یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈیزائن...
[اس تحریر کا مقصد ایک وسیع تر سیاق میں تہذیبوں کی نشأۃِ ثانیہ کے ایک روشن خیال اور ترقی پسند تصور کو سامنے لانا ہے۔ یہ ایک فکری مقالہ ہے اور تحقیقی نقطۂ نظر سےاس میں ترمیم کی گنجائش موجود ہے۔ رجعت پسند ، ترقی پسند اور روشن خیال کے الفاظ کو ان کے مجرد معنوں میں استعمال کیا گیا اوران کا تعلق کسی خاص مکتبِ فکر یا نظریے سے وابستہ افراد سے نہیں ہے۔ ] مغربی تہذیب کے ہمہ جہت غلبہ و استیلاکے ردِّعمل میں جزیرہ نما ہند کی مختلف قوموں کےبنیادپرست روایتی یا ایک لفظ میں رجعت پسندذہنوں میں اپنی تہذیبی جڑوں سے مراجعت اور ان کی مدافعت پر مبنی بظاہر ایک طاقتوراحیائی شعور پیدا ہوا ہے، اور اسی بنا پر ان کے اندرسے ایسی دینی، ثقافتی اور سیاسی تحریکیں ظہور میں آئی ہیں جو اپنی تہذیبوں کے ‘سنہرے ماضی ’ کو ازسرنوِ زندہ کرنا چاہتی ہیں، لیکن اس کی واقعی جستجو سے زیادہ اس کا رومانی تصور تہذیبوں کے رجعت پسند عناصر کو متحرک رکھتا ہے اور اسی کے زیرِ اثر وہ زندگ...