بدھ، 29 جولائی، 2015

مذہبی صداقت اور عصری تقاضے

]حق کے متلاشی ایک صاحب سے مذہب کے موضوع پر ان باکس میں درج ذیل گفتگو ہوئی جسے میں افادہ عام کے تحت شیئر کر رہا ہوں. ان صاحب سے اجازت لے لی ہے اور ان کا نام بدل دیا گیا ہے. مشتملات میں کہیں کہیں بقدر ضرورت حذف و اضافہ کیا گیا ہے[

زید: محترم طارق صدیقی صاحب, فلسفیانہ موشگافیوں میں جائے بغیر ایک سیدھے سادے سوال کا سادہ سا جواب درکار ہے۔ کون سا مذہب سچا ہے؟  اگر اسلام تو کونسا فرقہ ؟ اسلام پر ہماری سوئی اٹکنے کی وجہ اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہم غلطی سے اس مذہب میں پیدا ہو گئے اور اب عادتاً اسی کو بہتر اور شاید سچ سمجھتے ہوں؟
طارق صدیقی: ہم کسی بھی مذہب میں پیدا ہوں, اب مذہب کا کام سائنسی صداقتوں کا بیان نہیں ہے. پہلے بھی اور اب بھی مذہب کا وظیفہ یہ تھا کہ وہ انسان کے مابعدموت سے متعلق سوالوں کا ایسا جواب فراہم کر دے تاکہ انسان ایک قوم اور جماعت کی شکل میں متحد ہو جائیں اور اسی دنیا کی زندگی میں ایک دوسرے کے کام آ سکیں جس کے نتیجے میں وہ مابعد موت نجات, نروان, یا جنت حاصل کر سکیں. جو اطمینان بخش جواب مذہبی رہنماؤں نے پہلے فراہم کیے, وہ جدید ترین سائنسی تحقیقات کے سبب مشکوک ہوئے, جس کے سبب مذہبی حقانیت کی بنیاد پر اٹھا ہو اجتماعی نظام متزلزل ہوگیا. پھر اس اجتماعیت کے تحفظ کے لیے منقولات مذہبی کی تجددپسندانہ تاویلات شروع ہوئیں, اور کیسے بھی یہ ثابت کیا گیا کہ ہماری مذہبی کتب میں درج ایک ایک جملہ حق ہے.
مذہب کا مقصد مابعد موت نجات کے مسئلے پر انسان کو ایک ایسا عقیدہ فراہم کرنا ہے جس پر ایمان لا کر وہ اپنی دنیاوی زندگی میں چین سے جی سکے اور بزرگوں سے بار بار ایسے سوال نہ کرے کہ ہم کون ہیں, کہاں سے آئے ہیں, کہاں جائیں گے, اور مرنے کے بعد ہمارا کیا ہوگا. یہ سوالات پہلے ہی اتنے پریشان کن ہیں اور اس پر موت کا اذیت ناک تصور, ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ ایک انسان کے سامنے اگر مذہبی عقائد نہ پیش کیے جاتے تو وہ کتنا بے چین رہتا. خود آپ کے اندر جو بے چینی پائی جاتی ہے, اس کو بھی ذہن میں رکھیں, اور یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ میں بھی ان سوالات سے بےچین ہوں. مذہب کا اتنا مطالعہ کرنے کے بعد بھی مجھ جیسا ایک شخص سوالوں سے حیران و پریشان رہتا ہے, اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو کام فلسفہ کا ہے وہی مذہب کا بھی ہے, یعنی تجسس کی تشفی, البتہ مذہب ایک اور شئے فراہم کرتا ہے وہ ہے سکون قلب جو فلسفہ فراہم نہیں کر سکتا. سکون قلب کے لیے کسی دوسرے کی گارنٹی چاہیے, جو فلسفی کو اپنی فلسفیانہ کاوشوں کے ذریعے حاصل نہیں ہو سکتی. لیکن مذہب اپنے فرمودات کی پوری ضمانت لیتا ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے, وہ سرتاسر حق و صداقت ہے اور اگر اس پر ایمان لاؤگے تو فلاح یا نجات پاؤگے. لیکن جیسے ہی ہم مذہبی معتقدات پر ایمان لانے لگتے ہیں, جدید سائنسی و اخلاقی تیقنات سے آڑے آتی ہیں اور اگر ہم اس کے باوجود کسی نہ کسی طرح مذہبی متن کی تاویل کے ذریعے اپنے مذہب کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے بعد ایمان لے آئیں تو اس کے نتیجے میں علمی پسماندگی کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں. کیونکہ عصری تقاضے ہمیشہ علمی بنیادوں پر بدلتے رہتے ہیں, اور ایک دور کے عصری تقاضوں سے ہم نے اپنے مذہب کو ہم آہنگ کیا نہیں کہ اگلے دور کے عصری تقاضے ہمارے سامنے منہ بائے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس طرح ہم یکے بعد دیگرے ہر دور کے عصری تقاضے کے مطابق اپنے مذہب کو توڑ مروڑ کر حق ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں.
زید: طارق بھائی۔۔ آپ نے بہت خوبصورت جواب دیا ہے۔ مجھے آپ کے دلائل سے صد فیصد اتفاق ہے۔ مگر وہی بات کہ جب ذہنی اور روحانی قسم کی بے چینی ہوتی ہے کہ ایک ہی مذہب سامنے آتا ہے جو ہمارا پیدائشی مذہب ہے۔ کسی مذہب کے بارے میں سوچیں بھی تو وہ اپنے مذہب سے زیادہ مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ مذہب ایسے لاینحل سوالات کا ریڈی میڈ جوابات مہیا کردیتا ہے جو ایک عام انسان کو اس وقت تک مطمئن کردیتے ہیں جب تک اس کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ سب مذہب کا "کھیل" ایک منظم سماج کی تشکیل اور کنٹرول کیلئے رچایا گیا ہے۔
ایسے معاشرے جن میں لوگوں کی اکثریت نے مذہب کو پس پشت ڈال دیا ہے, ان میں پیدا ہونے والے بچوں کو شاید ہماری طرح اس قسم کے ذہنی اضطراب سے نہیں گزرنا پڑتا ہو گا. لیکن ہمارے ہاں پہلے پہل خوب ٹھونس کر مذہب ذہن میں ڈالا جاتا ہے۔۔ جب ہم بڑے ہو کر کچھ سمجھ دار ہو کر اس کی مضحکہ خیز باتوں پر سوال اٹھانا شروع کرتے ہیں تو نہ ہی مذہب کے طوق کو پوری طرح اپنے گلے سے اتار پاتے ہیں اور نہ ہی اس کے بغیر چین پڑتا ہے۔
طارق صدیقی: مذاہب کو انسانوں کی طرح سمجھنا چاہیے, جس طرح ہر انسان کی شخصیت اپنے زمان و مکاں اور حالات کی زائیدہ و پروردہ ہوتی ہے, اسی طرح مذاہب بھی اپنے مخصوص حالات میں وجود میں آتے اور متشکل ہوتے رہتے ہیں.یہ ایک ارتقائی عمل ہوتا ہے جس کو اگر صحیح خطوط پر گامزن رکھا جائے تو مذہب میں نکھار پیدا ہو جاتا ہے ورنہ ان میں بگاڑ پیدا ہوتے دیر نہیں لگتی. ذرا غور کیجیے کہ وہ کیسا مذہب رہا ہوگا جس میں انسانوں کی بلی دی جاتی رہی ہوگی؟ ایسے مذہب کا ارتقا بالکل غلط خطوط پر ہوا اور وہ تقریباً نیست و نابود ہو گئے.
ہمارا جو مذہب اسلام ہے, اس کے ارتقا کی ضرورت بھی ہے, لیکن اس کا طریقہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم پہلے اسلام کا ایک سنہرا ماضی تخلیق کریں, اور یہ فرمائیں کہ ہمارے ہاں تو رجم اور قتل مرتد کی سزا دی ہی نہیں جاتی تھی, اور نہ ہمارے ہاں تصویر حرام تھی, اور نہ عورتوں کی حکمرانی کی ممانعت تھی. اور یہ کس قدر مکروہ بات ہے کہ ہم اپنے ایسے نتائج کو مذہبی و تاریخی کتب سے ثابت کرنے لگیں کہ "ہمارے اسلام میں یہ سب نہیں ہے" اور یہ اسلام کے متعلق مغرب کا جھوٹا پروپگنڈا ہے. کل تک جو دعوتی اقامتی حضرات سنت اور حدیث کی حجیت کا راگ الاپ رہے تھے, آج وہ سوائے قرآن کے کسی اور چیز کو معتبر ماننے کے لیے تیار نہیں.
اور قرآن میں تعبیر کی گنجائش اس حد تک ہے کہ اس میں سے جمہوری نظام کی دلیل برآمد کر لو, اور چاہو تو بادشاہت کا جواز نکال دو. عورتوں کی حکمرانی بھی اس سے ثابت کردو (ملکہ سبا) اور ان کو مردوں کی ماتحتی میں بھی لے آؤ. اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے. میں بھی مانتا ہوں کہ اسلام ایک لچیلا مذہب ہے, لیکن دور از کار تعبیرات کا اسلام سے کوئی سروکار نہیں.
زید: مجھ ایسے لوگ جنہوں نے مذہب کی پابندیوں کو ہوش سنبھالتے ہی سہا ہے ۔۔۔ تصویر اتروانے کی پابندی سے لیکر   گھر میں دجالی فتنہ قرار دیکر ٹی وی نہ رکھنے کی پابندی تکـ ۔۔۔ بنک کی نوکری کرنے والے کے گھر کھانا پینا ناجائز کے فتووں سے لیکر اسی بینکاری کو اسلامی نام دیکر مولویوں کو موٹی تنخواہوں پر کام کرتے دیکھنے تک ـ۔۔۔۔پھر کوئی اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ بھیا ۔۔۔ ٹی وی پر پابندی تو اسلام نے کبھی لگائی ہی نہیں  ۔۔۔تصویر اتروانے کے حرام کا فتوی بھی محض چند علماء کی ذاتی رائے تھی ۔۔ وغیرہ وغیرہ   ۔۔۔ پھر ہمارا خون نہ کھولے تو اور کیا ہو؟ 

طارق صدیقی: یہ آپ اسلام پسند مابعدمودودیوں بالخصوص غامدیوں اور رمضانیوں سے پوچھیے کہ آخر وہ اتنا صریح جھوٹ کیوں بول رہے ہیں کہ اسلام میں یہ سب نہیں تھا؟ تو ان کے نزدیک پہلے ہی ایک جواب تیار ہوگا کہ اسلام کو پہلے غلط سمجھا گیا تھا, اور اب ہم اس کو صحیح سمجھ رہے ہیں... آپ ان سے پوچھیے کہ پھر تو غامدی کو عہد رسالت و خلافت کے فوراً بعد پیدا ہونا چاہیے تھا تاکہ وہ ائمہ مجتہدین کو قرآن و سنت کی تعبیر کا صحیح طریقہ بتاتے, نعوذ باللہ. اب یہ کتنی سیدھی اور سچی بات ہے, لیکن ایک مابعدمودودی اسلام پسند کبھی اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتا.
زید: درست! مگر یہ ڈھٹائی محض مابعد مودودی اسلام پسندوں یا غامدی کے ہاں ہی نہیں بلکہ دیوبندی/ تبلیغی جماعت والوں کے ہاں بھی پائی جاتی ہے ۔۔۔میرا تبلیغی جماعت والوں سے بچپن سے ہی قریب تعلق رہا ہے۔ یہ لوگ تصویر/ویڈیو/ٹی وی کے سخت مخالف تھے ۔ یہ فخر سے کہتے تھے کہ ہم اخبار، ٹی وی ، اشتہار، بینر وغیرہ استعمال نہیں کرتے کیونکہ صحابہ نے ان کو استعمال نہیں کیا۔ ہماری مارکیٹنگ صحابہ کی طرز پر صرف "word of mouth" سے چلتی ہے۔مگر اب ان کے سرخیل مولانا  ۔۔۔باقاعدہ ذاتی سٹوڈیو بنائے ہوئے ہیں جہاں ویڈیوز ریکارڈ ہوتی ہیں۔ کچھ سالوں سے ٹی وی پر بھی پروگرام شروع کر دئے گئے ہیں۔ دوسرے تبلیغی مراکز سے بھی ویڈیو بیانات ریکارڈ کئے جاتے ہیں اور ایک آنلائن دیوبندی مکتب فکر سے وابستہ ٹی وی چینل "Message" سے نشر کئے جاتے ہیں۔ میں جب یہی سوال اپنے بڑے تبلیغی بھائی سے پوچھتا ہوں تو "گستاخ " علماء پر اعتراض اٹھانے والا بدبخت " کا خطاب پاتا ہوں ۔۔۔اب یہ حال ہے کہ انہوں نے میرا مکمل سوشل بائیکاٹ کر دیا ہے۔
طارق صدیقی: دیوبند کا اصل فتوی اب بھی وہی ہے, اور اصلاً ڈیجیٹل تصاویر کا حکم بھی وہی ہے, اگر وہ ایسا کر رہے ہیں تو اس کہ نوعیت عملی و اضطراری ہے. لیکن اگر واقعی ان میں سے بعض لوگ ذی روح کی ڈیجیٹل تصاویر کو اصلاً حلال کر رہے ہیں تو یہ تشویشناک بات ہے. اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے بھی چودہ سو سالہ سنی روایت کو یک قلم نظرانداز کرتے ہوئے شریعت مطہرہ کو مذہبی منقولات سے گنجائشیں اور جواز برامد کرنے کا تختہ مشق بنا لیا ہے! العیاذ باللہ!
ایک زمانہ تھا جب سر سید پر انہیں علما نے ذی روح کی تصویر کو حلال کرنے کے جرم میں کافر قرار دیا تھا. خیر, اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک جدید تعلیم یافتہ شخص یہ سب کچھ دیکھ دیکھ کر کافر و ملحد اگر نہیں ہونا چاہتا تو اس کے پاس کیا راستہ بچتا ہے؟ میں اپنی جگہ اس سوال کا جواب یہ دیتا ہوں کہ پہلے مغربی و مشرقی فلسفہ کا گہرا مطالعہ کیا جائے اور فلسفیانہ تفکیر کا ایک عمل جلد از جلد شروع ہو. اس کے ساتھ ہی اردو میں جدید ترین فلسفیانہ ادب کا ترجمہ کیا جائے. اور اس قسم کے مختلف طریقوں سے کام لے کر تشددپسند مذہبی ڈسکورس کو تعقل پسندی سے بدل دیا جائے, ورنہ مذہبی جھگڑوں میں ساری دنیا تباہ ہو جائے گی. اور اس کے لیے معاشرے کے عالی دماغوں کو سب سے پہلے منتخب کیا جائے. مذہبی تشدد کا اصل سبب اعلی تعلیم یافتہ طبقہ کے خواص میں قائم عقائدی برتری کا ڈسکورس ہے جو دراصل انسان کی گروہی عصبیت کے جذبے پر قائم ہے نہ کہ اس بات پر کہ ایک عقیدہ واقعی دوسرے عقائد پر عقلاً برتری رکھتا ہے. موحد سے موحد مذہبی عقیدہ کے حامل افراد خدا کو اس وقت تک
اگر ان کے اندر سے اس عقائدی برتری کے جذبہ کو نکال دیا جائے تو مذہبی تشدد اور لائف اسٹائل کا مسئلہ باقی نہیں رہ سکتا. معاشرہ کے مغربی تعلیم یافتہ خواص اگر فلسفہ پڑھیں گے تو ان کا جواب دینے کی غرض سے علمائے دین کو بھی فلسفہ کی ورق گردانی کرنی ہی پڑےگی, اور وہ لازماً اس سے متاثر ہوں گے, خواہ مثبت, خواہ منفی. اور میں نہیں چاہتا کہ وہ منفی طور پر متاثر ہوں, لیکن اگر خدا کو یہی منظور ہے تو ہم آپ کیا کر سکتے ہیں. دراصل اہل مذہب کی ایک تعداد تشدد کا سہارا لے کر مذہب ہی کو نقصان پہنچا رہی ہے. اور مجھے یہ منظور نہیں ہے, لیکن فلسفہ آخری چارہ کار ہے.
زید: درست! مگر جہاں تعقل آتا ہے وہاں مذہب ٹھہر نہیں سکتا ۔ کیا ایسا نہیں؟
(میں نے ان صاحب کے اس آخری سوال کا جواب اب تک نہیں لکھا ہے)

مغرب سے فلسفیانہ تراجم

اردو میں مغربی طرز کی آزاد فلسفیانہ تفکیر کی کوئی قابل ذکر روایت نہیں پائی جاتی. فکر کے نام پر جو کچھ اس میں پایا جاتا ہے اس کی نوعیت زیادہ تر مذہبی ہے. البتہ مارکسی نظریہ اور اس کے بنیادی ماخذوں کا ترجمہ, تفہیم و تشریح ضرور ہوئی ہے لیکن اردو میں اس پر کوئی بنیادی اضافہ نہیں ہو سکا. ترجمہ و تشریح کی دستیابی کے لحاظ سے مارکسیت سے بھی زیادہ برا حال جدیدیت وجودیت، ما بعد جدیدیت، ساختیات، پس ساختیات جیسی چیزوں کا ہے. مذہبی افکار پر مبنی تحریروں سے صرف نظر کر لیں تو جتنا کچھ فکری سرمایہ ہمارے پاس ہے, اس پر ایک طائرانہ نظر سے ہی دنیائے فکر و نظر میں ہماری غربت و افلاس کا منظر سامنے آ جاتا ہے.
اردو میں مغرب سے خالص فلسفیانہ اور جدید ترین افکارونظریات پر ماخذ کا درجہ رکھنے والی کتابوں کا ترجمہ بہت کم ہوا ہے. انگریزی یا دیگر مغربی زبانوں میں ان موضوعات پر مطالعہ اور غور و فکرکے بعد جو کچھ لکھا جاتا ہے وہ اردو کے وسیع المطالعہ قارئین کی سمجھ میں آنا تو دور ، اردو کے بعض جید نقادوں اور محققوں کے لیے بھی چیستان بن جاتا ہے۔ یہ چند لوگ لوگ یا تو کوئی مفصل کتاب لکھ کر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں یا پھر متفرق مضامین لکھ کر۔ اردو میں اس قسم کی جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں انہیں کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ شروع نہیں کیا گیا, الا ماشا اللہ. بلکہ مصنفوں نے وقتاََ فوقتاََ جو مضامین مختلف رسائل و جرائد میں لکھے، انہیں ایک ترتیب کے ساتھ یکجا کر دیا گیا ہے۔ گوپی چند نارنگ کی ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات ایسی ہی ایک کتاب ہے جس کے بعض مضامین ابتداً ماہنامہ شبخون اور دیگر رسائل میں شائع ہوئے تھے. حالانکہ اس میں نظم و ضبط پایا جاتا ہے لیکن اولاً, وقتاً فوقتاً مضامین کی شکل میں لکھا جانا ہی اس کتاب کی وہ بنیادی خصوصیت ہے جس کے سبب اس کا مقابلہ ایسی کتاب کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا جوابتدا ہی سے اس ارادے کے ساتھ شروع اور ختم کی گئی ہو کہ اسے ایک مکمل کتاب کی شکل میں منظر عام پر آنا ہے اور اس سے قبل اس کے مضامین کو شائع نہیں کرنا ہے, ثانیاََ، بعض حلقوں نے نارنگ پر الزام لگایا ہے کہ اس کتاب کے مشتملات خاصی تعداد میں ترجمہ شدہ مواد پر مبنی ہیں جس کا صفحہ وار حوالہ نہیں دیا گیا ہے، اگر یہ الزام صحیح تو اس سے مصنف کا منشا معلوم ہوتا ہے کہ کتاب پر یہ اعتراض نہ کیا جا سکے کہ اس کا ایک خاصا حصہ ترجمہ پر مبنی ہے, ثالثاً, مصنف کا یہ منشا بھی واضح ہے کہ ایک طرف تو وہ ساختیات و مابعد کا ابتدائی تعارف پیش کرنا چاہتا ہے, لیکن ادق اور عسیرالفہم نکتوں کی عام فہم تسہیل کے بجائے اس نے اس پوری فکری صورت حال کا علمی رشتہ زمانہ قدیم و متوسط کے ثقافتی ورثوں سے جوڑ دیا, جو نظریہ سازی پر مبنی کارنامہ ہے اور جدید ترین فکر کے ابتدائی تعارف و تسہیل کے ساتھ نہیں چل سکتا. اگر انہیں ابتدائی تعارف پیش کرنا تھا, تو انہیں مفصل صرف یہی کرنا چاہیے تھا, جو انہوں نے کماحقہ پورا نہ کیا. کورس ان جنرل لنگوسٹکس ایک ضخیم کتاب ہے اور اس کی تفہیم پر جس قدر کتابیں لکھی گئیں, ان سب کے مطالعے کے بعد مصنف کو چاہیے تھا کہ بہ تمام و کمال اس بات کو بتاتے کہ ساختیات اپنی تمام تر تفصیلات میں کیا ہے, یہی موضوع اڑھائی تین سو صفحات بلکہ اس سے زیادہ کا متقاضی تھا, کجا کہ آپ اس کو پندرہ بیس صفحات میں سمیٹ دیں.
اور یہ بات بھی ہے کہ جب تک ہم کسی فکر یا فلسفہ کی بنیادوں سے واقف نہ ہوں، تب تک اس سے متعلق بحثیں ہمیں اپیل نہیں کر سکتیں ماخذ اور بنیاد کا درجہ رکھنے والے فکری کارناموں کا اردو میں ترجمہ نہ ہونے کے سبب ہم دیکھتے ہیں کہ بعض عالمی اردو شخصیتیں شدومد سے پس ساختیات، رد تشکیل اور مابعدجدیدیت پر بحث و مباحثہ میں مصروف ہیں اور کچھ لوگ ہیں جو اس سب سے بالکل بے نیاز نظر آتے ہیں، اور کچھ ہیں جن کے نزدیک یہ جدید افکار و نظریات ہی” سمجھ سے باہر “ہیں۔ اور جو لوگ انتہائی شد و مد سے جدید ترین افکار و نظریات پر بات کرتے ہیں، وہ بھی ایک قسم کا ترجمہ ہی کرتے ہیں، یعنی پہلے وہ انگریزی میں ایک فکری متن پڑھتے ہیں اور اسی میں کہیں کہیں کچھ تصرف یا حذف و اضافہ کرکے جزیرہ نما کے حالات پر اس کو چسپاں کرتے ہوئے کوئی فکری مضمون لکھ دیتے ہیں۔ ایسے مضامین اپنے موضوع کی بنیادی معلومات فراہم نہیں کرتے, اور نہ ان میں موضوع سے متعلق تمام ضروری لفظیات و اصطلاحات کا اردو ترجمہ ہی پیش کیا جا سکتا ہے، اس سے ایک نقصان تو یہ ہوتا ہے قاری کی معلومات میں جگہ جگہ خلا پید ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذہن میں جدید افکار و نظریات کا ایک ناکافی اور ناقص فہم پیدا ہوتا ہے، دوسرا نقصان اسی پہلے نقصان کا نتیجہ ہے جس میں معاصرانہ چشمک کا بھی اہم رول ہے۔ اس صورتحال کو ہم یوں سمجھیں: فرض کیجیے ایک مصنف اردو میں جدیدیت کی بنا ڈالتا ہے اور دوسرا مابعدجدیدیت کی تو پہلا دوسرے کو قبول نہیں کرتا،اور دوسرے کا یہ کہنا ہے کہ جدیدیت کا دور تو گزر چکا، اب مابعدجدیدیت کا دور ہے! اس قسم کی بحثوں کا ظاہری سبب یہ ضرور ہے کہ دونوں مصنفوں میں ایک معاصرانہ چشمک ہے لیکن اس کا حقیقی سبب یہ ہے کہ جس نے جدیدیت یا مابعدجدیدیت کی بنا ڈالی ہے ، خود اس نے اردو میں وجودیت اور جدیدیت سے متعلق بنیادی کتابوں کو نہیں پڑھا ہے اور صرف مغربی زبانوں میں اپنے مطالعہ کو اردو میں جدیدیت کی تحریک برپا کرنے کے لیے کافی سمجھ لیا۔ غیر زبان سے کسی فکر کو درآمد کرنے کا پہلا اصول یہ ہے کہ اس سے متعلق بنیادی کتابوں کا باقاعدہ ترجمہ کیا جائے، نہ کہ غیر زبان میں سو پچاس کتابیں پڑھ کر اپنے طور پر اردو میں وہ فکر درآمد کی جائے۔ اس سے یہ پتا نہیں چل سکتا کہ فکری درآمدات کرنے والے ایک مصنف نے غیرزبان میں رائج کسی فکر کے کن اجزا کو درآمد کیا اور کن کو ترک کر دیا، اس کے ساتھ ہی، اس نے اردو میں پرورش پانے والی درآمد شدہ نوزائیدہ فکر کا اوریجنل ماخذ ایک غیرزبان کو بنا دیا۔ اس کے سبب یہ ہوا کہ اردو قاری غیرزبان کا محتاج ہو کر رہ گیا ۔ یہ بات اپنی جگہ بالکل صحیح ہے کہ کسی فکر اور اس سے متعلق تمام کتابوں کا ترجمہ دنیا کی کسی زبان میں ممکن نہیں لیکن جس قدر کتابیں ہم ترجمہ کر سکتے ہیں،کیوں نہ کریں جبکہ اسی پر فکری دیانت داری موقوف ہے۔ بصورت دیگر ماخذ کے ترجمہ سے پہلے اگر ایک مصنف کسی فکر کو درآمد کرتا ہے, اس کی بنیاد پر پوری ایک تحریک کھڑی کرنا چاہتا ہے تو اس کی حیثیت دانستہ یا نادانستہ ایک دلال کی سی ہوجاتی ہے۔اور ایک دلال ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ فریقین میں کوئی براہ راست مکالمہ ہو۔ اسی طرح ترجمہ کی سطح پر جب ہم ایک زبان بولنے اور سمجھنے والوں کو اصل مصنف سے بذریعہ ترجمہ براہ راست مکالمہ کراتے ہیں تو گویا قاری کو یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ متن کو اپنی طرح سمجھے. ایک شخص جو اردو میں وجودیت، جدیدیت، مابعدجدیدیت، ساختیات، پس ساختیات، ردتشکیل یا کوئی دوسری بڑی فکری تحریک برپا کرنا چاہتا ہو، اورترجمہ پر اس کی توجہ نہ ہو، اور وہ اپنی مطلوبہ درآمد شدہ فکر کے بنیادی ماخذوں کا ترجمہ کرانے کی تحریک نہ چلائے یا خود چند ایک بنیادی ماخذوں کا ترجمہ نہ کرے، تو اس سے درج ذیل باتوں کا علم ہوسکتا ہے:
1۔ یا تو اس مصنف کی دلچسپی باوائے فکر بننے میں زیادہ ہے
2۔ یا تو اس کے اندر یہ جرات نہیں کہ وہ کھل کر ترجمہ کی تحریک برپا کرنے کی بات کرے
3۔ یا وہ یہ سمجھتا کہ اردو میں ترجمہ کی مانگ نہیں اور اردو میں ترجمہ کرنا بے فائدہ ہے.
4۔ وہ مصنف کے مرتبے سے نیچے اترنا اور مترجم نہیں کہلانا چاہتا (اس صورت میں یہ بھی علم ہوتا ہے کہ اس کی نظر میں ترجمہ ایک دوئم درجے کی شئے ہے)۔
7۔ اس کے اندر باضابطہ ترجمہ کی صلاحیت نہیں پائی جاتی یا ترجمہ کی محنت وہ سرے سے کرنا ہی نہیں چاہتا۔
8۔ اس کی فکری درآمدات پروپگنڈہ ہیں کیونکہ وہ اپنی مطلوبہ فکر کو اس کی اصل شکل میں بذریعہ ترجمہ پیش نہیں کرنا چاہتا۔ وہ سیلیکٹیو ہے۔ اور ریزرویشنس کا شکار ہے۔
اور اس کے ساتھ ہی جب مغربی افکار کو درآمد کرنے والا مصنف اپنی زبان کے قارئین کو یہ بتاتا ہے کہ ان جدید ترین مغربی افکار کا اصل ماخذ تو دراصل ہمارے ''مشرقی افکار'' ہی ہیں تو وہ گویا جڑوں کی طرف واپسی کے نقطۂ نظر کو بھی فروغ دیتا ہے جس کا نتیجہ صرف یہی ہونا ہے کہ اپنی زبان کے لوگ علمی و فکری استغنا میں اور ''ہمارے یہاں سب کچھ پہلے ہی موجود ہے'' کے زعم میں مبتلا ہو جائیں جس کے بعد فکری ترقی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی.