اتوار، 5 مئی، 2013

ادارت کا فن اور اس کے مراحل

کوئی بھی انسانی کارنامہ اپنی تمام تر خوبیوں کے باوصف تسامحات، غلطیوں اور فروگزاشتوں سے مبرا نہیں ہوتا۔ اس میں کسی نہ کسی سطح پر اور کسی نہ کسی حد تک خطا کا امکان بہرحال پایا جاتا ہے اور یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ خامیوں سے یکسر محفوظ ہے اور اس میں کسی بھی نقطہ نظر سے حذف و اضافہ، تصحیح یا ترتیب و تہذیب کی ضرورت نہیں۔زندگی کے مختلف شعبوں میں انسانی کارناموں کو نقائص سے ممکنہ حد تک پاک کرنے اور انہیں ایک زیادہ مکمل شکل دینے کی غرض  سے مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں۔علوم و فنون کے متعدد شعبوں  میں ادارت ایسا ہی ایک طریقہ ہے جو علم و ادب سے متعلق  متعدد اصناف کی تصحیح و تکمیل کے لیے ابتدا ہی سے  اپنایا جاتارہا  ہے۔ موجودہ دور میں دیگر علوم و فنون کی طرح ادارت کے فن نے بھی بڑی ترقی کی ہے جس کے نتیجے میں وہ ایک منظم ، باضابطہ اور باقاعدہ فن کے طور پر تسلیم کیاجاتا ہے۔فی زمانہ ادارت کاعمل الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے میں جاری و ساری  ہے  اورعلمی و فکری کارناموں اور اخباری صحافت کے علاوہ  فلم ، ریڈیو اور ٹیلی وژن  کی دنیا میں بھی اس فن کا دور دورہ ہے۔ لیکن ذرائع ابلاغ کی مختلف اصناف اور ہیئتوں میں  فن ادارت کی اپنی منفرد اور جداگانہ اہمیت ہے۔ مثلاً فلم اور ڈاکیومنٹری کی صنف میں ادارت  بعینہ وہی چیز نہیں ہے جو جو صحافت کے شعبے میں ہے ۔ وہاں اس کا تصور، اس کا ضابطہ ٔ اخلاق ، اس کے حدود کار اور اس کے مراحل بہت دوسرے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ صحافت کی دنیا میں مدیروں کو وہی اختیارات حاصل ہیں جو فلمی دنیا میں ہدایت کاروں کو۔ لیکن فن ادارت کی مختلف شعبوں اور اصناف میں اس کی حیثیت و نوعیت سے انتہائی حد  تک صرف نظر کرتے ہوئے ہم یہاں علم و فکر، شعروادب ، ترجمہ اور صحافت کی دنیا میں فن ادارت  اور اس کے مختلف مراحل کا جائزہ لیں گے۔
ادارت ‘ عربی کے لفظ ’ادارہ‘ سے ماخوذ ہے جس کے معنی تدبیر، انتظام ،حکم، اور توجیہ کے ہیں۔  اردو میں اس سے مراد ایک اجتماعی ہیئت  کے بھی ہیں جس نے کوئی کام اپنے ذمے لیا ہو۔ آگے چل کر علمی ضروریات کے تحت اردو میں ادارت کے لفظ میں انگریزی کے لفظ edit کے مختلف لغوی اور اصطلاحی معنی بھی شامل ہو گئے جن میں سے ایک ہے: ’’کسی تحریری، سمعی، یا بصری مواد کی اشاعت کی غرض سے اس کو ترتیب دینا اور اس پر نظرثانی کرنا‘‘۔ آسان طور پر اس کا مقصد کسی متن میں ممکنہ طور پر پائی جانے والی مختلف قسم کی خامیوں اور کمیوں کی اصلاح ہے تا کہ مواد یا متن کو اشاعت کی غرض سے بہتر اور مکمل شکل میں پیش کیا جا سکے۔
فن ادارت کاایک  وسیع تر مفہوم
بہت کم تحریریں یا متون ایسے ہوتے ہیں جو ادارت کے مختلف مراحل سے گزرے بغیر شائع کیے جا سکتے ہوں۔ اور اس صورت میں بھی عام طور پر مصنف خود اپنے متن کی ادارت کرتا ہے۔ البتہ بعض استثنائی صورتیں اس کے باوجود پائی جاتی ہیں، مثلاً بہت سے شعرا اپنی موزونی طبع کے سبب فی البدیہ طویل نظمیں اور غزلیں بھی کہتے رہے ہیں، اور بہت سے مقرر ایسے خطبے بھی دیتے  رہے ہیں، جنہیں تحریری شکل میں لانے کے بعد ادارت کی گنجائش نہیں رہتی یعنی ان میں کسی حذف و اضافہ یا تصحیح مزید کی گنجائش نہیں ہوتی۔ پھربھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ شعرا اور مقررین اپنے فی البدیہہ اظہار سے پہلے خود اپنے ذہن میں خلق ہونے والے اشعار یا خطبے کی تصحیح نہ کرلیتے ہوں گے، یا کم از کم اظہار سے پہلے ان کے ذہن میں ادارت یا اس جیسا کوئی عمل واقع نہ ہوتا ہوگا۔ پس بغور جائزہ لینے پر امرواقعہ تو یہی نظر آتا ہے کہ وسیع ترین معنوں میں ادارت خود تخلیق کے متوازی طور پر، یا اس کے فوراً یا ایک عرصے کے بعد پیش آنے والا فطری عمل ہے جو کہ ایک طرف شاعر، مقرر یا مصنف کی سطح پرانجام دیے جانے والے تخلیقی و تنقیدی عمل کا  حصہ ہے تو دوسری طرف اس متن کی نشرواشاعت کے لیے ادارتی سطح پر انجام دیا جانے والا ایک غیرجانب دارانہ اورہم نفسی پر مبنی عمل[1] ہے جس کے لیے مختلف الاقسام صلاحیتوں کے ساتھ تنقیدی و تخلیقی صفات بھی  درکار ہوتی ہیں۔
فن ادارت کی تعریف
فن ادارت کے اس قدر وسیع تر معنوں کے ساتھ اس کامتعینہ مفہوم اور اصطلاحی معنی بھی ہیں اور اس کے کچھ فکری و تکنیکی تقاضے اور پیشہ ورانہ اصول و آداب یا حدود بھی۔ متعینہ معنوں میں ادارت کسی متن میں ممکنہ طور پر پائی جانے والی مختلف قسم کی خامیوں اور غلطیوں کی تصحیح، اور متن میں حذف و اضافہ کرنا ہے تا کہ  اس میں بقدر ضرورت اور / یا مطلوبہ جامعیت اور ایجاز و اختصار پیدا ہو سکے۔موجودہ دور میں ادارت پرنٹ میڈیا سے لے کر الیکٹرانک میڈیا تک میں رائج ایک وسیع سرگرمی ہے جس کی تعریف درج ذیل طور پر کی جا سکتی ہے:
ادارت کسی منتخب سمعی، بصری اور تحریری مواد یا متن کی تصحیح، اس کی بقدر ضرورت تلخیص، اس کی تنظیم، اور دیگر تبدیلیوں پر مبنی ایک تخلیقی، تحقیقی اور تنقیدی عمل ہے جس کا مقصد اس مواد یا متن کو بہتر، مربوط ، جامع ومانع اور مکمل شکل میں پیش کرنا ہے۔
ادارت بحثیت فن
ادارت ایک فن  یا آرٹ ہے ۔ اور آرٹ  ہمیشہ اپنی فطرت میں سائنس سے بہت دور ہوتی ہے۔  بلاشبہ ادارت  کے تحت  سائنسی نوعیت کی کارروائیاں بھی ہوتی ہیں، مثلاً، متن کے لسانیاتی، کتابیاتی، اشاریاتی ، حوالہ جاتی اور حسابی پہلو و ں کی ادارت ۔ لیکن بحثیت مجموعی ادارت متن کے ساتھ اس قدر لطیف ، نہ پکڑ میں آنے والی مگر اثر انگیز کارروائی ہے کہ جب ایک لائق مصنف ادارت کے بعد اپنے متن کو دیکھتا ہے تو اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہے تو وہی متن جو اس نے لکھا تھا لیکن صحت و صفائی کے بعد اس کی فکری صلابت اور اثرپذیری میں بڑا اضافہ ہوگیا ہے ۔ اور اس بات کو صرف ایک مصنف ہی محسوس کر سکتا ہے یا  پھر وہ لوگ جو ادارت کے فن پر قدرت کاملہ رکھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ادارت کسی ناکارہ متن کو بامعنی بنا سکتی ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ وہ ایسے متون کو جو انتہائی عجلت میں لیکن برسوں کے غور و فکر کے بعد لکھے گئے ہوں، انتہائی حد تک بااثر بنا سکتی ہے۔ دراصل مدیر کی فنکارانہ مہارت ایسے متون کے قلب میں جھانکتی ہے اور وہاں سے وہ کچھ نکال لاتی ہے جو مصنف کے لیے وقت کی کمی اور عجلت کے سبب ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔ ایک فن کی حیثیت سے ادارت اپنے پیش نظر متن میں اسی طرح مستغرق اور منہمک ہوتی ہے جس طرح ایک سنگ تراش اپنے مجسمے کی تخلیق کے بعد اس کی مزید  تراش خراش  کرتے ہوئے فائینل ٹچ دیتا ہے ۔ یہ واقعی ایک حیرت انگیز امر ہے کہ مدیر اس متن کو جونہ کبھی اس کا تھا اور نہ کبھی اس کا ہو سکے گا، کچھ اسی طرح سنوارتا ہے جس طرح ایک مصور اپنی پینٹنگ کی ، ایک فوٹوگرافر اپنی تصویر کی نوک پلک  درست کرتا ہے۔ دوسروں کے متن کی اس قدر انہماک کے ساتھ نوک پلک  درست کرنا، اس کو اس رخ پر لے جانا جس پر خود اس متن کا مصنف لے جانا چاہتا تھا، دراصل ایک ایسا بے غرض اور لوث فن ہے جو کہ انسانی بصیرتوں سے معمورایک ذہن و دل کا وظیفہ  ہی ہو سکتا ہے۔ ادارت کی سب بڑی اور بااثر منزلوں میں سے ایک ہے ایک  بااثر رسالے کا مدیر ہونا جس کے تحت ایک مدیر اپنے رسالے میں شائع ہونے والی تحریروں پر اثر ڈالتا ہے اور ایسے مصنفوں کی بھیڑ سے ایسے مصنفوں کو نکال لاتا ہے جن کے متن واقعی قابل رشک کہے جا سکتے ہیں۔ اردو ادب میں ایسے مدیروں اور رسالوں کی کمی نہیں ہے۔
ادارتی عمل کیا ہے؟
ادارت کے فن کی حقیقت و نوعیت کواور قریب  سے سمجھنے کے لیے ادارت کے عمل  سے واقفیت اور اس کو محسوس کرنا ضروری ہے۔ ادارتی عمل متن کے ساتھ مختلف الاقسام کارروائیوں پر مشتمل ہے۔ اس میں زبان و بیان کی روانی و سلاست کے نقطہ نظر سے بھی حذف و اضافے کیے جا سکتے ہیں، اور موضوع و مضمون کے لحاظ سے سے بھی بعض مشکل مقامات کو کھولا جا سکتا ہے: متن میں نئے الفاظ اور جملے جوڑے جا سکتے ہیں؛ غیر موزوں الفاظ اور جملوں پیرگراف، حتی کہ ابواب تک کو قلم زد کیا جا سکتا ہے اگر اس کی واقعی ضرورت ہو؛ متن کے مدعا، اس کے مشتملات ، اور  سیاق و سباق کو ملحوظ رکھتے ہوئے جملوں اور پیراگراف، اور ابواب کو آگے پیچھے کیا جا سکتا ہے؛ کہیں پر مصنف کا مدعا واضح نہ ہو تو حاشیے میں مصنف کا مدعا ظاہر کیا جا سکتا ہے (خاص طور سے اگر مصنف زندہ یا دستیاب نہ ہو) اور دیگر نوعیتوں کے ادارتی حاشیے بھی لکھے جا سکتے ہیں؛ بعض اوقات ادبی متون میں مصنف کی اجازت سے نئے استعارات و تشبیہات اور دیگر ادبی نوعیت کی تفصیلات داخل کرنے کے مشورے دیے جا سکتے ہیں ؛ زبان و بیان کی غلطیوں کی مروجہ معیاری زبان کے لحاظ سے تصحیح کی جا سکتی ہے اور انہیں روزمرہ کے لحاظ سے درست کیا جا سکتا ہے نیز مروجہ یا راجح املا کے لحاظ سے الفاظ کی تصحیح کی جا سکتی ہے—الغرض ایک متن کو فنی لحاظ سے معیاری، جامع، موزوں، بقدر ضرورت مختصر، موثر اور مکمل شکل دینے اور اس طرح اس کو قابل اشاعت بنانے کے لیے فن ادارت سے کام لیتے ہوئے ہر وہ کارروائی کی جا سکتی ہے جو مسلمہ علمی وفکری او راخلاقی اصولوں کے اعتبار سے مفید، ضروری یا ناگزیر ہو۔
فن ادارت  اور مدیر کے حدود و اختیارات
لیکن اس پورے عمل میں یہ واضح رہنا چاہیے کہ ہرمدیر کو کسی متن کو اڈٹ کرتے وقت ان سب کارروائیوں کے اختیارات  ایک ساتھ حاصل نہیں ہوتے۔ ایک مدیر کو مذکورہ کارروائیوں کا اختیار تبھی حاصل ہوتا ہے جب اخبار، رسالے یا اشاعت گھر کے مالک، اور خود متن کے مصنف کو مدیر کی علمی و فکری صلاحیت و لیاقت اور اس کی اخلاقی دیانت داری پر پورا اعتماد ہو اورانہوں نے اس کا باضابطہ اظہار بھی کیا ہو۔ ورنہ ایسا بھی دیکھنے آتا رہا ہے کہ مدیروں کو اپنی اصلاح اور کاٹ چھانٹ کے نیتجے میں بعض قانونی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس ضمن میں ہر ادارہ ایک واضح پالیسی اپناتا ہے اور مصنف یا متن کے خالق سے ادارت کی پیشگی اجازت لیتا ہے یا یہ بات از خود ملحوظ ہوتی ہے، اور مدیر کو ادارہ کی پالیسیوں کے مطابق کام کرنا ہوتا ہے۔ دراصل مدیر کی پیشہ ورانہ ایمانداری کا اولین تقاضا یہی ہے کہ وہ اپنے ادارے کی پالیسی کے لحاظ سے، اور حاصل شدہ اختیارات کے مطابق اپنے فرائض انجام دے۔

فن ادارت  کے لیے مطلوبہ صلاحیتں اور اس کی صفات
ادارت کا پورا عمل اس قدر نازک، پیچیدہ، نتائج کے اعتبار سے دوررس ہوتا ہے کہ ایک مدیر اگر انتہائی ذکی الحس اور فکری طور پر پختہ نہ ہو تو بڑے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ادارت کے لیے ایک شخص میں مطلوبہ تخلیقی، تحقیقی اور تنقیدی صلاحیت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر اس میں مطلوبہ تخلیقی صلاحیت نہیں پائی جائے گی تو وہ مصنف کے ذریعے تخلیق کردہ متن کو کماحقہ سمجھ نہیں سکتا۔ اسے مصنف کے ذہن میں چل رہے تخلیقی پروسیس میں جھانکنا ہوتا ہے تا کہ وہ پیش نظر متن کو سمجھنے کے بعد اس میں کسی قسم کا حذف و اضافہ کر سکے۔ اسی طرح اگر وہ تحقیقی و تنقیدی صلاحیت سے عاری ہوگا تو نہ تو وہ متن میں پائی جانے والی غلطیوں کی نشاندہی کر سکتا ہے اور نہ اس کی تصحیح کے سلسلے میں کوئی فیصلہ لے سکتا ہے۔ یہ تمام تر صفات ایک شخص کے اندروسیع مطالعہ، مسلسل غور و فکراور اپنی تخلیقی و تنقیدی صلاحیت کوبروئے کار لانے، نیز مسلسل علمی نوعیت کے کام کرنے رہنے سے پیدا ہوتی ہیں۔ پھر ایک طویل عرصے تک ادارتی کاموں کی مشق کرتے رہنے سے ایک شخص کے اندر وہ مطلوبہ بصیرت پیدا ہو جاتی ہے جس کی بنیاد پر وہ بہ آسانی یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ متن میں کہاں کہاں اور کیا کیا حذف و اضافہ کی ضرورت ہے، یا اس میں سرے سےکسی بڑی تبدیلی کی ضرورت نہیں۔
ادارت کے مراحل
کسی بھی متن کی ادارت کے کئی مراحل ہیں اور ضرورت پڑنے پر ہر مرحلے کے لیے الگ الگ مدیروں کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔ پھر ہر ایک مرحلے میں اگر ضرورت ہو تو مدیر متعلقہ مصنف سے رابطہ قائم کرتا ہے اور اسے متن میں مختلف نقطہ ہائے نظر سے اصلاحات کی تجاویز پیش کر سکتا ہے۔ ادارت کے خاص مراحل درج ذیل ہیں:


پہلا مرحلہ: مصنف کا مسودے پر نظرثانی کرنا
کسی متن کو مدیر کے حوالے کرنے سے پہلے مصنف خود اس پر نظر ثانی کرتا ہے اور مختلف پہلووں سے اس میں حذف و اضافہ کرتا ہے اور اسے اپنی طرف سے آخری شکل دیتا ہے۔
دوسرا مرحلہ: متن کا جائزہ اور مصنف کو مشورہ
مدیر زیر نظر متن کا بقدرضرورت بغور جائزہ لیتا ہے اور اس میں موجود مسائل یا خامیوں کا پتا لگاتا ہے اور اس غرض سے یادداشتیں تحریر کرتا ہے۔ اس عمل میں وہ بطور نمونہ متن کے چند پیراگراف یا ضرورت ہو تو طویل اقتباسات یا متن کے بعض منتخب حصوں کی بنیاد پر تمام تر متن میں موضوع اور مضمون، اسلوب، زبان و قواعد، اور فکری و فنی لحاظ سے پائے جانے والے مسائل یا خامیوں کا پتا لگاتا ہے۔ اس جائزے کے بعد وہ مصنف کو بحیثیت مدیر اپنے تاثرات سے مدلل طور پر زبانی یا تحریری طور پر آگاہ کرتا ہے۔ (بعض اوقات مدیر کو مصنف یا پبلشر کی طرف سے ہر قسم کی اصلاح کی پیشگی اجازت حاصل ہوتی ہے۔)
تیسرا مرحلہ: ساختی ادارت (Structural Editing)

یہ تیسرا مرحلہ ہے جو مصنف یا پبلشر کی طرف سے مجوزہ اصلاحات کی اجازت مل جانے کےبعد شروع ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں مدیر بنیادی طور پر اپنے حاصل شدہ اختیارات اور ادارتی پالیسی کے حدود میں رہتے ہوئے متن کے موضوع اور مضمون، اس میں پائے جانے والے مفاہیم، منطقی ترتیب، خیالات کے مابین ربط و تعلق کا جائزہ لیتا ہے اور اس سے متعلق اصلاح کا کام انجام دیتا ہے۔ اس مرحلے میں درج ذیل کام انجام دیے جاتے ہیں:
۱۔ مدیر اپنے پیش نظر ادبی، علمی، سائنسی یا دیگر نوعیت کے متن کے  ابتدائی حصے (تعارف، مقدمہ)، اس کے درمیانی حصے (تحقیق، تجزیہ) اور آخری حصے (حاصل کلام، نتیجہ) کا جائزہ لیتا ہے کہ آیا ان میں موضوع اور مضمون کے لحاظ سے ربط ہے یا نہیں نیز متن کے کلی مفہوم کے اعتبار سے کوئی منطقی عدم تسلسل تو واقع نہیں ہو رہا ہے۔ یعنی وہ دیکھتا ہے کہ: ابتدائی حصے میں پورے متن کا تعارف ٹھیک طور پر لکھا اور تمام مقدمات درست طور پر قائم کیے گئے ہیں یا نہیں؛ درمیانی حصے میں ابتدا میں قائم کردہ مقدمات کی بنیاد پر منطقی تحقیق و تجزیہ یا اس کے مناسب و موزوں اظہار خیال کیا گیا ہے یا نہیں؛ پھر آخری حصہ میں، ابتدائی اور درمیانی حصے کی بنیاد پر برامد ہونے والے نتائج یا اثبات شدہ حقائق کو صحت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے یا نہیں؛ اور اگر مدیر کے پیش نظر کوئی ادبی متن ہے تو کہانی یا نظم کی ساخت، اس کی ابتدا، وسط اور انتہا میں ربط و تسلسل ہے یا نہیں، نیز ان میں موضوع کے مناسب حال اسلوب، تفصیلات اور ادبی نوعیت کے مشتملات پائے جاتے ہیں یا نہیں۔
مذکورہ تمام جائزوں کے بعد یا تو متوازی طور پر بروقت تصحیح کی جاتی ہے یا متن کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے اور ضرورت پڑنے پر مصنف کو اس کے بعض حصوں کو دوبارہ لکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
ساختی ادارت میں چونکہ کئی بار مصنف سے مشورہ کرنا پڑسکتا ہے، اس لیے اُس مرحلے میں میں ہر سطر کی ادارت نہیں ہو سکتی۔  سطر در سطر ادارت کے لیے ایک الگ مرحلہ ہے جس کو سطری ادارت کہتے ہیں۔
چوتھا مرحلہ: سطری ادارت
 (Line Editing)
اس مرحلے میں متن کے ایک ایک جملے اور پیراگراف کو بغور پڑھتے، ربط و تعلق کا جائزہ لیتے ہوئے خامی پائے جانے پر اس کی تصحیح بھی کی جاتی ہے، مثال کے طور پر:  جملوں میں غیرضروری الفاظ اور پیراگرافوں میں خیالات کی غیرضروری تکرار کو حذف کرنا؛ ایک جملے کو دوسرے جملے سے جوڑنا اور توڑنا؛ حاصل شدہ اجازت اور موضوع اور مضمون کے لحاظ سے، نیز مصنف کے اسلوب کے لحاظ سے مصنف کو نئے الفاظ اور جملوں کا اضافہ کرنے کا مشورہ دینا، یا خود ہی مختصر اضافے کردینا۔ یہ پورا عمل چونکہ مصنف اور مدیر کے درمیان طے شدہ معاہدے اور متن کی نوعیت پر منحصر کرتا ہے، اور یہ نظری سے زیادہ عملی نوعیت کا مسئلہ ہے، اس لیے اس کے کوئی بہت واضح اصول متعین نہیں کیے جا سکتے ہیں، البتہ اس سلسلے میں مدیر کو مصنف اور مدیر کا فرق بہرحال ملحوظ رکھنا چاہیے اور کسی ایسے حذف و اضافہ سے کام نہیں لینا چاہیے جو تصنیف و ادارت دونوں کے پیشہ ورانہ اخلاقی اصولوں کے منافی ہو۔
سطری ادارت ساختی ادارت سے مختلف تو ہے لیکن اس میں بھی تقریباً انہی صلاحیتوں کی ضرورت پڑتی ہے اس لیے عام طور پر ساختی ادارت کرنے والے مدیر کو ہی سطری ادارت کرنی چاہیے۔
پانچواں مرحلہ: کاپی ادارت
 (Copy Editing)
یہ ادارت کا آخری مرحلہ ہے۔ متن کی بڑی خامیاں اس سے پہلے کے مراحل میں دور ہو چکی ہوتی ہیں۔ کاپی ادارت کے اس مرحلے میں پورے مسودے کو سطردرسطر بغور پڑھتے ہوئے اور قواعد، املا، رموز اوقاف وغیرہ کے لحاظ سے اس کی تصحیح کی جاتی ہے۔ اکثر رموز اوقاف کے نامناسب استعمال سے مفہوم میں غیرمتوقع تبدیلیاں واقع ہو جاتی ہیں۔ کبھی کبھی مصنف یا خود سابقہ ادارت کے عمل میں غیر مروجہ املا درج ہو جاتا ہے، کبھی لفظوں، سطروں اور پیرگراف کے درمیان خلا کی کمی یا زیادتی جیسی متعدد غلطیاں متن میں راہ پا جاتی ہیں ۔ کاپی اڈیٹران سب خاموں کی اصلاح اپنے ادارے میں مروجہ اسٹائیل مینوئیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کرتا ہے۔
مذکورہ بالا پانچ مراحل میں ادارتی عمل کی انجام دہی سے متن میں زبان و بیان کے اعتبار سے سلاست و روانی پیدا ہوتی ہے اور وہ موضوع و مضمون کے اعتبار سے ایک نکھری ہوئی اور مکمل شکل میں سامنے آتا ہے۔ پھر مسودے کو کتابت یا کمپوزنگ کے لیے روانہ کر دیا جاتا ہے جہاں کاتب اڈٹ کیے گئے مسودے کی کتابت کرتا ہے یا اسے کمپیوٹر پر ٹائپ کرتا ہے۔ آج کل زیادہ تر مصنف کمپیوٹر پر ہی لکھنا پسند کرتے ہیں اوراکثروبیشتر حالات میں مسودہ ادارتی عمل سے پہلے ہی کمپوز ہو چکا ہوتا ہے۔ آج کے مدیران مسودے کی صحت و صفائی کے خیال سے پرنٹیڈ مسودے کو ترجیح دیتے ہیں اور ادارت کا عمل اسی پرنٹیڈ مسودے پر انجام دیا جاتا ہے۔ جب ادارت کے تمام تر مراحل پورے ہو جاتے ہیں تو پھر ادارت شدہ مسودے کو ایک بار پھر کاتب کے پاس بھیجا جاتا ہے جو مدیر کی ہدایت کے عین مطابق اس میں حذف و اضافہ کرتا ہے۔ اس کے بعد فائینل پرنٹ نکال کر کتابت شدہ مسودے کو پروف خواں کے پاس بھیجا جاتا ہے۔ وہ یکے بعد دیگرےمسودے کے کئی پروف پڑھتا ہے اور آخری پروف کے بعد اشاعت کے لیے تیار مسودے کی فائینل کاپی اڈیٹر کو روانہ کر دیتا ہے۔
برسبیل تذکرہ: موجودہ دور میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے استعمال نے ادارت کے فن میں مختلف النوع سہولتیں پیدا کر دی ہیں۔ مثلا اب ادارت کا کام بجائے کاغذ کے براہ راست کمپوٹر پر ہو رہا ہے جس سے حذف و اضافہ اور اصلاح کے عمل میں صفائی اور آسانی پیدا ہو گئی ہے۔ مائیکروسافٹ ورڈ کے ریویو آپشن میں ادارتی کام ٹھیک اسی طرح انجام دیے جا سکتے ہیں جا سکتا ہے جس طرح ہم کاغذ پر دیتے آ رہے ہیں۔ نیز،اس سافٹ ویر میں ادارت کے تمام ترمراحل کو بہ آسانی محفوظ بھی کیا جا سکتا ہے اور کس مدیر نے کس وقت کس مسودے میں کیا حذف و اضافہ یا اصلاح کی اسے بہ آسانی ٹریک کیا جا سکتا ہے۔
فن ادارت تخلیقی، تحقیقی اور تنقیدی نوعیت کا ایک عظیم فن ہے جو اپنے وسیع معنوں میں خود تصنیفی عمل کا ایک حصہ ہے کیونکہ یہ تخلیقی پروسیس میں متوازی طور پر جاری رہتا ہے اور/یا متن کے وجود میں آنے کے فوراً یا کچھے عرصہ بعد شروع ہوتا ہے۔ لیکن یہ فن اپنے اصطلاحی اور متعینہ معنوں میں تصنیفی عمل سے الگ ایک باقاعدہ، باضابطہ، مرحلہ وار اور منظم فن ہے جس کی ضرورت اور اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔
ادارت کا فن تبھی کامیاب ہو سکتا ہے جب  متن کو ادارت کے تمام تر مراحل  سےانتہائی چابکدستی اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ گزارا جائے۔ ادارت کے ابتدائی مرحلوں سے آخری مرحلے تک بلکہ  پروف خوانی کے بعد بھی  ایک مدیر کی ذمہ داریاں ختم نہیں ہوتیں اور اسے ہر لمحہ متن کے معیار اور مشتملات کی ترتیب و تہذیب اورمسلسل نگرانی   کرنی ہوتی ہے۔
کامیاب ادارت لسانی، فکری، تخلیقی، تنقیدی، تحقیقی اورجدید ترین علمی اور تکنیکی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے پر منحصر کرتی ہے۔ایک اچھے مدیر کو زبان و بیان کے اعتبار سے عمدہ اور موضوع کے اعتبار سے وسیع المطالعہ ہونا چاہیے، نیز اس میں غور و فکر کی صلاحیت، تاریخی شعور، عصری آگہی، مجتہدانہ بصیرت اور انسانی معاملات و مسائل پر گہری نظر اور دوسروں کے نقطہ نظر کو کماحقہ سمجھنے اور اس کا احترام کرنے، نیز اختلافات کو برداشت کرنے کا مادہ بھی ہونا چاہیے تب ہی جا کر وہ ایک غیرجانب دار، انصاف پسند اور مثالی مدیر بن سکتا ہے یا اس فن میں قابل قدر اضافہ کرتے ہوئے اسے بلندیوں تک لے جا سکتا ہے۔
[1] Empathetic process

تحقیق کے مسائل


تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات  کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں  حتی الامکان  منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے  طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق  معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن  اس ناقابل حل  مسئلے  کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔

تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف  پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے دوسرا لفظ حقیقت بنا ہے۔ تحقیق کے لغوی معنی کسی شئے کی حقیقت کا اثبات ہے۔ ’’تحقیق کے لیے انگریزی میں استعمال ہونے والا لفظ ریسرچ ہے…اس کے ایک معنی توجہ سے تلاش کرنے کے ہیں، دوسرے معنی دوبارہ تلاش کرنا ہیں …ریسرچ فرنچ سے نکلا ہو لفظ ہے جس کے معنی ہیں پیچھے جا کر تلاش کرنا۔‘‘  (تحقیق کا فن از گیان چند جین) مختلف علوم کے ماہرین نے تحقیق کے  اصطلاحی معنی بھی بیان کیے ہیں اور ان میں لفظی و معنوی اختلاف و نزاع  ہے ۔  ان سب کے احاطے کا موقع نہیں لیکن بطور ایک اصطلاح کے تحقیق  کے جو بھی معنی ہوں،تحقیق کو اور تحقیق میں  درپیش  مسائل کے باب میں  اصل بات دیکھنے کی یہ ہے کہ کیا  تحقیق کے مقاصد اور  اس کی منہاجیات پرمذہبی، فلسفیانہ و سائنسی اور دیگر تمام علوم کے مابین کوئی  ہمہ گیر اتفاق پایا جاسکتا ہے؟ جواب ہے  نہیں۔کیونکہ خود زندگی اور اس کے مقاصد مختلف فیہ اور متصادم  ہیں۔ اور زندگی کے انہیں  مختلف النوع مقاصد کے اعتبار سے باہم  مختلف متضاد اور متصادم علوم و فنون پائے جاتے ہیں۔ غیب کو شہود  یا  شہود کو غیب میں بدلنے کے ان کے  مقاصد جدا  اور طریقے مختلف ہیں۔مابعد جدید ادوار میں علمی تحقیق کو صرف تیقین کے لیے نہیں بلکہ تشکیک کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پروفیسر ژاں بودریلار  جب اپنی کتاب
The Gulf War Did Not Take Place (1991)
میں ثابت کرتا ہے کہ ۱۹۹۱ میں خلیج کی جنگ دراصل واقع ہی نہیں ہوئی تو ایسا نتیجہ دراصل رائج الوقت نظامہائے فکر و نظر پرتشکیک کے ایک گہرے عمل کے بعد ہی نکالنا ممکن ہے۔ ظاہر ہے یہ سن کر ذہن چونکتا ہے اور جنگ ِخلیج کے مناظر کے خلاف شک پیدا کرتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جو حقائق ہماری آنکھوں کے سامنے دن رات ٹی وی سے نشر کیے جاتے ہیں، وہ واقعی حقائق بھی ہیں؟    بودریلار  یہ قطعی نہیں کہہ رہا کہ خلیج میں سرے سے  کچھ ہوا ہی نہیں، بلکہ وہ صرف یہ کہتا ہے جو کچھ ہوا اس  پر ’’جنگ‘‘ کی تعریف کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔وہاں جو کچھ واقع ہوا  وہ ظلم تھا جس  نے جنگ کا ’بہروپ‘ بھر کر دنیا کو گمراہ کیا۔جو کچھ ہوا اگر وہ جنگ نہیں تھا تو پھر وہ ہوا ہی نہیں۔ اس کے بجائے کچھ دوسری چیز ہوئی جس کو اخباری ذہن قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ تحقیق اخباری ذہنیت سے نکل کر اوہام  اور دروغ کی دھند کو ہٹا نے اور ان پر شک کرنے کا عمل ہے اور جب تک خود  مروجہ ’’حقائق‘‘  پر شک نہ کیا جائے ، ان کے اندر سے جو واقعتاً  حق ہے وہ کبھی برامد نہیں ہوسکتا۔
 پس کیا چیزیں قطعیات و تیقنات کے دائرے میں داخل ہیں ، بلکہ یہاں تک بھی کہ کیا چیزیں بدیہیات میں شمار ہیں اور کیا نہیں، ان کی بنا پر دنیا میں ہمیشہ سیاست ہوتی رہی ہے۔ کہنا مقصود یہ نہیں ہے کہ تحقیق کوئی قابل اعتماد سرگرمی نہیں ہو سکتی، مگر  اب  لوگ  اس پربھی غور کرنے لگے ہیں کہ   انسانی زندگی اور ان سے متعلق علوم و فنون، اور وہ علوم  جو  سماجی علوم   اور انسانیات کے دائرے میں آتے ہیں اپنے  فکری و تحقیقی طریقہ  کار میں کیا واقعی قابل اعتماد ہیں؟ فلسفہ میں  متشککین کا ایک گروہ ہمیشہ سے رہا ہے جو   زندگی کو عملاً برتتے ہوئے بھی تمام تر موجودات  کو دلائل کی بنیاد پر ’’حلقہ ٔ دام خیال‘‘ مانتے رہے ہیں۔ دور جدید میں بھی سائنسدانوں کی طرف سے  یہ قیاس کیا جاتا رہا ہے کہ   کائنات دیکھنے کے حسی عمل میں  وجود پذیر ہوتی رہتی ہے ، اورکائنات کا وہ  مادی  تصور جو ہزارہا سالوں سے چلا آرہا تھا سائنسی بنیادوں پر ثابت نہیں ہوتا۔ چونکہ  سائنس کی ایک شرط حواس خمسہ کو پہنچنے والا علم ہے ، اور حواس خمسہ  قائم بالذات نہیں، اور اس کو بھی عقل و شعور   سے تصدیق کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے  محسوسات  اپنے سے باہر کی ایک شئے ، یعنی معقولات  کو حجت بنانے پر مجبور ہے اور محض اسی لیے سائنسی نوعیت کا’’ معقول‘‘ یا بہ الفاظ دیگر  ’’ نظریہ ٔ  سائنس ‘‘ خود ایک فلسفیانہ زاویہ ہے خود اپنے ہی  ’’محسوس ‘‘ کا اثبات  اپنے ہی ڈسکورس میں کرتا ہے ، اور اس کی صحت و عدم صحت کے لیے  دیگر فلسفیانہ زاویوں سے طبعاً رجوع نہیں کر سکتا کیونکہ اس کی نظر میں دیگر فلسفیانہ زاویوں سے اس کی عداوت ہے۔ اس خیال میں صداقت کا ایک عنصر پایا جا سکتا ہے۔ بارہا دیکھا گیا ہے  کہ سائنسی نظریہ’’ محسوسات‘‘ سے کام لے کر دیگر فلسفیانہ زاویوں کا انسداد کرتا ہے یعنی:  انہیں  ہیومین سائنسیز  کے ڈسکورس سے یا تو مکمل طور پر  باہر کر دیتا ہے یا اس  ڈسکورس میں رکھ کر ان پر اپنے طریق و منہاج  کی رو سے تحقیقاتی کارروائی کے ذریعے  کبھی حسبِ منشا  ان کی تربیت کرتا اور کبھی ان میں سے بعض پر قابو پا کر انہیں بے دست و پا کر دیتا  ہے ۔تحقیق کا یہ  ایک ایسا مسئلہ ہے جو تاحال ناقابل حل ہے الا یہ کہ سائنسی نظریہ اور دیگر فلسفیانہ (بشمول متصوفانہ ) زاویوں کے درمیان کسی فکری  نوعیت کی مفاہمت  کی گنجائش نکالی جا سکے جس سے کہ  تمام تر علوم انسانی  کا انفراد بھی قائم رہے اور وہ  اپنے مخصوص میدان میں اپنی طرح ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حقیقت  تک  رسائی حاصل کر سکیں۔اس طرح علوم کے درمیان مکالمہ کا ایک عمل شروع ہوتا ہے جو بین العلومی تحقیق سے عبارت ہے( جس کے اپنے مسائل اور امکانات ہیں۔ اس کی   تفصیل اس مضمون کے اگلے حصے میں درج کی جائے گی)۔
اس پورے مسئلے کو ایک اور نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں: جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے جدلیاتی و مکالماتی  ڈسکورس میں پائے جانے والے   تنقیدی  رجحانات انسانی علوم میں تحقیقات کی رو سے   جاری مسلمات سازی کے عمل میں مداخلت (Intervention) کرتے ہیں، اور کچھ اس قسم کے دلائل پیش کرتے ہیں: جو علوم  و فنون  سائنس کے دائرے میں  آتے ہی نہیں، ان میں معقولاتی و منقولاتی نیز جزوی طور پر حسی طریق ہائے کار سے تو کام لیا جا سکتا ہے لیکن  وہاں سائنسی طریقۂ   کار سائے کی طرح ہمارے ساتھ  نہیں رہ سکتا،اور   نتیجتاً و  لازماً تحقیق کو  کہیں نہ کہیں فلسفیانہ تعبیر ات کا ’’شکار ‘‘ہونا پڑتا ہے، یا زیادہ غیرجانب دار طور پر کہا جائے تو اسے کہیں نہ کہیں  ان فلسفیانہ تعبیرات سے ’’مدد لینی‘‘ پڑتی ہے اور تعبیرات میں پہلے ہی عقولِ انسانی کے مابین  اختلافات ہیں۔یہی سبب ہے کہ انسانیات اور سماجی علوم کے میدان میں سائنسی طریقے سے انجام دی  جا رہی تحقیقات  میں کسی زیرتحقیق  مسئلہ پر وقت واحد میں دستیاب یکساں  ماخذ و مواد کے باوجود عقلی نوعیت کی تعبیرات  و ترجیحات کے سبب  زاویے کا اختلاف ہو سکتا اور ہوتا ہے۔  اور جیسے ہی ہم ان تعبیرات و ترجیحات کو دفع کرنے کی غرض سے ان پرسائنسی اصولوں کا سخت اطلاق  (rigorous implementation)  کرتے ہیں ، عمل تحقیق ایک ہمالیائی ریاضت  بن کررہ جاتی ہے ۔اسی  دقت کے پیش نظر ہماری یونیورسیٹیوں میں تحقیق کی یہ تعریف کی جاتی ہے:
Discovery of new facts or new interpretation of old facts.
ظاہر ہے تحقیق کے میدان میں تعبیرکی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے  ورنہ فقط محسوسات سے کام آگے نہیں بڑھ سکتا۔ لیکن  اس کے سبب دیگر  کئی اہم مسائل پیدا ہوتے ہیں اور اسی سبب سے گیان چند جین  تحقیق کی اس تعریف کو’’ بدقسمتی‘‘ سے  تعبیر کرتے ہیں (تحقیق کا فن، صفحہ ۸۰)۔ تعبیر کے حد سے زیادہ بڑھ جانے کے سبب تحقیق میں کیا مسائل پیش آتے ہیں اس کا اشارہ اس مضمون کے اگلے حصوں میں لیا جائے گا۔

موجودہ دور میں علوم کی فہرست زمانہ کی ترقی کے ساتھ طویل ہوتی جا رہی ہے۔ کیا ان میں کوئی ایسی درجہ بندی  یا تقسیم  کی  جا سکتی ہے جیسی حیاتیات میں انواع و اقسام کی درجہ بندی رائج ہے؟ یا یہ اسی طرح الگ الگ رہیں گے جیسے مختلف قوموں، زبانوں  اور مذہبوں نے اپنا آزادانہ تشخص قائم کر رکھا ہے اور ان میں ادغام ممکن نہیں کیونکہ  یہ سب علوم و فنون جو کچھ ’کہنا ‘چاہتے ہیں ،  اپنی طرح  کہتے ہیں، اپنے مواد اور موضوع،  اور اپنے مخصوص رجحانات کے ساتھ  سائنسی  تحقیق کرتے ہیں۔ لیکن کیا مشترکہ طور پر وہ کوئی ایک بات کہتے ہیں؟ کسی ایک طریقے پر متفق ہیں؟ایک بار پھر جواب نہیں میں ہی ہوگا۔ تحقیق کا ایک بڑا مسئلہ یہی ہے کہ اس کا کوئی ایک طریقہ نہیں بلکہ جس قدر علوم و فنون ہیں اسی قدر طریقے بھی پائے جاتے ہیں ،اور ان میں اگر کوئی قدر مشترک ہے تو اس کی نوعیت تحقیقی نہ ہو کر تخلیقی ہے۔ موجودہ دور میں ’’علم کی تخلیق‘‘ یا
Creation of Knowledge
جیسی عام بولے جانے والے الفاظ اسی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ورنہ عقل میں یہ بات نہیں آتی کہ علم کی تخلیق آخر کیسے کی جا سکتی ہے؟ یا تو تخلیق کی تعریف میں کوئی غلطی ہے یا علم کی تعریف میں۔ ’’علم کی تخلیق ‘‘ کا یہ خیال  کیا اس لیے جائز ہے کہ  ایک ’’معلومات‘‘ جس کا وجود نہیں تھا ، اب  تحقیقی کاوش کی مدد سے  اس کو وجود میں لا دیا گیا؟ گویا عدم سے وجود میں آنے کو اگر تخلیق کہا جائے تو پھر کمپوٹر پر کسی لفظ کو کاپی  اور پیسٹ کرنے کے بعد بھی جونئی  ’’نقل ‘‘ وجود میں آتی ہے وہ بھی  تو عدم سے ہی آتی ہے، پھر کیا سبب ہے کہ ہم اس کو تخلیق نہ کہیں؟ اسی طرح ایک شخص اپنی تحقیق کے بعد کسی بات کو مستند ذرائع سے من و عن ’’نقل ‘‘کردیتا ہے  جو ہمیں پہلے معلوم نہیں ہوتی تویہ عمل کاپی اور پیسٹ کے عمل  سے کس حد تک مختلف ہے؟ بے شک ہم  ایسے محقق کو  ناقل نہیں کہہ سکتے  کیونکہ اس نے اس میں ذہنی کاوش کا مظاہرہ کیا ہے۔لیکن ذہنی  کاوش کا مظاہرہ تو  فلسفی ، ادیب، نقاد، شاعر اور فنکار سب کرتے ہیں۔ اگر شخص کا مطالعہ  اور یادداشت بہت وسیع ہو تو اس کی تحقیق بھی شاعری کی طرح فی البدیہہ ہوسکتی ہے۔
جس طرح علوم و فنون کے درمیان تفریق ظواہر کی بنا پر کی جاتی ہے  اور اسی بنا پر ان میں ہونے والی تحقیقات  کے طریق ہائے کار کو متعین کیا جاتا ہے، اسی طرح تحقیق ، تخلیق اور تنقید میں بھی تفریق کی جاتی ہے حالانکہ ان کے باطن میں ایکا ہے۔  چونکہ ظواہر میں ہم اختلاف دیکھتے یا دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں اسی  لیے ہم ایک کو دوسرے سے اور دوسرے کو تیسرے سے ممیز کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن مختلف علوم و فنون میں طویل عرصے کی تحقیقی، تخلیقی اور تنقیدی کاوش کے بعد ان کے مشتملات میں گہرائی اور دائرہ میں وسعت پیدا ہونے لگتی ہے اور ایک کی سرحد دوسرے کو چھوتی ہے اور دوسرے کی تیسرے کو ۔ حتی کہ جس طرح  شاعری میں  جدیدفکری مسائل کے بڑھنے سے وزن و آہنگ متاثر ہوا اور نثری نظموں کا سیلاب آیا، فلسفیانہ اسالیب میں ادبیت عود کر آئی (ژاک دریدا)، ادب فلسفہ بننے کی کوشش کرنے لگا،  سائنس  اور مذہب نے باہم ایک دوسرے کو متاثر کیا،  سماجیات نے نفسیاتی تجزیہ شروع کیا اور سماجی نفسیات کا وجود ہوا، غرض ایک علم یا فن نے جس طرح اپنے ہی ظواہر کے میدان کو اس طرح پھیلایا  کہ ایک کے مشتملات دوسرے کی سرحد پر سرمارنے لگے ، ٹھیک اسی طرح تفکیر، تنقید، تخلیق اور تحقیق کا ادغام دکھائی دینے لگا۔تنقید نے تحقیق پر عمل جراحی شروع کیا اور تحقیق نے تنقید میں سیندھ لگائی، اور تخلیق نے   فن پاروں  کی شکل میں تنقید  یاتحقیق کا عمل انجام دینا شروع کیا۔اسی کو  گیان چند جین نے علوم و فنون کے درمیان ’’وصل‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اس لیے اگر موجودہ دور میں تحقیق کہیں پر تنقید بنتی دکھائی دے، یا اس میں تخلیقی کیفیت نظر آئے تو یہ ایک  بہت بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔ اور اکادمک دنیا کی روایت کے بظاہر خلاف ہوتا ہے  ۔ بعض اوقات اس روایت کے زیر اثر تحقیق کے میدان میں  معروضیت پر اصرار اس حد تک کیا جاتا ہے کہ وہ علوم و فنون کے  مجموعی رجحان کے خلاف ہوجاتا ہے۔اس سے عملاً بڑے نقصانات ہوتے ہیں۔
علوم کے درمیان وحدت قائم کرنے اور کبھی ان کے انفراد پر اصرار کرنے  کے پس پشت دراصل فلسفیانہ تفکیر کا عمل جاری رہتا ہے جو سیاسی جغرافیے کی طرح  ایک عہد میں علم کو منقسم کرتا  اور دوسرے عہد میں انہیں  باہم ملانے کی سعی کرتا  ہے۔تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے فلسفہ نے ادب اور  سائنس کو اپنے سے الگ کیا، پھر اس کے بعد دیگر علوم مثلاً تاریخ، جغرافیہ، نفسیات، وغیرہ کو اپنے سے الگ کرتا چلا گیا۔ موجودہ دور کا فلسفیانہ رجحان تمام تر  متفرق علوم و فنون  میں  احدیت یا اکھنڈتا کے تصور کو نافذ کرنا  تو نہیں البتہ ان کے درمیان رابطہ بحال کرنے پر ہے جو کبھی ماضی میں پایا جاتا تھا۔  اور یہ عمل بین العلومی تحقیقات کے دائرے میں انجام دیا جاتا ہے۔ظواہر کی سبب چیزوں کو الگ الگ سوچنا اور پھر ایک  طویل عرصے کے بعد ان  میں  ’’تحقیق‘‘ کے ذریعے بازارتباط کی سعی کرنا’’علم ‘‘ کے میدان میں کسی بحران کی نشاندہی کرتا ہے جس سے تحقیق کو آنکھیں چار کرنا ہے  اور یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس میں  سائنسی معروضیت  اور عقلی تعبیروں سے کس حد تک کام لیا جا سکتا ہے  اور کس حد تک نہیں ۔

تحقیق زندگی اور اس کے مسائل سے انتہائی واضح طور پر جڑی ہوتی ہے ۔ آج سے پچیس پچاس سال پہلے کہا جاتا تھا کہ خلائی تحقیقات کے ذریعے ’’ستاروں‘‘ پر کمند ڈالنے کا آخر کیا فائدہ ہے؟ انسان اپنی زمین کے مسائل کیوں نہیں حل کرتا کہ آسمان کی طرف متوجہ ہے؟  بعد میں ہمیں معلوم ہو گیا کہ وہاں انتہائی کارآمد معدنیات اور انرجی کے ذخائر  ہیں اور انسان وہاں جا کر بھی قیام پذیر ہو سکتا ہے۔  علمی و سائنسی تحقیق پرجس نوع کے  اعتراضات  سننے کو ملتے رہے ہیں وہ  کچھ اس سبب سے تھے کہ یہ فضول خرچی ہے اور کچھ اس سبب سے کہ سائنسی  و سماجی تحقیقات  و اکتشافات سے پرانے معیار اور رسوم و رواج ،  اور ازکار رفتہ خیالات  بدلنے لگتے ہیں۔ موجودہ دور میں مذہبی حلقوں کی طرف بارہا یہ اعتراض کیا جاتا رہا ہے کہ آخر نظریۂ  ارتقا پر تحقیق  و تجسس کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن  یہ بالکل ممکن ہے آئندہ اسی عمل سے انسان کو خدا تک پہنچنے کا کوئی وسیلہ پا لے۔
تحقیق دراصل فلسفیانہ تجسس کے سبب پیدا ہوتی ہے۔ اور تنقید کے سبب آگے بڑھتی ہے۔ اور زندگی کی نئی صورت حال کی تخلیق میں معاون ہوتی ہے۔ لیکن موجودہ دور میں تحقیق کو درپیش مسئلہ فلسفیانہ تجسس کے زوال کا ہے۔برصغیر میں فلسفہ کے  ادارے انتہائی تیزی سے ختم ہو تے جا رہے ہیں، اور کم طلبا اس میں داخلہ لیتے ہیں۔  چونکہ سبب زوال پذیر ہے اس لیے تحقیقی عمل  میں دلچسپی کی  وہ کیفیت نہیں پائی جاسکتی جو مطلوب ہے۔ یوں تحقیق ایک تھکان محسوس کرانے والی سرگرمی  بن جاتی ہے ۔ریسرچ اسکالروں کے سامنے زندگی کے مسائل اپنی تمام تر آب و تاب کے ساتھ روشن نہیں  ہوپاتے ۔ فلسفیانہ کاوشوں کے سبب زندگی میں سوال بھی پیدا ہوتا ہے اور خلا کا احساس بھی۔ کسی معاشرے میں جب  فلسفہ کی  روایت کمزور ہو جاتی ہے تو محقق کے سامنے موضوعات و سوالات  اس  تہذیب  کے نہ ہو کر اُن تہذیبوں کے ہوتے ہیں جہاں  فلسفیانہ عمل انتہائی تیز ہوتا ہے۔ ظاہر ہے انسان  جب تک اپنے ہی معاشرے اور اپنی ہی تہذیب   یعنی  اپنی  ’’اجتماعی خودی ‘‘  اور شعور میں نہ ڈوبے تب تک اسے  اپنے وجود اور اپنے شناخت سے باہر کی چیزوں سے وہ دلچسپی نہیں ہو سکتی۔ برصغیر میں انسانیات اور سماجی سائنسوں میں تحقیق ایک خشک اور بے جان شئے  اسی سبب سے ہے۔

تحقیق کا تعلق علم سے ہے، اور  علم اور جہل میں ہمیشہ سے امتیاز کیا جاتا رہا ہے۔ کیا چیزیں علم ہیں اور کیا چیزیں علم نہیں ہیں، ہر دور میں مقتدر فلسفیانہ یا مذہبی عقائد کے ذریعے انہیں طے کرنے کی روایت رہی ہے۔موجودہ زمانہ جس حد تک ا رتقا کر چکا ہے، یا جہاں تک وہ اپنے تمام تر تعصبات و تیقنات کے ساتھ پہنچ چکا ہے اس میں میں  ’’علم ‘‘ کو’’ جہل‘‘ سے کم از کم توہم سے، عمل کی سطح پر ممتاز کرنے رجحان دیکھا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں بھی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کو’’ علم‘‘ تسلیم کرنے میں اتفاق نہیں ہے مثلاً  جادو اور جیوتش، علم القیافہ، ستارہ شناسی، مستقبل بینی ۔بلکہ کسی نہ کسی  حد تک مذہب اور  تصوف کے ساتھ بھی موجودہ علمی نظام یہی فلسفیانہ موقف اپنانے پر مجبور ہوئی ہے۔ میرا مدعا یہ ہر گز نہیں ہے کہ ان چیزوں میں ’’حقیقت‘‘ کے کسی پہلو کا کوئی علم مخفی  نہیں ہے، لیکن موجودہ علمی نظام کے مطابق یہ چیزیں  اصلاً’’ حقیقت کے علم‘‘ کے دائرے سے خارج ہیں، اور محسوسات کو معیار بنا کر  ان کا مطالعہ’’ معلومات‘‘ کی حیثیت سے کیا جاتا ہے۔ مثلاً، جادو منتر کے زور پر بھوت بیتال کوبلانے یا تسخیرِ اجِنّا  کا عمل  مستند سرگرمی نہیں ہے ۔ بلکہ اب تو جادو کی تعریف تک بدلنے لگی ہے اور جادوگری کی سرّی تعبیر کے بجائے اس کی  ایک عقلی و حسی توضیح کو بھی اختیار کیا جاتا ہے اور متعدد انسٹی ٹیوٹس میں اسے سائنسی فن  یا’ ٹرک ‘کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔
مذہب، اساطیر اور تصوف جیسی چیزوں  کا مطالعہ بھی  ’’معلومات‘‘ ہی  کی حیثیت سے کیا جاتا ہے  اور  ان میدانوں  کی تحقیق میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ان کے دعاوی میں کیا سچائی ہے بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ انسان سے کیا کہہ رہے ہیں اور انسان کو کیسے متاثر کرتے ہیں۔ تصوف اپنے ابتدائی بیانیہ میں انتہائی سائنسی معلوم ہوتا ہے  کیونکہ  اس کے ذریعے سے بھی غیب کو حضور میں بدلنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، مثلاً جمع الجمع ، حقیقت کو بچشم خود دیکھ سکنے کی ریاضت۔ لیکن آگے چل کر اس کا بھی حال جادو سے مختلف نہیں ہوتا۔ تصوف اور جادو کا عمل سب کے لیے یکساں  قابل استعمال اور مفید نہیں ہوتے۔ خود مذہب کے  اساسی دعاوی کا تجرباتی اثبات  اب تک نہیں کیا جاسکا ۔ اور اس لیے یہ بھی علم کے دائرے سے خارج ہے اور بطور ایک ’’شئے‘‘ کے اس کا مطالعہ کیا جاتا ہے، مثلا اسلامک اسٹڈیز۔ یعنی ان سب چیزوں کو چونکہ اعتقاد عامہ مبنی برحقیقت  سمجھتی ہے اس لیے ان کا مطالعہ سائنسی  طریقہ کار سے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔  ایسے سب معاملات میں تحقیق کا ایک کام  ہے کہ جو چیزیں ’علوم ‘نہیں ہیں ،  ان کو بہت کچھ ’’اوہام‘‘ یا کچھ اور باور کرتے ہوئے علوم کے دائرہ کار میں بطور ایک ’’ شئے‘‘ کے لانا اوران کا مطالعہ کرنا۔ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کہ یہ چیزیں انسانی معاشرہ پر اثرانداز ہوتی ہیں، لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں۔
سائنسی ، تجرباتی یا محسوساتی طریقہ ٔٔ  کار سے  ان ’’اوہام‘‘ یا جو کچھ بھی وہ ہیں، پر تحقیق کرنے سے نہ صرف یہ کہ ان پر منفی اثر پڑتا ہے بلکہ  اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ خود تحقیق غیرجانب دار نہیں رہ پاتی، اور ان چیزوں  کے سلسلے میں بھی ایک طرف جھک پڑتی ہے، اور ایک طرح سے فیصلہ سنانے لگتی ہے، جن پر اس کو  اپنے موجودہ  سائنسی طریقۂ کار کی رو سے  مکمل خاموشی اختیار کرنی  چاہیے تھی۔  (اس کی دلیل آگے آ رہی ہے)  ۔ مختلف النوع اکادمیوں اور فلسفیانہ رجحانات کے تناظر میں تحقیق بطور  ایک زندہ  وجود کے   اپنی  گروہی ،فلسفیانہ، نظریاتی، منہاجیاتی، ترجیحات  کی رو سے حیات و کائنات کے متعلق کوئی نہ کوئی اساسی نظریہ قائم کرنے پر مجبور ہوتی ہے اور اسی کے زیر اثر تحقیق کے طریقے،اس  کے موضوعات  کا تعین ہوتا ہے۔ کیا چیزیں تحقیق کے دائرے میں ہیں اور کیا اس سے باہر ، اس کا کوئی یکساں  معیار ہمارے نزدیک نہیں ہوتا اور صاف نظر آجاتا ہے کہ ایک معاملے میں ہم جس اصول کو ترجیح دیتے ہیں دوسرے معاملے میں اس کو نظرانداز کرتے ہیں۔ چونکہ علم  پردہ ٔ غیب میں ہے اس لیے ہم  کسی موضوع کے سلسلے میں ایک مفروضہ، ایک مقدمہ قائم کرتے ہیں، گویا ایک طرف کو جھکتے ، جانبدار ہو جاتے ، پھر اسی مقدمہ کے اعتبار سے مواد جمع کرتے ، اور ان کے تجزیے کی بنا پر ہی اپنے مخصوص نتائج نکالتے ہیں۔ مقدمہ خود  تحقیق کے اندر کا  اساسی مسئلہ ہے۔ اگر کوئی امر واقعہ یا فیکٹ  مستقبل  میں تحقیقی مواد کے تجزیے سے برامد ہونا ہے ، اور وہ تاحال برامد نہیں ہو سکا، اور اسی لیے ہم ایک  مفروضہ قائم  کرتے ہیں تو اصولاً تو یہ ہونا چاہیے  کہ ہم کو اپنے مفروضے کے خلاف ایک دوسرا مفروضہ  یا مفروضات پیش کرتے ، اوران کے حق میں بھی مواد تلاش کرتے ،لیکن انسان فطرتاً اپنے فلسفیانہ عقائد و  مفروضات کا ’’ مومن‘‘ ہے اور ان کے خلاف از خود دلائل پیش کرنا اس کے لیے اکثر و بیشتر ممکن نہیں ہوتا ۔ اگر اعلیٰ درجے کی تحقیق میں یہ اصول پیش نظر رکھا جائے تو  ایسی تحقیق  اپنے آپ میں ایک  تنقیدی کائنات  بن جاتی ہے  جس میں ایک سے زیادہ مفروضے کارفرما نظر آتے ہیں اور آخر کار کسی ایک نتیجے کی ترجیحی تعبیر پیش کرتے ہیں۔ اگر تحقیق  میں تعبیر کی گنجائش ہے تو ایک ہی واقعے کی وقت واحدمیں  ایک سے زیادہ تعبیریں ممکن ہیں۔ لیکن رشید حسن خاں لکھتے ہیں:
اس زمانے میں یہ رجحان فروغ پا رہا ہے کہ تحقیقی مقالوں کے لیے ایسے موضوعات منتخب کیے جاتے ہیں جو اصلاً تنقید کے دائرے میں آتے ہیں۔ یہ تحقیق اور تنقید دونوں کی حق تلفی ہے۔۔۔ تحقیق بنیادی حقائق کا تعین کرے گی ۔۔۔۔ اخذ نتائج میں جہاں سے تعبیرات کی کارفرمائی شروع ہوگی اور ان پر مبنی اظہارِ رائے کا پھیلاو شروع ہوگا، وہاں تحقیق کی کارفرمائی ختم ہو جائے گی۔ ‘‘ (ادبی تحقیق صفحہ ۱۲ بحوالہ تحقیق کا فن صفحہ ۸۱) ۔
لیکن اگر’’بنیادی حقائق کا تعین ‘‘ کو تحقیق کی لازمی شرط قرار دے دی جائے اور تعبیرات کو تحقیق کے دائرے سے بالکلیہ خارج کر دیا جائے ، تو پھر خود تحقیق کا دائرہ اپنے موضوعات سے لے کر عنوانات تک  انتہائی تنگ ہو کر رہ جائے گا ۔ محسوسات پر اس قدر اصرار کرنے سے (جس سے بہرحال مفر نہیں) تحقیق کے لیے  ،جواپنی نظری، گروہی، مکتبی، اکادمیاتی  حیثیت میں  ایک’’ زندہ اور مسلسل عمل‘‘ ہے ، سانس لینا بھی دشوار ثابت ہوگا۔ لیکن گیان چند جین کے مطابق:
بدقسمتی سے یونیورسیٹیوں میں ریسرچ کی تعریف یہ کی جا تی ہے:
Discovery of new facts or new interpretation of old fact.
اس میں  ’’پرانے حقائق کی نئی تشریح‘‘  کے پردے میں تحقیق کے حصار میں خالص تنقیدی موضوعات کا در یا ڈربہ کھل جاتا ہے۔ (حوالہ سابق، صفحہ نمبر ۸۰)
یہ مسئلہ اپنی جگہ انتہائی  مبنی بر حقیقت ہے۔ اور اس سے کسی طور انکار کرنا میرے پیش نظر نہیں۔ لیکن یہ مسئلہ اسی لیے تو پیش آ رہا ہے کہ اکادمیاتی دنیا سے تنقید ی عمل کو خارج کر دیا گیا ہے۔ اور تنقید کا پانی  اپنے  باندھ  کو توڑ کرتحقیق کی حدوں میں داخل ہو جاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ آج  تحقیق کو جو مسائل درپیش ہیں ان کو خود تحقیق کی رو سے نہیں سلجھایا جا سکتا۔ تحقیق اپنے پیروں پر نہیں کھڑی ہوئی ہے کیونکہ اس کا طریقہ کارکسی نہ کسی  فلسفہ  یا تنقیدی نظریہ  سے  مستعار ہے۔
علم وفن کا کوئی بھی رخ خواہ  وہ تخلیق ہو، تنقید ہو، یا تحقیق ہو ایک دوسرے آزاد نہیں ہے۔علمی و  بین  العلومی و بین الفنونی تحقیق، تنقید، اور تخلیق کو ایک دوسرے سختی سے جدا کرنا اور اکادمیوں میں صرف ایک پہلو  ’’تحقیق‘‘ کا فروغ پانا اور دیگر پہلوؤں  کا انسداد  تحقیق کو درپیش  اس مسئلے کا ایک  سبب ہے جس کی طرف گیان چند جین نے اشارہ کیا ہے۔ اگر ہمارے ہاں اکادمک  صحت مند اور باادب تنقید کو باضابطہ فروغ  دیا جاتا تو تحقیق کے حصار میں خالص تنقیدی موضوعات کا ڈربہ  ہر گز نہ کھلتا، کیونکہ ناقدانہ مزاج  کے لیے  جو تحقیق کے فن میں دلچسپی نہیں رکھتا ایک تنقیدی کام کا  متبادل ہمیشہ موجود رہتا۔

ہم کوئی تحقیق اسی لیے انجام دیتے ہیں کہ اس کی بنیاد پر جو نتیجہ نکلے گا وہ حرفِ آخر کا حکم رکھتا ہوگا۔ اس پر کسی کلام کی گنجائش نہ ہوگی۔ وہ ہر قسم کے شک و شبہے سے بالا تر ہوگا۔ یہ تحقیق کا آدرش ہے جس کو لے کر ہم آگے بڑھتے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے ہم تحقیق کے میدان میں دستیاب علمی ماخذ کے ساتھ آگے بڑھتے جاتے ہیں، ویسے ویسے ہم کو یہ معلوم ہوتا جاتا ہے کہ اصول اور آدرش اپنی جگہ، لیکن واقعات کی دنیا میں اس کو قائم کرنا تقریباً ناممکنات میں سے ہے۔کیونکہ حیات و کائنات کے اکثرو بیشتر امورو مسائل  میں بلکہ  انسانی زندگی کے انتہائی اساسی امور تک میں عالم غیب کا حصہ عالم شہادت سے  انتہائی ناقابل ادراک طور پر زیادہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود انسان میں جرأ ت تحقیق پائی جاتی ہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ  وہ دنیا میں تحقیق کے ذریعے کوئی نہ کوئی عملی  رویہ ،پالیسی اور  راستہ اپنانے پر مجبور ہے۔ تحقیق کا یہی لزوم اس کی روز افزوں اہمیت کا سبب بھی ہے۔
شہود سے غیب تک  جانے یا نا معلوم کو معلوم کرنے  کے عمل میں تحقیق سے مدد لیتے ہوئے ہم جن موضوعات کو منتخب کرتے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم نتیجے میں ’’ قطعیت ‘‘ چاہتے ہیں ورنہ بہت سے ایسےامور ہیں جو تجسس کا موضوع ہیں، اور ہمارے لیے مستقل مسئلہ  کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ہم انہیں تحقیق کا موضوع بنانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ انسانی زندگی سب سے اہم موضوعات ، مثلاً ،’’ خدا  ہے یا نہیں ؟‘‘، تحقیق کے دائرے سے باہر ہے، اصولاً تحقیقی آدرش کو سامنے رکھ کر سوچا جائے تو ایسے موضوعات بھی تحقیق کے دائرے سے باہر نہیں ہونے چاہئیں کیونکہ ایسے مسائل ہمارے سامنے بہرحال نہ صرف موجود ہوتے ہیں بلکہ ہم پر اثرانداز بھی ہوتے ہیں۔  اور ہم ان کے سلسلے میں فلسفیانہ یا متعصبانہ یا جذباتی طور اپنی اپنی ذاتی ترجیحات قائم کر لیتے ہیں۔ اور یہی مسائل انسان کے لیے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ خدا انسان کی آنکھوں سے اوجھل ہے لیکن سب سے زیادہ اسی موضوع پر تجسس کا اظہار کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ تحقیق کا موضوع اس لیے نہیں ہو سکتا کہ اس سمت میں بہت جستجو کی جا چکی ہے لیکن کسی کے ہاتھ کچھ نہ آ سکا اور حل نہ ہو سکنے کے سبب یہ ایمان یا آستھا کا مسئلہ ہے بن کر رہ گیا ہے ۔اس جیسی بہت سی مثالیں پائی جا تی ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسانی  زندگی کے وہ  ناقابل حل مسائل جو تحقیق کے موضوع سے باہر ہیں، ہمارے لیے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں، اور کسی نہ کسی طور ان مسائل پر جو تحقیق کے موضوع کے اندر ہیں اثر انداز ہوتے ہیں۔ خدا کا وجود ہے یا نہیں، اس پر تو کوئی سائنسی تحقیق نہیں چلائی جا سکتی، لیکن نظریۂ ارتقا پر بڑے اطمینان سے تحقیق جاری رکھی جا سکتی ہے جس سے خدا کے نظریے کو زک یا تقویت پہنچ سکتی ہے۔ نظریہ ارتقا سے متعلق ہر مثبت یا منفی تحقیق پر عام  تعلیم یافتہ آبادی انتہائی شد و مد سے دلچسپی لیتی ہے۔ موجودہ دور میں براہ راست خدا کے نظریے پر تحقیق نہ کر کے تخلیق کائنات کے نظریہ   Intelligent Design پر بھی تحقیق جاری ہے۔ گویا ہمارے لیے تحقیق کا کوئی نہ کوئی ایسا موضوع ہونا چاہیے جس پر تحقیق کا نتیجہ شائع کرنے کے ذریعے ہم تحقیق کے دائرے سے باہر کے ’’زیادہ حساس اور ناقابل تحقیق موضوعات‘‘ پر کسی نہ کسی طور پر اثرانداز ہو سکیں۔

الحاصل ، علوم میں تحقیق کے مسائل بے شمار ہیں۔ اصل مسئلہ خود تحقیق کی تعریف کا ہے۔ اس کو تنقید ، تفکیر اور تخلیق سے  واضح طور پر الگ کرنے کا ہے۔ اور یہی نہیں ، جب ہم ایک کو دوسرے سےبہت  الگ کرنے لگتے ہیں تواس کے سبب  دوسرے مسائل تحقیق کو درپیش ہو جاتے ہیں۔ اور اس پورے عمل میں سائنسی معروضیت   کی حد متعین کرنا، اس میں فلسفیانہ تعبیروں کی گنجائش پیدا کرنا نہ کہ اس کو مکمل طور پر فلسفہ کے ماتحت کردینا، اس میں دلچسپی پیدا کرنا  نہ کہ خشک اور بے جان معروضیت  پر حد سے زیادہ اصرار کرتے ہوئے  اس کو ہمالیائی ریاضت میں بدل دینا،   بین العلومیت سے کام لینا نہ کہ کسی موضوع کے علمی حصار میں مقید ہو جانا، تحقیق کو ایک مسلسل عمل کے طور پر دیکھنا نہ کہ کسی خاص مقام پر اس کو ٹھہرا کر نتائج کو حتمی بنا لینا،  اور سب سے بڑی بات یہ کہ  اپنے  تحقیقی موضوع  پر نہ صرف یہ کہ  اپنے موقف کے حق میں دلائل پیش کرنا بلکہ   بلکہ اس کے خلاف بھی چیزوں کی تلاش میں منہمک رہنا ، اور پھرتمام تر دستیاب ماخذ اور مواد کا ایسا تجزیہ اور تعبیر پیش کرنا جس سے کہ محقق کے طور پر ہمارے  ذہن میں چل رہا تمام تر پروسیس بالکل آئینہ ہو کر مقالے میں نکھر آئے — یہ سب کچھ  ایک بہت بڑا چیلنج  ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اگر خود تحقیق کو ایک مسئلہ باور کرتے  اور  بار بار اس کے طریقے پر شک کرتے ہوئے تحقیق کی جائے تو اس کے نتائج میں قطعیت  اور اعتبار و استناد کا امکان  بہت بڑھ جاتا ہے۔

جمعہ، 3 مئی، 2013

آوارہ اور اکادمک

کہاں ایک خارش زدہ آوارہ کتا
جو حقیقت کے اندر ‘ پایا جاتا’ ہے
سڑک کے ایک کنارے
دانش حاضر کے چکرویوہ میں
گول گول گھومتا ہوا
اپنے ہی جنون میں رطب اللسان
ہمہ وقت و ہی جھاؤں جھاؤں

اور کہاں ایک کھایا پیا مست مولااکادمک بلڈ ہاؤنڈ
اور جوہوا میں ناک اٹھا کر
انٹلکچوئیل سائٹیشن دیتے ہوئے
حقائق کی تہہ تک پہنچتا ہے
جس کی رال سے علمی ثقاہت ٹپکتی ہے
جس کی چال سے عملی متانت چھلکتی ہے
انتہائی نظم و ضبط کے ساتھ بھونکتا ہے
وَوف وَوف!
اور کبھی پاگل نہیں ہوتا
وَوف وَوف!

جمعہ، 21 ستمبر، 2012

ایک داعی سے مکالمہ


[میں نے فیس بک پر جولائی ۲۰۱۲ عیسوی میں ’’دعوتی نقطہ نظر کی خامیاں‘‘ کے عنوان سے ایک نوٹ لکھا تھا۔ درج ذیل تحریر میرے اسی نوٹ پر جناب سید سعادت اللہ حسینی صاحب کے ایک تبصرے کا تفصیلی جواب ہے جو اسی زمانے میں لکھی گئی۔]

محترم سید سعادت اللہ حسینی صاحب
آپ نے لکھا ہے:
’’طارق صدیقی صاحب کو دوستانہ مشورہ یہ ہے کہ وہ فیس بک پر اس قدر طویل اقتباسات کی تحریر میں وقت ضائع کرنے کی بجائے کچھ بنیادی کتابوں کے مطالعہ پر توجہ دین تو حقیقت کی تلاش آسان ہوگی۔ آپ کے نوٹ اس بات کی چغلی کررہے ہیں کہ آپ نے اسلامی متکلمین کی بنیادی کتابیں بھی نہیں پڑھی ہیں اور نہ فلسفہ اور منطق کی بہت ہی بنیادی درسی کتابیں بھی پڑھ پائے ہیں۔‘‘
یہ طویل اقتباسات نہیں طویل تبصرے ہیں۔ طوالت یا اختصار سے وقت ضائع نہیں ہوتا۔ مختصر تحریریں بھی تضیع اوقات ہو سکتی ہیں اگر ان سے کسی کو فائدہ نہ ہو رہا ہو۔ خود آپ کا تبصرہ بھی فیس بک کے عام تبصروں سے زیادہ طویل ہے۔
رہی بات فیس بک پر لکھنے کی تو آپ خود اپنی تقریروں میں فرماتے ہیں کہ انٹرنیٹ نے بے آوازوں کو آواز دی ہے، سو مجھے بھی ایسا ہی ایک بے آواز شخص سمجھ لیجیے۔ میری تحریریں تحریک اسلامی کے معیاری علمی تحقیقی رسائل و جرائد میں یا اس کے معیاری اداروں سے شائع نہیں ہو سکتی ہیں۔ فی زمانہ معیاری وہ ہے جو تحریکوں اور جماعتوں کی پالیسی و پروگرام کی رو سے وجود میں آتا ہے اور گروہی و تنظیمی اغراض و مقاصد کو پورا کرتا ہے۔ اس کے خلاف جو کچھ ہے وہ غیرمعیاری، غیرعلمی اورغیرفکری اور تضیع اوقات محض ہے۔ اس کو لائق اعتنا کیسے سمجھا جا سکتا ہے اور کیسے اس کو دعوت اور زندگی نو میں شائع کیا جا سکتا ہے؟
میں شروع ہی سے یہ ثابت کرتا آ رہا ہوں کہ داعی حضرات اپنی غلطی محسوس کر ہی نہیں سکتے۔ وہ بحث کے درمیان خود کو ایک بلند مقام پر فائز سمجھتے ہی رہیں گے۔ پھر وہ مدعو سے کیسے کچھ سیکھ سکتے ہیں؟وہ تو اس کو سکھاتے ہی رہیں گے۔ آپ نے بھی اپنے اس تبصرے میں پہلے ہی یہ فرض کر لیا کہ میں وقت ضائع کر رہا ہوں اور آپ مجھے ایک نصیحت فرما کر اپنے وقت کا صحیح استعمال کر رہے ہیں۔
بنیادی کتابوں کے مطالعے کا جو مشورہ آپ نے دیا ہے اس کی حقیقی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ میرے قائم کردہ سوالات کا کوئی موثر جواب پیش کرنا شاید ممکن نہیں ہے۔ ورنہ دعوتی نقطہ نظر پر جو عقلی اعتراضات میں نے پیش کیے ہیں اور اس سلسلے میں جو مثالیں سامنے رکھی ہیں، ان کے جواب میں مجھے بنیادی کتابوں کے مطالعے کا مشورہ ایک ’’بلند تر علمی سطح سے‘‘ دینے کا اور کیا جوازہو سکتا ہے؟ دعوتی تحریکی نقطہ ٔ نظر سے گفتگو فرمانے والے حضرات کے ساتھ یہ مسئلہ خاص ہے کہ وہ مخاطب کے سوالوں کا جواب دینے کے بجائے اس کی جنرل نالج پر سوال قائم کیا کرتے ہیں، تاکہ اس کی علمی پوزیشن کو کمزور کر دیا جائے۔
آپ کو خدا معلوم کس نے یہ بتایا کہ بنیادی درسی کتابیں پڑھنا فلسفیانہ عمل کے لیے ضروری ہے اور نہ پڑھے تو یہ ایک غلطی ہے۔ اگر ایک شخص اپنے پیش نظر کسی فلسفیانہ مسئلے میں اپنی کوئی رائے پیش کر رہا ہو، اور اس کی بحث میں الفاظ قطعی اور واضح معنوں میں استعمال ہو رہے ہوں، اور ان سے منطقی نتائج بھی برامد ہو رہے ہوں، پھر اس کو یہ کہنا کہ تم نے درسی کتابیں نہیں پڑھی ہیں، پہلے ان کو پڑھ کر آو پھر بات کرنا، ایک غلط مطالبہ ہے اور اس کے اٹھائے ہوئے سوالوں سے گریز کا حیلہ ہے۔ آپ کو معلوم ہو کہ فلسفہ کا کوئی ایک طریقہ نہیں ہے اور اس کی کوئی Predeterminedشرط نہیں ہے۔ ایک فلسفی اپنے فلسفہ کا طریقہ، اس کی شرطیں اور اس کی لفظیات و اصطلاحات خود ہی متعین کرتا ہے، اور اس کو مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ سابقہ کتابوں سے بھی استفادہ کرے۔ البتہ اپنے فلسفہ کے خاطرخواہ اظہار کے لیے زبان و بیان پر قدرت حاصل ہونا ضروری ہے۔ لیکن یہ فلسفیانہ عمل کی شرط نہیں ہے۔
آپ کے اس دوستانہ مشورے سے کہ ’’میں کچھ بنیادی کتابوں کا مطالعہ کروں تو حقیقت کی تلاش آسان ہو جائے گی‘‘ یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ان بنیادی فلسفیانہ کتابوں کو پڑھ کر ’تلاش حقیقت‘ کے مرحلے سے گزر کر ’حقیقت یاب‘ ہو چکے ہیں، یا ہو رہے ہیں ورنہ یہ مشورہ مجھے کیوں دیتے؟ اور چونکہ حقیقت آپ کو مل چکی ہے، یا مل رہی ہے، اس لیے مجھ سے بحث فرماتے وقت آپ حقیقت کی تلاش میں نہیں ہو سکتے۔ اس طرح میری وہ بات آپ کے ہی اس ’دوستانہ مشورے ‘سے ثابت ہو گئی کہ ایک داعی کسی خاص موضوع پر خود کو حقیقت یافتہ سمجھتا ہے اور مدعو کو حقیقت سے بے بہرہ۔ کیونکہ وہ ایسا مشورہ دیتا ہے جس سے اس کی افضلیت کی بو آتی ہے۔ جیسے آپ نے فرمایا کہ فلاں کتابیں پڑھو جن کی مدد سے تم پر حقیقت کی تلاش آسان ہو جائے گی۔ آپ اپنی جگہ غالباً یہ سمجھتے ہیں کہ میرے اندر جو فکری ضلالت راہ پا گئی ہے وہ متکلمین کی ’بنیادی کتابیں‘ پڑھنے کے بعد دور ہو جائے گی۔ گویا آپ نے میرے لیے ایک دوا تجویز کی حالانکہ میرے علم کی حد تک آپ کو خود کبھی وہ فکری مرض نہیں رہا جس میں میں مبتلا ہو گیا ہوں۔ اور اگر آپ کبھی اس دور سے گزرے ہیں جس سے میں گزر رہا ہوں، اور متکلمین کی کتابیں پڑھنے کے بعد آپ کو شفا ہو چکی ہے تو آپ کا یہ سمجھنا کہ آپ کی طرح ہی مجھے بھی ان کتابوں سے فائدہ ہوگا، غلط ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اس کا بھی امکان ہے کہ میں آپ سے زیادہ گہرے فکری مرض میں مبتلا ہوؤں۔ اور جس دوا نے آپ کے مرض میں کام کیا، کوئی ضروری نہیں ہے کہ وہی دوا مجھ پر بھی اثر کرے۔
اگر آپ کو میرے لیے حقیقت کی تلاش آسان کرنی تھی تو اس کا طریقہ یہ تھا کہ آپ خود ایسے دلائل دیتے جن سے حقیقت سامنے آ جاتی۔ اب اگر میں اس ’’کتابی‘‘ مشورے کے جواب میں یہ عرض کروں کہ آپ کے اس تبصرے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے جدید ملاحدہ کی کتابیں نہیں پڑھیں، تو آپ اس کا کیا جواب دے سکتے ہیں؟ جب آپ ملاحدہ کی کتابوں کو پڑھیں گے تو معلوم ہوگا کہ ماضی کے متکلمین کی پوزیشن کتنی کمزور ہے اور کس طرح جگہ جگہ ان کی ہزیمت ہوتی نظر آتی ہے۔ پس، آپ مجھے چند ’’بنیادی‘‘ کتابوں کو پڑھنے کا مشورہ دیں، اور میں بھی آپ کو ایسا ہی ایک گول مول ’’بنیادی‘‘ مشورہ دوں، اس طرح تو کوئی بحث آگے نہیں بڑھ سکتی۔ ہماری بحث تبھی آگے بڑھ سکتی ہے جب واضح اور قطعی معنوں میں یہ بتایا جائے کہ موضوعاتِ زیر بحث (مثلاً دعوتی نقطہ نظر کی خامیاں، جہنم کی واقعیت) میں عہد وسطٰی کے ملاحدہ نے کیا اعتراض کیا اور اس دور کے متکلمین نے اس کا کیا جواب پیش کیا اور ان دونوں گروہوں سے کیا فکری غلطیاں ہوئیں اور کون کس اعتبار سے کس پر غالب ہے۔ پھر یہ دیکھا جائے گا کہ دور جدید میں ملاحدہ و متفرنجین ومتشککین (بشرطیکہ ملحد یا کافر کی گالی ان پر راست آتی ہو) کے اعتراضات کی نوعیت کیا ہے اور عہد وسطٰی کے متکلمین کے کارناموں میں ان جدید اعتراضات کا جواب موجود ہے یا نہیں۔ پھر یہ بھی دیکھا جائے گا کہ میں نے جو عقلی اعتراضات پیش کیے ہیں ان کا کوئی جواب سابقہ متکلمین (قدیم و جدید) میں پایا جاتا ہے یا نہیں۔ اگر پایا جاتا ہے تو پھر یہ دیکھا جائے گا کہ وہ کتنے صحیح اور غلط ہیں۔ یہ ہے کسی بحث کا صحیح طریقہ جس سے آپ کام نہیں لینا چاہتے۔ آپ ایک گول مول مشورہ دے کر کہ ’تمہیں متکلمین کی بنیادی کتابیں پڑھنی چاہئیں‘ اپنا دعوتی فرض ادا کر دینا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ دعوت کا صحیح طریقہ نہیں ہے۔
آپ کا دعویٰ یہی ہے نہ کہ فلسفہ کی بنیادی کتابوں سے، یا اسلامی فلاسفہ و متکلمین کے کارناموں سے آپ واقف ہیں اور میں واقف نہیں، آپ ان کو پڑھ چکے ہیں،یا پڑھ رہے ہیں اور میں نے ان کو نہیں پڑھا۔ آپ کے اس دوستانہ مشورے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ اس موضوع پر مجھ سے زیادہ پڑھے ہونے یا زیادہ باخبر ہونے، اور اس وجہ سے ایک بلند تر علمی سطح پر فائز ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ آپ کے اس دعوے کی تردید یا تصدیق کرنا اس پوری بحث کے دائرے سے باہر ایک بات ہے کہ آپ فی الواقع نہیں جانتے کہ میں نے اب تک اپنی پوری زندگی میں کتنی تعداد میں، اور کن موضوعات پر کتابیں پڑھی ہیں، اور میرے غور و فکر کے خاص میدان کیا ہیں۔
اگر آپ نے اسلامی متکلمین کی کتابیں پڑھی ہیں اور آپ کو ایسا لگتا ہے کہ میری فکری گمراہی کا علاج اس میں موجود ہے تو متکلمین کی چند بنیادی کتابوں کا نسخہ تو کم از کم تجویز کر دیتے۔ لیکن آپ یہ نہ کر سکے۔ اس لیے آپ کی یہ بات ازقسم دعوت نہیں۔ یہ غالباً آپ نے محض میری تحقیر و تضحیک کے لیے لکھ دی ہے۔ ورنہ میرے مطالعے پر بلادلیل سوال اٹھانے کا اور کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ اور یہ غلطی ایک داعی سے تب ہوتی ہے جب وہ منقولات پر معقولات کے مطالبے سے لاجواب ہو جاتا ہے۔
’’ آپ کے نوٹ اس بات کی چغلی کررہے ہیں کہ آپ نے اسلامی متکلمین کی بنیادی کتابیں بھی نہیں پڑھی ہیں اور نہ فلسفہ اور منطق کی بہت ہی بنیادی درسی کتابیں بھی پڑھ پائے ہیں۔‘‘
’’چغلی کرنا‘‘ نہیں، ’’چغلی کھانا‘‘ بامحاورہ ہے۔ آپ کا مدعا یہ ہے کہ میں نے اسلامی متکلمین کی بنیادی کتابیں نہ پڑھ کر غلطی کی ہے۔ حالانکہ یہ کوئی غلطی نہیں۔ ایک عام پڑھا لکھا ہندویا عیسائی بھی اگراسلام کا مطالعہ کرے گا تو اس کو قرآن میں آیت صاف نظر آئے گی کہ شوہر اپنی بیوی کو مارنے کا اختیار رکھتا ہے۔ بخاری میں ’’صحیح‘‘ حدیث وہ پڑھے گا کہ ۹۹۹ فی ہزار لوگ جہنم میں جائیں گے۔ جب آپ اسی ہندو یا عیسائی کو دعوت دینے جائیں گے تو کیا وہ یہ نہ پوچھے گا کہ اللہ تعالٰی نے کیا انسانوں کی اس قدر کثیر آبادی کو جہنم میں بھیجنے کے لیے ہی پیدا کیا ہے؟ اور کیا آپ اس سے یہی فرمائیں گے کہ چونکہ تم نے اسلامی متکلمین کی کتابیں نہیں پڑھی ہیں اس لیے تم کو ایسے ’’اشکال‘‘ ہو رہے ہیں؟ گویا اب قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ رازی اور غزالی کی کتابیں پڑھنا بھی اس کے لیے لازم قرار پایا؟ نہ پڑھے تو اس سے غلطی ہوئی جس کی بنا پر اس کا اعتراض ہی سرے سے غلط ہو گیا! یہی نہیں، عقل عام کے لیے کچھ بولنے سے پہلے فلسفہ اور منطق کی بہت ہی بنیادی درسی کتابیں پڑھنا بھی ضروری ہو جائے؟
ایسے صاف مسائل میں اسلامی متکلمین آ کر کیا معجزہ دکھا دیں گے کہ آپ ان کو نہ پڑھنے کو غلطی قرار دے رہے ہیں۔ میرے نوٹ تو اسی بات کی چغلی ’’کر‘‘ رہے ہیں نہ کہ اسلامی متکلمین اپنی بنیادی کتابوں میں ایسے سوالات کا کافی و شافی جواب پہلے ہی دے چکے ہیں اور ان کتابوں کو نہ پڑھ کر میں نے غلطی کی ہے۔ اگر میں نے انہیں پڑھا ہوتا تو ایسے ’’عجیب یا پی کیولیر‘‘ نوٹس لکھ ہی نہ سکتا۔
آپ مجھے ناخواندہ قرار دینے پر کیوں آمادہ ہیں؟ جو سوال میں نے کیا ہے اس کا جواب پیش فرمائیے، اگر کسی اسلامی متکلم نے ان سوالوں سے تعرض کیا ہے تو اس کی متعلقہ کتاب کا حوالہ دے دیجیے۔ میں اس کو ڈھونڈ کر پڑھ لوں گا۔ مجھے تو یہ شک ہو رہا ہے کہ آپ نے خود ہی علم کلام کا مطالعہ نہیں کیا ہے۔ یہی نہیں، آپ قرآن و سنت سے بھی ایسے اشکالات کے حل کے لیے کوئی مقابلے کی دلیل، آیت یا حدیث پیش نہ کر سکے۔ حالانکہ آج انٹرنیٹ پر انگریزی بلکہ اردو میں بھی اسلامی فلاسفہ و متکلمین کی بے شمار کتابیں موجود ہیں۔ عربی اردو کی تفسیر و حدیث کے ذخائرتو بہ آسانی دستیاب ہیں ہی۔
آپ کو معلوم ہو کہ میں متکلمین کےاستدلالات اور ان کے کارنامے کا معمولی علم ضرور رکھتا ہوں (سب کچھ پڑھنا نہ ممکن ہے اور نہ ضروری ہے)، اور اس موضوع پر میں نے شاید آپ سے زیادہ پڑھا ہو(میرے اس شاید والے دعوے کی دلیل آگے آ رہی ہے)۔ مجھے معلوم ہے کہ قدیم و جدید متکلمین اسلام نے اپنی’بنیادی‘کتابوں میں کیا لکھا ہے۔ علم کلام کی غرض و غایت ’’دینی عقائد کا عقلی اثبات‘‘ ہی تو ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں دور جدید میں علم کلام صرف عقائد دینیہ کے اثبات عقلی تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کا دائرہ کار احکام دینیہ کے اثبات عقلی تک بھی وسیع ہو گیا ہے۔ چنانچہ آپ مولانا مودودی کی کتابوں میں دیکھتے ہیں کہ عقائد دینیہ کے علاوہ احکام و قوانین الٰہیہ کا عقلی اثبات بھی انہوں نے فرمایا ہے۔ موجودہ دور میں کوئی متکلم یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ عقائد و احکام دینیہ کے اثبات عقلی کا مکلف نہیں ہے۔ لیکن آپ یہ فرماتے ہیں کہ اگرتم قرآن کو اللہ کی کتاب مانتے ہو تو اب اس کی ہر بات پر آزادانہ عقلی دلیل طلب کرنا غیرمنطقی ہے۔
آپ نے اپنے اس تبصرے میں بات کرنے کا جو طریقہ اپنایا ہے وہ آپ کا اپنا نہیں بلکہ مولانا مودودی کا ہے (دلیل آگے آ رہی ہے)۔ لیکن آپ کو معلوم ہو کہ مولانا مودودی بھی عقائد و احکام دینیہ کے اثبات کے لیے عقلی دلائل فراہم کرنے سے انکار نہیں کرتے۔ وہ اس کی کچھ شرطیں عائد کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ پہلے اسلام کے دائرے سے باہر کھڑے ہو جاو، یا اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے طالب علمانہ طور پر اپنے اشکالات رکھو۔ مولانا مودودی کے نزدیک ان دونوں میں سے ایک پوزیشن اپنانے کے بعد ہی ایک شخص اس لائق ہوسکتا ہے کہ اس کی طلب حجت کا جواب دیا جائے (تنقیحات)۔ لیکن علم کلام کی رو سے یہ ایک غلط مطالبہ ہے کیونکہ علم کلام تو ہے ہی اس لیے کہ عقائد دینیہ و احکام شرعیہ کی عقلی توجیہ کرے اور اعتراضات و شبہات کو رفع کرے، خواہ مخاطب کی فکری پوزیشن بظاہر کتنی ہی غلط یا غیرمنطقی نظر آتی ہو، خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم۔۔۔۔
آپ نے آگے لکھا ہے:
’’یہ نہایت مضحکہ خیز بات ہے کہ آپ کسی بات کو تسلیم کریں اور اس کے لازمی منطقی نتائج کو بھی آزادانہ دلائل کی کسوٹی پر جانچنے کی کوشش کریں۔ اس طرح نہ علم و تحقیق کی گاڑی ایک قدم چل سکتی ہے اور نہ عام زندگی کی گاڑی ۔ آپ دواخانہ گئے تھے۔ کیاآپ نے ہر دوا کے اثر کی آزادانہ جانچ عقل کی کسوٹی پر کی؟ ظاہر ہےکہ نہیں کی۔ آپ میڈیکل سائنس پر ایمان لے آئے، ڈاکٹر کے علم پر بھروسہ کیا اور اس ایمان کا تقاضہ ہے کہ آپ دوا کو بلا چوں و چرا قبول کریں۔
اسی طرح عقل کی بنیاد پرآپ خدا کو ماننے سے انکار کردیں یا خدا کی کتاب کو ماننے سے انکار کریں، تو یہ بات تو کسی درجہ میں سمجھ میں آسکتی ہے۔ لیکن اگر آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن رب العالمیں کی کتاب ہے تو اب اس کا منطقی تقاضہ ہے کہ اس کی ہر بات کو آپ قبول کریں۔ قرآن کو رب العالمیں کی کتاب ماننا اور پھر اس کی باتوں کو دوبارہ عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کرنا ایک بالکل غیر منطقی، غیر سائنٹفک اور غیر معقول رویہ ہے اور ایسے رویہ کا صدور کسی ایسے شخص سے ہی ہوسکتا ہے جو منطق ، فلسفہ، ریاضی اور علمی طریقوں کی الف بے سے بھی واقف نہیں ہے۔

اگر آپ کے بقول میں کسی بات کو تسلیم کر رہا ہوں اور اس کے لازمی منطقی نتائج کو بھی آزادانہ دلائل کی کسوٹی پر جانچنے کی کوشش کر رہا ہوں، تو یہ بات غیر منطقی تو ہو سکتی ہے لیکن ’’مضحکہ خیز‘‘ نہیں۔ اگر میں واقعی غیر منطقی ہو گیا ہوں تو اس کو غیر منطقی کہنے سے آگے بڑھ کر ’’مضحکہ خیز‘‘ قرار دینے کا مفہوم اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ اب آپ ہنس رہے ہیں کہ دیکھو کیسا آدمی ہے اتنی سی بات بھی نہیں سمجھتا۔ آخر یہ کیسا دعوتی نقطہ ٔ نظر ہے کہ آپ ایک شخص کی غیر منطقیت پر ہنستے ہیں؟ دعوت میں تو مخاطب کا دردمندی سے علاج کیا جاتا ہے۔ میری ممکنہ غیرمنطقیت کو غیر منطقی کہنے کی عقلی و اخلاقی حد سے تجاوز کرنا اور اس کو مضحکہ خیز لکھنا اپنی ہی دعوت کی جڑ کاٹنا ہے۔
آپ فرماتے ہیں کہ اگر میں قرآن کو اللہ کی کتاب مانتا ہوں تو اس کی ہر بات کو قبول کیوں نہیں کرتا؟ آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ میں قرآن ہی نہیں سنت کی بھی ہر بات کو تسلیم کرتا ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ قرآن و سنت میں متعدد احکام و عقائد ایسے ہیں جو اسی دور کے لیے مخصوص ہیں جس میں قرآن نازل ہوا۔ اب وہ صورت حال ختم ہو گئی تو ظاہر ہے ان احکام و عقائد کی ضرورت بھی ختم ہو گئی۔ اور اس حقیقت کا علم ہوتا ہے تعقل و تدبر اور حالاتِ موجودہ کے مطالعے ومشاہدے سے۔ اور داعیان دین کو ان چیزوں سے اللہ واسطے کا بیر ہے۔ آپ اپنے پورے تبصرے میں اس بات کی عقلی توجیہ نہیں کر سکے کہ دنیا کے محدود گناہوں کے لیے آخرت کی لامحدود سزا کس طرح قرین انصاف کہی جا سکتی ہے؟ آپ یہ بھی نہیں بتا سکے کہ بخاری کے مطابق ۹۹۹فی ہزار لوگ صرف اسلامی عقائد کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے جہنم میں جا رہے ہیں تو آخر اللہ تعالٰی کو نوع انسانی کی ایسی ظالمانہ آزمائش کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ اتنی کثیر تعداد میں لوگوں کو ابدی جہنم میں بھیجنے والا خدا آخر کس طرح ارحم الرحمین کہا جا سکتا ہے؟ آپ کہتے ہیں کہ ایسی تمام باتوں یا منقولات کو آنکھ بند کر کے مان لو! کیا ایک داعی عقل سے بالکل کام نہیں لیتا؟ یا ایمان لانے کے بعد اس کی عقل بالکل خبط ہو جاتی ہے؟ کیا اس کے ذہن میں ایسے سوالات نہیں اٹھتے؟ اور کیا وہ ایسے بعید از عقل اعتقادات کو کڑوی دوا کی طرح ہی ہضم کرتا رہتا ہے؟اگر میرے ان اعتراضات کا کوئی جواب ہوتا تو آپ اب تک دے چکے ہوتے۔ تعدد ازدواج اور اسلامی پرسنل لا کے حق میں تحریکی داعی کیسے دنادن دلیل پیش فرماتے رہتے ہیں!اس لیے آپ حضرات کے نزدیک عقل وہیں تک ہے جہاں تک آپ سے جواب بن پڑے۔ اور جہاں آپ سے جواب نہ بن پڑے وہاں آپ آنکھ بند کر کے مانتے ہیں۔ اور یہ تسلیم نہیں کرسکتے کہ ہم جواب دینے سے عاجز ہیں۔ اور جو لوگ مذہبی امور میں اپنی عقل کا استعمال کرنا چاہتے ہیں ان سے ان کے ایمان و یقین کی پرسش کرتے ہیں۔ غالباً میر تقی میر نے داعیوں، واعظوں، مفتیوں کے لیے ہی کہا ہے:
میر کے دین و مذہب کو کیا پوچھو ہو تم ان نے تو
قشقا کھینچا، دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا!
میں اپنی جگہ ان عقائد و احکام دینیہ پر غور و فکر کرتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ ایسے احکام و عقائد اس دور کے ذہنی و نفسیاتی نیز تہذیبی و سماجی حالات کے پیش نظرمن جانب اللہ وجود میں آئے۔ اس کے بغیر نوع انسانی کی اصلاح اس دور میں ممکن نہ تھی۔ اگر یہ توجیہ غلط ہے تو آپ اس کی صحیح توجیہ کر دیں جس پر دور جدید میں انسانی عقل کواطمینان حاصل ہو سکے۔ لیکن چونکہ ایک داعی قرآن و سنت کی ہر بات آنکھ بند کر کے مانتا ہے اور کچھ غور و فکر نہیں کرتا کہ یہ جو میں مان رہا ہوں اس میں کیا استحالہ ٔ عقلی ہے۔ حالانکہ وہ ابتدا میں عقل ہی کی بنا پر اسلام میں داخل ہوا تھا۔ غالباً تحریک اسلامی کا ایک داعی دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی طرح ہی اپنی مذہبی کتاب کو سچ سمجھتا ہے!
لیکن میں چونکہ اسلام کو دنیا کا سب سے زیادہ عقلی مذہب سمجھتا ہوں اور اسی لیے اب تک مسلمان ہوں۔ اگر اسلام کے سوا کوئی اور مذہب میری عقل کو اپیل کرتا تو میں فوراً اس کو قبول کر لیتا۔ اور اگر مجھے یہ یقین حاصل ہو جائے کہ اسلام میں صداقت نہیں پائی جاتی تو میں اعلان کر دوں گا کہ میں نسلی مسلمانوں میں سے ہوں جن کی خاصی بڑی تعداد ساری دنیا میں پائی جاتی ہے۔ آخر ہندوستان میں مجھے کس بات کا ڈر ہے کہ میں ایسا اعلان نہ کر سکوں؟
آپ فرماتے ہیں:

’’اس طرح نہ علم و تحقیق کی گاڑی ایک قدم چل سکتی ہے اور نہ عام زندگی کی گاڑی ۔ آپ دواخانہ گئے تھے۔ کیا ٓآپ نے ہر دوا کے اثر کی آزادانہ جانچ عقل کی کسوٹی پر کی؟ ظاہر ہےکہ نہیں کی۔ آپ میڈیکل سائنس پر ایمان لے آئے، ڈاکٹر کے علم پر بھروسہ کیا اور اس ایمان کا تقاضہ ہے کہ آپ دوا کو بلا چوں و چرا قبول کریں۔‘‘
’’کسی بات کو تسلیم کرنا اور اس کے لازمی منطقی نتائج کو نہ ماننا‘‘ ’’علم و تحقیق کی گاڑی کا نہ چل سکنا‘‘ وغیرہ، یہ مولانا مودودی کا خاص اسٹائل ہے جو انہوں نے تنقیحات نامی اپنے مجموعہ مضامین میں اپنایا ہے۔ آپ کو حیرت ہو گی کہ میں نے مولانا کے ان دلائل کی تردید تین چار سال پہلے رفیق منزل ہی کے کسی شمارے میں کر دی تھی۔ اب آپ نے اسی دلیل کو دہرایا ہے تو میں بھی اپنے انہی دلائل کو دہرا رہا ہوں:
دینی امور میں ایمان لانا اور دنیوی امور میں کسی ماہر کی رائے کو مان لینا بالکل دو مختلف باتیں ہیں۔
ایک ڈاکٹر اگر آپ کو ٹائیفائیڈ کی دوا دیتا ہے تو آپ دوسرے ڈاکٹر کے پاس جا کر یا خود میڈیکل سائنس کی کتابوں کو پڑھ کر اس کی تحقیق کر سکتے ہیں کہ اس نے غلط دوا لکھی ہے یا صحیح۔ یہی حال دوا کی تاثیر کا بھی ہے۔ اس کی تاثیر کی تحقیق بھی آپ لیبوریٹری میں کر سکتے ہیں۔ چونکہ ڈاکٹر بننے کا وقت ہر آدمی کے پاس نہیں ہے، اس لیے ہم ڈاکٹر کی بات کو مانتے ہیں لیکن اگر ڈاکٹر پر ذرا بھی شک ہو کہ اس کی دوا صحیح ہے یا غلط تو ہم اس کی جانچ کسی بھی وقت کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں۔ کئی ڈاکٹر تو غلط دوا بھی دے دیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں لوگ مر بھی جاتے ہیں۔ بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر نے غلط دوا دے دی، یا غلط آپریشن کر دیا۔ اچھے سے اچھے ڈاکٹر سے بھی غلطی ہو سکتی ہے اور ہو جاتی ہے۔ اس لیے آپ دنیا میں ڈاکٹر سے کہہ سکتے ہیں کہ جو دوائیں آپ تجویز کر رہے ہیں اس کے سلسلے میں آپ براہ مہربانی کچھ فرمائیں۔ پھر ڈاکٹر آپ کو پیتھولاجی لیب کی رپورٹ دکھائے گا کہ آپ کو ٹائیفائیڈ ہو گیا ہے۔ اور ٹائیفائیڈ کے یہ جراثیم اسی دوا سے ختم کیے جا سکتے ہیں جو میں نے آپ کے لیے تجویز کی ہے۔ آپ کو اگر رپورٹ پر یقین نہ ہو تو آپ بچشم خود پیتھولاجی لیب میں جا کر وہ تمام پروسیس دیکھ سکتے ہیں جس میں آپ کے خون کے نمونے کی جانچ کی جاتی ہے۔ آپ میڈیکل سائنس کی کتابوں کا مطالعہ کر سکتے ہیں، آپ مائیکرواسکوپ کے ذریعے ٹائفائیڈ جرثوموں کی تعداد شمار کر سکتے ہیں۔ اور اگر آپ کو یقین نہ آئے کہ ٹائیفائڈ کا مرض خاص اسی جراثیم کی وجہ سے پیدا ہو رہا ہے جو میڈیکل سائنس کی کتابوں میں لکھا ہے تو آپ انسان کے علاوہ کسی جانور میں اس جراثیم کو انجیکٹ کر کے اس کی جانچ کر سکتے ہیں۔ الغرض دنیاوی امور سے متعلق ہر علم کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں باز تحقیق، یعنی بحث و تمحیث، تجربہ و مشاہدہ کی راہ ہر وقت کھلی رہتی ہے۔
اس کے بالکل برعکس پیغمبر پر جو کچھ نازل ہوتا ہے اس کے تجربہ و مشاہدہ کا کوئی موقع کسی دوسرے شخص کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ نہ پیغمبر کی زندگی میں نہ اس کی زندگی کے بعد۔ نہ آپ زمانۂ حال میں خدا تعالٰی سے بات کر سکتے ہیں اور نہ آپ سیکڑوں ہزاروں سال پہلے کی اس دنیا میں جا سکتے ہیں جہاں کسی پیغمبرکا وجود پایا جاتا تھا۔ آپ اس پیغمبر پر خدا کے فرشتے کو نازل ہوتے نہیں دیکھ سکتے اور اگر آپ کو کچھ شک لاحق ہو تو آپ کسی دوسرے مذہب کے رہنما کے پاس نہیں جا سکتے ہیں کہ براہ مہربانی ہمارے پیغمبرپر فرشتوں کا نازل ہونا دکھا دیجیے، یا ہمیں خدا کو دکھا دیجیے۔ آپ کو آنکھ بند کر کے دینی امور میں اس پیغمبر کی بات پر ایمان لانا پڑتا ہے جس پر آپ ایمان لائے ہیں۔ حتی کہ خود اس پیغمبر کی زندگی میں بھی آپ اس سے ایسی کوئی درخواست نہیں کر سکتے کہ ہمیں جبریل کو دکھا دیجیے، ہمیں ملائے اعلیٰ کی سیر کرا دیجیے۔ جس طرح آپ نے طور پر خدا کا جلوہ دیکھا، اسی طرح ہم کو بھی دکھا دیجیے، جس طرح آپ معراج پر گئے، ہم بھی جانا چاہتے ہیں۔ پیغمبر تو پیغمبر، کسی صاحب حال یا ولی اللہ سے بھی اس قسم کی بات کہنا نامناسب بات ہے اور اس سے انہیں رنج پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ ولی اللہ تو اس لیے ہوتے ہیں کہ دینی امور میں آپ کی رہنمائی کریں، آپ کو موت کی سختی سے نجات پانے کا طریقہ سکھائیں، آپ کو اپنے قلب میں ہدایت کا نور بھرنے کی تدابیر بتائیں۔ آپ ولی اللہ سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ پر جو اسرار و حقائق منکشف ہوتے ہیں وہ ہم کو بھی دکھا دیجیے۔ ولی اگر خود مناسب سمجھے گا تو آپ پر اس کی نظرِ کرم ہو جائے گی۔ دین تو بزرگوں کی نظر سے پیدا ہوتا ہے۔ جس دن کسی صاحب حال کی نظر آپ پر پڑ گئی اسی دن آپ کی قلب ماہیئت ہو جائے گی۔ اسی دن آپ کی بصیرت کی آنکھ کھل جائے گی، اور اسی وقت آپ ولی کے قدموں میں گر پڑیں گے کہ یا حضرت، یا مرشد، ہم بہت بڑی غلطی میں ہیں، ہم سخت گناہوں میں مبتلا ہیں۔ ہم پر نفس کا غلبہ ہو گیا ہے۔ قلب آلودہ ہو گیا ہے۔ عالم ناپائیدار سے دل لگ گیا ہے۔ اب ہم کو وہ راہ بتائیے جس پر چل کر ہم پار اتر جائیں۔
الغرض دینی امور کے ماہروں (مثلاً پیغمبر، ولی) اور دنیوی امور کے ماہر (مثلا سائنسداں، ڈاکٹروں) کی باتوں کو تسلیم کرنے میں فرق ہی فرق ہے۔ دینی امور میں آپ حقیقت کو بچشم خود نہیں دیکھ سکتے، اور نہ وہاں دیکھنے کا موقع کسی کو دیا جا سکتا ہے۔ دنیوی امور میں آپ حقیقت کو بچشم خود دیکھ سکتے ہیں، اور وہاں سب کے لیے موقع یکساں طور پر کھلا ہوا کہ جو چاہے آئے، اور اپنی تشفی کر لے۔
اس چیز کو ایک دوسری مثال سے سمجھیں۔ دینی امور کا ماہر جنت کی خبر دیتا ہے۔ لیکن ہم جنت کو نہیں دیکھ سکتے۔ لیکن کولمبس امریکہ کی خبر دیتا ہے اور ہم جا کر دیکھ آتے ہیں کہ امریکہ کوئی جگہ ہے یا نہیں۔ اگر کوئی شخص اتنا متشکک ہو کہ امریکہ فی الواقع کوئی جگہ ہے یا نہیں تو وہ آج بھی جا کر دیکھ سکتا ہے۔ اگر ایک شخص حیاتیاتی خلیہ (بایولوجیکل سیل) پر یقین نہیں رکھتا تو ہم اس کو لیباریٹری میں جا کرالیکٹران مائیکرواسکوپ سے دکھا سکتے ہیں کہ دیکھو یہ رہا حیاتیاتی خلیہ۔ دنیوی امور میں باز تحقیق کا صرف موقع ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کی ضرورت بھی اکثر پیش آتی ہے۔ پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن سے بنا ہے، بچوں کو اس کا مشاہدہ کرایا جانا بھی ضروری ہے تاکہ ان میں سائنسی حقائق کا ادراک ہو۔ جن سائنسی نظریات و خیالات کی تصدیق کا موقع نہیں ہوتا اس کے متعلق سائنسداں یہ بتا دیتے ہیں کہ ابھی اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے، لیکن اس سمت میں جو کام چل رہا ہے، آپ اس کام کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ سائنسداں جھوٹ نہیں بول سکتے، اور اگر بولیں تو فورا پکڑے جائیں۔ سائنسداں مولانا مودودی کی طرح یہ نہیں کہہ سکتا کہ مذہبی عقائد کی طرح سائنسی عقائد کو بھی آنکھ بند کر کے مان لو ورنہ علم و تحقیق کی گاڑی ایک لمحہ کو بھی نہ چل سکے گی۔ وہ تو یہ کہتا ہے جہاں تم، وہاں میں! میں جو کچھ کہہ رہا ہوں، اس کے دلائل و شواہد موجود ہیں، تم چاہو تو میرے طریقے پر تحقیق کر کے حقیقت کا پتا لگا سکتے ہو، اور چاہو تو اپنا ایک طریقہ ایجاد کرو اور میرے اس دعوے کی جانچ کرلو۔ اگر میری بات خلاف واقعہ ثابت ہوگئی تو میں مان لوں گا۔ تم دلیل کی جانچ کرو، تجربہ و مشاہدہ کرلو، کھلی آنکھوں سے بچشم خود دیکھ لو اور ساری دنیا کو دکھا دو۔ علم و تحقیق کی گاڑی تو اسی پر چلتی ہے۔ ورنہ علم اور مذہب میں فرق کیا رہ جائے گا؟
مذہب کہتا ہے لن ترانی یعنی تو نہیں دیکھ سکتا،اور اگر دیکھ لے تو میں مذہب نہیں۔ سائنس کہتی ہے تو دیکھ سکتا ہے، دیکھنا تیرے بس میں ہے، نہ دیکھ سکے تو میں فی الحال سائنس نہیں، فلسفہ ہوں۔ مذہب کہتا ہے کہ بھروسا کر، یہی بات حق ہے جو میں کہہ رہا ہوں۔ سائنس کہتی ہے بھروسہ کا کیا سوال، شک ہے تو ابھی دیکھ لے۔ مذہب تنقیدو تردید اورریب و تشکیک کا استقبال نہیں کرتا، سائنس شک کرنے والوں کو خوش آمدید کہتی ہے۔ اگر نیوٹن پر شک نہ ہو تو آئن اسٹائن پیدا نہ ہو سکے۔ فرائیڈ پر شک نہ ہو تو ایڈلر اور ینگ پیدا نہ ہو سکیں۔ سوسئیر اور لیوی اسٹراس پر شک نہ ہو دریدا پیدا نہ ہو سکے۔ تو مذہب کے لیے شک کرنا سم قاتل اور سائنس اور سماجی علوم کے لیے آب حیات ہے۔ سائنسی و سماجی علوم کی صداقت پر شبہ کے نتیجے میں تیقن پیدا ہوتا ہے اس لیے وہاں متشککوں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے، لیکن مذہب پر جتنا شک کیا جائے، اتنا ہی گمراہ اور ضال و مضل کہہ کر کھدیڑا جاتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں پر طنز کرتے ہوئے علامہ نیاز فتح پوری نے فرمایا تھا:
’’مذہب نام ہے صرف کورانہ و جاہلانہ انقیاد و اطاعت کا، اس لیے اس کا وجود، خواہ وہ ضروری ہو یا غیرضروری، مفید ہو یا غیر مفید، صرف اسی طرح قائم رہ سکتا ہے کہ وہ اسی طرح جہل و لاعلمی کی دنیا میں رہے۔ علم کے میدان میں اس کی تگ و دو حددرجہ نامقبول جسارت ہےکیونکہ یہیں آ کر سب سے پہلے اس کے پائے لنگ کا حال کھلتا ہےاور وہ ایک مضحکہ خیز چیز بن جاتا ہے۔‘‘
مذہب کا پائے لنگ کیا ہے؟ اس میں سائنسی امور کی طرح متعددامور کی باز تحقیق یا باز تصدیق کا موقع نہ ہونا۔ سائنس اگرایمان بالغیب لانے کا مطالبہ کرتی بھی ہے تو شک ہونے پر فوراً اس کی باز تحقیق کی جا سکتی ہے اور کی جاتی ہے، اور جہاں باز تحقیق کا موقع نہیں ہوتا وہاں آثار و شواہد کی حد تک ہی ایمان لانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ اصل میں مولانا مودودی ایمان بالغیب کیا ہے یہی نہیں سمجھ سکے۔ سائنسی و سماجی علوم میں ایمان بالغیب کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ایک سائنسداں یا سماجی عالم نے کوئی دعویٰ کیا اور ہم نے اس کو فوراً سچ مان لیا۔ ہم اس سے اس کے دعوے پر دلیل مانگتے ہیں۔ اور وہ اپنے دعوے کے حق میں مختلف النوع عقلی و نقلی دلائل و آثار و شواہد پیش کرتا ہے۔ اگر ایک مورخ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ قدیم ہندوستان میں اشوک نام کا ایک شخص بادشاہ ہوا کرتا تھا۔ تو اب وہ مورخ خود ماضی میں جا کر بادشاہ اشوک کو نہیں دیکھ سکتا۔ وہ تو سابقہ تاریخی کتابوں اور تاریخی آثارو قرائن کی بنیاد پر ہی یہ دعویٰ کرتا ہے ۔اوریہ کہتا ہے کہ یہ رہے وہ تاریخی ثبوت اور دلائل جن کی مدد سے میں اس حقیقت تک پہنچا ہوں، اگر تم بھی میرے طریقے سے تحقیق کروگے تو اسی نتیجے تک پہنچوگے۔ لیکن اشوک یا گوتم بدھ کو نہ میں دیکھ سکتا ہوں اور نہ تم دیکھ سکتے ہو۔ تم جہاں ہو، وہیں میں بھی ہوں۔ اور میں تم سے اگر ایمان بالغیب کا مطالبہ کرتا بھی ہوں تو صرف اسی حد تک جس حد تک یہ آثار و شواہد بتا رہے ہیں۔ اور تم میرے اس طریقے پر چل کر میری ہی طرح مورخ بن سکتے ہو۔ بلکہ مجھ سے بڑے مورخ بھی بن سکتے ہو۔ ایک پیغمبر سرے سے حقائق کے انکشاف کے اپنے طریقہ کار یا تجربے کی کوئی تجرباتی وضاحت ہی نہیں کرتا اور نہ یہ کہتا ہے کہ اگر میرے طریقے پر چلو گے تو تم بھی پیغمبر بن جاوگے اور مجھ سے بڑے پیغمبر بھی بن سکتے ہو۔ پیغمبر اگر جبریل کو دیکھتے ہیں تو وہ اپنے کسی امتی کے سامنے جبریل کو اس کی اصلی شکل و صورت میں نہیں دکھاتے ۔ اور نہ وہ جبریل کو دیکھنے کا کوئی طریقہ بتاتے ہیں۔ وہ صرف اپنے دعوے پر ایمان لانے اور اطاعت کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
مذہب اور سائنسی و سماجی علوم میں اتنا واضح فرق ہے جس کو دنیا کا ہر شخص معلوم کرسکتا ہے۔ لیکن جو لوگ مذہب اور سائنس کو ایک کردینے کے ذریعے اپنے نفسانی خواہشات کی اطاعت کرانا چاہتے ہیں، وہ اس فرق کو تسلیم نہیں کرتے اور مطالبہ کرتے ہیں کہ جس طرح تم سائنسی و سماجی علوم کی صداقت پر ایمان بالغیب لاتے ہو، اسی طرح تم مذہبی معلومات پر بھی ایمان بالغیب کیوں نہیں لاتے؟ تم ایسا نہیں کرتے تو علم و تحقیق کی گاڑی کو روک رہے ہو۔ ہرگز نہیں، دراصل یہی وہ دعوتی پرچاری لوگ ہیں جو علم و تحقیق کی گاڑی کو روک رہے ہیں، لیکن انہیں اس کا شعور نہیں ہے۔ کیونکہ یہ زبردست ادعائیت و تحکمیت میں مبتلا ہو گئے ہیں جس سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کو یہ تیار نہیں ہیں۔
آپ آگے لکھتے ہیں:
’’علم کے ان ذرائع کو مستند سمجھنے کا منطقی تقاضہ ہے کہ ان سے حاصل ہونے والی بات اگر ہماری سمجھ میں نہ بھی آئے تو ہم اسے قبول کریں۔‘‘
آپ نے علم کے کن ذرائع کا تذکرہ کیا ہے؟ میڈیکل سائنس علم کا ذریعہ نہیں ہے۔ میڈیکل سائنس خود ’علم‘ ہے۔ اور اس کا ذریعہ ہے تفکر و تعقل، تجربہ و مشاہدہ۔ اور علم کے ماخذ ہیں عقل اور حواس خمسہ۔ انہی چیزوں سے ہمیں وہ علم حاصل ہوتا ہے جس کو ہم میڈیکل سائنس کہتے ہیں۔ میڈیکل سائنس کی کسی بھی ثابت شدہ اور مصدقہ بات پر اگر ذرہ برابر بھی شک ہو تو اس کی تصدیق ہر وقت کی جا سکتی ہے۔ ہم عام طور پر اس کو بلا چون و چرا اس لیے قبول کر لیتے ہیں کہ ان کی تصدیق کتنی ہی بار ہو چکی ہے۔ لیکن اس کے بعد بھی اگر ہمارے اندر شک ہو تو ہم خود ایک لیباریٹری قائم کر کے میڈیکل سائنس کے ان تمام حقائق کا بچشم خود مشاہدہ کر سکتے ہیں۔
اگر ہم اپنی حماقت سے ٹی بی کے جراثیم کا انکار کرتے ہیں یا یہ کہتے ہیں ٹی بی ایک متعدی مرض نہیں ہے، اور خود ڈاکٹر کو اس بات کا قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ بھی ہماری بات مان لیجیے کہ حقیقت یہی ہے تواب یہ ڈاکٹر پر منحصر ہے کہ وہ کیا ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ وہ ہماری ذہنی حالت کا معاینہ کرے گا، اور اگر ہمارے اندر صحیح الدماغ ہونے کی علامات پائی جائیں گی تو پھر وہ غور و فکر اور علم حاصل کرنے کا مشورہ دے گا۔ وہ ہم سے کہے گا کہ اگر آپ کے پیسہ ہے تو میڈیکل کالج میں داخلہ لیں، یا پھر ایک پیتھلوجیکل لیباریٹری قائم کریں اور ٹی بی کے جراثیم کا بچشم خود تجربہ و مشاہدہ کر لیں۔ پھر اگر ہم ایسا نہ کریں (حالانکہ ہم ایسا کر سکتے ہیں)، اور اس کے بعد بھی ڈاکٹر کا انکار ہی کرتے چلے جائیں تو بلاشبہ ہم صحیح الدماغ نہیں کیونکہ اپنی مذہبی ہوس میں سائنسی حقائق پر یقین رکھنے کو مذہب پر یقین رکھنے جیساایک معاملہ بنا دینا چاہتے ہیں۔ سائنسی حقائق اور مذہبی نوعیت کی غیرمعقول معلومات بالکل دو مختلف چیزیں ہیں اور دونوں میں کوئی مقابلہ جائز نہیں۔
سائنسی امور سے متعلق کوئی بات مستند ماخذ سے پہنچے اور وہ ایک شخص کے علاوہ کسی کی سمجھ میں بھی نہ آئے، یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ کمپیوٹر کیسے کام کرتا ہے لیکن چاہوں تو سمجھ سکتا ہوں۔ اگر مجھے باوجود کوشش کے سمجھ میں نہ آئے تو علمائے کمپیوٹرسائنس کی خدمات حاصل کر سکتا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی میں دیکھ رہا ہوں کہ کمپیوٹر اور ریڈیو کام بھی کر رہا ہے، اب خواہ وہ مجھے سمجھ میں آئے یا نہ آئے، میں اس کو ماننے پر مجبور ہوں کیونکہ میرے ایسا ماننے کی پشت پر میرا مشاہدہ ہے۔ میں ریڈیو یا کمپیوٹر کام کرتا ہے، اس بات پر ایمان نہیں لاتا بلکہ اس بات پر ایمان لاتا ہوں کہ وہ ’’کیسے‘‘ کام کرتا ہے۔ اور کیسے کا یہ سوال کوشش سے سمجھ میں آ سکتا ہے۔ یہ کیسے کی تفصیلات مجھے سمجھ میں نہ آئیں تو کوئی اور مجھے سمجھا سکتا ہے۔ لیکن مذہبی امور سے متعلق وہ باتیں جو کسی کی سمجھ میں نہیں آ سکتیں، ان پر ایمان لانے کا مطالبہ درست نہیں ہے۔ مثلا ۹۹۹ فی ہزار لوگ/ مشرکین ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں جائیں گے اور اس کے باوجود خدا ارحم الراحمین ہے! کیا یہ بات کسی درجہ سمجھ میں آتی ہے؟ (الا یہ کہ ہم یہ ایمان رکھیں کہ ایسی باتیں تخویف و تقویٰ پیدا کرنے کے لیے اس دور میں بے راہ روی کو دور کرنے کے لیے فرمائی گئی تھیں اور ان کی واقعاتی حقیقت ہونا عقلاً محال ہے)؟ اور اگر کسی کو مذہب کی یہ باتیں دور جدید میں سمجھ میں آتی ہیں تو وہ آ کر سمجھا دے۔
اگلے تبصرے میں آپ نے لکھا ہے:
رہی بحث دعوت اور مکالمہ کی تو ہر بات جو کہی جاتی ہے اس کی غلطی ثابت ہوجائے تو اسے تسلیم کرلیا جاتا ہے۔ ہر بڑے داعی اور اسلامی مفکر کی سوانح میں ایسے واقعات موجود ہیں کہ انہوں نے اپنی آرا سے بالاعلان رجوع کیا۔
اب اتنے واضح دلائل پا لینے کے بعد کیاآپ یہ تسلیم کر سکتے ہیں کہ آپ کی دعوت میں غلطی ہو سکتی ہے؟ آپ اصولی طور پر ہاں کہہ کر دکھائیں۔ میرا خیال ہے آپ ایسا نہیں کہہ سکتے کیونکہ ایک داعی کو اپنی صداقت کا زبردست یقین ہوتا ہے۔ داعی بریلوی ہو یا دیوبندی، تحریک اہل حدیث سے وابستہ ہو یا تحریک اسلامی سے، وہ یہ مان ہی نہیں سکتا کہ اس کی دعوت میں کوئی غلطی موجود ہے! اسی تیقن کے سبب ادعائیت پیدا ہوتی ہے، اور اسی سے آگے چل کر تحکمیت جنم لیتی ہے۔ لیکن میں یہ تسلیم کر سکتا ہوں کہ میری باتوں میں غلطی ہو سکتی ہے۔ آپ میری غلطی ثابت کر دیں میں مان لوں گا۔ آپ نے اپنی نظر میں میری ایک غلطی تو ثابت کی ہے کہ میں قرآن کو اللہ کی کتاب مانتے ہوئے بھی اس کی ہر بات کو تسلیم نہ کرنے کی غیرمنطقیت میں مبتلا ہو گیا ہوں۔ اور میں نے واضح کر دیا کہ مذہب کے میرے اور آپ کے تصور میں کیا اختلاف ہے۔ میں قرآن و سنت کےمتعدد عقائد و احکام کو اسی دور کے لیے مخصوص سمجھتا ہوں جس دور میں وہ نازل ہوئے۔ اور ایسا سمجھنے کے لیے میرے پاس فی الحال ناقابل انکار عقلی دلیلیں موجود ہیں۔ جن میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ خدا ظالم نہیں ہو سکتا اس لیے یہ احکام و عقائد مصلحتاً دیے گئے۔ ورنہ جہنم میں ۹۹۹ فی ہزار لوگوں کے محدود گناہوں کی لامحدود سزا کی اور کیا توجیہ ہو سکتی ہے؟
جب ایک بار لامحدود جہنم میں ۹۹۹ فی ہزار لوگوں کے لامحدود وقت تک جلنے کی سزا عقلا غلط ثابت ہو گئی تو پھر داعی حضرات جہنم سے ڈرنے کی دعوت کیوں دیتے ہیں؟ کیا دعوت کو غلط ثابت کرنے کے لیے اس سے بڑی کسی دلیل کی ضرورت ہے؟ میں عقل کو حجت سمجھتا ہوں اور داعی نقل کو تو پھر بحث کیسے ہو سکتی ہے؟ جب ایک داعی سے بحث ہو ہی نہیں سکتی تو متنازعہ امور میں اپنی غلطی پائے جانے پر وہ رجوع کیسے کر سکتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ ہر بڑے داعی نے رجوع کیا ہے؟
کیا آپ کے ذہن میں ایسے سوالات پیدا نہیں ہوتے؟ اور آپ بھی منقولات پر مجبوراً ایمان نہیں لاتے؟ آپ یہ مان ہی نہیں سکتے کہ آپ کے جہنم سے ڈرنے والی دعوت میں کوئی غلطی بھی ہو سکتی ہے۔ اور یہی وہ نکتہ ہے جس کو میں ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ یہ دعوتی نقطہ نظر ہی ہے جو ایسا اندھا یقین پیدا کرتا ہے جس سے اسلامی فرقوں میں زبردست ادعائیت و تحکمیت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ یہ تحکمیت اتنی بڑھتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ہاں شادی بیاہ اور دیگر تمام تعلقات حرام کر دیتے ہیں۔ حالانکہ اللہ نے قرآن میں اہل کتاب تک سے شادی کو جائز رکھا ہے! اپنی حقانیت کا اتنا یقین ہو جانا حد درجہ مہلک ہے۔
ماضی کے داعیوں نے ماضی کے حالات کے مطابق کام کیا تھا۔ موجودہ دنیا میں فکری سطح پر کسی داعی کی ضرورت فی الحال نہیں ہے۔
آپ آگے لکھتے ہیں:
’’لیکن ہر آدمی بعض باتوں کے سلسلہ میں یہ یقین رکھتا ہے کہ وہ صد فیصد سچ ہیں اور ان کی غلطی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ آپ کو یقین ہے کہ آپ انسان ہیں ، مرد ہیں، آپ کی آنکھیں دیکھ سکتی ہیں اور اردو اور انگریزی میں آپ ناخواندہ نہیں ہیں۔ کوئی اگر آپ کی اس بات کو غلط ثابت کردے تو آپ مان لیں گے۔ لیکن آپ کو یقین کامل ہے کہ ان باتوں کو غلط ثابت کیا ہی نہیں جاسکتا۔‘‘
آپ نے جو مثالیں پیش فرمائی ہیں کیا ایک شخص کو ان کی صحت کے سلسلے میں کوئی شک ہو سکتا ہے؟ کیا اس قسم کی باتوں کو کوئی غلط ثابت کر سکتا ہے؟ اور انہیں غلط ثابت کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ بہت سی باتیں ایسی ہیں جنہیں غلط اور صحیح کی بحث سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ وہ ناقابل انکار حقائق ہیں۔ سورج نکلا ہوا ہو تو کوئی یہ ثابت نہیں کرتا کہ سورج نہیں نکلا ہوا ہے۔ ہندی میں کہاوت ہے: پرتیکش کو پرمان کی آوشکیتا نہیں۔ یعنی جو حاضر ہے اس پر کوئی دلیل نہیں۔ کیونکہ جو کچھ حاضر ہے وہ از قسم محسوسات ہے۔ اس پر کوئی شک نہیں ہو سکتا الا یہ کہ اندھیری رات میں رسی کو سانپ سمجھنے جیسے وہم کا شکار ایک شخص ہو جائے۔ آپ کی مثالیں عالم شہادت سے متعلق ہیں جس میں کچھ ثابت کرنے کی ضرورت کبھی ہوتی ہی نہیں، اس میں کوئی تنازعہ کبھی ہوتا ہی نہیں، اس لیے ان باتوں پر ایمان یا یقین رکھنے کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں۔ یہ چیزیں ایمان و یقین کے دائرے سے خارج ہیں۔ کھانا کھاتے وقت ہم یہ ایمان نہیں لاتے کہ ہم کھانا کھا رہے ہیں۔ اپنے آپ کو آئینے میں دیکھتے وقت ہم یہ ایمان نہیں لاتے کہ ہم آئینہ ہی دیکھ رہے ہیں۔ ایمان و یقین کی ضرورت وہاں ہوتی ہےجہاں کچھ شک و شبہ کی گنجائش ہو، جہاں کچھ ’’مشتبہ‘‘ ہو، جہاں کچھ تنازعہ ہو سکتا ہو۔ متنازعہ امور ہمیشہ عالم غیب سے متعلق ہوتے ہیں۔
اس لیے جن باتوں میں یقین کامل ہونے کی بات آپ کہہ رہے ہیں ان باتوں میں یقین کامل یا یقین ناقص رکھنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ یقین، ایمان، بھروسا جیسے الفاظ سراسر عالم غیب سے متعلق امور میں استعمال ہوتے ہیں۔
آپ کا اگلا جملہ ہے:
’’اس یقین کی وجہ سے اس بات کی پیشکش میں ایک زبردست خود اعتمادی (جسے آپ ادعائیت کہتے ہیں) کا پایا جانا فطری ہے۔‘‘
میرے اوپر کے تجزیہ سے آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ آپ کا یہ جملہ ’باطل‘ ہے۔ میرا نام طارق صدیقی ہے۔ اور مجھے اس سلسلے میں ایمان لانے، بھروسہ کرنے، یا اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ خود اعتمادی کی ضرورت وہاں ہوتی ہے جہاں شک کی کوئی گنجائش ہو۔ میں ایک اچھا مضمون لکھ سکوں گا یا نہیں، میں امتحان پاس کر سکوں گا یا نہیں، خود اعتمادی کی ضرورت ایسے امور میں ہوتی ہے اور کوئی ضروری نہیں ہے کہ میں مضمون اچھا ہی لکھ سکوں، امتحان پاس کر ہی لوں۔ کیونکہ اچھا مضمون لکھنا، یا امتحان پاس کرنا موقوف ہے میری عقلی، علمی، ذہنی و دیگر قسم کی صلاحیتوں پر اور اس ماحول پر جس میں مجھے کوئی کام کرنا ہے۔ اور ان چیزوں کے بارے میں مجھے آئندہ حالات کا کوئی یقینی علم نہیں ہے۔
آپ آگے فرماتے ہیں:
’’ایک مومن کو خدا پر، رسول پر، قرآن پر اس سے زیا دہ ایمان ہوتا ہے جتنا مجھے یہ ایمان ہے کہ میرا تعلق بلیوں یا بکریوں کی نسل سے نہیں ہے یا یہ کہ میں جنس مونث نہیں ہوں۔‘‘
یہ جملہ بھی باطل ہے۔ ہم سب انسان ہیں، بلیوں اور بکریوں کی نسل سے نہیں ہیں، یہ ایمان کا مسئلہ ہے ہی نہیں۔ اور نہ یہ کوئی دعویٰ کرنے کی چیز ہے کہ ہم بلیوں یا بکریوں کی نسل سے نہیں ہیں۔ یہ تو ہمارے محسوسات و مشاہدات ہیں۔ لیکن ’’قرآن اللہ کی کتاب ہے‘‘ یہ ہمارا مشاہدہ نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک دعویٰ یا ایک خبر ہے۔ قول رسول کو اگر آپ حجت تسلیم کرتے ہوں تو انہوں نے فرمایا ہے کہ ’’خبر اور مشاہدہ برابر نہیں ہیں‘‘۔ یہ دونوں دو چیزیں ہیں۔ تحریکی داعیوں یا ’’ادعائیت پسندوں‘‘ کی ایک بڑی خراب بات یہ ہے کہ وہ مشاہدہ اور خبر کو ایک کر دیتے ہیں۔ دونوں کو ایک ہی درجہ میں رکھتے ہیں۔ جو چیزیں منقولات / معقولات و غیوبات میں داخل ہیں انہیں محسوسات و مشاہدات کے درجے پر لا کھڑا کرتے ہیں اور پھر ان کی پیروی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ یہ تحریکی داعی حضرات خبر کو مشاہدہ کے برابر ہی نہیں کرتے بلکہ خبر کی حیثیت کو مشاہدہ کی حیثیت سے بڑھا دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک خبر زیادہ قابل اعتماد ہوتی ہے۔ خود آپ فرماتے ہیں:
ایک مومن کو خدا پر، رسول پر، قرآن پر اس سے زیا دہ ایمان ہوتا ہے جتنا مجھے یہ ایمان ہے کہ میرا تعلق بلیوں یا بکریوں کی نسل سے نہیں ہے یا یہ کہ میں جنس مونث نہیں ہوں۔۔۔
اسلامی عقائد خبر ہیں، مشاہدہ نہیں۔ اگر ہم بلیوں یا بکریوں کی نسل سے نہیں ہیں تو یہ کوئی خبر نہیں ہے، یہ ہمارا دن رات کا مشاہدہ ہے۔ آپ نے دیکھا کہ کیسے آپ نے خبر کا درجہ مشاہدہ سے بڑھا دیا اور اس طرح قول رسول کے خلاف ایک بات فرمائی۔ اب کیا آپ اس سے رجوع کر سکتے ہیں؟
اس لئے جن باتوں کا تعلق ایمانیات سے ہے یا محکمات سے ہے اس میں یہ یقین اور خود اعتمادی ایمان کا تقاضہ ہے۔ یقین نہ ہو تو یہ نفاق کی علامت ہے۔
یقین نہ ہونا نفاق کی علامت نہیں۔ اہل نفاق کا شیوہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک شخص کے سامنے ایک بات کہیں گے اور دوسرے کے سامنے اپنی اس بات کے خلاف ایک دوسری بات کہیں گے۔ منافق چوہے کی طرح ایک سوراخ سے داخل ہوتا ہے اور دوسرے سے نکل جاتا ہے۔ ریب و تشکیک کو منافقت نہیں کہتے۔ منافق اگر اپنی منافقت کو بیان کر دے تو وہ منافق نہیں رہتا۔ لیکن شکی اگر اپنے شک کو بیان کر دے تو بھی وہ شکی ہی رہتا ہے۔ اگر اس کا شک عقل و دلیل اور تجربہ و مشاہدہ کے ذریعے دور کر دیا جائے تو اور بات ہے۔ شک اور منافقت دو مختلف چیزیں ہیں۔ دونوں کی علتیں اور ذلتیں الگ الگ ہیں۔ منافقت کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے۔ انسانی ضمیر اس کو برداشت نہیں کرتا۔ شک پر انسان کا ضمیر ملامت ہی کرے یہ کوئی ضروری نہیں۔ شک عام طور پر ظاہر کیا جاتا ہے اور منافقت عام طور پر ظاہر نہیں کی جاتی۔
منافقت انسان کی فطرتِ مذمومہ میں داخل ہے اور شک انسان کی فطرتِ صالحہ میں ۔ شک کرنا تو انسان کی فطرت ہے۔ اگر ایک شخص کو اپنے مذہب پر شک نہ ہو تو وہ اپنے مذہب کو سچا ہی سمجھتا رہے گا اور اس کے مذہبی خیالات میں کبھی کوئی تبدیلی واقع نہ ہو سکے گی۔ ایمان و یقین تبدیلیٔ مذہب و نظریہ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی ہے۔ عیسائی اپنے مذہب پر شک نہ کرے اور اس کے سچ ہونے پر صدق دل سے یقین کرتا رہے تو کبھی مسلمان نہ ہو سکے۔ ایک مسلمان اپنے مذہبی عقائد کو سچا سمجھتا رہے تو وہ کبھی دہریہ یا ملحد نہ ہو سکے۔ ایک ہندو اگر پنرجنم پر یقین کرتا رہے تو کبھی اپنے اس مذہبی عقیدے سے منحرف نہ ہو سکے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ ایک مذہبی شخص کے لیے ایمان و یقین جس درجہ ضروری ہے اسی درجہ ریب و تشکیک بھی اس کے لیے ضروری ہے۔ ریب و تشکیک تو ایک بہت بڑی خوبی ہے جو انسان کو صراط مستقیم پر لا سکتی ہے، اور صراط مستقیم وہ ہے جس کو انسان صدق دل سے صراط مستقیم سمجھے۔ آپ بھی کسی چیز کو صدق دل سے صراط مستقیم سمجھتے ہوں تو آپ صراط مستقیم پر ہیں قطع نظر اس سے کہ واقعات کی دنیا میں وہ چیز کتنی ہی بعید از عقل اور غلط ہو۔ انسان کے لیے صراط مستقیم کا تعلق ’’حقیقت‘‘ یا ’’واقعیت‘‘ سے نہیں بلکہ اس کے تلاش حق کے جذبے سے ہے جو وہ انتہائی خلوص کے ساتھ انتہائی حد تک مشکوک ہو کر کرتا ہے۔
اگر ایک انسان اپنے غور و فکر سے اس نتیجے پر پہنچے کہ خدا نہیں ہے اور اس پر اس کو شرح صدر ہو جائے تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ اللہ تعالٰی اس کو آگ کا عذاب دے۔ اصل چیز انسان کا غور و فکر کرنا ہے، اور اپنے کو اخلاق کاملہ تک پہنچانا ہے۔ اصل چیز انسان کا انسان کے ساتھ خیرخواہی کا رویہ ہے اور دیگر جانداروں کے ساتھ ممکنہ حد تک اچھا سلوک کرنا ہے۔ غالب نے کہا ہے:
وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
نہیں کچھ سبحہ و زنار کے پھندے میں گیرائی
وفاداری میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے
ظاہر ہے جب آپ صدق دل سے کچھ مان رہے ہیں تو وہ آپ کی نجات کے لیے کافی ہے۔ آپ صدق دل سے یہی مانتے رہیں کہ مرنے کے بعد تمام غیر مسلم جہنم میں جائیں گے تو آپ کی نجات میں کوئی کلام نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح ایک ہندو صدق دل سے غور و فکر کے بعد یہ تسلیم کرتا رہے کہ مرنے کے بعد تمام بدکار انسان سور اور کتوں کی یونی میں جنم لیں گے تو اس کی نجات میں بھی کلام نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح اگر ایک لامذہب شخص اپنے غور و فکر سے اس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ مرنے کے بعد انسان مٹی میں مل جائے گا اس لیے جو کچھ ہے وہ یہی دنیا ہے، اور اسی کو بہتر سے بہتر بنانا ہے تو اس کی نجات میں بھی کوئی کلام نہیں۔ اور میری نظر میں وہ تمام لوگ مسلمان ہیں جو صدق دل سے غور و فکر کرتے ہیں اور ایک نتیجے تک پہنچتے ہیں، یا صرف غور و فکر ہی کرتے رہتے ہیں، کیونکہ اسلام نام ہے اپنے کو قانون فطرت کے سپرد کردینے کا۔ اور فطرت نے انسان کو غور و فکر کا ملکہ عطا فرمایا ہے، تا کہ وہ اس کی مدد سے نیکی اور بدی کو پہچان سکے۔ پس جس کے اندر نیکی اور بدی کی سمجھ آ گئی اور وہ دوسروں کو نقصان پہنچانے سے باز آ گیا، سمجھیے کہ اس کی نجات ہوگئی۔
انسان کے لیے یہ کبھی زیبا نہیں کہ وہ کسی ایسی چیز کو آخری صداقت تسلیم کر لے جس پر اس کی عقل شدید احتجاج کرتی ہو۔ایسے امور میں انسان کے لیے تشکیک ہی واحد راہ نجات ہے۔ لیکن شاید کوئی تحریکی داعی اس چیز کو بطور ایک خوبی کے تسلیم نہیں کرتا۔ کیسے کرے گا؟ اس کے ذہن میں تو اپنی دعوت پھیلانے کاجنون ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ تعداد میں لوگ پرچارک، کامریڈ یا داعی بن جائیں، اس کی یہی کوشش ہوتی ہے۔ حالانکہ وہ خود ریب و تشکیک پھیلانے کا کام ہی کرتا ہے، دیگر تحریکات اور مذاہب کے لوگوں میں۔ مثال کے طور پر تحریک اسلامی کا داعی جب پنر جنم کے عقیدےپرعقلی اعتراضات قائم کرتا ہے تو وہ ہندو مذہب کے خلاف ریب و تشکیک نہیں پھیلاتا؟ لیکن وہ اسی کو ’’دعوت‘‘ کہتا ہے۔ اگر ریب و تشکیک کوئی بڑی خراب بات ہے ، منافقت ہے، تو آخر وہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے عقائد کو متزلزل کرنے کی کوشش کیوں کرتا ہے؟ ایک طرف وہ اپنے ہم مذہبوں کو نصیحت کرتا ہے کہ شک نہ کرو، اور دوسری طرف اپنے دلائل سے دوسرے مذاہب کے لوگوں کو ان کے عقائد سے منحرف کرتا ہے۔ پھر وہ کہتا ہے کہ ہم شک نہیں پھیلاتے۔ ہم تو اپنے مذہب کا پرچارکرتے ہیں۔ اپنے مذہب کا پرچار کرتے ہیں تو پنرجنم کا ابطال کیوں کرتے ہیں؟ کیوں اس کے خلاف کتابیں شائع کرتے ہیں؟ کبھی تحریکی داعیوں نے اپنے مذہب یا تحریک پر بھی تنقید کرکے دیکھا ہے؟ عقل کی بنیاد پر پنرجنم پر تنقید کرنا تو بہت اچھا لگتا ہے، لیکن عقل کی بنیاد پر جب اپنے عقائد پر تنقید کرنے کی باری آتی ہے تو ٹیں کیوں بول جاتے ہیں؟ کوئی مارکسسٹ داعی اپنے عقائد پر تنقید کرتا ہے؟ کوئی تحریکی داعی اپنے مذہبی عقائد کا جائزہ لیتا ہے؟ کوئی آر ایس ایس کا پرچارک سرِ عام اپنے کلچرل نیشنلزم کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی ہمت جٹا پاتا ہے؟ (الا ماشا اللہ) یہ تحریکات انسانوں کا شکار کرنے، ان کو نگلنے، اپنا لقمہ بنانے اور ان سے انرجی حاصل کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کرتیں، ورنہ دیش اوردنیا میں امن و انصاف کی خواہاں یہ دعوتی تحریکات باہمی مکالمہ کا عمل کیوں شروع نہیں کرتیں؟ کیوں آر ایس ایس، جماعت اسلامی اور کمیونسٹ جماعتیں کبھی سر جوڑ کر بیٹھتی ہیں اور صدق دل سے دنیا میں امن و انصاف کے لیے کام کرتی ہیں؟ خود ایک ہی مذہب کی دو جماعتوں (مثلاً تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی) کے درمیان سوتیا ڈاہ کیوں پایا جاتا ہے؟
اگر ریب و تشکیک بالذات کوئی بری بات ہے تو ایک مذہب یا نظریہ کا داعی دوسرے مذہب یا نظریہ کے حاملوں کے ذہن میں اپنی تنقید سے شک کے بیج کیوں بوتا ہے اور پھر اس کی فصل کیوں کاٹتا ہے؟ دوسرے مذہب پر عقلی تنقیدآپ کے لیے روا ہو جاتی ہے اور جب آپ کے مذہبی عقائد پر عقلی نوعیت کے سوال اٹھائے جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ محکمات ہیں، یہ متشابہات ہیں، ان پر کلام نہ کرو، منافق ہو جاوگے! دوسروں کے مذہبی عقائد (تثلیت یا پنرجنم) خرافات ہیں اور آپ کے مذہبی عقائد محکمات؟ ایک میں عقل کا استعمال جائز ہو جاتا ہے اور دوسرے میں عقل کا استعمال ناجائز؟ پنرجنم یا تثلیث پر عقلی تنقید کر کے ایک شخص کو آپ ’’مشرف بہ اسلام‘‘ کرتے ہیں اوراس کے بعد اس پر پابندی لگا دیتے ہیں وہ اپنے نئے مذہبی عقائد میں عقل کا استعمال نہ کرے؟ ایک طرف آپ یہ کہتے ہیں کہ پنرجنم کا عقیدہ ایک غیرمعقول عقیدہ ہے کیونکہ بدکار انسان جب کتے یا سور کی شکل میں جنم لیتا ہے تو کتے یا سور کو یہ علم نہیں ہوتا کہ اس کو کس بات کی سزا مل رہی ہے، اور خود آپ کا یہ عقیدہ آپ کے لیے معقول و غیرمعقول کی بحث سے بالکل خارج ہوجاتا ہے کہ ۹۹۹ فی ہزار لوگ جہنم میں جائیں گے (بخاری)؟ عقل کا یہ کیسا دوہرا معیار آپ نے بنا رکھا ہے؟ اور جب ایک شخص آپ کے اس غیر عقلی رویے کی طرف اشارہ کرتا ہے تو اس کو یہ فرماتے ہیں کہ تم کو منطق و فلسفہ کی الف بے سے بھی واقفیت نہیں؟ آپ اس کی علمی حیثیت کو مشکوک بنانے میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھتے۔
آخر میں لکھتے ہیں:
’’البتہ آپ کی اس بات سے مجھے اتفاق ہے کہ جزوی، اجتہادی، فروعی مسائل میں ادعائیت کی یہ شدت نہیں ہونی چاہئے اور اس میں دوسری رائے کی صحت کے امکان کو بھی تسلیم کیا جانا چاہئے۔‘‘
میرا مسئلہ تو یہ تھا ہی نہیں کہ جزوی و فروعی مسائل میں کس حد تک اتفاق رائے کیا جا سکتا ہے۔ میرا مسئلہ تو یہ تھا کہ خود مذہب کیا ہے؟ مذہبی فکر میں ارتقا ممکن ہے یا نہیں؟ مذہبی عقائد و احکام میں بھی ارتقا ہو سکتا ہے یا نہیں؟ جو مذہبی عقائد و احکام دنیا کے لیے مفید ثابت ہوئے ہیں، آئندہ زمانے میں بھی کیا وہ مفید ثابت ہو سکیں گے؟ مثلاً، مسیح اللہ کے بیٹے ہیں اور انہوں نے صلیب پا کر انسان کے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا ہے، یا تمام غیرمسلم جہنم میں جائیں گے اور جہنم میں عورتوں کی کثرت ہوگی، مرنے کے بعد بدکار انسان سور کتوں کی شکل میں پیدا ہوں گے۔ ان عقائد کی مدد سے کیا دنیا کو مختلف النوع جرائم سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے؟ اس کو پرامن بنایا جا سکتا ہے؟ یا دنیا کی مذہبی فکر میں کسی ارتقا کی ضرورت ہے تاکہ عالمی مذاہب اپنی نئی تعبیر و تشریح کر سکیں اور مذہب کا جو حقیقی مفہوم ہے اس پر تمام انسان صدق دل سے عمل پیرا ہو سکیں، بلکہ لوگ اگر مناسب سمجھیں تو اس مذہب کو قبول کر سکیں جس میں انسانی حالات کے لحاظ سے ارتقا ممکن ہو۔ یا مذہبی عقائد پر عقلی نوعیت کے سوال اٹھانا اگر غیرمنطقی ہے تو سرے سے مذہب ہی کو زیربحث لانے کی کیا ضرورت ہے؟ جب مذہب پر کوئی تنقید ہو ہی نہیں سکتی تو خواہ مخواہ اس کو علمی و فکری بحثوں میں جگہ دینے کی کیا ضرورت؟ خالص مادی اصولوں پر دنیا کی فلاح کا کام کیوں نہ کیا جائے؟ لیکن نہیں، اسلام کے سوا کسی اور مذہب والوں کو تنقید سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ اس لیے کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ سرے سے اسلام ہی کو زیربحث نہ لایا جائے؟ کیونکہ مسلمان ایسی بحثوں سے برا مان جاتے ہیں، متشدد ہو جاتے ہیں۔ چھوڑیے ہٹائیے، نہ کریں گے اسلام پر بحث۔ نہ ہو گا اسلام کا مطالعہ اور اس پر غور و فکر۔ نہ ہو گی اس پر تنقید۔ کوئی شعبہ قائم نہ ہو گا جدید یونیورسیٹیوں میں اسلامیات کا۔
اس طرح بات کریں گے تو فکری دنیا یہ رویہ بھی اختیار کر سکتی ہے۔ اور جس دن یہ خاموش رویہ دنیا کی قوموں نے اختیار کر لیا، اس دن اس بات کے ذمہ دار صرف وہ لوگ ہوں گے جو مذہب پر عقلی بحثیں اٹھانے کی ممانعت فرماتے ہیں۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس میں یہ گنجائش پائی جاتی ہے کہ جیسے جیسے انسان کا اخلاقی و روحانی ارتقا ہو ویسے ویسے اس کے عقائد و احکام میں بھی ارتقا ہوتا چلا جائے ۔ اور ارتقا کا مفہوم کسی عقیدے کی تغلیط سے نہیں بلکہ اس میں مزید ترقی سے ، اس پر مزید نئی منزلیں تعمیر کرنے سے یا اس کے آس پاس نئی عمارتیں بنانے سے عبارت ہے۔ میں تو اب بھی دلائل کی بنیاد پر یہ سمجھتا ہوں کہ اسلام سے گزشتہ مذاہب کی غیرمنطقیت کو نکال دیا گیا ہے اور مذہب کا سب سے عقلی روپ اگر کوئی ہو سکتا ہے تو وہ اسلام ہی ہے۔ اگر آپ علامہ اقبال اور نیاز فتح پوری کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ یہ دونوں حضرات اہل سنت و الجماعت کے عقائد کے برعکس عقائد رکھتے ہیں، اور انہیں’’اسلام نکالا‘‘ دینے کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہو سکے گی۔ علامہ اقبال تو صاف کہتے ہیں کہ جنت اور جہنم صرف ’’اسٹیٹ آف مائینڈ‘‘ ہے۔ وہ تو نظریہ ارتقا کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ میں تو بہ دلیل یہ کہنے کی جرات بھی نہیں کر رہا ہوں۔ میں صرف غور و فکر اور تجزیہ کرتا ہوں، کوئی نتیجہ برامد کرنا، فیصلہ سنانا، حکم لگانا میرا کام نہیں، البتہ ایسا خود بخود ہو جائے تو میں اس میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتا۔ لیکن بہر حال اپنے ہر نتیجے پر بحث و مباحثہ اور مزید غور و فکر کی راہ میں کھلی رکھتا ہوں، جو ایک ’داعیٔ حق‘‘ کے بس کی بات نہیں۔ اور یہی ابتدائی فرق ہے دعوت اور مکالمہ میں۔
اور یہ شکر کا مقام ہے کہ یہ سوالات وہ شخص کر رہا ہے جو تحریکی و دعوتی پس منظر سے نکل کر آ رہا ہے۔ کوئی دوسرا شخص جب مستقبل میں اسی قسم کے سوالات کرے گا تو دعوتی پرچاری حضرات سوائے اس کی کیا ’’توجیہ‘‘ پیش کریں گے کہ ہم ان عقائد پر عقلی نوعیت کی بحث نہیں چلا سکتے؟ اور جب ان سے یہ پوچھا جائے گا کہ: اگر خود آپ کے مذہبی عقائد انسانی عقل سے ماورا ہیں تو دوسروں کے مذہبی عقائد انسانی عقل سے ماورا کیوں نہیں ہو سکتے؟ اگر آپ اپنے مذہبی عقائد کے سلسلے میں کسی عقلی بحث پر آمادہ نہیں ہو سکتے تو دوسروں کے مذاہب پر عقلی نوعیت کی بحث کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ پھر سوائے بغلیں جھانکنے کے ان دعوتی حضرات کے پاس کیا عقلی دلیل رہ جائے گی؟
مجھے واقعی مسرت ہوئی کہ کم از کم تحریک اسلامی میں ایک صاحب تو ہیں جو میرے اٹھائے گئے سوالوں پر نہ سہی، کم از کم اپنے محکمات و یقینیات کی حد تک تو ایک داعیانہ مشورہ دے رہے ہیں، جس کو وہ ’’دوستانہ‘‘ کہتے ہیں۔ اس لیے مجھے بھی جواباً ایک دوستانہ مشورہ دینے کا حق پہنچتا ہے۔ اور وہ یہی ہے کہ شک کیجیے۔ شک کرنا ازبس لازم ہے۔ اسلامی فرقوں اور جماعتوں کی لعنت یہی ہے کہ وہ اپنے ’’محکمات‘‘ پر کبھی شک نہیں کرتیں۔ یہ ایمان و یقین میں بالکل پختہ ہیں، چکنے گھڑے کی طرح جس پر پانی کی ایک بوند بھی نہیں ٹھہر سکتی ہے۔ ان کو غور و فکر سے کوئی سروکار ہی نہیں کہ اسلام کی مدافعت کے لیے کسی صحیح رخ پر سوچ سکیں۔ یہ اپنے مخصوص فقہی قلعوں میں بیٹھے اپنی فتوحات علمیہ کے اذکاررفتہ میں مست و بے خود ہیں۔ دنیا کی قومیں عقل و اخلاق کے کس مرتبے پر فائز ہو چکی ہیں، اس پر ان کی سرے سے کوئی توجہ ہی نہیں ہے۔ غیر قوموں کی عورتیں خلائی جہاز ڈیزائن کر رہی ہیں، بلکہ خلا تک جا پہنچیں، اور یہ اپنی عورتوں کے ’’دائرہ کار‘‘ کی تعیین فرما رہے ہیں۔ تاریخ ان کا بہت سخت احتساب کرے گی اگر یہ اپنی موجودہ فقہی روش سے باز نہ آئے۔