ہفتہ، 11 مئی، 2013

معاصر اسلامی نظریہ کے بعض اہم مسائل

اس میں کوئی شک نہیں کہ روایتی اصولِ شریعت کی رو سے ذی روح کی تصویر کشی مطلقاً حرام ہے اور مستثنیات کو چھوڑ کر تمام روایتی علما و فقہا عہد رسالت سے آج تک اس کی حرمت کے قائل رہے ہیں۔ مولانا مودودی بھی ذی روح کی تصویرکشی  اور مجسمہ سازی کی حرمت کے قائل ہیں اور ان کے مطابق جو لوگ ان چیزوں کوحلال سمجھتے ہیں وہ ’’مقلدین مغرب‘‘ ہیں۔ مولانا کے بقول ’’اسلامی شریعت حلال اور حرام کے درمیان ایسی دھندلی اور مبہم حد بندیاں قائم نہیں کرتی جن سے آدمی یہ فیصلہ نہ کر سکتا ہو کہ وہ کہاں تک جواز کی حد میں ہے اور کہاں اس حد کو پار کر گیا ہے، بلکہ ایسا واضح خط امتیاز کھینچتی ہے جسے ہر شخص روز روشن کی طرح دیکھ سکتا ہو۔ تصاویر کے درمیان یہ حد بندی قطعی واضح ہے کہ جانداروں کی تصویریں حرام اور بے جان اشیاء کی تصویریں حلال ہیں۔ اس خط امتیاز میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں ہے  جسے احکام کی پیروی کرنی ہو وہ صاف صاف جان سکتا ہے کہ اس کے لیے کیا چیز جائز ہے اور کیا نا جائز۔‘‘ (تفہیم القرآن)
اس سلسلے میں کچھ عرصہ پہلے میں نے فیس بک پر ایک بحث شروع کی تھی اور درج ذیل اسٹیٹس دیا تھا:
مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ انسانی اور حیوانی تصویر کو جو لوگ حلال سمجھتے ہیں وہ ’’مقلدین مغرب‘‘ ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ‘‘نہایت کثیر التعداد اور قوی الاسناد اور متواتر ا لمعنیٰ احادیث سے ہی ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ذی روح اشیاء کی تصویریں بنانے اور رکھنے کو قطعی حرام قرار دیا ہے۔‘‘
اس لیے فیس بک کے وہ تمام اسلام پسند حضرات اپنی تصویریں ہٹا لیں ورنہ وہ ’’مقلدین مغرب‘‘ کی تعریف میں آ جائیں گے۔ اور جو شخص مقلدین مغرب میں سے ہو اس کا تعلق دراصل مغرب سے ہے۔ ایسا شخص تصاویر، فوٹو اور ویڈیو شیئر کر کے مسلمانوں کو جہنم کی طرف لے جا رہا ہے۔
اور اس کے ساتھ ہی میں نے تفہیم القرآن کی ویب سائٹ سے مولانا کی اس تحریر کا لنک بھی پیش کر دیا تھا جس میں انہوں نے تصویر کشی و مجسمہ سازی کو حلال سمجھنے والوں کو ’’مقلدین مغرب‘‘ قرار دیا ہے۔ اس پر ایک صاحب نے میرے اسٹیٹس کے نیچے درجِ ذیل تبصرہ کیا:۔
کسی بھی عالم کا اجتہاد غلط ہو سکتا ہے۔ کسی کے ایک نظریہ کو قبول کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی ہر بات آنکھ بند کر کے مان لی جائے اور دیگر علماء نے جو اس سے قوی تر دلیلیں اپنے اجتہاد کے حق میں دیں ہیں ان سے منہ پھیر لیا جائے۔ اسلام پسند طبقہ کو آپ جتنا کوتاہ نظر سمجھتے ہیں وہ اتنا ہے نہیں۔ آپ اپنے علاوہ دوسروں کو خواہ مخواہ تنگ نظر دیکھنا چاہتے ہیں، اس لیے وہ آپ کو تنگ-نظر نظر آتے ہیں۔ مولانا مودودی موسیقی کے بھی خلاف تھے، لیکن اسلام پسند طبقہ نے ان کی دلیل کو مسترد کر دیا اور دیگر علماء کے اجتہاد کو قبول کرلیا جنہوں نے موسیقی کو جائز سمجھا۔ چنانچہ 'اسلام پسند طبقہ' کے ترانوں اور نغموں میں آپ کو جا بجا موسیقی ملے گی۔
چونکہ اب ان کے ساتھ اس بحث کو تازہ کرنا میرا مقصد نہیں ہے اس لیے ان کا نام حذف کر دیا ہے۔ فیس بک پر بھی میں نے ان کے اس تبصرے کا براہ راست جواب نہ دے کر اپنے درجِ ذیل تبصرے کے ذریعے اس بات کی وضاحت کرنے کی کوشش کی تھی کہ علمائے ظواہر کی روایتی شریعت کی رو سے ذی روح کی تصویر اصلاً و دائماً حرام ہے: 
ڈیجیٹل کیمرے کی تصویرکی حرمت پر مفصل و مدلل فتویٰ‘‘ نامی کتاب میں اس کے مولف شیخ الحدیث مولانا مفتی سید نجم الحسن امروہوی نے ثابت کیا ہے کہ ہر قسم کی تصویر خواہ وہ ہاتھ سے بنائی گئی ہو یا کیمرے سے ’’اصلاً‘‘حرام ہی ہے ۔اس کتاب میں مولف کے حق میں دارالعلوم دیوبند اور ندوہ سمیت ہندوستان و پاکستان کے سولہ اہم روایتی دینی اداروں کے دارالافتا اور مفتیان کرام کے تصدیق نامے (ان کے اصل خطوط کی اسکین شدہ نقول) بھی موجود ہیں
دارالعلوم دیوبند کا اوریجنل فتویٰ کی اسکین شدہ نقل اس کتاب میں موجود ہے۔ کوئی بھی اس کو پڑھ کر معلوم کر سکتا ہے کہ گزشتہ چودہ سو سالوں سے علمائے امت نے بالاتفاق ہر قسم کی تصویر کو حرام ہی سمجھا اور کہا ہے:

’’دارالافتا دارالعلوم دیوبند (الہند) کا فتویٰ
بسم اللہ الرحمان الرحیم
مخدوم و مکرم گرامی مرتبت حضرت مہتمم صاحب زیدت معالیکم
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
آپ نے فتاوے ارسال کر کے دارالعلوم کا موقف معلوم کیا ہے اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ ڈیجیٹل سسٹم کے تحت اسکرین پر جو مناظر یعنی تصویر وغیرہ آتی ہے وہ سب شرعاً تصویر کے حکم میں ہیں۔ یہ سنیما کی تصویروں کے مثل ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ سنیما سے ریز سامنے سے ڈالی جاتی ہیں اور ٹی وی میں پیچھے سے، جو مفاسد سنیما کی تصویروں سے پیدا ہوتے ہیں وہی سارے مفاسد ٹی وی کی تصویروں سے بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے ان تصاویر کا دیکھنا شرعاً ناجائز قرار دیا جائے گا۔ دارالعلوم دیوبند کے ارباب افتا کا فتویٰ اور موقف یہی ہے البتہ شرعی ضرورت اور اضطرار کی حالت کے احکام اور ہوں گے۔ فقط والسلام علیم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
حبیب الرحمٰن عفا اللہ عنہ
مفتی دارالعلوم دیوبند
۲۸/۴/۱۴۳۰ ہجری
صحیح محمود حسن غفرلہ بلند شہری
الجواب صحیح فخرالاسلام عفی عنہ
الجواب صحیح وقار علی غفر لہ
زین الاسلام قاسمی نائب مفتی دارالعلوم دیوبند‘‘

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ علمائے ظواہر نے تصویر کشی و مجسمہ سازی کو ہر دور میں حرام قرار دیا ہے۔ حالانکہ ایک مسلمان سائنسداں ابن الہیثم نے ہی سب سے پہلے کیمرہ ایجاد کیا تھا۔ اگر مسلمان علما اور عوام وقت کے ساتھ شریعت میں تبدیلی کے قائل ہوتے تو ابن الہیثم جیسے سائنسدانوں کے علم سے فائدہ اٹھانے والا ان کے سوا کوئی دوسرا نہ ہوتا۔ یہ بھی ممکن تھا کہ وہ ابن الہیثم کے کیمرے کو ترقی دے کر جدید کیمرہ بنا لیتے اور آج میڈیا پر انہیں کا غلبہ ہوتا۔ لیکن بجائے اس کے کہ علمائے ظواہر ابن الہیثم کے سائنسی علم سے فائدہ اٹھاتے انہوں نے اس کی کتابوں کو کفر و الحاد کا پلندہ قرار دے کر جلا دیا۔
(Edited Content)
دارالعلوم دیوبند کا مذکورہ بالا فتوی درجِ ذیل لنک پر موجود کتاب میں دیکھا جا سکتا ہے (آپ یہاں سے وہ کتاب ڈاونلوڈ بھی کر سکتے ہیں):۔
  میرے اس تبصرے کا ایک دوسرے صاحب نے درجِ ذیل جواب دیا:۔
مسئلہ شریعت میں تبدیلی کا نہیں بلکہ فقہ اسلامی کی تجدید کا ہے .فقہ اسلامی شریعت کو سمجھنے کی انسانی کاوشوں کا نام ہے۔ خدا کی اتاری ہوئی شریعت اور انسانوں کے فہم دونوں میں فرق کرنا ضروری ہے۔
میں نے اس تبصرے کے جواب میں لکھا:۔
ایک حکم جو حدیث میں منقول ہو اس حکم کے مساوی ہے جو قرآن میں منقول ہے۔ پھر ایک میں تغیر کو اقتضائے زمانہ کے سبب جائز کر لینے (مثلاً تصویر) اور دوسرے (مثلاً عورتوں کو مارنے کے اختیار) میں اقتضائے زمانہ کے سبب کسی تغیر کو قبول نہ کرنے کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔ اللہ کے رسول سے ثابت شدہ حکم خود اللہ کا حکم ہے۔ قرآن میں بھی اللہ کے رسول ﷺ کی تشریعی حیثیت پر زور دیا گیا ہے۔ جب رسول نے بحیثیتِ شارع تصویر کو حرام قرار دے دیا پھر قدیم فقہی اصولوں کی رو سے اس کو تاقیامت حرام ہی سمجھا جائے گا۔ انسان اپنی محدود عقل کے ساتھ الٰہی شریعت کے مصالح کونہیں سمجھ سکتا۔ ہو سکتا ہے ایک چیز اس کو اچھی معلوم ہو اور وہ اس کے لیے مضر ہو، اور ہو سکتا ہے ایک چیز اس کو بری معلوم ہو ، وہ اس کے لیے اچھی ہو۔ مسئلہ ٔ تصویر میں بھی یہی بات ہے۔ اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار تصویر کو حرام فرما دیا تو اب اسے تاقیامت حرام ہی سمجھا جائے گا کیونکہ اللہ کے ساتھ ساتھ رسول کی حرام کی ہوئی چیزیں بھی ابدیت کا حکم رکھتی ہیں اور قرآن کے ساتھ ساتھ سنت بھی تاقیامت ہدایت اور رہنمائی ہے۔ اس حقیقت کبریٰ کو نظر انداز کر کے اگر رسول کے کسی حکم کو سیاقی نوعیت کا قرار دیا جا سکتا ہے تو یہی اصول اللہ کے حکم کے سلسلے میں بھی نافذ کرنا ہوگا کیونکہ قرآن ہو یا سنت، کسی ایک کے احکام کو ابدی اور دوسرے کو عارضی قرار نہیں دیا جا سکتا۔

حرمتِ تصویر و مجسمہ تو صرف ایک مسئلہ ہے۔ حرمت رقص و موسیقی دوسرا مسئلہ ہے، قتل مرتد تیسرا مسئلہ ہے، رجم چوتھا مسئلہ ہے، داڑھی کی فرضیت پانچواں مسئلہ ہے۔ اور ان کے علاوہ بھی متعدد ناقابلِ حل مسائل ہیں۔سنت ان تمام مسائل میں اگر عارضی یا سیاقی نوعیت کے احکام دیتی ہے تو قرآن کے سلسلے میں بھی یہی اصول اختیار کرنے میں کیا فکری غلطی ہے؟ اگر قتلِ مرتد کوئی سیاقی نوعیت کا حکم تھا تو قطعِ ید بھی ایک سیاقی نوعیت کا حکم ہے۔ اگر تصویر کا حرام ہونا کوئی سیاقی نوعیت کا حکم تھا تو ‘‘مرد کا عورت کو مارنے کا اختیار’’ بھی ایک سیاقی نوعیت کی رخصت تھی۔ عقل سلیم یہ کہتی ہے کہ اصولاً تبدیلی اگر ہونی چاہیے تو دونوں میں ہونی چاہیے، ورنہ کسی میں نہیں۔ یہی سبب ہے کہ علمائے اہل سنت و الجماعت متفق علیہ طور پر ابھی تک تصویر کو حرام قرار دے رہے ہیں کیونکہ اگر ایک مرتبہ انہوں نے حالات کے زیر اثر سنت سے ثابت شدہ احکام کو منسوخ کیا تو پھر قرآن سے ثابت شدہ احکام میں بھی حالات کے ہی زیر اثر تغیر و تبدل کی پوری گنجائش نکل آئے گی۔ مولانا مودودی بھی اس نکتے کو خوب اچھی طرح سمجھتے رہے ہوں گے۔ وہ نادان نہیں تھے کہ فوٹوگرافی اور ویڈیوگرافی جیسے سائنسی معجزے کو نظرانداز کرتے ہوئے مسلمانوں کو اس سے فائدہ اٹھانے سے منع کر دیں۔ وہ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ حکم خواہ وہ اللہ کا ہو یا محمد ﷺ کا، وہ دائمی اور ناقابل تغیر ہے۔ اگر ایک میں ’’دوام‘‘ اس اصول کو توڑا جائے گا تو دوسرے میں بھی ایسا ہی کرنے کا دروازہ کھل کر رہے گا۔

یہی وہ مصلحت ہے جس کے سبب دنیا کے تمام علمائے اہل سنت و الجماعت (چند ایک کو چھوڑ کر) اضطرار کی ایک دائمی حالت میں مبتلا نظر آ رہے ہیں۔ علمائے اہل سنت و الجماعت کے اسلام کو میں اضطراری اسلام کہتا ہوں جس سے نکلنا ان کے لیے تبھی ممکن ہے جب وہ دین و شریعت کے موجودہ منقولاتی تصور کے بجائے اس معقولاتی تصور کو اختیار کر لیں جس کو ائمہ اور فقہا نے نہیں بلکہ ابن سینا و ابن رشد جیسے فلاسفہ اور جلال الدین رومی جیسے صوفیا نے پیش کیا ہے۔
واضح رہے کہ شریعت میں وقت کے ساتھ تبدیلی آتی رہی ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جو شریعت تھی وہ آج مسلمانوں میں رائج نہیں ہے۔  میرے مذکورہ بالا تبصرے کے بعد دوسرے صاحب نے دین و شریعت کے اپنے منقولاتی تصور کی مدافعت میں یہ متجددانہ تاویل پیش فرمائی:
اس میں شک نہیں کہ اللہ کے رسول کا ہر دینی حکم قرآن کے حکم کے مساوی ہے مثلأ نماز کی ہیئت و رکعات، زکوِۃ کی مقدار، مناسک حج کی تفصیل وغیرہ۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ حدیث اور قرآن میں کوئی فرق نہیں۔ مذکورہ بالا امور کا تعلق در حقیقت سنت سے ہے جو امت کے عملی تواتر سے منتقل ہوئی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح قرآن امت کے قولی تواتر سے منتقل ہوا ہے۔ ان دونوں میں ثبوت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں قطعی الثبوت ہیں۔ البتہ حدیث کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ احادیث کا ذخیرہ اخبار آحاد پر مشتمل ہے جو ظنی الثبوت ہیں۔ اس میں سے کسی چیز کو اسی وقت قبول کیا جائے گاجب وہ قرآن، سنت، عقل وفطرت اور دیگر احادیث سے نہ ٹکراتی ہو۔

قرآن ایک منظم کلام ہے۔ اس کے الفاظ من جانب اللہ ہیں۔ لیکن حدیث کا بیشتر حصہ بالمعنی روایت ہوا ہے۔ اس کے نقل ہونے میں غلطی کا امکان ہے۔ راویوں کا فہم بھی اسے کچھ سے کچھ بنادے سکتا ہے۔ مزید یہ کہ حدیث میں پوری بات، سیاق و سباق کے ساتھ نقل نہیں ہوتی۔ حدیث کا فہم ایک مشکل کام ہے۔ مثلاْ ایک حدیث میں ہے کہ " جو اپنا مذہب تبدیل کرے اسے قتل کردو"۔ کیا اس حدیث سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ کوئی غیرمسلم اگر اپنا مذہب تبدیل کرلے اور اسلام لے آئے تو اسے قتل کردو۔ ہرگز نہیں۔ میں تصویر کے بارے میں احادیث کا انکار نہیں کرتا۔ میرا کنسرن صرف یہ ہے کہ ان احادیث کو ان کے ظاہری مفہوم پر محمول کر نے کے بجائے قرآن کو روشنی میں سمجھا جائے۔
رہی بات صوفیا اور فلاسفہ کے تصور کو قبول کرنے کی تو آپ شوق کے ان تصورات کے قبول کرسکتے ہیں مگر مذہب کو بیچ میں لانے کی کیا ضرورت ہے؟ مذہب سے اگر رہنمائی حاصل کرنی ہے تو معقولات اور منقولات یا مشرق و مغرب کی ہر بحث سے اوپر اٹھ کر یہ دیکھئے اور سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ ہمارا پرودرگار کیا کہتا ہے۔
میں نے اس کے جواب میں ایک طویل تبصرہ لکھا تاکہ دین و شریعت کے منقولاتی تصور کی غلطی واضح ہو سکے۔ میرا وہ تبصرہ درجِ ذیل ہے:۔

1

اہل سنت والجماعت کا متفق علیہ تصورِ شریعت یہ ہے کہ’’ رسول چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قانون سازی کا مجاز ہوتا ہے اس لیے اس کے ذریعے حرام یا حلا ل کی گئی چیزیں یا اس کے ذریعے دیے جانے والے احکام دراصل خدا ہی کی طرف سے ہوتے ہیں اور ان کی حیثیت عارضی نہیں بلکہ دائمی ہوتی ہے۔ اور اس اعتبار سے آیاتِ قرآنی اور احادیث نبوی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ قرآن اور حدیث کے متن میں فرق صرف اتنا ہے کہ قرآن تما م تر متفق علیہ ہے اور احادیث متفق علیہ نہیں ہیں۔لیکن جن احادیث کی صحت پر اتفاق ہو چکا ہے وہ حجت کا درجہ رکھتی ہیں خواہ وہ خبرِ واحد ہوں یا متواتر اور ان سے جو حکم نکالا جائے گا وہ دائمی ہی ہوگا، عارضی نہیں۔ تاویلات میں البتہ اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس کی بھی ایک حد ہے جس سے باہر جانے پر ایک شخص اہل سنت و ولجماعت سے خارج ہو جاتا ہے۔’’ ۔۔۔

روایت میں سہو اگر ایک شخص سے ہو سکتا ہے تو ایک سے زیادہ اشخاص سے کیوں نہیں ہو سکتا؟ کسی حکم منقول کے اثبات کے لیے سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ اسے نقل کرنے والے افراد کی ایمانی، اخلاقی اور ذہنی و فکری حالت ہمارے نزدیک قابل اعتبار ہے یا نہیں۔ کوئی حکم منقول ہمارے لیے تبھی قابل یقین ہو سکتا ہے جب اس کو بیان کرنے والا ہمارے نزدیک ان تینوں اعتباروں سے درست ہو۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ بڑی آسانی سے کسی راوی کےایمانی ، اخلاقی یا ذہنی کیفیت کے خلاف کوئی نہ کوئی متن پیش کر کے اس کی روایت کردہ حدیث کی صحت کو مشکوک قرار دے دیتے ہیں۔ اور یہی رویہ کسی حدیث کے ایک سے زیادہ راویوں کے متعلق بھی اپنایا جا سکتا ہے۔ یہی وہ سبب ہے کہ شیعہ اور سنی کتب احادیث الگ الگ ہیں۔ یہی نہیں جس چیز کو آپ‘‘ تواتر عملی ’’ کہتے ہیں وہ کیا کوئی متفق علیہ چیز ہے؟ عبادات کے متواترالعمل ہونے کے باوجود اس میں صدہا سال سے اختلافی سرپھٹول ہوتارہا ہےیا نہیں؟ عجیب حماقت ہے کہ عمل میں اختلاف کو تو اتحادِ امت کے جذبے سے سرشار لوگ برداشت کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں لیکن عقیدے میں اختلاف واقع ہوتے ہی وہ پھر اپنی تنگ نظری کا ثبوت دینے لگتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ خود اہل سنت و الجماعت کے مختلف فرقوں کی نمازیں مختلف ہیں۔ اصولاً تو یہی ہونا چاہیے تھا کہ جس طرح عملی عبادات میں اختلاف برداشت کیا جاتا ہے اسی طرح عقائد میں بھی برداشت کیا جاتا ۔ ہر فرقہ عمل اور عبادت میں دوسرے فرقہ سے مختلف ہے۔ اور جس طرح عقائد میں اختلاف کرنے سے الگ فرقہ بن جاتا ہے اسی طرح عبادات میں بھی اختلاف کرنے سے الگ فرقہ بن سکتا ہے، اور ماضی میں ایسا ضرور ہوا ہوگا۔ برداشت کرنا ہے تو عقائد اور عبادات دونوں میں اختلاف برداشت کیجیے ورنہ الگ فرقہ بن کر رہیے۔ اس صورت میں کسی دوسرے فرقہ کی تکفیر کا اختیار آپ کو نہیں مل جاتا۔ ورنہ امام احمد بن حنبل کو معتزلہ نے سرِ دربار جو کوڑے لگوائے تھے اسے غلط نہیں کہا جا سکتا کیونکہ معتزلہ ہی اس وقت ‘‘اسلام کیا ہے’’ اس کی تشریح کے مجاز تھے ۔ایک شخص اپنی ذاتی فکر کو مذہب کے حوالے سے پیش کرے یا لامذہبیت کے حوالے سے، کسی دوسرے شخص کو اسے روکنے کا حق نہیں پہنچتا۔

میں نے اپنے پچھلے تبصرے میں فلاسفہ و صوفیا کے تصور کو قبول کرنے کی بات کی تھی۔ جس کے جواب میں آپ نے لکھا ہے کہ‘‘ آپ شوق سے ان کا تصور قبول کیجیے لیکن مذہب کو بیچ میں لانے کی کیا ضرورت ہے؟ ‘‘۔۔گویا آپ کی نظر میں فلاسفہ و صوفیا کے تصورات مذہب کے دائرے سے خارج ہیں۔ آپ ایک اسلام پسند ہیں۔ اور آپ کے ایسے بیان سے یہ واضح ہو گیا کہ اگر اسلام پسندوں کو اس خطہ ارضی پر کہیں اقتدار نصیب ہوا تو وہ فلاسفہ و صوفیا کا تصورِ دین قبول کرنے والوں کو مذہب (یعنی اسلام) کا نام استعمال کرنے سے روک دیں گے۔ موجودہ سیکولر جمہوری دور میں تو اسلام پسندوں کی فکری جارحیت کا یہ حال ہے کہ وہ صوفیا و فلاسفہ کے تصورات کو مذہب کے دائرے سے خارج سمجھتے ہیں، لیکن جب ان کے خوابوں کی اسلامی ریاست قائم ہوگی تو وہ ضرور بالضرور صوفیا و فلاسفہ کے تصورات کو مذہبی (یا اسلامی) تصورات سے موسوم کرنے پر قانونی پابندی لگا دیں گے ۔ اور جو اس کی خلاف ورزی کرتا نظر آئے گا اس کو مجرم قرار دے کر کوڑے لگوائیں گے۔ اگر اسلام پسندوں کا یہ جارحانہ اصول صحیح تسلیم کیا جائے تو پھر اسی بنا پر اعتزال پسند خلفائے عباسیہ کا اپنے عقیدہ ٔ خلق قرآن کو حق و باطل کا معیار بنا کر علما و صلحا کو قتل کرنا بھی درست قرار پائے گا۔

آپ ایسے اسلام پسندوں کا موجودہ نظریۂ دین و شریعت یہ ہے کہ اسلامی ریاست اسلام کیا ہےاور کیا نہیں ہے اس کو بھی طے کرنے کی مجاز ہوگی۔ گویا اسلام پسندوں کے نظریے کی رو سے حق وہ ہے جو مقتدر طبقے کے دل و دماغ سے پیدا ہو۔ اگر آپ کے اس اصول کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو پھر جب میں اقتدار میں ہوں گا تو ‘‘اسلام کیا ہے’’ اس کی تشریح کا اختیار بھی صرف مجھے ہی ہوگا، آپ کو نہیں۔ پھر اسی اصول کی رو سے میرے اس اسٹیٹس کے نیچے اسلام کی ایک تعریف متعین کرنے کا اختیار صرف مجھے ہی حاصل ہے۔ پس، میں کسی بھی وقت آپ کے غیر اسلامی تبصروں کو کفر و الحاد کا پلندہ قرار دے کر حذف کر سکتا ہوں۔ (یہ اور بات ہے کہ میری نظر میں ہر وہ شخص مسلمان ہے جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہو )۔

قانون کے زور پر اسلام کی ایک محدود تعریف متعین کرنے کی یہی وہ بنیادی خرابی ہے جو صدہا سال سے مسلمانوں کے علمی و فکری زوال کا سبب ہے۔ اس خرابی کو جب تک دور نہ کیا جائے تب تک کسی بھی قسم کی فکری گفتگو بار آور نہیں ہو سکتی، بلکہ ایسی صورت میں سرے سے کوئی فکری بحث منعقد نہیں ہو سکتی۔آخر اس شخص سے کیا بحث ہو سکتی ہے جو مجھے اسلام کا نام استعمال کرنے سے منع کر رہا ہو اور اپنی صحیح العقیدگی کے زعم میں مجھے کافر و ملحد خیال کرتا ہو؟ البتہ وہ مجھے راہِ راست پر لانے کے لیے مناظرہ کر سکتا ہے۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ اسلامی فرقے صدہا سال سے اپنی علمی و فکری صلاحیتیں اسی مناظرانہ کٹ حجتی میں ضائع کرتے رہے ہیں۔

آپ کا یہ کہنا کہ ‘‘رہی بات صوفیا اور فلاسفہ کے تصور کو قبول کرنے کی تو آپ شوق کے ان تصورات کے قبول کرسکتے ہیں مگر مذہب کو بیچ میں لانے کی کیا ضرورت ہے؟’’ ایک حدرجہ تحکمانہ رائے ہے جس سے تکفیر کی بو آتی ہے اور تفکیر کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ اس پر مزید یہ تبلیغی و دعوتی ردا چڑھانا کہ ‘‘مذہب سے اگر رہنمائی حاصل کرنی ہے تو معقولات اور منقولات یا مشرق و مغرب کی ہر بحث سے اوپر اٹھ کر یہ دیکھئے اور سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ ہمارا پرودرگار کیا کہتا ہے’’ یہ دراصل پہلے ہی یہ باور کر لینا ہے کہ ‘‘پروردگار کیا کہتا ہے’’ اس سے صرف آپ باخبر ہیں۔ یہ گویا دورانِ بحث چھلانگ لگا کر ایک بلند تر فکری مقام پر جا بیٹھنا اور وہاں سے نصیحت کرنے لگنا ہے کہ آپ اپنے ‘‘پالنےوالے’’ سے رجوع کیجیے جو آپ نہیں کر رہے! یہ گویا خود کو خدا کا مشکور و ممنون سمجھنا اور مخالف کے کفرانِ نعمت کے مرتکب ہونے کا جھانسادینا ہے۔

2

مذہبی احکام و قوانین میں سے کس کو بہ اعتبار زمانہ برقرار رکھنا ہے اور کس کو نہیں، اس کا فیصلہ ماضی کے علم منقول سے نہیں بلکہ حال کے علمِ معقول سے کیا جائے گا۔ اور علم منقول کا حقیقی استعمال عہدِ رسالت میں ظاہری قوانین میں پوشیدہ مقاصدِ شرع کو معلوم کرنے سلسلے میں کیا جائے گا نہ کہ بذات خود ظاہری قوانین کو مسلط کیا جائے گا۔ شریعت کا ایک باطن ہوتا ہے اور ایک ظاہر۔ پیروی اس کے باطن کی ہوگی نہ کہ ظاہرکی۔ ترتیب یوں ہو گی کہ ظاہر ی احکام کو دیکھ کر اس کے باطنی مقاصد پر قیاس کیا جائے گا اور زمانہ ٔ موجودہ و آئندہ کے لیے نئے احکامِ ظواہر کی تخلیق کی جائے گی۔ اس اعتبار سے ہر دور میں رائج شریعت اپنے باطن میں شریعت اسلامی ہی ہوگی۔ اس بات کو ہمیشہ ملحوظ رکھنا ہوگا کہ تکمیل دین کی ہوئی ہے شریعت کی نہیں۔
آخر دلائل نقلیہ سے کیونکر یہ ثابت ہو سکتا ہے کہ تصویر حرام نہیں ہے جب تک کہ عقل کو حجتِ قطعی جان کر اس سے یہ فتویٰ نہ لیا جائے کہ زمانہ ٔ موجودہ و آئندہ میں نقل کے بظاہر خلاف عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر جب ایک قسم کی نصِ شرعی یعنی حدیث کے بظاہر خلاف عمل کرنے کے لیے آپ تیار ہیں تو پھر دوسری قسم کے نصِ شرعی یعنی قرآن کے بظاہر خلاف عمل کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ حرمت تصویر کے سلسلے میں جب عمل حدیث کے ظاہری الفاظ پر نہ ہو کر اس کے مقصد پر ہوگا تو یہی رویہ قرآن کے ظاہری الفاظ کے ساتھ کیوں نہیں اپنایا جا سکتا؟ تصویر کے سلسلے میں احادیث کے ظاہری الفاظ سے بالکل واضح ہے کہ مصور اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی طرح ایک تخلیق کی کوشش کرتا ہے۔لیکن موجودہ زمانہ میں تصویر کو جائز قرار دے کر ایک حکم منقول کے ظاہری پہلو کا انکار تو آپ ایسے متجددین بھی کرنے پر مجبور ہیں لیکن آپ کے ہاں یہ اصول کا درجہ نہیں رکھتا۔
نقل کی دو قسمیں ہیں، ایک بہ شکل تحریر، دوسری بہ شکل تعمیل (جس کو عملی تواتر کہا جاتا ہے)۔ امتدادِ زمانہ کے مدِ نظر تحریری و تعمیلی دونوں قسموں کی نقول سے ظاہری انحراف تبھی کیا جا سکتا ہے جب عقل اس کا فتویٰ دے دے۔ اس لیے میری نظر میں نقل کے بجائے عقل حجتِ قطعی ہے ۔ فلاسفہ ٔ اسلام کا مذہب بھی یہی ہے کہ نقل کےبجائے عقل حجت ہے۔ رہی بات فقہا کے مذہب کی تو وہاں عقل کے بجائے نقل کو حجت مانا جاتا ہے۔ جب خود مذہب کی دو راہیں عقلی و نقلی معلوم و معروف ہیں تو بالذات ‘‘مذہب ’’ کو بیچ میں نہ لانے کاآپ کا فتویٰ معتبرنہیں ہے ۔
آپ تو مذہب کو‘‘ بیچ میں نہ لانے ’’کی بات کچھ اس طرح کہہ رہے ہیں کہ فلاسفہ و صوفیا مذہبِ اسلام کے دائرے سے خارج ہوں! اگر آپ کی نظر میں اسلامی فلاسفہ کافر ہیں تو ان کو نہ اسلامی فلاسفہ کہنا چاہیے اور ان کےعلمی و سائنسی کارنامے کو اسلام اور مسلمانوں کا کا رنامہ سمجھنا چاہیے۔ کیا آپ قادیانی سائنسداں ڈاکٹر عبدالسلام کے کارنامے کو اسلام یا مسلمان کا کارنامہ قرار دے سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر یہی اصول فارابی ، ابن سینا اور رازی کے سلسلے میں بھی کیوں نہیں اپناتے؟ لیکن جب آپ ایسے اسلام پسند یہ اصول اپنائیں گے تو ‘‘عالم اسلام میں فلسفہ و سائنس کی ترقی ’’کا دعویٰ یکسر غلط ہو کر رہ جائے گا۔

 3

کسی موقع پر بارگاہ رسالت میں حاضر ایک سے زیادہ راوی بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی قول یا عمل اور اس کے سیاق و سباق کو مکمل طور پر بیان نہیں کر سکتے۔کوئی حدیث خواہ کتنی ہی متواتر ہو ہمیشہ ظنی و قیاسی نوعیت ہی کی ہوتی ہے۔ اس لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت جو ہم تک پہنچی ہے وہ بالذات کوئی قطعی اور یقینی چیز نہیں ہے خواہ اس کو پہنچانے والا ایک شخص ہو یا ایک سے زائد۔
قرآن کا متن قطعیت رکھتا ہے اور احادیث کے متون ویسی قطعیت نہیں رکھتے۔ اقوال و اعمالِ رسول یا سنت کی ترسیل راویوں کی ذہنی و فکری استعداد پر منحصر کرتی ہے اور ہم تک پہنچتے پہنچے ان کے الفاظ و معانی ظنی و قیاسی نوعیت کے ہو جاتے ہیں کیونکہ روایتِ حدیث میں انسانی ذہن کا عام طور پر خطا کرنا ایک قطعی اور ناگزیر بات ہے۔
روایتِ حدیث میں انسانی ذہن کا خطا کرنا خبر واحد اور متواتر ہی سے نہیں بلکہ تواترِ عملی سے بھی ثابت ہے۔ نماز جیسی متواترالعمل عبادت کا مختلف فیہ ہو جانا ہی اس حقیقت کو کھول کر رکھ دیتا ہے۔ اور نمازکی ظاہری شکلوں میں اختلاف کی رخصت کسی نصِ صریح سے ثابت نہیں۔ یعنی کوئی نص ایسی نہیں پائی جاتی جو اس معنی میں صریح ہو کہ نمازوں کی موجودہ تمام شکلیں جائز ہیں۔(نماز کی ایک شکل رفع یدین والی ہوئی اور دوسری بغیر رفع یدین والی) ۔ پس یہ ثابت ہوا کہ احکام سنت خواہ اخبارِ آحاد سے معلوم ہوں یا اخبارِ متواترہ سے یا تواترِ عملی سے ان میں کامل قطعیت کبھی پائی ہی نہیں جا سکتی الا یہ ہم حسنِ ظن سے کام لینے پر خود کو مجبور پائیں۔
لیکن جیسا کہ معلوم ہے کہ تمام تر آیاتِ قرآنی کی صحت متفق علیہ ہے (باوجود اس حقیقت کے کہ عبد اللہ بن عباس معوذتین کو قرآن کا حصہ نہیں مانتے تھے،تفہیم القرآن) اور اس اعتبار سے کتاب اللہ قطعیت کی حامل ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو کچھ رسول تمہیں دے اسے لے لو، اور جس چیز سے روکے اس سے رک جاو۔ اوپر ثابت ہوا کہ تمام تر احادیث مع سنت متواترہ اور تواتر عملی کی نوعیت قطعی نہیں بلکہ ظنی ہے۔ یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک قطعی متن (قرآن ) اپنے قاری کو ظنی نوعیت کے دوسرے متن (حدیث) کی طرف کیوں پھیر دیتا ہے؟
کیا اللہ تعالیٰ سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ایک قطعی الثبوت متن میں ایک ظنی الثبوت متن سے استفادہ کا حکم دے، جس سے احکام کی تخریج میں صدہا سال تک باہمی سرپھٹول اور مار دھاڑ ہوتی رہے اور اسلامی فرقے ایک دوسرے کو قتل کرتے رہیں؟ ظاہر ہے عقل کا جواب ہو گا نہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ قرآن حکیم کا یہ فرمانا کہ اللہ کا رسول جو کچھ تمہیں دے اسے لے لو، اور جس چیز سے روکے اس سے رک جاو، ایک ایسا حکم تھا جو عہد رسالت اور بڑی حد تک عہدِ صحابہ کے لیے ہی مخصوص ہو سکتا تھا۔ عہد رسالت میں ‘‘سنت رسول ’’ کتاب اللہ ہی کی طرح ایک قطعی اور یقینی چیز تھی ۔ اور اس صورت میں اگر ایک قطعی متن (قرآن) دوسرے قطعی متن (اقوال و اعمالِ رسول یا سنت ) کی طرف رجوع کرنے کا حکم دے رہا تھا تو یہ بالکل ایک قابل عمل صورت حال تھی۔ اس دور میں ہر شخص چاہتا تو اللہ کے رسول ﷺ سے کسی امر کی دریافت کر سکتا تھا۔ لیکن آنحضورﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد چونکہ حدیث ظنی و قیاسی نوعیت کی چیز ہو گئی، اس لیے عہدِ رسالت کے بعد بھی یہ سمجھتے رہنا کہ قرآن کا ‘‘قطعی الثبوت’’ متن احادیث کے ‘‘ظنی الثبوت ’’ متن سے رجوع کرنے کو کہہ رہا ہے، ایک فلسفیانہ غلطی ہے اور عہد رسالت کے بعد سے جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھتا رہا ویسے ویسے یہ غلطی شدید سے شدید تر ہوتی چلی گئی۔

بہ الفاظ دیگر، قرآن کی صحت اگر شک سے بالا تر ہے تو اسے کسی ایسے متن کی طرف رجوع کرنے کا حکم دینا چاہیے جس کی صحت ٹھیک قرآن ہی کی طرح شک سے بالا تر ہو۔ عہد رسالت بلکہ صدر اول تک یہ ممکن تھا لیکن اس کے بعد یہ قطعی ممکن نہیں رہا ہوگا کہ سنت کو شک سے بالا تر سمجھا جا سکے۔ اس لیے قرآن کے اس حکم کو عہدِ رسالت تک کے لیے خاص سمجھا جائے گا نہ کہ تمام زمانوں کے لیے۔

4

پس ایک اصول معقول یہ ہوا کہ شریعت کو بالکل واضح ہونا چاہیے اور اس میں احادیث و استناد کا ایسا جھگڑا نہیں ہونا چاہیے جس سے وہ ہمیشہ کے لیے مشتبہ ہو کر رہ جائے ۔ اس اصولِ معقول کو درجِ ذیل مثال سےمزید سمجھا جا سکتا ہے:
اگر موجودہ دور میں ایک شخص ایک تقریر کرے اور اس کے سامنے دس آدمی ہوں اور وہ اس کی تقریر کے مختصر نوٹس بھی لیتے جائیں تب بھی وہ سب مل کر پوری تقریر کو صرف ایک گھنٹے بعد من و عن نقل نہیں کر سکتے۔ یہی نہیں وہ اس شخص کے احوال و کیفیات اور سیاق و سباق سے متعلق معلومات پر بھی عبور حاصل نہیں کر سکتے۔ لیکن اگر وہ شخص ان کے درمیان موجود رہے تو بار بار اپنی تقریرکی تشریح کرے گا جو حجتِ قطعی اس بات پر ہوگی کہ اس کا اصل منشا کیا تھا۔ اس کے انتقال کے بعد چونکہ تشریح و تفسیر کا مستند ذریعہ بالذات موجود نہیں رہا، اس لیے اس کے متبعین میں سے کسی ایک یا چند اشخاص کو یہ حق نہیں ہو سکتا کہ وہ اس کی تشریح کا ٹھیکہ صرف اپنے سر لے لیں اور بقیہ لوگوں کو اس سے محروم کر دیں۔ ہر فرد کو اس کی تقریروں کی تشریح کی مکمل آزادی اور اس کی تبلیغ کا مکمل حق ہوگا۔ جو لو گ اس کو ماننا چاہیں گے مانیں گے، نہ ماننا چاہیں گے نہ مانیں گے۔ اور یکساں تشریح کرنے والے افراد ایک ایک فرقہ کی شکل میں باہم متحد ہوں گے۔ تمام فرقوں کے درمیان اگر باہمی رواداری ہو گی تو وہ ایک دوسرے کی ناقدانہ تکفیر کے بجائے ایک دوسرے پر محققانہ تبلیغ کریں گے۔
اس مثال سے ایک سلیم الفطرت شخص سمجھ سکتا ہے کہ حق تک پہنچنے کے لیے تکفیر کے بجائے تبلیغ کا رویہ اپنانا مستحسن ہے۔ لیکن چونکہ ملت اسلامیہ کے جمہور علما تبلیغ کی ناکامی کے بعد تکفیرکرنے لگتے ہیں، اس لیے ‘‘امتِ واحدہ’’ کے جمہور فرقوں کی گمراہیاں درحققیت ناقابلِ اصلاح ہیں۔ ملت اسلامیہ میں معتزلہ جیسے ‘‘باطل فرقے’’ قیامت تک موجود رہیں گے اور ملت اسلامیہ کو حق و باطل کی باہمی کش مکش اور خون خرابہ سے اگر محفوظ رکھنا ہے تو سب سے پہلے فتاوائے کفریہ کی لہلہاتی ہوئی فصل کو جلا کر راکھ کر دینا ہوگا تاکہ اس کی جگہ پر ایمان و یقین کی مطلوبہ فصل اگائی جا سکے۔

5

آپ نے لکھا ہے:
‘‘احادیث کا ذخیرہ اخبار آحاد پر مشتمل ہے جو ظنی الثبوت ہیں۔ اس میں سے کسی چیز کو اسی وقت قبول کیا جائے گاجب وہ قرآن، سنت، عقل وفطرت اور دیگر احادیث سے نہ ٹکراتی ہو۔’’

گویا آپ کے نزدیک صرف ‘‘خبر واحد پر مبنی احادیث’’ سے کام لے کر حکم شرعی ثابت نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ ظنی الثبوت ہیں۔ان کے ساتھ ساتھ قرآن ، سنت اور عقل و فطرت سے کام لینا بھی لازمی ہے۔
احادیث سنت سے الگ نہیں ہیں۔ احادیث قرآن کی تشریح مزید بھی ہیں اور ان باتوں کا حکم بھی دیتی ہیں جو قرآن میں موجود نہیں ہیں۔ ‘‘ عقل’’ قرآن یا سنت کے مستند احکام ِ منقول کو قبول کرنے سے انکار نہیں کر سکتی کیونکہ انسانی عقل محدود ہے جو احکامِ الٰہی یا فرمانِ نبوی کے وسیع تر مصالح کو اپنی گرفت میں نہیں لے سکتی۔البتہ عقل کو صرف اس حد تک اجازت ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ موجودہ سچویشن کیا ہے اور ایسی سچویشن میں اللہ کے رسول کی سنت سے کیا حکم نکلتا ہے۔ مثلاً ایک شخص اسلام ترک کردیتا ہے تو اس کو پہلے توبہ کی مہلت دی جائے گی اور رجوع نہ کرنے پر قتل کر دیا جائے گا۔ ‘‘فطرت’’ بالکل ایک غیر واضح اور مبہم لفظ ہے۔ فطرت کا حوالہ دے کر کسی حدیث سے برامد ہونے والے حکم کو قبول کرنے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
الغرض عقل اور فطرت کو کسی احکام منقول کو رد یا اس کو اسلامی قانون کی ایک دفعہ ماننے سے انکار کا حیلہ نہیں بنایا جا سکتا۔اہل سنت و الجماعت کے تصورِ شریعت کی رو سے عقل کی اپنی محدود اہمیت ہے،اور جو کچھ کہ منقول ہے، عقل یا فطرت اس کی حجیت سے انکار نہیں کر سکتی۔ موزوں سچویشن میں اس پر لازماً عمل درآمد کرنا ہوگا کیونکہ سنت دائمی اور ابدی ہدایت ہے۔
اگر اللہ تعالیٰ آنحضورﷺ کو دائمی تشریعی اختیارات عطاکرتے ہوئے مومنوں سے یہ کہتا ہے کہ رسول جو کچھ تمہیں دے اسے لے لو اور جس چیز سے روکے اس سے رک جاو، تو پھر آنحضور ﷺ کے احکامات آخر کہاں پائے جائیں گے؟ احادیث میں ہی نہ؟ پھر اس صورت میں داڑھی جیسے ایک مسئلے میں احادیثِ صحیحہ و مصدقہ سے برامد ہونے والے ظاہری احکام سے اگر آپ انکار کریں گے (جو آپ انکار کرتے معلوم ہوتے ہیں) تو پھر ا س سلسلے میں احادیث سے برامد ہونے والے احکام دائمی نوعیت کے کہاں رہے؟ وہ تو عارضی نوعیت کے ہو گئے! (واضح رہے کہ یہ بات میں اس مفروضے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ حرمت تصویر اور قتل مرتد سے منکر آپ ایسے حضرات کے نزدیک داڑھی رکھنا بھی دینی یا شرعی اعتبار سے ضروری نہیں ہو سکتا)۔
پس آپ کے متجددانہ فقہی اصولوں کی رو سے حدیث کوئی ابدی ہدایت ثابت نہیں ہوتے ہیں۔ کیونکہ احادیث سے معروضی طور پر برامد ہونے والے احکامات (مثلاً داڑھی)سے پیچھا چھڑانے کے لیے آج آپ احادیث کے ظنی الثبوت ہونے پر زور دے رہے ہیں ۔۔۔۔۔ان کو قبول کرنے کے لیے عقل و فطرت کی لازمی شرط لگا رہے ہیں ۔۔۔۔۔ اس لیے ایسے احکامات سے متعلق احادیث اب غیر دائمی ہو گئیں!جبکہ قرآن سے ان کا ابدی ہونا ثابت ہے!

6

ااخبار آحاد کی اہمیت کو ظنی الثبوت کہہ ان کے حجت نہ ہونے کا تاثر دینا ایک گمراہی ہے۔ علمائے ظواہر کے تصورِشریعت کے مطابق اس سے اسلامی نظامِ قانون چوں چوں کا مربہ بن جاتا ہے۔ اخبار آحاد کی حجیت کو چند گمراہ فرقوں کےسوا تمام فقہائے امت نے ماضی و حال میں تسلیم کیا ہے۔ یہ بھی ایک قسم کا عملی تواتر ہی ہے۔اما مِ اعظم اپنے قیاس کے مقابلے میں ضعیف احادیث تک کوترجیح دیتے تھے۔ 
درج ذیل لنک پر جائیں: 
http://www.mohaddis.com/nov2012/1348-khabar-e-wahid-hadees-e-nabvi-ki-hujiyat-ko-tamul-e-ummat-hasal-he.html 

آپ نے لکھا ہے: 
‘‘اس میں شک نہیں کہ اللہ کے رسول کا ہر دینی حکم قرآن کے حکم کے مساوی ہے مثلأ نماز کی ہیئت و رکعات، زکوِۃ کی مقدار، مناسک حج کی تفصیل وغیرہ۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ حدیث اور قرآن میں کوئی فرق نہیں۔ مذکورہ بالا امور کا تعلق در حقیقت سنت سے ہے جو امت کے عملی تواتر سے منتقل ہوئی ہے، بالکل  اسی طرح جس طرح قرآن امت کے قولی تواتر سے منتقل ہوا ہے۔ ان دونوں میں ثبوت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے۔’’

قرآن اور امت کے تواتر عملی میں ثبوت کے اعتبار سے بہت فرق ہے جس کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ امت کا تواتر عملی کوئی قطعی الثبوت چیز نہیں ہے ورنہ نماز جیسی اہم ترین عبادت میں اس قدر شدید اختلافات نہ ہوتے۔ امت کا تواترِ عملی اس کے تواتر قولی (جس میں تقریرو تحریر دونوں شامل ہیں) کے مساوی نہیں ہے۔ کیونکہ عبادات وغیرہ کے عملی تواتر میں اختلاف ہو سکتا ہے لیکن کتاب اللہ کے قولی تواتر میں کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا۔پھر آپ کا یہ فرمانا کہ کتاب اللہ اور امت کے تواتر عملی میں ‘‘۔ثبوت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے’’ بالکل غلط ہے۔ 

دراصل ’’عملی تواتر‘‘ کا یہ فلسفہ گھڑ کر اخبارِ آحاد سے معلوم ہونے والے احکام ِ شرعیہ سے نجات حاصل کرنا مقصود ہے۔لیکن عملی تواتر کے اس فلسفے کی کمزوری ذرا سے غور و فکر کے بعد سمجھ میں آ جاتی ہے۔ کیا امت مسلمہ کی چودہ سو سالہ قانونی مشقوں سے قتلِ مرتد اور رجم جیسے قوانین کا ‘‘عملی تواتر’’ معلوم و ثابت نہیں ہوتا؟ اور کیا عملی تواتر کی رو سے ہی داڑھی کی فرضیت، مصوری و مجسمہ سازی کی حرمت ثابت نہیں ہوتی؟ پھر امت کے ایسے ‘‘تواتر عملی’’ کے خلاف کوئی ایسی نص آپ کیونکر لا سکتے ہیں جس کے سیاق و سباق کو ہی آپ نے غلط سمجھ لیا ہو؟ مثلاً قتل مرتد کے تواتر عملی کے خلاف ‘‘لا اکراہ فی الدین ’’ کی قرآنی آیت کو ہر گز نہیں لایا جا سکتا کیونکہ اس آیتِ مبارکہ کا منشا وہ نہیں ہے جو آپ اس کو پہنانا چاہتے ہیں۔ علاوہ ازیں، قتل مرتد کی متواتر قانونی مشقوں کے خلاف چند استثنائی صورتوں کا حوالہ دے کر انہیں معمول بہ نہیں بنایا جا سکتا۔

 7

قتل مرتد،سزائے رجم اور دیگر متواتر قانونی مشقوں (مثلاً حرمت تصویر) سے نجات حاصل کرنے کی غرض سے فقہ کی تشکیل ِ جدید کی بات کرتے ہی ذہن میں خود بخود ایسے سوالات پیدا ہونے لگتے ہیں کہ ‘‘ڈیڑھ ہزار سال تک چند باطل فرقوں کو چھوڑ کر تمام علما و فقہا کا جو متفقہ تصورِ دین و شریعت تھا کیا وہ بالکل غلط تھا؟ اور اپنے اسی غلط تصور کے نتیجے میں تمام علما و فقہا بشمول اسلامی عدالتیں مرتدوں کو قتل، شادی شدہ زانیوں کو سنگسار کرنے کا حکم دیتی رہیں؟ یہی نہیں، رقص و موسیقی اور تصویر و مجسمہ اور داڑھی منڈانے تک کو حرام کر دیا گیا؟ گویا اہل سنت و الجماعت کے ائمہ و مجتہدین شریعت کے نام پر چودہ سو سالوں تک جو کچھ کرتے رہے وہ سب اسلام اور قرآن و سنت کے خلاف تھا؟ اور آپ ایسے حضرات جو فقہِ اسلامی کی تشکیل جدید کا نعرہ بلند کررہے ہیں، ان کے افکار عین مطابقِ سنت ہیں؟

جمہور ائمہ و فقہا کی یہ کیسی ‘‘متواتر ’’ شریعت تھی جو چودہ سو سالوں تک اس قدر غلط سمجھی گئی کہ جن لوگوں کو قتل یا سنگسار کرنے کی اجازت نہیں تھی ان کو اس قدر طویل زمانے تک اسلامی عدالتوں کے ذریعے اللہ کے قانون کے نام پر قتل اور سنگسار کیا جاتا رہا اور آج تک کیا جا رہا ہے؟ ایک طرف اسلام اللہ کی طرف سے بھیجا گیا دین مبین ہو اور اس کے شرعی قوانین کو تمام علما یا کم از کم جمہور علما اس قدر غلط سمجھ لیں کہ قتل مرتد ،سزائے رجم، حرمت تصویرو مجسمہ، حرمت رقص و موسیقی جیسے اتنے بڑے بڑے قوانین سو دو سو سالوں تک نہیں بلکہ ڈیڑھ ہزار سالوں تک غلط سمجھے جاتے رہیں؟ آپ کس تواتر عملی کی بات کر رہے ہیں؟ قوانین شرعیہ کے باب میں تواتر عملی تو یہی ہے نہ جو ماضی و حال کی تاریخ سے قطعی طور پر ثابت ہے۔ پھر اس تواتر عملی کو آپ کیوں نہیں ماننا چاہتے؟ اپنے من سے تواتر عملی کی ایک قسم کو تسلیم کرنے اور دوسری قسم کو رد کر دینے کی شرعی دلیل آخر کیا ہو سکتی ہے؟ اہل سنت و الجماعت کے نقطہ ٔ نظر سے کہہ رہا ہوں کہ خدارا دین کی جو بنیادیں ہیں ان کو منہدم نہ کریں۔

پھر اس طرح کے سوالات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ جدید مغربی ذہن و تہذیب کے غلبہ و استیلا کے موجودہ دور میں ہی مذکورہ تمام احکامات کو بدلنے کی بات کیوں کی جا رہی ہے؟ اور وہ کون لوگ ہیں جو ان احکام میں تبدیلی چاہتے ہیں؟ ظاہر ہے یہ اہل سنت و الجماعت کے جمہور علما و فقہا نہیں ہیں بلکہ صرف مٹھی بھر لوگ ہیں جو مغربی ذہن و تہذیب سے حد درجہ متاثر و مرعوب ہو گئے ہیں۔مغربی دور کے پیدا کردہ موجودہ عقلی و علمی ماحول کے سبب ہی تو انہیں سزائے رجم اور قتل مرتد جیسے قوانین ناقابل برداشت معلوم ہوتے ہیں۔ اور محض اسی لیے وہ چودہ سو سالوں سے چلی آرہی اہل سنت و الجماعت کی متواتر فقہ کو بدل ڈالنے کے درپے ہیں تا کہ ایسے تکلیف دہ قوانین سے نجات حاصل کرسکیں۔

اور آج بھی چند متجددین کو چھوڑ کر تمام علمائے اہل سنت و الجماعت قتل مرتد، حرمت تصویر، رجم، داڑھی کی فرضیت جیسے احکام و قوانین پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر آپ علمائے اہل سنت کے ایسے اجماع سے مختلف رائے رکھتے ہیں تو آپ کو اپنے نقطہ ٔ نظر کو اسلام کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ شوق سے اسلام کے دائرے سے باہر نکل جائیے اور پھر اجتہاد فرمائیے۔ چودہ سو سالوں سے چلی آتی قتل مرتد کی اسلامی روایت کی تغلیط اور تصویر کی حرمت کے خلاف لب کشائی صریح مغرب زدگی ہے۔ اگر آپ کو ایسا اجتہاد کرنا ہی ہے تو ایک نیا مذہب ایجاد فرمائیے۔ اسلام کے نام سے دنیا کو دھوکا دینے کی کیا ضرورت ہے؟
 اس کے بعد پھر کسی نے تبصرہ نہیں کیا۔ دین و شریعت کے روایتی تصور کی اصلاح کا کام تبھی ہو سکتا ہے جب کھلے ذہن کے ساتھ دنیا اور اس اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔

(اس پوسٹ میں نقل اقتباسات کو زبان و بیان کے اعتبار سے اڈٹ کیا گیا ہے۔ فرصت ملی تو ادارتی نقطہ نظر سے مزید حذف و اضافہ کروں گا تا کہ دلائل انتہائی وضاحت کے ساتھ سامنے آ سکیں۔ طارق صدیقی)

اتوار، 5 مئی، 2013

ادارت کا فن اور اس کے مراحل

کوئی بھی انسانی کارنامہ اپنی تمام تر خوبیوں کے باوصف تسامحات، غلطیوں اور فروگزاشتوں سے مبرا نہیں ہوتا۔ اس میں کسی نہ کسی سطح پر اور کسی نہ کسی حد تک خطا کا امکان بہرحال پایا جاتا ہے اور یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ خامیوں سے یکسر محفوظ ہے اور اس میں کسی بھی نقطہ نظر سے حذف و اضافہ، تصحیح یا ترتیب و تہذیب کی ضرورت نہیں۔زندگی کے مختلف شعبوں میں انسانی کارناموں کو نقائص سے ممکنہ حد تک پاک کرنے اور انہیں ایک زیادہ مکمل شکل دینے کی غرض  سے مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں۔علوم و فنون کے متعدد شعبوں  میں ادارت ایسا ہی ایک طریقہ ہے جو علم و ادب سے متعلق  متعدد اصناف کی تصحیح و تکمیل کے لیے ابتدا ہی سے  اپنایا جاتارہا  ہے۔ موجودہ دور میں دیگر علوم و فنون کی طرح ادارت کے فن نے بھی بڑی ترقی کی ہے جس کے نتیجے میں وہ ایک منظم ، باضابطہ اور باقاعدہ فن کے طور پر تسلیم کیاجاتا ہے۔فی زمانہ ادارت کاعمل الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے میں جاری و ساری  ہے  اورعلمی و فکری کارناموں اور اخباری صحافت کے علاوہ  فلم ، ریڈیو اور ٹیلی وژن  کی دنیا میں بھی اس فن کا دور دورہ ہے۔ لیکن ذرائع ابلاغ کی مختلف اصناف اور ہیئتوں میں  فن ادارت کی اپنی منفرد اور جداگانہ اہمیت ہے۔ مثلاً فلم اور ڈاکیومنٹری کی صنف میں ادارت  بعینہ وہی چیز نہیں ہے جو جو صحافت کے شعبے میں ہے ۔ وہاں اس کا تصور، اس کا ضابطہ ٔ اخلاق ، اس کے حدود کار اور اس کے مراحل بہت دوسرے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ صحافت کی دنیا میں مدیروں کو وہی اختیارات حاصل ہیں جو فلمی دنیا میں ہدایت کاروں کو۔ لیکن فن ادارت کی مختلف شعبوں اور اصناف میں اس کی حیثیت و نوعیت سے انتہائی حد  تک صرف نظر کرتے ہوئے ہم یہاں علم و فکر، شعروادب ، ترجمہ اور صحافت کی دنیا میں فن ادارت  اور اس کے مختلف مراحل کا جائزہ لیں گے۔
ادارت ‘ عربی کے لفظ ’ادارہ‘ سے ماخوذ ہے جس کے معنی تدبیر، انتظام ،حکم، اور توجیہ کے ہیں۔  اردو میں اس سے مراد ایک اجتماعی ہیئت  کے بھی ہیں جس نے کوئی کام اپنے ذمے لیا ہو۔ آگے چل کر علمی ضروریات کے تحت اردو میں ادارت کے لفظ میں انگریزی کے لفظ edit کے مختلف لغوی اور اصطلاحی معنی بھی شامل ہو گئے جن میں سے ایک ہے: ’’کسی تحریری، سمعی، یا بصری مواد کی اشاعت کی غرض سے اس کو ترتیب دینا اور اس پر نظرثانی کرنا‘‘۔ آسان طور پر اس کا مقصد کسی متن میں ممکنہ طور پر پائی جانے والی مختلف قسم کی خامیوں اور کمیوں کی اصلاح ہے تا کہ مواد یا متن کو اشاعت کی غرض سے بہتر اور مکمل شکل میں پیش کیا جا سکے۔
فن ادارت کاایک  وسیع تر مفہوم
بہت کم تحریریں یا متون ایسے ہوتے ہیں جو ادارت کے مختلف مراحل سے گزرے بغیر شائع کیے جا سکتے ہوں۔ اور اس صورت میں بھی عام طور پر مصنف خود اپنے متن کی ادارت کرتا ہے۔ البتہ بعض استثنائی صورتیں اس کے باوجود پائی جاتی ہیں، مثلاً بہت سے شعرا اپنی موزونی طبع کے سبب فی البدیہ طویل نظمیں اور غزلیں بھی کہتے رہے ہیں، اور بہت سے مقرر ایسے خطبے بھی دیتے  رہے ہیں، جنہیں تحریری شکل میں لانے کے بعد ادارت کی گنجائش نہیں رہتی یعنی ان میں کسی حذف و اضافہ یا تصحیح مزید کی گنجائش نہیں ہوتی۔ پھربھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ شعرا اور مقررین اپنے فی البدیہہ اظہار سے پہلے خود اپنے ذہن میں خلق ہونے والے اشعار یا خطبے کی تصحیح نہ کرلیتے ہوں گے، یا کم از کم اظہار سے پہلے ان کے ذہن میں ادارت یا اس جیسا کوئی عمل واقع نہ ہوتا ہوگا۔ پس بغور جائزہ لینے پر امرواقعہ تو یہی نظر آتا ہے کہ وسیع ترین معنوں میں ادارت خود تخلیق کے متوازی طور پر، یا اس کے فوراً یا ایک عرصے کے بعد پیش آنے والا فطری عمل ہے جو کہ ایک طرف شاعر، مقرر یا مصنف کی سطح پرانجام دیے جانے والے تخلیقی و تنقیدی عمل کا  حصہ ہے تو دوسری طرف اس متن کی نشرواشاعت کے لیے ادارتی سطح پر انجام دیا جانے والا ایک غیرجانب دارانہ اورہم نفسی پر مبنی عمل[1] ہے جس کے لیے مختلف الاقسام صلاحیتوں کے ساتھ تنقیدی و تخلیقی صفات بھی  درکار ہوتی ہیں۔
فن ادارت کی تعریف
فن ادارت کے اس قدر وسیع تر معنوں کے ساتھ اس کامتعینہ مفہوم اور اصطلاحی معنی بھی ہیں اور اس کے کچھ فکری و تکنیکی تقاضے اور پیشہ ورانہ اصول و آداب یا حدود بھی۔ متعینہ معنوں میں ادارت کسی متن میں ممکنہ طور پر پائی جانے والی مختلف قسم کی خامیوں اور غلطیوں کی تصحیح، اور متن میں حذف و اضافہ کرنا ہے تا کہ  اس میں بقدر ضرورت اور / یا مطلوبہ جامعیت اور ایجاز و اختصار پیدا ہو سکے۔موجودہ دور میں ادارت پرنٹ میڈیا سے لے کر الیکٹرانک میڈیا تک میں رائج ایک وسیع سرگرمی ہے جس کی تعریف درج ذیل طور پر کی جا سکتی ہے:
ادارت کسی منتخب سمعی، بصری اور تحریری مواد یا متن کی تصحیح، اس کی بقدر ضرورت تلخیص، اس کی تنظیم، اور دیگر تبدیلیوں پر مبنی ایک تخلیقی، تحقیقی اور تنقیدی عمل ہے جس کا مقصد اس مواد یا متن کو بہتر، مربوط ، جامع ومانع اور مکمل شکل میں پیش کرنا ہے۔
ادارت بحثیت فن
ادارت ایک فن  یا آرٹ ہے ۔ اور آرٹ  ہمیشہ اپنی فطرت میں سائنس سے بہت دور ہوتی ہے۔  بلاشبہ ادارت  کے تحت  سائنسی نوعیت کی کارروائیاں بھی ہوتی ہیں، مثلاً، متن کے لسانیاتی، کتابیاتی، اشاریاتی ، حوالہ جاتی اور حسابی پہلو و ں کی ادارت ۔ لیکن بحثیت مجموعی ادارت متن کے ساتھ اس قدر لطیف ، نہ پکڑ میں آنے والی مگر اثر انگیز کارروائی ہے کہ جب ایک لائق مصنف ادارت کے بعد اپنے متن کو دیکھتا ہے تو اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہے تو وہی متن جو اس نے لکھا تھا لیکن صحت و صفائی کے بعد اس کی فکری صلابت اور اثرپذیری میں بڑا اضافہ ہوگیا ہے ۔ اور اس بات کو صرف ایک مصنف ہی محسوس کر سکتا ہے یا  پھر وہ لوگ جو ادارت کے فن پر قدرت کاملہ رکھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ادارت کسی ناکارہ متن کو بامعنی بنا سکتی ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ وہ ایسے متون کو جو انتہائی عجلت میں لیکن برسوں کے غور و فکر کے بعد لکھے گئے ہوں، انتہائی حد تک بااثر بنا سکتی ہے۔ دراصل مدیر کی فنکارانہ مہارت ایسے متون کے قلب میں جھانکتی ہے اور وہاں سے وہ کچھ نکال لاتی ہے جو مصنف کے لیے وقت کی کمی اور عجلت کے سبب ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔ ایک فن کی حیثیت سے ادارت اپنے پیش نظر متن میں اسی طرح مستغرق اور منہمک ہوتی ہے جس طرح ایک سنگ تراش اپنے مجسمے کی تخلیق کے بعد اس کی مزید  تراش خراش  کرتے ہوئے فائینل ٹچ دیتا ہے ۔ یہ واقعی ایک حیرت انگیز امر ہے کہ مدیر اس متن کو جونہ کبھی اس کا تھا اور نہ کبھی اس کا ہو سکے گا، کچھ اسی طرح سنوارتا ہے جس طرح ایک مصور اپنی پینٹنگ کی ، ایک فوٹوگرافر اپنی تصویر کی نوک پلک  درست کرتا ہے۔ دوسروں کے متن کی اس قدر انہماک کے ساتھ نوک پلک  درست کرنا، اس کو اس رخ پر لے جانا جس پر خود اس متن کا مصنف لے جانا چاہتا تھا، دراصل ایک ایسا بے غرض اور لوث فن ہے جو کہ انسانی بصیرتوں سے معمورایک ذہن و دل کا وظیفہ  ہی ہو سکتا ہے۔ ادارت کی سب بڑی اور بااثر منزلوں میں سے ایک ہے ایک  بااثر رسالے کا مدیر ہونا جس کے تحت ایک مدیر اپنے رسالے میں شائع ہونے والی تحریروں پر اثر ڈالتا ہے اور ایسے مصنفوں کی بھیڑ سے ایسے مصنفوں کو نکال لاتا ہے جن کے متن واقعی قابل رشک کہے جا سکتے ہیں۔ اردو ادب میں ایسے مدیروں اور رسالوں کی کمی نہیں ہے۔
ادارتی عمل کیا ہے؟
ادارت کے فن کی حقیقت و نوعیت کواور قریب  سے سمجھنے کے لیے ادارت کے عمل  سے واقفیت اور اس کو محسوس کرنا ضروری ہے۔ ادارتی عمل متن کے ساتھ مختلف الاقسام کارروائیوں پر مشتمل ہے۔ اس میں زبان و بیان کی روانی و سلاست کے نقطہ نظر سے بھی حذف و اضافے کیے جا سکتے ہیں، اور موضوع و مضمون کے لحاظ سے سے بھی بعض مشکل مقامات کو کھولا جا سکتا ہے: متن میں نئے الفاظ اور جملے جوڑے جا سکتے ہیں؛ غیر موزوں الفاظ اور جملوں پیرگراف، حتی کہ ابواب تک کو قلم زد کیا جا سکتا ہے اگر اس کی واقعی ضرورت ہو؛ متن کے مدعا، اس کے مشتملات ، اور  سیاق و سباق کو ملحوظ رکھتے ہوئے جملوں اور پیراگراف، اور ابواب کو آگے پیچھے کیا جا سکتا ہے؛ کہیں پر مصنف کا مدعا واضح نہ ہو تو حاشیے میں مصنف کا مدعا ظاہر کیا جا سکتا ہے (خاص طور سے اگر مصنف زندہ یا دستیاب نہ ہو) اور دیگر نوعیتوں کے ادارتی حاشیے بھی لکھے جا سکتے ہیں؛ بعض اوقات ادبی متون میں مصنف کی اجازت سے نئے استعارات و تشبیہات اور دیگر ادبی نوعیت کی تفصیلات داخل کرنے کے مشورے دیے جا سکتے ہیں ؛ زبان و بیان کی غلطیوں کی مروجہ معیاری زبان کے لحاظ سے تصحیح کی جا سکتی ہے اور انہیں روزمرہ کے لحاظ سے درست کیا جا سکتا ہے نیز مروجہ یا راجح املا کے لحاظ سے الفاظ کی تصحیح کی جا سکتی ہے—الغرض ایک متن کو فنی لحاظ سے معیاری، جامع، موزوں، بقدر ضرورت مختصر، موثر اور مکمل شکل دینے اور اس طرح اس کو قابل اشاعت بنانے کے لیے فن ادارت سے کام لیتے ہوئے ہر وہ کارروائی کی جا سکتی ہے جو مسلمہ علمی وفکری او راخلاقی اصولوں کے اعتبار سے مفید، ضروری یا ناگزیر ہو۔
فن ادارت  اور مدیر کے حدود و اختیارات
لیکن اس پورے عمل میں یہ واضح رہنا چاہیے کہ ہرمدیر کو کسی متن کو اڈٹ کرتے وقت ان سب کارروائیوں کے اختیارات  ایک ساتھ حاصل نہیں ہوتے۔ ایک مدیر کو مذکورہ کارروائیوں کا اختیار تبھی حاصل ہوتا ہے جب اخبار، رسالے یا اشاعت گھر کے مالک، اور خود متن کے مصنف کو مدیر کی علمی و فکری صلاحیت و لیاقت اور اس کی اخلاقی دیانت داری پر پورا اعتماد ہو اورانہوں نے اس کا باضابطہ اظہار بھی کیا ہو۔ ورنہ ایسا بھی دیکھنے آتا رہا ہے کہ مدیروں کو اپنی اصلاح اور کاٹ چھانٹ کے نیتجے میں بعض قانونی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس ضمن میں ہر ادارہ ایک واضح پالیسی اپناتا ہے اور مصنف یا متن کے خالق سے ادارت کی پیشگی اجازت لیتا ہے یا یہ بات از خود ملحوظ ہوتی ہے، اور مدیر کو ادارہ کی پالیسیوں کے مطابق کام کرنا ہوتا ہے۔ دراصل مدیر کی پیشہ ورانہ ایمانداری کا اولین تقاضا یہی ہے کہ وہ اپنے ادارے کی پالیسی کے لحاظ سے، اور حاصل شدہ اختیارات کے مطابق اپنے فرائض انجام دے۔

فن ادارت  کے لیے مطلوبہ صلاحیتں اور اس کی صفات
ادارت کا پورا عمل اس قدر نازک، پیچیدہ، نتائج کے اعتبار سے دوررس ہوتا ہے کہ ایک مدیر اگر انتہائی ذکی الحس اور فکری طور پر پختہ نہ ہو تو بڑے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ادارت کے لیے ایک شخص میں مطلوبہ تخلیقی، تحقیقی اور تنقیدی صلاحیت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر اس میں مطلوبہ تخلیقی صلاحیت نہیں پائی جائے گی تو وہ مصنف کے ذریعے تخلیق کردہ متن کو کماحقہ سمجھ نہیں سکتا۔ اسے مصنف کے ذہن میں چل رہے تخلیقی پروسیس میں جھانکنا ہوتا ہے تا کہ وہ پیش نظر متن کو سمجھنے کے بعد اس میں کسی قسم کا حذف و اضافہ کر سکے۔ اسی طرح اگر وہ تحقیقی و تنقیدی صلاحیت سے عاری ہوگا تو نہ تو وہ متن میں پائی جانے والی غلطیوں کی نشاندہی کر سکتا ہے اور نہ اس کی تصحیح کے سلسلے میں کوئی فیصلہ لے سکتا ہے۔ یہ تمام تر صفات ایک شخص کے اندروسیع مطالعہ، مسلسل غور و فکراور اپنی تخلیقی و تنقیدی صلاحیت کوبروئے کار لانے، نیز مسلسل علمی نوعیت کے کام کرنے رہنے سے پیدا ہوتی ہیں۔ پھر ایک طویل عرصے تک ادارتی کاموں کی مشق کرتے رہنے سے ایک شخص کے اندر وہ مطلوبہ بصیرت پیدا ہو جاتی ہے جس کی بنیاد پر وہ بہ آسانی یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ متن میں کہاں کہاں اور کیا کیا حذف و اضافہ کی ضرورت ہے، یا اس میں سرے سےکسی بڑی تبدیلی کی ضرورت نہیں۔
ادارت کے مراحل
کسی بھی متن کی ادارت کے کئی مراحل ہیں اور ضرورت پڑنے پر ہر مرحلے کے لیے الگ الگ مدیروں کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔ پھر ہر ایک مرحلے میں اگر ضرورت ہو تو مدیر متعلقہ مصنف سے رابطہ قائم کرتا ہے اور اسے متن میں مختلف نقطہ ہائے نظر سے اصلاحات کی تجاویز پیش کر سکتا ہے۔ ادارت کے خاص مراحل درج ذیل ہیں:


پہلا مرحلہ: مصنف کا مسودے پر نظرثانی کرنا
کسی متن کو مدیر کے حوالے کرنے سے پہلے مصنف خود اس پر نظر ثانی کرتا ہے اور مختلف پہلووں سے اس میں حذف و اضافہ کرتا ہے اور اسے اپنی طرف سے آخری شکل دیتا ہے۔
دوسرا مرحلہ: متن کا جائزہ اور مصنف کو مشورہ
مدیر زیر نظر متن کا بقدرضرورت بغور جائزہ لیتا ہے اور اس میں موجود مسائل یا خامیوں کا پتا لگاتا ہے اور اس غرض سے یادداشتیں تحریر کرتا ہے۔ اس عمل میں وہ بطور نمونہ متن کے چند پیراگراف یا ضرورت ہو تو طویل اقتباسات یا متن کے بعض منتخب حصوں کی بنیاد پر تمام تر متن میں موضوع اور مضمون، اسلوب، زبان و قواعد، اور فکری و فنی لحاظ سے پائے جانے والے مسائل یا خامیوں کا پتا لگاتا ہے۔ اس جائزے کے بعد وہ مصنف کو بحیثیت مدیر اپنے تاثرات سے مدلل طور پر زبانی یا تحریری طور پر آگاہ کرتا ہے۔ (بعض اوقات مدیر کو مصنف یا پبلشر کی طرف سے ہر قسم کی اصلاح کی پیشگی اجازت حاصل ہوتی ہے۔)
تیسرا مرحلہ: ساختی ادارت (Structural Editing)

یہ تیسرا مرحلہ ہے جو مصنف یا پبلشر کی طرف سے مجوزہ اصلاحات کی اجازت مل جانے کےبعد شروع ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں مدیر بنیادی طور پر اپنے حاصل شدہ اختیارات اور ادارتی پالیسی کے حدود میں رہتے ہوئے متن کے موضوع اور مضمون، اس میں پائے جانے والے مفاہیم، منطقی ترتیب، خیالات کے مابین ربط و تعلق کا جائزہ لیتا ہے اور اس سے متعلق اصلاح کا کام انجام دیتا ہے۔ اس مرحلے میں درج ذیل کام انجام دیے جاتے ہیں:
۱۔ مدیر اپنے پیش نظر ادبی، علمی، سائنسی یا دیگر نوعیت کے متن کے  ابتدائی حصے (تعارف، مقدمہ)، اس کے درمیانی حصے (تحقیق، تجزیہ) اور آخری حصے (حاصل کلام، نتیجہ) کا جائزہ لیتا ہے کہ آیا ان میں موضوع اور مضمون کے لحاظ سے ربط ہے یا نہیں نیز متن کے کلی مفہوم کے اعتبار سے کوئی منطقی عدم تسلسل تو واقع نہیں ہو رہا ہے۔ یعنی وہ دیکھتا ہے کہ: ابتدائی حصے میں پورے متن کا تعارف ٹھیک طور پر لکھا اور تمام مقدمات درست طور پر قائم کیے گئے ہیں یا نہیں؛ درمیانی حصے میں ابتدا میں قائم کردہ مقدمات کی بنیاد پر منطقی تحقیق و تجزیہ یا اس کے مناسب و موزوں اظہار خیال کیا گیا ہے یا نہیں؛ پھر آخری حصہ میں، ابتدائی اور درمیانی حصے کی بنیاد پر برامد ہونے والے نتائج یا اثبات شدہ حقائق کو صحت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے یا نہیں؛ اور اگر مدیر کے پیش نظر کوئی ادبی متن ہے تو کہانی یا نظم کی ساخت، اس کی ابتدا، وسط اور انتہا میں ربط و تسلسل ہے یا نہیں، نیز ان میں موضوع کے مناسب حال اسلوب، تفصیلات اور ادبی نوعیت کے مشتملات پائے جاتے ہیں یا نہیں۔
مذکورہ تمام جائزوں کے بعد یا تو متوازی طور پر بروقت تصحیح کی جاتی ہے یا متن کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے اور ضرورت پڑنے پر مصنف کو اس کے بعض حصوں کو دوبارہ لکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
ساختی ادارت میں چونکہ کئی بار مصنف سے مشورہ کرنا پڑسکتا ہے، اس لیے اُس مرحلے میں میں ہر سطر کی ادارت نہیں ہو سکتی۔  سطر در سطر ادارت کے لیے ایک الگ مرحلہ ہے جس کو سطری ادارت کہتے ہیں۔
چوتھا مرحلہ: سطری ادارت
 (Line Editing)
اس مرحلے میں متن کے ایک ایک جملے اور پیراگراف کو بغور پڑھتے، ربط و تعلق کا جائزہ لیتے ہوئے خامی پائے جانے پر اس کی تصحیح بھی کی جاتی ہے، مثال کے طور پر:  جملوں میں غیرضروری الفاظ اور پیراگرافوں میں خیالات کی غیرضروری تکرار کو حذف کرنا؛ ایک جملے کو دوسرے جملے سے جوڑنا اور توڑنا؛ حاصل شدہ اجازت اور موضوع اور مضمون کے لحاظ سے، نیز مصنف کے اسلوب کے لحاظ سے مصنف کو نئے الفاظ اور جملوں کا اضافہ کرنے کا مشورہ دینا، یا خود ہی مختصر اضافے کردینا۔ یہ پورا عمل چونکہ مصنف اور مدیر کے درمیان طے شدہ معاہدے اور متن کی نوعیت پر منحصر کرتا ہے، اور یہ نظری سے زیادہ عملی نوعیت کا مسئلہ ہے، اس لیے اس کے کوئی بہت واضح اصول متعین نہیں کیے جا سکتے ہیں، البتہ اس سلسلے میں مدیر کو مصنف اور مدیر کا فرق بہرحال ملحوظ رکھنا چاہیے اور کسی ایسے حذف و اضافہ سے کام نہیں لینا چاہیے جو تصنیف و ادارت دونوں کے پیشہ ورانہ اخلاقی اصولوں کے منافی ہو۔
سطری ادارت ساختی ادارت سے مختلف تو ہے لیکن اس میں بھی تقریباً انہی صلاحیتوں کی ضرورت پڑتی ہے اس لیے عام طور پر ساختی ادارت کرنے والے مدیر کو ہی سطری ادارت کرنی چاہیے۔
پانچواں مرحلہ: کاپی ادارت
 (Copy Editing)
یہ ادارت کا آخری مرحلہ ہے۔ متن کی بڑی خامیاں اس سے پہلے کے مراحل میں دور ہو چکی ہوتی ہیں۔ کاپی ادارت کے اس مرحلے میں پورے مسودے کو سطردرسطر بغور پڑھتے ہوئے اور قواعد، املا، رموز اوقاف وغیرہ کے لحاظ سے اس کی تصحیح کی جاتی ہے۔ اکثر رموز اوقاف کے نامناسب استعمال سے مفہوم میں غیرمتوقع تبدیلیاں واقع ہو جاتی ہیں۔ کبھی کبھی مصنف یا خود سابقہ ادارت کے عمل میں غیر مروجہ املا درج ہو جاتا ہے، کبھی لفظوں، سطروں اور پیرگراف کے درمیان خلا کی کمی یا زیادتی جیسی متعدد غلطیاں متن میں راہ پا جاتی ہیں ۔ کاپی اڈیٹران سب خاموں کی اصلاح اپنے ادارے میں مروجہ اسٹائیل مینوئیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کرتا ہے۔
مذکورہ بالا پانچ مراحل میں ادارتی عمل کی انجام دہی سے متن میں زبان و بیان کے اعتبار سے سلاست و روانی پیدا ہوتی ہے اور وہ موضوع و مضمون کے اعتبار سے ایک نکھری ہوئی اور مکمل شکل میں سامنے آتا ہے۔ پھر مسودے کو کتابت یا کمپوزنگ کے لیے روانہ کر دیا جاتا ہے جہاں کاتب اڈٹ کیے گئے مسودے کی کتابت کرتا ہے یا اسے کمپیوٹر پر ٹائپ کرتا ہے۔ آج کل زیادہ تر مصنف کمپیوٹر پر ہی لکھنا پسند کرتے ہیں اوراکثروبیشتر حالات میں مسودہ ادارتی عمل سے پہلے ہی کمپوز ہو چکا ہوتا ہے۔ آج کے مدیران مسودے کی صحت و صفائی کے خیال سے پرنٹیڈ مسودے کو ترجیح دیتے ہیں اور ادارت کا عمل اسی پرنٹیڈ مسودے پر انجام دیا جاتا ہے۔ جب ادارت کے تمام تر مراحل پورے ہو جاتے ہیں تو پھر ادارت شدہ مسودے کو ایک بار پھر کاتب کے پاس بھیجا جاتا ہے جو مدیر کی ہدایت کے عین مطابق اس میں حذف و اضافہ کرتا ہے۔ اس کے بعد فائینل پرنٹ نکال کر کتابت شدہ مسودے کو پروف خواں کے پاس بھیجا جاتا ہے۔ وہ یکے بعد دیگرےمسودے کے کئی پروف پڑھتا ہے اور آخری پروف کے بعد اشاعت کے لیے تیار مسودے کی فائینل کاپی اڈیٹر کو روانہ کر دیتا ہے۔
برسبیل تذکرہ: موجودہ دور میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے استعمال نے ادارت کے فن میں مختلف النوع سہولتیں پیدا کر دی ہیں۔ مثلا اب ادارت کا کام بجائے کاغذ کے براہ راست کمپوٹر پر ہو رہا ہے جس سے حذف و اضافہ اور اصلاح کے عمل میں صفائی اور آسانی پیدا ہو گئی ہے۔ مائیکروسافٹ ورڈ کے ریویو آپشن میں ادارتی کام ٹھیک اسی طرح انجام دیے جا سکتے ہیں جا سکتا ہے جس طرح ہم کاغذ پر دیتے آ رہے ہیں۔ نیز،اس سافٹ ویر میں ادارت کے تمام ترمراحل کو بہ آسانی محفوظ بھی کیا جا سکتا ہے اور کس مدیر نے کس وقت کس مسودے میں کیا حذف و اضافہ یا اصلاح کی اسے بہ آسانی ٹریک کیا جا سکتا ہے۔
فن ادارت تخلیقی، تحقیقی اور تنقیدی نوعیت کا ایک عظیم فن ہے جو اپنے وسیع معنوں میں خود تصنیفی عمل کا ایک حصہ ہے کیونکہ یہ تخلیقی پروسیس میں متوازی طور پر جاری رہتا ہے اور/یا متن کے وجود میں آنے کے فوراً یا کچھے عرصہ بعد شروع ہوتا ہے۔ لیکن یہ فن اپنے اصطلاحی اور متعینہ معنوں میں تصنیفی عمل سے الگ ایک باقاعدہ، باضابطہ، مرحلہ وار اور منظم فن ہے جس کی ضرورت اور اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔
ادارت کا فن تبھی کامیاب ہو سکتا ہے جب  متن کو ادارت کے تمام تر مراحل  سےانتہائی چابکدستی اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ گزارا جائے۔ ادارت کے ابتدائی مرحلوں سے آخری مرحلے تک بلکہ  پروف خوانی کے بعد بھی  ایک مدیر کی ذمہ داریاں ختم نہیں ہوتیں اور اسے ہر لمحہ متن کے معیار اور مشتملات کی ترتیب و تہذیب اورمسلسل نگرانی   کرنی ہوتی ہے۔
کامیاب ادارت لسانی، فکری، تخلیقی، تنقیدی، تحقیقی اورجدید ترین علمی اور تکنیکی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے پر منحصر کرتی ہے۔ایک اچھے مدیر کو زبان و بیان کے اعتبار سے عمدہ اور موضوع کے اعتبار سے وسیع المطالعہ ہونا چاہیے، نیز اس میں غور و فکر کی صلاحیت، تاریخی شعور، عصری آگہی، مجتہدانہ بصیرت اور انسانی معاملات و مسائل پر گہری نظر اور دوسروں کے نقطہ نظر کو کماحقہ سمجھنے اور اس کا احترام کرنے، نیز اختلافات کو برداشت کرنے کا مادہ بھی ہونا چاہیے تب ہی جا کر وہ ایک غیرجانب دار، انصاف پسند اور مثالی مدیر بن سکتا ہے یا اس فن میں قابل قدر اضافہ کرتے ہوئے اسے بلندیوں تک لے جا سکتا ہے۔
[1] Empathetic process

تحقیق کے مسائل


تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات  کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں  حتی الامکان  منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے  طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق  معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن  اس ناقابل حل  مسئلے  کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔

تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف  پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے دوسرا لفظ حقیقت بنا ہے۔ تحقیق کے لغوی معنی کسی شئے کی حقیقت کا اثبات ہے۔ ’’تحقیق کے لیے انگریزی میں استعمال ہونے والا لفظ ریسرچ ہے…اس کے ایک معنی توجہ سے تلاش کرنے کے ہیں، دوسرے معنی دوبارہ تلاش کرنا ہیں …ریسرچ فرنچ سے نکلا ہو لفظ ہے جس کے معنی ہیں پیچھے جا کر تلاش کرنا۔‘‘  (تحقیق کا فن از گیان چند جین) مختلف علوم کے ماہرین نے تحقیق کے  اصطلاحی معنی بھی بیان کیے ہیں اور ان میں لفظی و معنوی اختلاف و نزاع  ہے ۔  ان سب کے احاطے کا موقع نہیں لیکن بطور ایک اصطلاح کے تحقیق  کے جو بھی معنی ہوں،تحقیق کو اور تحقیق میں  درپیش  مسائل کے باب میں  اصل بات دیکھنے کی یہ ہے کہ کیا  تحقیق کے مقاصد اور  اس کی منہاجیات پرمذہبی، فلسفیانہ و سائنسی اور دیگر تمام علوم کے مابین کوئی  ہمہ گیر اتفاق پایا جاسکتا ہے؟ جواب ہے  نہیں۔کیونکہ خود زندگی اور اس کے مقاصد مختلف فیہ اور متصادم  ہیں۔ اور زندگی کے انہیں  مختلف النوع مقاصد کے اعتبار سے باہم  مختلف متضاد اور متصادم علوم و فنون پائے جاتے ہیں۔ غیب کو شہود  یا  شہود کو غیب میں بدلنے کے ان کے  مقاصد جدا  اور طریقے مختلف ہیں۔مابعد جدید ادوار میں علمی تحقیق کو صرف تیقین کے لیے نہیں بلکہ تشکیک کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پروفیسر ژاں بودریلار  جب اپنی کتاب
The Gulf War Did Not Take Place (1991)
میں ثابت کرتا ہے کہ ۱۹۹۱ میں خلیج کی جنگ دراصل واقع ہی نہیں ہوئی تو ایسا نتیجہ دراصل رائج الوقت نظامہائے فکر و نظر پرتشکیک کے ایک گہرے عمل کے بعد ہی نکالنا ممکن ہے۔ ظاہر ہے یہ سن کر ذہن چونکتا ہے اور جنگ ِخلیج کے مناظر کے خلاف شک پیدا کرتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جو حقائق ہماری آنکھوں کے سامنے دن رات ٹی وی سے نشر کیے جاتے ہیں، وہ واقعی حقائق بھی ہیں؟    بودریلار  یہ قطعی نہیں کہہ رہا کہ خلیج میں سرے سے  کچھ ہوا ہی نہیں، بلکہ وہ صرف یہ کہتا ہے جو کچھ ہوا اس  پر ’’جنگ‘‘ کی تعریف کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔وہاں جو کچھ واقع ہوا  وہ ظلم تھا جس  نے جنگ کا ’بہروپ‘ بھر کر دنیا کو گمراہ کیا۔جو کچھ ہوا اگر وہ جنگ نہیں تھا تو پھر وہ ہوا ہی نہیں۔ اس کے بجائے کچھ دوسری چیز ہوئی جس کو اخباری ذہن قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ تحقیق اخباری ذہنیت سے نکل کر اوہام  اور دروغ کی دھند کو ہٹا نے اور ان پر شک کرنے کا عمل ہے اور جب تک خود  مروجہ ’’حقائق‘‘  پر شک نہ کیا جائے ، ان کے اندر سے جو واقعتاً  حق ہے وہ کبھی برامد نہیں ہوسکتا۔
 پس کیا چیزیں قطعیات و تیقنات کے دائرے میں داخل ہیں ، بلکہ یہاں تک بھی کہ کیا چیزیں بدیہیات میں شمار ہیں اور کیا نہیں، ان کی بنا پر دنیا میں ہمیشہ سیاست ہوتی رہی ہے۔ کہنا مقصود یہ نہیں ہے کہ تحقیق کوئی قابل اعتماد سرگرمی نہیں ہو سکتی، مگر  اب  لوگ  اس پربھی غور کرنے لگے ہیں کہ   انسانی زندگی اور ان سے متعلق علوم و فنون، اور وہ علوم  جو  سماجی علوم   اور انسانیات کے دائرے میں آتے ہیں اپنے  فکری و تحقیقی طریقہ  کار میں کیا واقعی قابل اعتماد ہیں؟ فلسفہ میں  متشککین کا ایک گروہ ہمیشہ سے رہا ہے جو   زندگی کو عملاً برتتے ہوئے بھی تمام تر موجودات  کو دلائل کی بنیاد پر ’’حلقہ ٔ دام خیال‘‘ مانتے رہے ہیں۔ دور جدید میں بھی سائنسدانوں کی طرف سے  یہ قیاس کیا جاتا رہا ہے کہ   کائنات دیکھنے کے حسی عمل میں  وجود پذیر ہوتی رہتی ہے ، اورکائنات کا وہ  مادی  تصور جو ہزارہا سالوں سے چلا آرہا تھا سائنسی بنیادوں پر ثابت نہیں ہوتا۔ چونکہ  سائنس کی ایک شرط حواس خمسہ کو پہنچنے والا علم ہے ، اور حواس خمسہ  قائم بالذات نہیں، اور اس کو بھی عقل و شعور   سے تصدیق کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے  محسوسات  اپنے سے باہر کی ایک شئے ، یعنی معقولات  کو حجت بنانے پر مجبور ہے اور محض اسی لیے سائنسی نوعیت کا’’ معقول‘‘ یا بہ الفاظ دیگر  ’’ نظریہ ٔ  سائنس ‘‘ خود ایک فلسفیانہ زاویہ ہے خود اپنے ہی  ’’محسوس ‘‘ کا اثبات  اپنے ہی ڈسکورس میں کرتا ہے ، اور اس کی صحت و عدم صحت کے لیے  دیگر فلسفیانہ زاویوں سے طبعاً رجوع نہیں کر سکتا کیونکہ اس کی نظر میں دیگر فلسفیانہ زاویوں سے اس کی عداوت ہے۔ اس خیال میں صداقت کا ایک عنصر پایا جا سکتا ہے۔ بارہا دیکھا گیا ہے  کہ سائنسی نظریہ’’ محسوسات‘‘ سے کام لے کر دیگر فلسفیانہ زاویوں کا انسداد کرتا ہے یعنی:  انہیں  ہیومین سائنسیز  کے ڈسکورس سے یا تو مکمل طور پر  باہر کر دیتا ہے یا اس  ڈسکورس میں رکھ کر ان پر اپنے طریق و منہاج  کی رو سے تحقیقاتی کارروائی کے ذریعے  کبھی حسبِ منشا  ان کی تربیت کرتا اور کبھی ان میں سے بعض پر قابو پا کر انہیں بے دست و پا کر دیتا  ہے ۔تحقیق کا یہ  ایک ایسا مسئلہ ہے جو تاحال ناقابل حل ہے الا یہ کہ سائنسی نظریہ اور دیگر فلسفیانہ (بشمول متصوفانہ ) زاویوں کے درمیان کسی فکری  نوعیت کی مفاہمت  کی گنجائش نکالی جا سکے جس سے کہ  تمام تر علوم انسانی  کا انفراد بھی قائم رہے اور وہ  اپنے مخصوص میدان میں اپنی طرح ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حقیقت  تک  رسائی حاصل کر سکیں۔اس طرح علوم کے درمیان مکالمہ کا ایک عمل شروع ہوتا ہے جو بین العلومی تحقیق سے عبارت ہے( جس کے اپنے مسائل اور امکانات ہیں۔ اس کی   تفصیل اس مضمون کے اگلے حصے میں درج کی جائے گی)۔
اس پورے مسئلے کو ایک اور نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں: جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے جدلیاتی و مکالماتی  ڈسکورس میں پائے جانے والے   تنقیدی  رجحانات انسانی علوم میں تحقیقات کی رو سے   جاری مسلمات سازی کے عمل میں مداخلت (Intervention) کرتے ہیں، اور کچھ اس قسم کے دلائل پیش کرتے ہیں: جو علوم  و فنون  سائنس کے دائرے میں  آتے ہی نہیں، ان میں معقولاتی و منقولاتی نیز جزوی طور پر حسی طریق ہائے کار سے تو کام لیا جا سکتا ہے لیکن  وہاں سائنسی طریقۂ   کار سائے کی طرح ہمارے ساتھ  نہیں رہ سکتا،اور   نتیجتاً و  لازماً تحقیق کو  کہیں نہ کہیں فلسفیانہ تعبیر ات کا ’’شکار ‘‘ہونا پڑتا ہے، یا زیادہ غیرجانب دار طور پر کہا جائے تو اسے کہیں نہ کہیں  ان فلسفیانہ تعبیرات سے ’’مدد لینی‘‘ پڑتی ہے اور تعبیرات میں پہلے ہی عقولِ انسانی کے مابین  اختلافات ہیں۔یہی سبب ہے کہ انسانیات اور سماجی علوم کے میدان میں سائنسی طریقے سے انجام دی  جا رہی تحقیقات  میں کسی زیرتحقیق  مسئلہ پر وقت واحد میں دستیاب یکساں  ماخذ و مواد کے باوجود عقلی نوعیت کی تعبیرات  و ترجیحات کے سبب  زاویے کا اختلاف ہو سکتا اور ہوتا ہے۔  اور جیسے ہی ہم ان تعبیرات و ترجیحات کو دفع کرنے کی غرض سے ان پرسائنسی اصولوں کا سخت اطلاق  (rigorous implementation)  کرتے ہیں ، عمل تحقیق ایک ہمالیائی ریاضت  بن کررہ جاتی ہے ۔اسی  دقت کے پیش نظر ہماری یونیورسیٹیوں میں تحقیق کی یہ تعریف کی جاتی ہے:
Discovery of new facts or new interpretation of old facts.
ظاہر ہے تحقیق کے میدان میں تعبیرکی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے  ورنہ فقط محسوسات سے کام آگے نہیں بڑھ سکتا۔ لیکن  اس کے سبب دیگر  کئی اہم مسائل پیدا ہوتے ہیں اور اسی سبب سے گیان چند جین  تحقیق کی اس تعریف کو’’ بدقسمتی‘‘ سے  تعبیر کرتے ہیں (تحقیق کا فن، صفحہ ۸۰)۔ تعبیر کے حد سے زیادہ بڑھ جانے کے سبب تحقیق میں کیا مسائل پیش آتے ہیں اس کا اشارہ اس مضمون کے اگلے حصوں میں لیا جائے گا۔

موجودہ دور میں علوم کی فہرست زمانہ کی ترقی کے ساتھ طویل ہوتی جا رہی ہے۔ کیا ان میں کوئی ایسی درجہ بندی  یا تقسیم  کی  جا سکتی ہے جیسی حیاتیات میں انواع و اقسام کی درجہ بندی رائج ہے؟ یا یہ اسی طرح الگ الگ رہیں گے جیسے مختلف قوموں، زبانوں  اور مذہبوں نے اپنا آزادانہ تشخص قائم کر رکھا ہے اور ان میں ادغام ممکن نہیں کیونکہ  یہ سب علوم و فنون جو کچھ ’کہنا ‘چاہتے ہیں ،  اپنی طرح  کہتے ہیں، اپنے مواد اور موضوع،  اور اپنے مخصوص رجحانات کے ساتھ  سائنسی  تحقیق کرتے ہیں۔ لیکن کیا مشترکہ طور پر وہ کوئی ایک بات کہتے ہیں؟ کسی ایک طریقے پر متفق ہیں؟ایک بار پھر جواب نہیں میں ہی ہوگا۔ تحقیق کا ایک بڑا مسئلہ یہی ہے کہ اس کا کوئی ایک طریقہ نہیں بلکہ جس قدر علوم و فنون ہیں اسی قدر طریقے بھی پائے جاتے ہیں ،اور ان میں اگر کوئی قدر مشترک ہے تو اس کی نوعیت تحقیقی نہ ہو کر تخلیقی ہے۔ موجودہ دور میں ’’علم کی تخلیق‘‘ یا
Creation of Knowledge
جیسی عام بولے جانے والے الفاظ اسی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ورنہ عقل میں یہ بات نہیں آتی کہ علم کی تخلیق آخر کیسے کی جا سکتی ہے؟ یا تو تخلیق کی تعریف میں کوئی غلطی ہے یا علم کی تعریف میں۔ ’’علم کی تخلیق ‘‘ کا یہ خیال  کیا اس لیے جائز ہے کہ  ایک ’’معلومات‘‘ جس کا وجود نہیں تھا ، اب  تحقیقی کاوش کی مدد سے  اس کو وجود میں لا دیا گیا؟ گویا عدم سے وجود میں آنے کو اگر تخلیق کہا جائے تو پھر کمپوٹر پر کسی لفظ کو کاپی  اور پیسٹ کرنے کے بعد بھی جونئی  ’’نقل ‘‘ وجود میں آتی ہے وہ بھی  تو عدم سے ہی آتی ہے، پھر کیا سبب ہے کہ ہم اس کو تخلیق نہ کہیں؟ اسی طرح ایک شخص اپنی تحقیق کے بعد کسی بات کو مستند ذرائع سے من و عن ’’نقل ‘‘کردیتا ہے  جو ہمیں پہلے معلوم نہیں ہوتی تویہ عمل کاپی اور پیسٹ کے عمل  سے کس حد تک مختلف ہے؟ بے شک ہم  ایسے محقق کو  ناقل نہیں کہہ سکتے  کیونکہ اس نے اس میں ذہنی کاوش کا مظاہرہ کیا ہے۔لیکن ذہنی  کاوش کا مظاہرہ تو  فلسفی ، ادیب، نقاد، شاعر اور فنکار سب کرتے ہیں۔ اگر شخص کا مطالعہ  اور یادداشت بہت وسیع ہو تو اس کی تحقیق بھی شاعری کی طرح فی البدیہہ ہوسکتی ہے۔
جس طرح علوم و فنون کے درمیان تفریق ظواہر کی بنا پر کی جاتی ہے  اور اسی بنا پر ان میں ہونے والی تحقیقات  کے طریق ہائے کار کو متعین کیا جاتا ہے، اسی طرح تحقیق ، تخلیق اور تنقید میں بھی تفریق کی جاتی ہے حالانکہ ان کے باطن میں ایکا ہے۔  چونکہ ظواہر میں ہم اختلاف دیکھتے یا دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں اسی  لیے ہم ایک کو دوسرے سے اور دوسرے کو تیسرے سے ممیز کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن مختلف علوم و فنون میں طویل عرصے کی تحقیقی، تخلیقی اور تنقیدی کاوش کے بعد ان کے مشتملات میں گہرائی اور دائرہ میں وسعت پیدا ہونے لگتی ہے اور ایک کی سرحد دوسرے کو چھوتی ہے اور دوسرے کی تیسرے کو ۔ حتی کہ جس طرح  شاعری میں  جدیدفکری مسائل کے بڑھنے سے وزن و آہنگ متاثر ہوا اور نثری نظموں کا سیلاب آیا، فلسفیانہ اسالیب میں ادبیت عود کر آئی (ژاک دریدا)، ادب فلسفہ بننے کی کوشش کرنے لگا،  سائنس  اور مذہب نے باہم ایک دوسرے کو متاثر کیا،  سماجیات نے نفسیاتی تجزیہ شروع کیا اور سماجی نفسیات کا وجود ہوا، غرض ایک علم یا فن نے جس طرح اپنے ہی ظواہر کے میدان کو اس طرح پھیلایا  کہ ایک کے مشتملات دوسرے کی سرحد پر سرمارنے لگے ، ٹھیک اسی طرح تفکیر، تنقید، تخلیق اور تحقیق کا ادغام دکھائی دینے لگا۔تنقید نے تحقیق پر عمل جراحی شروع کیا اور تحقیق نے تنقید میں سیندھ لگائی، اور تخلیق نے   فن پاروں  کی شکل میں تنقید  یاتحقیق کا عمل انجام دینا شروع کیا۔اسی کو  گیان چند جین نے علوم و فنون کے درمیان ’’وصل‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اس لیے اگر موجودہ دور میں تحقیق کہیں پر تنقید بنتی دکھائی دے، یا اس میں تخلیقی کیفیت نظر آئے تو یہ ایک  بہت بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔ اور اکادمک دنیا کی روایت کے بظاہر خلاف ہوتا ہے  ۔ بعض اوقات اس روایت کے زیر اثر تحقیق کے میدان میں  معروضیت پر اصرار اس حد تک کیا جاتا ہے کہ وہ علوم و فنون کے  مجموعی رجحان کے خلاف ہوجاتا ہے۔اس سے عملاً بڑے نقصانات ہوتے ہیں۔
علوم کے درمیان وحدت قائم کرنے اور کبھی ان کے انفراد پر اصرار کرنے  کے پس پشت دراصل فلسفیانہ تفکیر کا عمل جاری رہتا ہے جو سیاسی جغرافیے کی طرح  ایک عہد میں علم کو منقسم کرتا  اور دوسرے عہد میں انہیں  باہم ملانے کی سعی کرتا  ہے۔تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے فلسفہ نے ادب اور  سائنس کو اپنے سے الگ کیا، پھر اس کے بعد دیگر علوم مثلاً تاریخ، جغرافیہ، نفسیات، وغیرہ کو اپنے سے الگ کرتا چلا گیا۔ موجودہ دور کا فلسفیانہ رجحان تمام تر  متفرق علوم و فنون  میں  احدیت یا اکھنڈتا کے تصور کو نافذ کرنا  تو نہیں البتہ ان کے درمیان رابطہ بحال کرنے پر ہے جو کبھی ماضی میں پایا جاتا تھا۔  اور یہ عمل بین العلومی تحقیقات کے دائرے میں انجام دیا جاتا ہے۔ظواہر کی سبب چیزوں کو الگ الگ سوچنا اور پھر ایک  طویل عرصے کے بعد ان  میں  ’’تحقیق‘‘ کے ذریعے بازارتباط کی سعی کرنا’’علم ‘‘ کے میدان میں کسی بحران کی نشاندہی کرتا ہے جس سے تحقیق کو آنکھیں چار کرنا ہے  اور یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس میں  سائنسی معروضیت  اور عقلی تعبیروں سے کس حد تک کام لیا جا سکتا ہے  اور کس حد تک نہیں ۔

تحقیق زندگی اور اس کے مسائل سے انتہائی واضح طور پر جڑی ہوتی ہے ۔ آج سے پچیس پچاس سال پہلے کہا جاتا تھا کہ خلائی تحقیقات کے ذریعے ’’ستاروں‘‘ پر کمند ڈالنے کا آخر کیا فائدہ ہے؟ انسان اپنی زمین کے مسائل کیوں نہیں حل کرتا کہ آسمان کی طرف متوجہ ہے؟  بعد میں ہمیں معلوم ہو گیا کہ وہاں انتہائی کارآمد معدنیات اور انرجی کے ذخائر  ہیں اور انسان وہاں جا کر بھی قیام پذیر ہو سکتا ہے۔  علمی و سائنسی تحقیق پرجس نوع کے  اعتراضات  سننے کو ملتے رہے ہیں وہ  کچھ اس سبب سے تھے کہ یہ فضول خرچی ہے اور کچھ اس سبب سے کہ سائنسی  و سماجی تحقیقات  و اکتشافات سے پرانے معیار اور رسوم و رواج ،  اور ازکار رفتہ خیالات  بدلنے لگتے ہیں۔ موجودہ دور میں مذہبی حلقوں کی طرف بارہا یہ اعتراض کیا جاتا رہا ہے کہ آخر نظریۂ  ارتقا پر تحقیق  و تجسس کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن  یہ بالکل ممکن ہے آئندہ اسی عمل سے انسان کو خدا تک پہنچنے کا کوئی وسیلہ پا لے۔
تحقیق دراصل فلسفیانہ تجسس کے سبب پیدا ہوتی ہے۔ اور تنقید کے سبب آگے بڑھتی ہے۔ اور زندگی کی نئی صورت حال کی تخلیق میں معاون ہوتی ہے۔ لیکن موجودہ دور میں تحقیق کو درپیش مسئلہ فلسفیانہ تجسس کے زوال کا ہے۔برصغیر میں فلسفہ کے  ادارے انتہائی تیزی سے ختم ہو تے جا رہے ہیں، اور کم طلبا اس میں داخلہ لیتے ہیں۔  چونکہ سبب زوال پذیر ہے اس لیے تحقیقی عمل  میں دلچسپی کی  وہ کیفیت نہیں پائی جاسکتی جو مطلوب ہے۔ یوں تحقیق ایک تھکان محسوس کرانے والی سرگرمی  بن جاتی ہے ۔ریسرچ اسکالروں کے سامنے زندگی کے مسائل اپنی تمام تر آب و تاب کے ساتھ روشن نہیں  ہوپاتے ۔ فلسفیانہ کاوشوں کے سبب زندگی میں سوال بھی پیدا ہوتا ہے اور خلا کا احساس بھی۔ کسی معاشرے میں جب  فلسفہ کی  روایت کمزور ہو جاتی ہے تو محقق کے سامنے موضوعات و سوالات  اس  تہذیب  کے نہ ہو کر اُن تہذیبوں کے ہوتے ہیں جہاں  فلسفیانہ عمل انتہائی تیز ہوتا ہے۔ ظاہر ہے انسان  جب تک اپنے ہی معاشرے اور اپنی ہی تہذیب   یعنی  اپنی  ’’اجتماعی خودی ‘‘  اور شعور میں نہ ڈوبے تب تک اسے  اپنے وجود اور اپنے شناخت سے باہر کی چیزوں سے وہ دلچسپی نہیں ہو سکتی۔ برصغیر میں انسانیات اور سماجی سائنسوں میں تحقیق ایک خشک اور بے جان شئے  اسی سبب سے ہے۔

تحقیق کا تعلق علم سے ہے، اور  علم اور جہل میں ہمیشہ سے امتیاز کیا جاتا رہا ہے۔ کیا چیزیں علم ہیں اور کیا چیزیں علم نہیں ہیں، ہر دور میں مقتدر فلسفیانہ یا مذہبی عقائد کے ذریعے انہیں طے کرنے کی روایت رہی ہے۔موجودہ زمانہ جس حد تک ا رتقا کر چکا ہے، یا جہاں تک وہ اپنے تمام تر تعصبات و تیقنات کے ساتھ پہنچ چکا ہے اس میں میں  ’’علم ‘‘ کو’’ جہل‘‘ سے کم از کم توہم سے، عمل کی سطح پر ممتاز کرنے رجحان دیکھا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں بھی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کو’’ علم‘‘ تسلیم کرنے میں اتفاق نہیں ہے مثلاً  جادو اور جیوتش، علم القیافہ، ستارہ شناسی، مستقبل بینی ۔بلکہ کسی نہ کسی  حد تک مذہب اور  تصوف کے ساتھ بھی موجودہ علمی نظام یہی فلسفیانہ موقف اپنانے پر مجبور ہوئی ہے۔ میرا مدعا یہ ہر گز نہیں ہے کہ ان چیزوں میں ’’حقیقت‘‘ کے کسی پہلو کا کوئی علم مخفی  نہیں ہے، لیکن موجودہ علمی نظام کے مطابق یہ چیزیں  اصلاً’’ حقیقت کے علم‘‘ کے دائرے سے خارج ہیں، اور محسوسات کو معیار بنا کر  ان کا مطالعہ’’ معلومات‘‘ کی حیثیت سے کیا جاتا ہے۔ مثلاً، جادو منتر کے زور پر بھوت بیتال کوبلانے یا تسخیرِ اجِنّا  کا عمل  مستند سرگرمی نہیں ہے ۔ بلکہ اب تو جادو کی تعریف تک بدلنے لگی ہے اور جادوگری کی سرّی تعبیر کے بجائے اس کی  ایک عقلی و حسی توضیح کو بھی اختیار کیا جاتا ہے اور متعدد انسٹی ٹیوٹس میں اسے سائنسی فن  یا’ ٹرک ‘کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔
مذہب، اساطیر اور تصوف جیسی چیزوں  کا مطالعہ بھی  ’’معلومات‘‘ ہی  کی حیثیت سے کیا جاتا ہے  اور  ان میدانوں  کی تحقیق میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ان کے دعاوی میں کیا سچائی ہے بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ انسان سے کیا کہہ رہے ہیں اور انسان کو کیسے متاثر کرتے ہیں۔ تصوف اپنے ابتدائی بیانیہ میں انتہائی سائنسی معلوم ہوتا ہے  کیونکہ  اس کے ذریعے سے بھی غیب کو حضور میں بدلنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، مثلاً جمع الجمع ، حقیقت کو بچشم خود دیکھ سکنے کی ریاضت۔ لیکن آگے چل کر اس کا بھی حال جادو سے مختلف نہیں ہوتا۔ تصوف اور جادو کا عمل سب کے لیے یکساں  قابل استعمال اور مفید نہیں ہوتے۔ خود مذہب کے  اساسی دعاوی کا تجرباتی اثبات  اب تک نہیں کیا جاسکا ۔ اور اس لیے یہ بھی علم کے دائرے سے خارج ہے اور بطور ایک ’’شئے‘‘ کے اس کا مطالعہ کیا جاتا ہے، مثلا اسلامک اسٹڈیز۔ یعنی ان سب چیزوں کو چونکہ اعتقاد عامہ مبنی برحقیقت  سمجھتی ہے اس لیے ان کا مطالعہ سائنسی  طریقہ کار سے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔  ایسے سب معاملات میں تحقیق کا ایک کام  ہے کہ جو چیزیں ’علوم ‘نہیں ہیں ،  ان کو بہت کچھ ’’اوہام‘‘ یا کچھ اور باور کرتے ہوئے علوم کے دائرہ کار میں بطور ایک ’’ شئے‘‘ کے لانا اوران کا مطالعہ کرنا۔ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کہ یہ چیزیں انسانی معاشرہ پر اثرانداز ہوتی ہیں، لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں۔
سائنسی ، تجرباتی یا محسوساتی طریقہ ٔٔ  کار سے  ان ’’اوہام‘‘ یا جو کچھ بھی وہ ہیں، پر تحقیق کرنے سے نہ صرف یہ کہ ان پر منفی اثر پڑتا ہے بلکہ  اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ خود تحقیق غیرجانب دار نہیں رہ پاتی، اور ان چیزوں  کے سلسلے میں بھی ایک طرف جھک پڑتی ہے، اور ایک طرح سے فیصلہ سنانے لگتی ہے، جن پر اس کو  اپنے موجودہ  سائنسی طریقۂ کار کی رو سے  مکمل خاموشی اختیار کرنی  چاہیے تھی۔  (اس کی دلیل آگے آ رہی ہے)  ۔ مختلف النوع اکادمیوں اور فلسفیانہ رجحانات کے تناظر میں تحقیق بطور  ایک زندہ  وجود کے   اپنی  گروہی ،فلسفیانہ، نظریاتی، منہاجیاتی، ترجیحات  کی رو سے حیات و کائنات کے متعلق کوئی نہ کوئی اساسی نظریہ قائم کرنے پر مجبور ہوتی ہے اور اسی کے زیر اثر تحقیق کے طریقے،اس  کے موضوعات  کا تعین ہوتا ہے۔ کیا چیزیں تحقیق کے دائرے میں ہیں اور کیا اس سے باہر ، اس کا کوئی یکساں  معیار ہمارے نزدیک نہیں ہوتا اور صاف نظر آجاتا ہے کہ ایک معاملے میں ہم جس اصول کو ترجیح دیتے ہیں دوسرے معاملے میں اس کو نظرانداز کرتے ہیں۔ چونکہ علم  پردہ ٔ غیب میں ہے اس لیے ہم  کسی موضوع کے سلسلے میں ایک مفروضہ، ایک مقدمہ قائم کرتے ہیں، گویا ایک طرف کو جھکتے ، جانبدار ہو جاتے ، پھر اسی مقدمہ کے اعتبار سے مواد جمع کرتے ، اور ان کے تجزیے کی بنا پر ہی اپنے مخصوص نتائج نکالتے ہیں۔ مقدمہ خود  تحقیق کے اندر کا  اساسی مسئلہ ہے۔ اگر کوئی امر واقعہ یا فیکٹ  مستقبل  میں تحقیقی مواد کے تجزیے سے برامد ہونا ہے ، اور وہ تاحال برامد نہیں ہو سکا، اور اسی لیے ہم ایک  مفروضہ قائم  کرتے ہیں تو اصولاً تو یہ ہونا چاہیے  کہ ہم کو اپنے مفروضے کے خلاف ایک دوسرا مفروضہ  یا مفروضات پیش کرتے ، اوران کے حق میں بھی مواد تلاش کرتے ،لیکن انسان فطرتاً اپنے فلسفیانہ عقائد و  مفروضات کا ’’ مومن‘‘ ہے اور ان کے خلاف از خود دلائل پیش کرنا اس کے لیے اکثر و بیشتر ممکن نہیں ہوتا ۔ اگر اعلیٰ درجے کی تحقیق میں یہ اصول پیش نظر رکھا جائے تو  ایسی تحقیق  اپنے آپ میں ایک  تنقیدی کائنات  بن جاتی ہے  جس میں ایک سے زیادہ مفروضے کارفرما نظر آتے ہیں اور آخر کار کسی ایک نتیجے کی ترجیحی تعبیر پیش کرتے ہیں۔ اگر تحقیق  میں تعبیر کی گنجائش ہے تو ایک ہی واقعے کی وقت واحدمیں  ایک سے زیادہ تعبیریں ممکن ہیں۔ لیکن رشید حسن خاں لکھتے ہیں:
اس زمانے میں یہ رجحان فروغ پا رہا ہے کہ تحقیقی مقالوں کے لیے ایسے موضوعات منتخب کیے جاتے ہیں جو اصلاً تنقید کے دائرے میں آتے ہیں۔ یہ تحقیق اور تنقید دونوں کی حق تلفی ہے۔۔۔ تحقیق بنیادی حقائق کا تعین کرے گی ۔۔۔۔ اخذ نتائج میں جہاں سے تعبیرات کی کارفرمائی شروع ہوگی اور ان پر مبنی اظہارِ رائے کا پھیلاو شروع ہوگا، وہاں تحقیق کی کارفرمائی ختم ہو جائے گی۔ ‘‘ (ادبی تحقیق صفحہ ۱۲ بحوالہ تحقیق کا فن صفحہ ۸۱) ۔
لیکن اگر’’بنیادی حقائق کا تعین ‘‘ کو تحقیق کی لازمی شرط قرار دے دی جائے اور تعبیرات کو تحقیق کے دائرے سے بالکلیہ خارج کر دیا جائے ، تو پھر خود تحقیق کا دائرہ اپنے موضوعات سے لے کر عنوانات تک  انتہائی تنگ ہو کر رہ جائے گا ۔ محسوسات پر اس قدر اصرار کرنے سے (جس سے بہرحال مفر نہیں) تحقیق کے لیے  ،جواپنی نظری، گروہی، مکتبی، اکادمیاتی  حیثیت میں  ایک’’ زندہ اور مسلسل عمل‘‘ ہے ، سانس لینا بھی دشوار ثابت ہوگا۔ لیکن گیان چند جین کے مطابق:
بدقسمتی سے یونیورسیٹیوں میں ریسرچ کی تعریف یہ کی جا تی ہے:
Discovery of new facts or new interpretation of old fact.
اس میں  ’’پرانے حقائق کی نئی تشریح‘‘  کے پردے میں تحقیق کے حصار میں خالص تنقیدی موضوعات کا در یا ڈربہ کھل جاتا ہے۔ (حوالہ سابق، صفحہ نمبر ۸۰)
یہ مسئلہ اپنی جگہ انتہائی  مبنی بر حقیقت ہے۔ اور اس سے کسی طور انکار کرنا میرے پیش نظر نہیں۔ لیکن یہ مسئلہ اسی لیے تو پیش آ رہا ہے کہ اکادمیاتی دنیا سے تنقید ی عمل کو خارج کر دیا گیا ہے۔ اور تنقید کا پانی  اپنے  باندھ  کو توڑ کرتحقیق کی حدوں میں داخل ہو جاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ آج  تحقیق کو جو مسائل درپیش ہیں ان کو خود تحقیق کی رو سے نہیں سلجھایا جا سکتا۔ تحقیق اپنے پیروں پر نہیں کھڑی ہوئی ہے کیونکہ اس کا طریقہ کارکسی نہ کسی  فلسفہ  یا تنقیدی نظریہ  سے  مستعار ہے۔
علم وفن کا کوئی بھی رخ خواہ  وہ تخلیق ہو، تنقید ہو، یا تحقیق ہو ایک دوسرے آزاد نہیں ہے۔علمی و  بین  العلومی و بین الفنونی تحقیق، تنقید، اور تخلیق کو ایک دوسرے سختی سے جدا کرنا اور اکادمیوں میں صرف ایک پہلو  ’’تحقیق‘‘ کا فروغ پانا اور دیگر پہلوؤں  کا انسداد  تحقیق کو درپیش  اس مسئلے کا ایک  سبب ہے جس کی طرف گیان چند جین نے اشارہ کیا ہے۔ اگر ہمارے ہاں اکادمک  صحت مند اور باادب تنقید کو باضابطہ فروغ  دیا جاتا تو تحقیق کے حصار میں خالص تنقیدی موضوعات کا ڈربہ  ہر گز نہ کھلتا، کیونکہ ناقدانہ مزاج  کے لیے  جو تحقیق کے فن میں دلچسپی نہیں رکھتا ایک تنقیدی کام کا  متبادل ہمیشہ موجود رہتا۔

ہم کوئی تحقیق اسی لیے انجام دیتے ہیں کہ اس کی بنیاد پر جو نتیجہ نکلے گا وہ حرفِ آخر کا حکم رکھتا ہوگا۔ اس پر کسی کلام کی گنجائش نہ ہوگی۔ وہ ہر قسم کے شک و شبہے سے بالا تر ہوگا۔ یہ تحقیق کا آدرش ہے جس کو لے کر ہم آگے بڑھتے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے ہم تحقیق کے میدان میں دستیاب علمی ماخذ کے ساتھ آگے بڑھتے جاتے ہیں، ویسے ویسے ہم کو یہ معلوم ہوتا جاتا ہے کہ اصول اور آدرش اپنی جگہ، لیکن واقعات کی دنیا میں اس کو قائم کرنا تقریباً ناممکنات میں سے ہے۔کیونکہ حیات و کائنات کے اکثرو بیشتر امورو مسائل  میں بلکہ  انسانی زندگی کے انتہائی اساسی امور تک میں عالم غیب کا حصہ عالم شہادت سے  انتہائی ناقابل ادراک طور پر زیادہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود انسان میں جرأ ت تحقیق پائی جاتی ہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ  وہ دنیا میں تحقیق کے ذریعے کوئی نہ کوئی عملی  رویہ ،پالیسی اور  راستہ اپنانے پر مجبور ہے۔ تحقیق کا یہی لزوم اس کی روز افزوں اہمیت کا سبب بھی ہے۔
شہود سے غیب تک  جانے یا نا معلوم کو معلوم کرنے  کے عمل میں تحقیق سے مدد لیتے ہوئے ہم جن موضوعات کو منتخب کرتے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم نتیجے میں ’’ قطعیت ‘‘ چاہتے ہیں ورنہ بہت سے ایسےامور ہیں جو تجسس کا موضوع ہیں، اور ہمارے لیے مستقل مسئلہ  کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ہم انہیں تحقیق کا موضوع بنانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ انسانی زندگی سب سے اہم موضوعات ، مثلاً ،’’ خدا  ہے یا نہیں ؟‘‘، تحقیق کے دائرے سے باہر ہے، اصولاً تحقیقی آدرش کو سامنے رکھ کر سوچا جائے تو ایسے موضوعات بھی تحقیق کے دائرے سے باہر نہیں ہونے چاہئیں کیونکہ ایسے مسائل ہمارے سامنے بہرحال نہ صرف موجود ہوتے ہیں بلکہ ہم پر اثرانداز بھی ہوتے ہیں۔  اور ہم ان کے سلسلے میں فلسفیانہ یا متعصبانہ یا جذباتی طور اپنی اپنی ذاتی ترجیحات قائم کر لیتے ہیں۔ اور یہی مسائل انسان کے لیے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ خدا انسان کی آنکھوں سے اوجھل ہے لیکن سب سے زیادہ اسی موضوع پر تجسس کا اظہار کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ تحقیق کا موضوع اس لیے نہیں ہو سکتا کہ اس سمت میں بہت جستجو کی جا چکی ہے لیکن کسی کے ہاتھ کچھ نہ آ سکا اور حل نہ ہو سکنے کے سبب یہ ایمان یا آستھا کا مسئلہ ہے بن کر رہ گیا ہے ۔اس جیسی بہت سی مثالیں پائی جا تی ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسانی  زندگی کے وہ  ناقابل حل مسائل جو تحقیق کے موضوع سے باہر ہیں، ہمارے لیے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں، اور کسی نہ کسی طور ان مسائل پر جو تحقیق کے موضوع کے اندر ہیں اثر انداز ہوتے ہیں۔ خدا کا وجود ہے یا نہیں، اس پر تو کوئی سائنسی تحقیق نہیں چلائی جا سکتی، لیکن نظریۂ ارتقا پر بڑے اطمینان سے تحقیق جاری رکھی جا سکتی ہے جس سے خدا کے نظریے کو زک یا تقویت پہنچ سکتی ہے۔ نظریہ ارتقا سے متعلق ہر مثبت یا منفی تحقیق پر عام  تعلیم یافتہ آبادی انتہائی شد و مد سے دلچسپی لیتی ہے۔ موجودہ دور میں براہ راست خدا کے نظریے پر تحقیق نہ کر کے تخلیق کائنات کے نظریہ   Intelligent Design پر بھی تحقیق جاری ہے۔ گویا ہمارے لیے تحقیق کا کوئی نہ کوئی ایسا موضوع ہونا چاہیے جس پر تحقیق کا نتیجہ شائع کرنے کے ذریعے ہم تحقیق کے دائرے سے باہر کے ’’زیادہ حساس اور ناقابل تحقیق موضوعات‘‘ پر کسی نہ کسی طور پر اثرانداز ہو سکیں۔

الحاصل ، علوم میں تحقیق کے مسائل بے شمار ہیں۔ اصل مسئلہ خود تحقیق کی تعریف کا ہے۔ اس کو تنقید ، تفکیر اور تخلیق سے  واضح طور پر الگ کرنے کا ہے۔ اور یہی نہیں ، جب ہم ایک کو دوسرے سےبہت  الگ کرنے لگتے ہیں تواس کے سبب  دوسرے مسائل تحقیق کو درپیش ہو جاتے ہیں۔ اور اس پورے عمل میں سائنسی معروضیت   کی حد متعین کرنا، اس میں فلسفیانہ تعبیروں کی گنجائش پیدا کرنا نہ کہ اس کو مکمل طور پر فلسفہ کے ماتحت کردینا، اس میں دلچسپی پیدا کرنا  نہ کہ خشک اور بے جان معروضیت  پر حد سے زیادہ اصرار کرتے ہوئے  اس کو ہمالیائی ریاضت میں بدل دینا،   بین العلومیت سے کام لینا نہ کہ کسی موضوع کے علمی حصار میں مقید ہو جانا، تحقیق کو ایک مسلسل عمل کے طور پر دیکھنا نہ کہ کسی خاص مقام پر اس کو ٹھہرا کر نتائج کو حتمی بنا لینا،  اور سب سے بڑی بات یہ کہ  اپنے  تحقیقی موضوع  پر نہ صرف یہ کہ  اپنے موقف کے حق میں دلائل پیش کرنا بلکہ   بلکہ اس کے خلاف بھی چیزوں کی تلاش میں منہمک رہنا ، اور پھرتمام تر دستیاب ماخذ اور مواد کا ایسا تجزیہ اور تعبیر پیش کرنا جس سے کہ محقق کے طور پر ہمارے  ذہن میں چل رہا تمام تر پروسیس بالکل آئینہ ہو کر مقالے میں نکھر آئے — یہ سب کچھ  ایک بہت بڑا چیلنج  ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اگر خود تحقیق کو ایک مسئلہ باور کرتے  اور  بار بار اس کے طریقے پر شک کرتے ہوئے تحقیق کی جائے تو اس کے نتائج میں قطعیت  اور اعتبار و استناد کا امکان  بہت بڑھ جاتا ہے۔

جمعہ، 3 مئی، 2013

آوارہ اور اکادمک

کہاں ایک خارش زدہ آوارہ کتا
جو حقیقت کے اندر ‘ پایا جاتا’ ہے
سڑک کے ایک کنارے
دانش حاضر کے چکرویوہ میں
گول گول گھومتا ہوا
اپنے ہی جنون میں رطب اللسان
ہمہ وقت و ہی جھاؤں جھاؤں

اور کہاں ایک کھایا پیا مست مولااکادمک بلڈ ہاؤنڈ
اور جوہوا میں ناک اٹھا کر
انٹلکچوئیل سائٹیشن دیتے ہوئے
حقائق کی تہہ تک پہنچتا ہے
جس کی رال سے علمی ثقاہت ٹپکتی ہے
جس کی چال سے عملی متانت چھلکتی ہے
انتہائی نظم و ضبط کے ساتھ بھونکتا ہے
وَوف وَوف!
اور کبھی پاگل نہیں ہوتا
وَوف وَوف!