھا جس کی بابت میں نے تم سے کہا تھا؟’’
دولہے نے بہت اداسی سے کہا، ‘‘ہاں۔’’
دلہن نے پوچھا، ‘‘پھر تم اتنے اداس کیوں ہو؟’’
دولہے نے جواب دیا ‘‘جب میں نے پادری سے تمہاری خواہش کے بارے میں بتایا تو اس نے بہت خوش ہو کر کہا، اس صورت میں میں اپنی فیس سے آدھی فیس ہی لوں گا!’’
تم اپنے خوبصورت ہونے کے متعلق مسلسل ہی سوچے چلے جاو لیکن تمہارے بارے میں اس طرح کوئی اور نہیں سوچتا کیونکہ ہر ایک و اپنی ہی خوبصورتی سے سے مطلب ہے۔ تمہاری خوبصورتی سے نہیں۔ اور اگر کوئی اسے قبول کر کے کہتا ہے ، ‘‘ہاں تم خوبصورت ہو’ تو وہ صرف یہ انتظار کر رہا ہے کہ تم بھی اس کی خوبصورتی کو قبولیت دیتے ہوئے اس کی تعریف کرو۔
یہ ایک آپسی سودا ہے۔ من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو! میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم خوبصورت نہیں ہو اور تم بھی اچھی طرح جانتے ہو کہ میں خوبصورت نہیں ہوں، لیکن میں تمہاے جذبہ تفاخر کی تسکین کر رہا ہوں، اس لیے تم بھی میرے ایسے ہی جذبے کی تسکین کا ذریعہ بنو۔
اور ہر شخص کو اپنے یکتائے روزگار ہونے کا دعویٰ کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی تک تم اپنے ہی وجود کو نہیں جان پائے جو کہ منفرد اور یکتا ہے اور اسے کسی دعوے یا دلیل کی ضرورت ہی نہیں۔ جھوٹ کو ثابت کرنے کے لیے ہی دلیلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تم خدا کا ہونا ثابت نہیں کر سکتے کیونکہ وہی آخری سچ ہے۔ صرف جھوٹ کو ہی ثبوتوں کی ضرورت ہوتی ہے، سچ کے لیے کسی دلیل کی کوئی ضرورت نہیں، وہ صرف ہے۔
اور میں تمہیں بتا دوں کہ تم منفرد اور غیرمعمولی ہو۔ ویسا ہونے کی کوشش مت کرو، یہ مضحکہ خیز ہے، تم صرف مضحکہ خیز بن کر رہ جاتے ہو اور تمہارے پیٹھ پھیرتے ہی دوسرے لوگ مسکراتے ہیں۔ اگر تمہیں ہی اپنی انفرادیت کا یقین واثق نہیں ہے تو دوسرے کو کیسے ہو سکتا ہے؟ یقین واثق دلائل کے پار ہے۔ اور یہ کیسے آتا ہے؟ یہ آتا ہے خود کو جاننے کے ذریعے سے۔
اس طرح جاننے کے دو طریقے ہیں۔ پہلا ہے، راست علم، سیدھے خود کو جاننا اور یہی سچا طریقہ ہے۔ اور دوسرا غلط طریقہ ہے، دوسروں کے ذریعے اپنے کو جاننا کہ کہ وہ تمہارے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ اور اگر تم ہی خود کو نہیں جانتے ہو تو دوسرے کیسے جان سکتے ہیں؟ وہ تو تم سے بہت دور ہیں۔ خود کو جاننے کے لیے سب سے قریب ترین شخص تم خود ہو۔ اگر تم ہی اپنی خود کی حقیقت کو نہیں جانتے، تو دوسرے کیسے جان سکتے ہیں؟
لیکن چونکہ ہمیں اپنی حقیقت کا علم نہیں ہے، اس لیے ہمیں اس کی جگہ اس کا متبادل چاہیے۔ تکبر ہی اس کا متبادل بنتا ہے اور مسلسل مظاہرے میں لگا رہتا ہے۔ تم بازار میں سامان کو سجا کر رکھنے والے ایک شوکیس کی طرح ہو۔ تم ایک بے جان شئے بن گئے ہو۔ تم نے اپنے کو سجاوٹ کا ایک سامان بنا لیا ہے۔ تم ہر ایک سے عاجزانہ درخواست کر رہے ہو، یہ کہنے کی درخواست کہ وہ تمہارے متعلق کہے کہ تم اچھے، خوبصورت، عالم، عظیم اور غیر معمولی ہو۔
ایک شخص جو خود آگاہی کی تلاش میں ہے، دوسروں کی نظر میں معمولی ہی بنا رہے گا۔ وہ فکر ہی نہیں کرے گا، وہ اپنے کو چھپا کر رکھے گا، وہ اپنا مظاہرہ نہیں کرے گا، وہ نمائش نہیں بنے گا۔ وہ ایک اسٹیج شو نہیں ہوگا۔ وہ خاموش رہے گا، چین سے جیے گا اور خاموش رہتے ہوئے ہی زندگی کی مسرت حاصل کرے گا۔ وہ چاہے گا کہ کوئی بھی اس کے بارے میں پریشان نہ ہو، کیوں؟ جب بھی کوئی تمہارے بارے میں سوچتا ہے، تمہاری فکر کرتا ہے، تو سب کچھ مشکل اور پیچیدہ ہو جاتا ہے اور خود کو جاننا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
وہاں تمہیں اکیلے ہی جانا ہے اور اگر تم بھیڑ کی طرف دیکھ رہے ہو اور سوچتے ہو کہ بھیڑ تمہاری پیروی کرے، تو پھر تم کبھی پہنچوگے ہی نہیں۔
اگر تم ایک نمائش پسند ہو، تو تم ایک شئے ہی بنے رہو گے۔ تم کبھی ایک شخصیت ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ شخصیت تو تمہارے وجود کے ایک گوشے میں مخفی ہے۔ تمہارے تمام تروجود میں یہی سب سے گہرا امکان ہے۔ تم ہی سب سے بڑی اتھاہ کھائی ہو۔ تمہارے ساتھ، تمہارے سوا وہاں کوئی اور جا بھی نہیں سکتا۔ تمہیں وہاں اکیلا ہی جانا ہوگا۔ اور اگر اس میں تمہاری دلچسپی ہے کہ دوسرے کیا کہیں گے اور کیا سوچیں گے، تو تم سطح پر ہی بنے رہو گے۔ یہ تو ہوئی ایک بات۔
دوسری بات یہ کہ اپنا مظاہرہ کرتے ہوئے تم اپنی قباحت چھپا رہے ہو۔ جو کچھ غلط اور بدصورت ہے، اسے تم کپڑوں، لفظوں، مکھوٹوں، چہرے مہرے، ہاو بھاو اور اپنے کاموں سے چھپانے کی کوشش کر رہے ہو۔ یہ تم کیا کر رہے ہو؟ یہی غلط تمہارے اندر ایک بیج بن کر پھوٹے گا۔ اور تم اسے جتنا زیادہ قوت کے تمام مراکز کی طرف پھیینکنے کی کوشش کروگے، یہ اتنا ہی مضبوط ہوتا جائے گا۔ اور جو تمہارے اندر خوبصورت ہے، اسے تم باہر پھینک دوگے اور وہ کبھی بیج نہ بن سکے گا۔
ٹھیک اس کا الٹا کرو۔ اگر تمہارے اندر جو کچھ بدصورت ہے، اسے دوسروں کو دکھاو، وہ بھاپ بن کر اڑ جائے گا۔ اگر تم غصہ ور ہو، تو ہر ایک کو بتاو، میں ایک غصہ ور شخص ہوں، نہ میرے دوست بننا، اور مجھ سے محبت کرنا۔ میں برا، بدصورت، بداخلاق، لالچی اور بوالہوس ہوں۔ جو کچھ تمہارے بارے میں قبیح ہو، اس کے متعلق سبھی کو بتانا، اور بتانا یا کہنا بھی کافی نہیں ہے، بلکہ مدلل طور پر اس کی اداکاری بھی کرنا۔ اور تم حیرت زدہ رہ جاوگے کہ جب کوئی چیز باہر پھینک دی جاتی ہے، تو وہ گویا بہہ جاتی ہے۔
اور جو خوبصورت ہو، اسے چھپانا۔ اسے گہرے اتر جانے دینا، جس سے وہ تمہارے وجود کی جڑیں بن جائے، ترقی پائے۔ لیکن تم تو اس سے ٹھیک الٹا کر رہے ہو۔

چانگ سو ہمیشہ بندروں کو دیکھا کرتا تھا۔ اس کی ان میں بہت زیادہ دلچسپی تھی کیونکہ وہ انسان کے آبا و اجداد ہیں اور ایک بندر تمہارے اندر بھی چھپا ہوا ہے۔ یہ پوری دنیا اور کچھ نہیں، بلکہ بندروں کا ایک پہاڑ ہے۔ چاروں طرف بندر ہی بندر ہیں۔ بندر کی خصوصیت کیا ہے؟ بہت گہرائی میں بندر کا کردار کیا ہے؟ وہ ہے نقل کرنا۔
گرجیف کہا کرتا تھا، جب تک تم بندر بننا بند نہیں کرتے، تم ایک انسان نہیں ہو سکتے اور وہ ٹھیک تھا۔ سہی کہتا تھا۔ کسی نے اس سے پوچھا، ‘‘بندر کی سب سے نمایاں خصوصیت کیا ہے؟’’ اس نے جواب دیا، ‘‘نقل کرنا!’’
بندر پورا نقلچی ہے۔ تم اپنے پوری زندگی بھر کیا کرتے رہے ہو؟ تم ایک انسان یا ایک بندر بن کر جیے ہو۔ تم اپنے چاروں طرف دیکھ کر اس کی نقل اتارتے رہے ہو۔ تم تقلید و اتباع کرتے ہوئے نقلی اور جھوٹے بن گئے ہو۔ تم نے کسی کو، کسی مخصوص طریقے سے چلتے ہوئے دیکھا اور تم اسی طرح چلنے کی کوشش کرتے رہے ہو، کسی نے کوئی خاص لباس پہنا، تم نے ویسے ہی لباس کی چاہ کی، تم نے کسی کے پاس کار دیکھی اور تم نے اپنے لیے بھی کار کی خواہش کی۔ اور اسی طرح ہر شئے کی خواہش کی۔
تم نے کبھی یہ دیکھا ہی نہیں کہ تمہاری کیا ضرورت ہے۔ اور اگر تم نے اپنی ضرورت کو ٹھیک سے جانا ہوتا، تو زندگی ایک مسرت بھرا احساس بن کر چھا جاتی کیونکہ ضرورتیں بہت تھوڑی ہیں۔ تمہیں نقل اس راہ پر لے جاتی ہے، جو کہیں پہنچاتی ہی نہیں اور نہ کہیں اس کا خاتمہ ہوتا ہے۔ ضرورتیں زیادہ بھی نہیں ہیںَ وہ بہت تھوڑی سی ہیں۔ اگر تم اپنی ضرورتوں کو دیکھو، تو تم مطمئن ہو سکتے ہو۔ تشفی آسانی سے ہو جاتی کیونکہ ضرورتیں کتنی ہیں؟ ضرورتیں بہت تھوڑی سی ہیں۔ لیکن اگر تم نقل اتارتے یا پیروی کرتے ہو تو غیر ضروری طور پر لاتعداد ضروریات کی بھیڑ تمہارے چاروں طرف اکٹھی ہو جاتی ہے۔ اور وہ کہیں ختم نہیں ہوتیں کیونکہ کروڑوں انسان ہیں اور تم ہر ایک کی پیروی کرنا چاہتے ہو۔ اگر تم ہر ایک کی طرح زندگی جینا شروع کر دو، جو کہ ناممکن ہے، تو تم یہ بھول ہی جاوگے کہ تم یہاں اپنی رغبتوں اور وسعتوں کے مطابق کام کرنے آئے تھے اور ایک نقلچی بن کر رہ گئے۔
تم یہاں اپنی تقدیر کو پورا کرنے کے لیے آئے ہو اور ہر ایک کی اپنی نجی تقدیر ہے۔ وہ کسی دوسرے کی تقدیر نہیں ہے۔ اس عالمِ وجود نے تمہیں ایک متعین غرض کو پورا کرنے کے لیے خلق کیا ہے، جو کسی کے ذریعے پوری نہیں کی جا سکتی۔ کوئی بدھ یا عیسیٰ بھی اسے پورا نہیں کر سکتے، صرف تم ہی اسے کر سکتے ہو۔ اور تم دوسروں کی نقل اتار رہے ہو۔ اسی لیے ہندو کہتے ہیں کہ جب تم دوسروں کی پیروی کرنا بند نہیں کرتے، تمہیں بار بار سنسار میں جنم لینا ہوگا۔ آواگون اور پنرجنم کا یہی سدھانت ہے۔ جب تک تم اپنی تقدیر پوری نہیں کرتے، جب تک تمہاری کھلاوٹ نہیں ہوتی، تمہیں بار بار پیدا ہو کر اس دنیا میں آنا ہی ہوگا۔ اگر تم نقل کرتے رہے، تو تمہاری کھلاوٹ کیسے ہوگی؟ تم ایک موسیقار کو دیکھتے ہو اور موسیقار بننا چاہتے ہو۔ تم نے ایک اداکار کو دیکھا اور اداکار بننے کی سوچنے لگے اور ایک ڈاکٹر کو دیکھ کر تم ڈاکٹر بننا چاہتے ہو۔ تم اپنے سوا سب کچھ بننا چاہتے ہو اور جو تم بن سکتے ہو، وہ سب کچھ تمہارے اندر ہے، اس کے سوا اور کچھ ہے ہی نہیں۔ تم جیسا کوئی دوسرا ہے ہی نہیں اور نہ کوئی تمہارا آئیڈیل ہو سکتا ہے اور نہ کچھ اور ہونا ممکن ہے۔
گوتم بدھ سے محبت کرو، بدھ خوبصورت ہیں، لیکن ان کی ظاہری اتباع مت کرو، ورنہ تم چوک جاوگے۔ عیسیٰ ایک معجزہ ہیں، لیکن اب ان کی اور کوئی ضرورت نہیں، وجود کی وہ غرض پوری ہو گئی، وہ کام انجام پا گیا۔ ان کی کھلاوٹ پوری ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص پوری طرح کھل اٹھتا ہے، وہ کبھی واپس لوٹ کر نہیں آتا۔ عیسیٰ سے محبت کرو لیکن ان کی نقل مت کرو، ان کی اتباع مت کرو، ورنہ اس کا انجام دکھ درد اور ادھورے پن میں ہوگا۔ درحقیقیت تم کسی کی نقل کر ہی نہیں سکتے۔ تم صرف اشارات لے سکتے ہو، لیکن تب تمہیں بہت ہوشیار رہنا ہوگا۔ اشاروں کو اندھی تقلید میں نہیں بدلنا چاہے۔
جب تم کسی بدھ کو دیکھو، تو اس کی موجودگی میں یہ آہٹ پکڑو کہ اس کی کھلاوٹ کیسے ہوئی؟ اس نے کون سے طریقے استعمال کیے؟ وہ کیا کرتا رہا؟ اسے سمجھنے کی کوشش کرو اور اس کی سمجھ کو اپنے میں جذب کرو۔ تمہیں دھیرے دھیرے اپنے راستے کا تجربہ ہونا شروع ہو جائے گا۔ وہ راہ بدھ کی راہ جیسی نہیں ہوگی۔ ہو بھی نہیں سکتی۔ وہ پوری طرح الگ ہوگی۔ لیکن بدھ کو پینے اور اپنے میں جذب کرنے سے تمہیں مدد ملے گی۔ تم اپنے ہی ڈھنگ سے نشوونما پانے لگوگے لیکن اسے اپنے میں جذب یا سوکھنے سے تمہارے اندر زیادہ سمجھ پیدا ہوگی۔
یہی فرق ہوتا ہے کسی مذہبی رہنما کے ایک حقیقی شاگرد اور مقلد کے درمیان۔ تقلید کرنے والا نقلی یا جھوٹا ہوتا ہے۔ ایک تقلید کرنے والے سے ایک شاگرد پوری طرح سے الگ اور کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ وہ نقل نہیں کرتا بلکہ مذہبی رہنما کے عمل کی نقل نہیں کرتا۔ شاگرد کا کام اداکاری کرنا نہیں ہوتا۔ اداکاری تو ایک قسم کی ریاکاری ہے جس میں مذہبیت کی تھوتھی سمجھ رکھنے والے مبتلا ہوتے ہیں۔ تم چاہو بھی تو گوتم بدھ نہیں ہو سکتے۔ تم چاہو بھی تو مہاویر کی طرح نہیں ہو سکتے۔ تم جتنا جتنا بدھ اور مہاویر جیسا بننا چاہو گے اتنا اتنا تم ان سے دور ہوتے چلے جاوگے۔ تم اپنے جیسا بنو۔ البتہ بدھ، مہاویر اور عیسی سے تم اشارات لے سکتے ہو۔ لیکن اس صورت میں تمہیں محتاط رہنا ہوگا۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تحقیق کے مسائل

تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں حتی الامکان منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن اس ناقابل حل مسئلے کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے...

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

     یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں...