جمعہ، 21 ستمبر، 2012

ایک داعی سے مکالمہ


[میں نے فیس بک پر جولائی ۲۰۱۲ عیسوی میں ’’دعوتی نقطہ نظر کی خامیاں‘‘ کے عنوان سے ایک نوٹ لکھا تھا۔ درج ذیل تحریر میرے اسی نوٹ پر جناب سید سعادت اللہ حسینی صاحب کے ایک تبصرے کا تفصیلی جواب ہے جو اسی زمانے میں لکھی گئی۔]

محترم سید سعادت اللہ حسینی صاحب
آپ نے لکھا ہے:
’’طارق صدیقی صاحب کو دوستانہ مشورہ یہ ہے کہ وہ فیس بک پر اس قدر طویل اقتباسات کی تحریر میں وقت ضائع کرنے کی بجائے کچھ بنیادی کتابوں کے مطالعہ پر توجہ دین تو حقیقت کی تلاش آسان ہوگی۔ آپ کے نوٹ اس بات کی چغلی کررہے ہیں کہ آپ نے اسلامی متکلمین کی بنیادی کتابیں بھی نہیں پڑھی ہیں اور نہ فلسفہ اور منطق کی بہت ہی بنیادی درسی کتابیں بھی پڑھ پائے ہیں۔‘‘
یہ طویل اقتباسات نہیں طویل تبصرے ہیں۔ طوالت یا اختصار سے وقت ضائع نہیں ہوتا۔ مختصر تحریریں بھی تضیع اوقات ہو سکتی ہیں اگر ان سے کسی کو فائدہ نہ ہو رہا ہو۔ خود آپ کا تبصرہ بھی فیس بک کے عام تبصروں سے زیادہ طویل ہے۔
رہی بات فیس بک پر لکھنے کی تو آپ خود اپنی تقریروں میں فرماتے ہیں کہ انٹرنیٹ نے بے آوازوں کو آواز دی ہے، سو مجھے بھی ایسا ہی ایک بے آواز شخص سمجھ لیجیے۔ میری تحریریں تحریک اسلامی کے معیاری علمی تحقیقی رسائل و جرائد میں یا اس کے معیاری اداروں سے شائع نہیں ہو سکتی ہیں۔ فی زمانہ معیاری وہ ہے جو تحریکوں اور جماعتوں کی پالیسی و پروگرام کی رو سے وجود میں آتا ہے اور گروہی و تنظیمی اغراض و مقاصد کو پورا کرتا ہے۔ اس کے خلاف جو کچھ ہے وہ غیرمعیاری، غیرعلمی اورغیرفکری اور تضیع اوقات محض ہے۔ اس کو لائق اعتنا کیسے سمجھا جا سکتا ہے اور کیسے اس کو دعوت اور زندگی نو میں شائع کیا جا سکتا ہے؟
میں شروع ہی سے یہ ثابت کرتا آ رہا ہوں کہ داعی حضرات اپنی غلطی محسوس کر ہی نہیں سکتے۔ وہ بحث کے درمیان خود کو ایک بلند مقام پر فائز سمجھتے ہی رہیں گے۔ پھر وہ مدعو سے کیسے کچھ سیکھ سکتے ہیں؟وہ تو اس کو سکھاتے ہی رہیں گے۔ آپ نے بھی اپنے اس تبصرے میں پہلے ہی یہ فرض کر لیا کہ میں وقت ضائع کر رہا ہوں اور آپ مجھے ایک نصیحت فرما کر اپنے وقت کا صحیح استعمال کر رہے ہیں۔
بنیادی کتابوں کے مطالعے کا جو مشورہ آپ نے دیا ہے اس کی حقیقی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ میرے قائم کردہ سوالات کا کوئی موثر جواب پیش کرنا شاید ممکن نہیں ہے۔ ورنہ دعوتی نقطہ نظر پر جو عقلی اعتراضات میں نے پیش کیے ہیں اور اس سلسلے میں جو مثالیں سامنے رکھی ہیں، ان کے جواب میں مجھے بنیادی کتابوں کے مطالعے کا مشورہ ایک ’’بلند تر علمی سطح سے‘‘ دینے کا اور کیا جوازہو سکتا ہے؟ دعوتی تحریکی نقطہ ٔ نظر سے گفتگو فرمانے والے حضرات کے ساتھ یہ مسئلہ خاص ہے کہ وہ مخاطب کے سوالوں کا جواب دینے کے بجائے اس کی جنرل نالج پر سوال قائم کیا کرتے ہیں، تاکہ اس کی علمی پوزیشن کو کمزور کر دیا جائے۔
آپ کو خدا معلوم کس نے یہ بتایا کہ بنیادی درسی کتابیں پڑھنا فلسفیانہ عمل کے لیے ضروری ہے اور نہ پڑھے تو یہ ایک غلطی ہے۔ اگر ایک شخص اپنے پیش نظر کسی فلسفیانہ مسئلے میں اپنی کوئی رائے پیش کر رہا ہو، اور اس کی بحث میں الفاظ قطعی اور واضح معنوں میں استعمال ہو رہے ہوں، اور ان سے منطقی نتائج بھی برامد ہو رہے ہوں، پھر اس کو یہ کہنا کہ تم نے درسی کتابیں نہیں پڑھی ہیں، پہلے ان کو پڑھ کر آو پھر بات کرنا، ایک غلط مطالبہ ہے اور اس کے اٹھائے ہوئے سوالوں سے گریز کا حیلہ ہے۔ آپ کو معلوم ہو کہ فلسفہ کا کوئی ایک طریقہ نہیں ہے اور اس کی کوئی Predeterminedشرط نہیں ہے۔ ایک فلسفی اپنے فلسفہ کا طریقہ، اس کی شرطیں اور اس کی لفظیات و اصطلاحات خود ہی متعین کرتا ہے، اور اس کو مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ سابقہ کتابوں سے بھی استفادہ کرے۔ البتہ اپنے فلسفہ کے خاطرخواہ اظہار کے لیے زبان و بیان پر قدرت حاصل ہونا ضروری ہے۔ لیکن یہ فلسفیانہ عمل کی شرط نہیں ہے۔
آپ کے اس دوستانہ مشورے سے کہ ’’میں کچھ بنیادی کتابوں کا مطالعہ کروں تو حقیقت کی تلاش آسان ہو جائے گی‘‘ یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ان بنیادی فلسفیانہ کتابوں کو پڑھ کر ’تلاش حقیقت‘ کے مرحلے سے گزر کر ’حقیقت یاب‘ ہو چکے ہیں، یا ہو رہے ہیں ورنہ یہ مشورہ مجھے کیوں دیتے؟ اور چونکہ حقیقت آپ کو مل چکی ہے، یا مل رہی ہے، اس لیے مجھ سے بحث فرماتے وقت آپ حقیقت کی تلاش میں نہیں ہو سکتے۔ اس طرح میری وہ بات آپ کے ہی اس ’دوستانہ مشورے ‘سے ثابت ہو گئی کہ ایک داعی کسی خاص موضوع پر خود کو حقیقت یافتہ سمجھتا ہے اور مدعو کو حقیقت سے بے بہرہ۔ کیونکہ وہ ایسا مشورہ دیتا ہے جس سے اس کی افضلیت کی بو آتی ہے۔ جیسے آپ نے فرمایا کہ فلاں کتابیں پڑھو جن کی مدد سے تم پر حقیقت کی تلاش آسان ہو جائے گی۔ آپ اپنی جگہ غالباً یہ سمجھتے ہیں کہ میرے اندر جو فکری ضلالت راہ پا گئی ہے وہ متکلمین کی ’بنیادی کتابیں‘ پڑھنے کے بعد دور ہو جائے گی۔ گویا آپ نے میرے لیے ایک دوا تجویز کی حالانکہ میرے علم کی حد تک آپ کو خود کبھی وہ فکری مرض نہیں رہا جس میں میں مبتلا ہو گیا ہوں۔ اور اگر آپ کبھی اس دور سے گزرے ہیں جس سے میں گزر رہا ہوں، اور متکلمین کی کتابیں پڑھنے کے بعد آپ کو شفا ہو چکی ہے تو آپ کا یہ سمجھنا کہ آپ کی طرح ہی مجھے بھی ان کتابوں سے فائدہ ہوگا، غلط ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اس کا بھی امکان ہے کہ میں آپ سے زیادہ گہرے فکری مرض میں مبتلا ہوؤں۔ اور جس دوا نے آپ کے مرض میں کام کیا، کوئی ضروری نہیں ہے کہ وہی دوا مجھ پر بھی اثر کرے۔
اگر آپ کو میرے لیے حقیقت کی تلاش آسان کرنی تھی تو اس کا طریقہ یہ تھا کہ آپ خود ایسے دلائل دیتے جن سے حقیقت سامنے آ جاتی۔ اب اگر میں اس ’’کتابی‘‘ مشورے کے جواب میں یہ عرض کروں کہ آپ کے اس تبصرے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے جدید ملاحدہ کی کتابیں نہیں پڑھیں، تو آپ اس کا کیا جواب دے سکتے ہیں؟ جب آپ ملاحدہ کی کتابوں کو پڑھیں گے تو معلوم ہوگا کہ ماضی کے متکلمین کی پوزیشن کتنی کمزور ہے اور کس طرح جگہ جگہ ان کی ہزیمت ہوتی نظر آتی ہے۔ پس، آپ مجھے چند ’’بنیادی‘‘ کتابوں کو پڑھنے کا مشورہ دیں، اور میں بھی آپ کو ایسا ہی ایک گول مول ’’بنیادی‘‘ مشورہ دوں، اس طرح تو کوئی بحث آگے نہیں بڑھ سکتی۔ ہماری بحث تبھی آگے بڑھ سکتی ہے جب واضح اور قطعی معنوں میں یہ بتایا جائے کہ موضوعاتِ زیر بحث (مثلاً دعوتی نقطہ نظر کی خامیاں، جہنم کی واقعیت) میں عہد وسطٰی کے ملاحدہ نے کیا اعتراض کیا اور اس دور کے متکلمین نے اس کا کیا جواب پیش کیا اور ان دونوں گروہوں سے کیا فکری غلطیاں ہوئیں اور کون کس اعتبار سے کس پر غالب ہے۔ پھر یہ دیکھا جائے گا کہ دور جدید میں ملاحدہ و متفرنجین ومتشککین (بشرطیکہ ملحد یا کافر کی گالی ان پر راست آتی ہو) کے اعتراضات کی نوعیت کیا ہے اور عہد وسطٰی کے متکلمین کے کارناموں میں ان جدید اعتراضات کا جواب موجود ہے یا نہیں۔ پھر یہ بھی دیکھا جائے گا کہ میں نے جو عقلی اعتراضات پیش کیے ہیں ان کا کوئی جواب سابقہ متکلمین (قدیم و جدید) میں پایا جاتا ہے یا نہیں۔ اگر پایا جاتا ہے تو پھر یہ دیکھا جائے گا کہ وہ کتنے صحیح اور غلط ہیں۔ یہ ہے کسی بحث کا صحیح طریقہ جس سے آپ کام نہیں لینا چاہتے۔ آپ ایک گول مول مشورہ دے کر کہ ’تمہیں متکلمین کی بنیادی کتابیں پڑھنی چاہئیں‘ اپنا دعوتی فرض ادا کر دینا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ دعوت کا صحیح طریقہ نہیں ہے۔
آپ کا دعویٰ یہی ہے نہ کہ فلسفہ کی بنیادی کتابوں سے، یا اسلامی فلاسفہ و متکلمین کے کارناموں سے آپ واقف ہیں اور میں واقف نہیں، آپ ان کو پڑھ چکے ہیں،یا پڑھ رہے ہیں اور میں نے ان کو نہیں پڑھا۔ آپ کے اس دوستانہ مشورے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ اس موضوع پر مجھ سے زیادہ پڑھے ہونے یا زیادہ باخبر ہونے، اور اس وجہ سے ایک بلند تر علمی سطح پر فائز ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ آپ کے اس دعوے کی تردید یا تصدیق کرنا اس پوری بحث کے دائرے سے باہر ایک بات ہے کہ آپ فی الواقع نہیں جانتے کہ میں نے اب تک اپنی پوری زندگی میں کتنی تعداد میں، اور کن موضوعات پر کتابیں پڑھی ہیں، اور میرے غور و فکر کے خاص میدان کیا ہیں۔
اگر آپ نے اسلامی متکلمین کی کتابیں پڑھی ہیں اور آپ کو ایسا لگتا ہے کہ میری فکری گمراہی کا علاج اس میں موجود ہے تو متکلمین کی چند بنیادی کتابوں کا نسخہ تو کم از کم تجویز کر دیتے۔ لیکن آپ یہ نہ کر سکے۔ اس لیے آپ کی یہ بات ازقسم دعوت نہیں۔ یہ غالباً آپ نے محض میری تحقیر و تضحیک کے لیے لکھ دی ہے۔ ورنہ میرے مطالعے پر بلادلیل سوال اٹھانے کا اور کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ اور یہ غلطی ایک داعی سے تب ہوتی ہے جب وہ منقولات پر معقولات کے مطالبے سے لاجواب ہو جاتا ہے۔
’’ آپ کے نوٹ اس بات کی چغلی کررہے ہیں کہ آپ نے اسلامی متکلمین کی بنیادی کتابیں بھی نہیں پڑھی ہیں اور نہ فلسفہ اور منطق کی بہت ہی بنیادی درسی کتابیں بھی پڑھ پائے ہیں۔‘‘
’’چغلی کرنا‘‘ نہیں، ’’چغلی کھانا‘‘ بامحاورہ ہے۔ آپ کا مدعا یہ ہے کہ میں نے اسلامی متکلمین کی بنیادی کتابیں نہ پڑھ کر غلطی کی ہے۔ حالانکہ یہ کوئی غلطی نہیں۔ ایک عام پڑھا لکھا ہندویا عیسائی بھی اگراسلام کا مطالعہ کرے گا تو اس کو قرآن میں آیت صاف نظر آئے گی کہ شوہر اپنی بیوی کو مارنے کا اختیار رکھتا ہے۔ بخاری میں ’’صحیح‘‘ حدیث وہ پڑھے گا کہ ۹۹۹ فی ہزار لوگ جہنم میں جائیں گے۔ جب آپ اسی ہندو یا عیسائی کو دعوت دینے جائیں گے تو کیا وہ یہ نہ پوچھے گا کہ اللہ تعالٰی نے کیا انسانوں کی اس قدر کثیر آبادی کو جہنم میں بھیجنے کے لیے ہی پیدا کیا ہے؟ اور کیا آپ اس سے یہی فرمائیں گے کہ چونکہ تم نے اسلامی متکلمین کی کتابیں نہیں پڑھی ہیں اس لیے تم کو ایسے ’’اشکال‘‘ ہو رہے ہیں؟ گویا اب قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ رازی اور غزالی کی کتابیں پڑھنا بھی اس کے لیے لازم قرار پایا؟ نہ پڑھے تو اس سے غلطی ہوئی جس کی بنا پر اس کا اعتراض ہی سرے سے غلط ہو گیا! یہی نہیں، عقل عام کے لیے کچھ بولنے سے پہلے فلسفہ اور منطق کی بہت ہی بنیادی درسی کتابیں پڑھنا بھی ضروری ہو جائے؟
ایسے صاف مسائل میں اسلامی متکلمین آ کر کیا معجزہ دکھا دیں گے کہ آپ ان کو نہ پڑھنے کو غلطی قرار دے رہے ہیں۔ میرے نوٹ تو اسی بات کی چغلی ’’کر‘‘ رہے ہیں نہ کہ اسلامی متکلمین اپنی بنیادی کتابوں میں ایسے سوالات کا کافی و شافی جواب پہلے ہی دے چکے ہیں اور ان کتابوں کو نہ پڑھ کر میں نے غلطی کی ہے۔ اگر میں نے انہیں پڑھا ہوتا تو ایسے ’’عجیب یا پی کیولیر‘‘ نوٹس لکھ ہی نہ سکتا۔
آپ مجھے ناخواندہ قرار دینے پر کیوں آمادہ ہیں؟ جو سوال میں نے کیا ہے اس کا جواب پیش فرمائیے، اگر کسی اسلامی متکلم نے ان سوالوں سے تعرض کیا ہے تو اس کی متعلقہ کتاب کا حوالہ دے دیجیے۔ میں اس کو ڈھونڈ کر پڑھ لوں گا۔ مجھے تو یہ شک ہو رہا ہے کہ آپ نے خود ہی علم کلام کا مطالعہ نہیں کیا ہے۔ یہی نہیں، آپ قرآن و سنت سے بھی ایسے اشکالات کے حل کے لیے کوئی مقابلے کی دلیل، آیت یا حدیث پیش نہ کر سکے۔ حالانکہ آج انٹرنیٹ پر انگریزی بلکہ اردو میں بھی اسلامی فلاسفہ و متکلمین کی بے شمار کتابیں موجود ہیں۔ عربی اردو کی تفسیر و حدیث کے ذخائرتو بہ آسانی دستیاب ہیں ہی۔
آپ کو معلوم ہو کہ میں متکلمین کےاستدلالات اور ان کے کارنامے کا معمولی علم ضرور رکھتا ہوں (سب کچھ پڑھنا نہ ممکن ہے اور نہ ضروری ہے)، اور اس موضوع پر میں نے شاید آپ سے زیادہ پڑھا ہو(میرے اس شاید والے دعوے کی دلیل آگے آ رہی ہے)۔ مجھے معلوم ہے کہ قدیم و جدید متکلمین اسلام نے اپنی’بنیادی‘کتابوں میں کیا لکھا ہے۔ علم کلام کی غرض و غایت ’’دینی عقائد کا عقلی اثبات‘‘ ہی تو ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں دور جدید میں علم کلام صرف عقائد دینیہ کے اثبات عقلی تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کا دائرہ کار احکام دینیہ کے اثبات عقلی تک بھی وسیع ہو گیا ہے۔ چنانچہ آپ مولانا مودودی کی کتابوں میں دیکھتے ہیں کہ عقائد دینیہ کے علاوہ احکام و قوانین الٰہیہ کا عقلی اثبات بھی انہوں نے فرمایا ہے۔ موجودہ دور میں کوئی متکلم یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ عقائد و احکام دینیہ کے اثبات عقلی کا مکلف نہیں ہے۔ لیکن آپ یہ فرماتے ہیں کہ اگرتم قرآن کو اللہ کی کتاب مانتے ہو تو اب اس کی ہر بات پر آزادانہ عقلی دلیل طلب کرنا غیرمنطقی ہے۔
آپ نے اپنے اس تبصرے میں بات کرنے کا جو طریقہ اپنایا ہے وہ آپ کا اپنا نہیں بلکہ مولانا مودودی کا ہے (دلیل آگے آ رہی ہے)۔ لیکن آپ کو معلوم ہو کہ مولانا مودودی بھی عقائد و احکام دینیہ کے اثبات کے لیے عقلی دلائل فراہم کرنے سے انکار نہیں کرتے۔ وہ اس کی کچھ شرطیں عائد کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ پہلے اسلام کے دائرے سے باہر کھڑے ہو جاو، یا اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے طالب علمانہ طور پر اپنے اشکالات رکھو۔ مولانا مودودی کے نزدیک ان دونوں میں سے ایک پوزیشن اپنانے کے بعد ہی ایک شخص اس لائق ہوسکتا ہے کہ اس کی طلب حجت کا جواب دیا جائے (تنقیحات)۔ لیکن علم کلام کی رو سے یہ ایک غلط مطالبہ ہے کیونکہ علم کلام تو ہے ہی اس لیے کہ عقائد دینیہ و احکام شرعیہ کی عقلی توجیہ کرے اور اعتراضات و شبہات کو رفع کرے، خواہ مخاطب کی فکری پوزیشن بظاہر کتنی ہی غلط یا غیرمنطقی نظر آتی ہو، خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم۔۔۔۔
آپ نے آگے لکھا ہے:
’’یہ نہایت مضحکہ خیز بات ہے کہ آپ کسی بات کو تسلیم کریں اور اس کے لازمی منطقی نتائج کو بھی آزادانہ دلائل کی کسوٹی پر جانچنے کی کوشش کریں۔ اس طرح نہ علم و تحقیق کی گاڑی ایک قدم چل سکتی ہے اور نہ عام زندگی کی گاڑی ۔ آپ دواخانہ گئے تھے۔ کیاآپ نے ہر دوا کے اثر کی آزادانہ جانچ عقل کی کسوٹی پر کی؟ ظاہر ہےکہ نہیں کی۔ آپ میڈیکل سائنس پر ایمان لے آئے، ڈاکٹر کے علم پر بھروسہ کیا اور اس ایمان کا تقاضہ ہے کہ آپ دوا کو بلا چوں و چرا قبول کریں۔
اسی طرح عقل کی بنیاد پرآپ خدا کو ماننے سے انکار کردیں یا خدا کی کتاب کو ماننے سے انکار کریں، تو یہ بات تو کسی درجہ میں سمجھ میں آسکتی ہے۔ لیکن اگر آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن رب العالمیں کی کتاب ہے تو اب اس کا منطقی تقاضہ ہے کہ اس کی ہر بات کو آپ قبول کریں۔ قرآن کو رب العالمیں کی کتاب ماننا اور پھر اس کی باتوں کو دوبارہ عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کرنا ایک بالکل غیر منطقی، غیر سائنٹفک اور غیر معقول رویہ ہے اور ایسے رویہ کا صدور کسی ایسے شخص سے ہی ہوسکتا ہے جو منطق ، فلسفہ، ریاضی اور علمی طریقوں کی الف بے سے بھی واقف نہیں ہے۔

اگر آپ کے بقول میں کسی بات کو تسلیم کر رہا ہوں اور اس کے لازمی منطقی نتائج کو بھی آزادانہ دلائل کی کسوٹی پر جانچنے کی کوشش کر رہا ہوں، تو یہ بات غیر منطقی تو ہو سکتی ہے لیکن ’’مضحکہ خیز‘‘ نہیں۔ اگر میں واقعی غیر منطقی ہو گیا ہوں تو اس کو غیر منطقی کہنے سے آگے بڑھ کر ’’مضحکہ خیز‘‘ قرار دینے کا مفہوم اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ اب آپ ہنس رہے ہیں کہ دیکھو کیسا آدمی ہے اتنی سی بات بھی نہیں سمجھتا۔ آخر یہ کیسا دعوتی نقطہ ٔ نظر ہے کہ آپ ایک شخص کی غیر منطقیت پر ہنستے ہیں؟ دعوت میں تو مخاطب کا دردمندی سے علاج کیا جاتا ہے۔ میری ممکنہ غیرمنطقیت کو غیر منطقی کہنے کی عقلی و اخلاقی حد سے تجاوز کرنا اور اس کو مضحکہ خیز لکھنا اپنی ہی دعوت کی جڑ کاٹنا ہے۔
آپ فرماتے ہیں کہ اگر میں قرآن کو اللہ کی کتاب مانتا ہوں تو اس کی ہر بات کو قبول کیوں نہیں کرتا؟ آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ میں قرآن ہی نہیں سنت کی بھی ہر بات کو تسلیم کرتا ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ قرآن و سنت میں متعدد احکام و عقائد ایسے ہیں جو اسی دور کے لیے مخصوص ہیں جس میں قرآن نازل ہوا۔ اب وہ صورت حال ختم ہو گئی تو ظاہر ہے ان احکام و عقائد کی ضرورت بھی ختم ہو گئی۔ اور اس حقیقت کا علم ہوتا ہے تعقل و تدبر اور حالاتِ موجودہ کے مطالعے ومشاہدے سے۔ اور داعیان دین کو ان چیزوں سے اللہ واسطے کا بیر ہے۔ آپ اپنے پورے تبصرے میں اس بات کی عقلی توجیہ نہیں کر سکے کہ دنیا کے محدود گناہوں کے لیے آخرت کی لامحدود سزا کس طرح قرین انصاف کہی جا سکتی ہے؟ آپ یہ بھی نہیں بتا سکے کہ بخاری کے مطابق ۹۹۹فی ہزار لوگ صرف اسلامی عقائد کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے جہنم میں جا رہے ہیں تو آخر اللہ تعالٰی کو نوع انسانی کی ایسی ظالمانہ آزمائش کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ اتنی کثیر تعداد میں لوگوں کو ابدی جہنم میں بھیجنے والا خدا آخر کس طرح ارحم الرحمین کہا جا سکتا ہے؟ آپ کہتے ہیں کہ ایسی تمام باتوں یا منقولات کو آنکھ بند کر کے مان لو! کیا ایک داعی عقل سے بالکل کام نہیں لیتا؟ یا ایمان لانے کے بعد اس کی عقل بالکل خبط ہو جاتی ہے؟ کیا اس کے ذہن میں ایسے سوالات نہیں اٹھتے؟ اور کیا وہ ایسے بعید از عقل اعتقادات کو کڑوی دوا کی طرح ہی ہضم کرتا رہتا ہے؟اگر میرے ان اعتراضات کا کوئی جواب ہوتا تو آپ اب تک دے چکے ہوتے۔ تعدد ازدواج اور اسلامی پرسنل لا کے حق میں تحریکی داعی کیسے دنادن دلیل پیش فرماتے رہتے ہیں!اس لیے آپ حضرات کے نزدیک عقل وہیں تک ہے جہاں تک آپ سے جواب بن پڑے۔ اور جہاں آپ سے جواب نہ بن پڑے وہاں آپ آنکھ بند کر کے مانتے ہیں۔ اور یہ تسلیم نہیں کرسکتے کہ ہم جواب دینے سے عاجز ہیں۔ اور جو لوگ مذہبی امور میں اپنی عقل کا استعمال کرنا چاہتے ہیں ان سے ان کے ایمان و یقین کی پرسش کرتے ہیں۔ غالباً میر تقی میر نے داعیوں، واعظوں، مفتیوں کے لیے ہی کہا ہے:
میر کے دین و مذہب کو کیا پوچھو ہو تم ان نے تو
قشقا کھینچا، دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا!
میں اپنی جگہ ان عقائد و احکام دینیہ پر غور و فکر کرتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ ایسے احکام و عقائد اس دور کے ذہنی و نفسیاتی نیز تہذیبی و سماجی حالات کے پیش نظرمن جانب اللہ وجود میں آئے۔ اس کے بغیر نوع انسانی کی اصلاح اس دور میں ممکن نہ تھی۔ اگر یہ توجیہ غلط ہے تو آپ اس کی صحیح توجیہ کر دیں جس پر دور جدید میں انسانی عقل کواطمینان حاصل ہو سکے۔ لیکن چونکہ ایک داعی قرآن و سنت کی ہر بات آنکھ بند کر کے مانتا ہے اور کچھ غور و فکر نہیں کرتا کہ یہ جو میں مان رہا ہوں اس میں کیا استحالہ ٔ عقلی ہے۔ حالانکہ وہ ابتدا میں عقل ہی کی بنا پر اسلام میں داخل ہوا تھا۔ غالباً تحریک اسلامی کا ایک داعی دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی طرح ہی اپنی مذہبی کتاب کو سچ سمجھتا ہے!
لیکن میں چونکہ اسلام کو دنیا کا سب سے زیادہ عقلی مذہب سمجھتا ہوں اور اسی لیے اب تک مسلمان ہوں۔ اگر اسلام کے سوا کوئی اور مذہب میری عقل کو اپیل کرتا تو میں فوراً اس کو قبول کر لیتا۔ اور اگر مجھے یہ یقین حاصل ہو جائے کہ اسلام میں صداقت نہیں پائی جاتی تو میں اعلان کر دوں گا کہ میں نسلی مسلمانوں میں سے ہوں جن کی خاصی بڑی تعداد ساری دنیا میں پائی جاتی ہے۔ آخر ہندوستان میں مجھے کس بات کا ڈر ہے کہ میں ایسا اعلان نہ کر سکوں؟
آپ فرماتے ہیں:

’’اس طرح نہ علم و تحقیق کی گاڑی ایک قدم چل سکتی ہے اور نہ عام زندگی کی گاڑی ۔ آپ دواخانہ گئے تھے۔ کیا ٓآپ نے ہر دوا کے اثر کی آزادانہ جانچ عقل کی کسوٹی پر کی؟ ظاہر ہےکہ نہیں کی۔ آپ میڈیکل سائنس پر ایمان لے آئے، ڈاکٹر کے علم پر بھروسہ کیا اور اس ایمان کا تقاضہ ہے کہ آپ دوا کو بلا چوں و چرا قبول کریں۔‘‘
’’کسی بات کو تسلیم کرنا اور اس کے لازمی منطقی نتائج کو نہ ماننا‘‘ ’’علم و تحقیق کی گاڑی کا نہ چل سکنا‘‘ وغیرہ، یہ مولانا مودودی کا خاص اسٹائل ہے جو انہوں نے تنقیحات نامی اپنے مجموعہ مضامین میں اپنایا ہے۔ آپ کو حیرت ہو گی کہ میں نے مولانا کے ان دلائل کی تردید تین چار سال پہلے رفیق منزل ہی کے کسی شمارے میں کر دی تھی۔ اب آپ نے اسی دلیل کو دہرایا ہے تو میں بھی اپنے انہی دلائل کو دہرا رہا ہوں:
دینی امور میں ایمان لانا اور دنیوی امور میں کسی ماہر کی رائے کو مان لینا بالکل دو مختلف باتیں ہیں۔
ایک ڈاکٹر اگر آپ کو ٹائیفائیڈ کی دوا دیتا ہے تو آپ دوسرے ڈاکٹر کے پاس جا کر یا خود میڈیکل سائنس کی کتابوں کو پڑھ کر اس کی تحقیق کر سکتے ہیں کہ اس نے غلط دوا لکھی ہے یا صحیح۔ یہی حال دوا کی تاثیر کا بھی ہے۔ اس کی تاثیر کی تحقیق بھی آپ لیبوریٹری میں کر سکتے ہیں۔ چونکہ ڈاکٹر بننے کا وقت ہر آدمی کے پاس نہیں ہے، اس لیے ہم ڈاکٹر کی بات کو مانتے ہیں لیکن اگر ڈاکٹر پر ذرا بھی شک ہو کہ اس کی دوا صحیح ہے یا غلط تو ہم اس کی جانچ کسی بھی وقت کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں۔ کئی ڈاکٹر تو غلط دوا بھی دے دیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں لوگ مر بھی جاتے ہیں۔ بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر نے غلط دوا دے دی، یا غلط آپریشن کر دیا۔ اچھے سے اچھے ڈاکٹر سے بھی غلطی ہو سکتی ہے اور ہو جاتی ہے۔ اس لیے آپ دنیا میں ڈاکٹر سے کہہ سکتے ہیں کہ جو دوائیں آپ تجویز کر رہے ہیں اس کے سلسلے میں آپ براہ مہربانی کچھ فرمائیں۔ پھر ڈاکٹر آپ کو پیتھولاجی لیب کی رپورٹ دکھائے گا کہ آپ کو ٹائیفائیڈ ہو گیا ہے۔ اور ٹائیفائیڈ کے یہ جراثیم اسی دوا سے ختم کیے جا سکتے ہیں جو میں نے آپ کے لیے تجویز کی ہے۔ آپ کو اگر رپورٹ پر یقین نہ ہو تو آپ بچشم خود پیتھولاجی لیب میں جا کر وہ تمام پروسیس دیکھ سکتے ہیں جس میں آپ کے خون کے نمونے کی جانچ کی جاتی ہے۔ آپ میڈیکل سائنس کی کتابوں کا مطالعہ کر سکتے ہیں، آپ مائیکرواسکوپ کے ذریعے ٹائفائیڈ جرثوموں کی تعداد شمار کر سکتے ہیں۔ اور اگر آپ کو یقین نہ آئے کہ ٹائیفائڈ کا مرض خاص اسی جراثیم کی وجہ سے پیدا ہو رہا ہے جو میڈیکل سائنس کی کتابوں میں لکھا ہے تو آپ انسان کے علاوہ کسی جانور میں اس جراثیم کو انجیکٹ کر کے اس کی جانچ کر سکتے ہیں۔ الغرض دنیاوی امور سے متعلق ہر علم کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں باز تحقیق، یعنی بحث و تمحیث، تجربہ و مشاہدہ کی راہ ہر وقت کھلی رہتی ہے۔
اس کے بالکل برعکس پیغمبر پر جو کچھ نازل ہوتا ہے اس کے تجربہ و مشاہدہ کا کوئی موقع کسی دوسرے شخص کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ نہ پیغمبر کی زندگی میں نہ اس کی زندگی کے بعد۔ نہ آپ زمانۂ حال میں خدا تعالٰی سے بات کر سکتے ہیں اور نہ آپ سیکڑوں ہزاروں سال پہلے کی اس دنیا میں جا سکتے ہیں جہاں کسی پیغمبرکا وجود پایا جاتا تھا۔ آپ اس پیغمبر پر خدا کے فرشتے کو نازل ہوتے نہیں دیکھ سکتے اور اگر آپ کو کچھ شک لاحق ہو تو آپ کسی دوسرے مذہب کے رہنما کے پاس نہیں جا سکتے ہیں کہ براہ مہربانی ہمارے پیغمبرپر فرشتوں کا نازل ہونا دکھا دیجیے، یا ہمیں خدا کو دکھا دیجیے۔ آپ کو آنکھ بند کر کے دینی امور میں اس پیغمبر کی بات پر ایمان لانا پڑتا ہے جس پر آپ ایمان لائے ہیں۔ حتی کہ خود اس پیغمبر کی زندگی میں بھی آپ اس سے ایسی کوئی درخواست نہیں کر سکتے کہ ہمیں جبریل کو دکھا دیجیے، ہمیں ملائے اعلیٰ کی سیر کرا دیجیے۔ جس طرح آپ نے طور پر خدا کا جلوہ دیکھا، اسی طرح ہم کو بھی دکھا دیجیے، جس طرح آپ معراج پر گئے، ہم بھی جانا چاہتے ہیں۔ پیغمبر تو پیغمبر، کسی صاحب حال یا ولی اللہ سے بھی اس قسم کی بات کہنا نامناسب بات ہے اور اس سے انہیں رنج پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ ولی اللہ تو اس لیے ہوتے ہیں کہ دینی امور میں آپ کی رہنمائی کریں، آپ کو موت کی سختی سے نجات پانے کا طریقہ سکھائیں، آپ کو اپنے قلب میں ہدایت کا نور بھرنے کی تدابیر بتائیں۔ آپ ولی اللہ سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ پر جو اسرار و حقائق منکشف ہوتے ہیں وہ ہم کو بھی دکھا دیجیے۔ ولی اگر خود مناسب سمجھے گا تو آپ پر اس کی نظرِ کرم ہو جائے گی۔ دین تو بزرگوں کی نظر سے پیدا ہوتا ہے۔ جس دن کسی صاحب حال کی نظر آپ پر پڑ گئی اسی دن آپ کی قلب ماہیئت ہو جائے گی۔ اسی دن آپ کی بصیرت کی آنکھ کھل جائے گی، اور اسی وقت آپ ولی کے قدموں میں گر پڑیں گے کہ یا حضرت، یا مرشد، ہم بہت بڑی غلطی میں ہیں، ہم سخت گناہوں میں مبتلا ہیں۔ ہم پر نفس کا غلبہ ہو گیا ہے۔ قلب آلودہ ہو گیا ہے۔ عالم ناپائیدار سے دل لگ گیا ہے۔ اب ہم کو وہ راہ بتائیے جس پر چل کر ہم پار اتر جائیں۔
الغرض دینی امور کے ماہروں (مثلاً پیغمبر، ولی) اور دنیوی امور کے ماہر (مثلا سائنسداں، ڈاکٹروں) کی باتوں کو تسلیم کرنے میں فرق ہی فرق ہے۔ دینی امور میں آپ حقیقت کو بچشم خود نہیں دیکھ سکتے، اور نہ وہاں دیکھنے کا موقع کسی کو دیا جا سکتا ہے۔ دنیوی امور میں آپ حقیقت کو بچشم خود دیکھ سکتے ہیں، اور وہاں سب کے لیے موقع یکساں طور پر کھلا ہوا کہ جو چاہے آئے، اور اپنی تشفی کر لے۔
اس چیز کو ایک دوسری مثال سے سمجھیں۔ دینی امور کا ماہر جنت کی خبر دیتا ہے۔ لیکن ہم جنت کو نہیں دیکھ سکتے۔ لیکن کولمبس امریکہ کی خبر دیتا ہے اور ہم جا کر دیکھ آتے ہیں کہ امریکہ کوئی جگہ ہے یا نہیں۔ اگر کوئی شخص اتنا متشکک ہو کہ امریکہ فی الواقع کوئی جگہ ہے یا نہیں تو وہ آج بھی جا کر دیکھ سکتا ہے۔ اگر ایک شخص حیاتیاتی خلیہ (بایولوجیکل سیل) پر یقین نہیں رکھتا تو ہم اس کو لیباریٹری میں جا کرالیکٹران مائیکرواسکوپ سے دکھا سکتے ہیں کہ دیکھو یہ رہا حیاتیاتی خلیہ۔ دنیوی امور میں باز تحقیق کا صرف موقع ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کی ضرورت بھی اکثر پیش آتی ہے۔ پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن سے بنا ہے، بچوں کو اس کا مشاہدہ کرایا جانا بھی ضروری ہے تاکہ ان میں سائنسی حقائق کا ادراک ہو۔ جن سائنسی نظریات و خیالات کی تصدیق کا موقع نہیں ہوتا اس کے متعلق سائنسداں یہ بتا دیتے ہیں کہ ابھی اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے، لیکن اس سمت میں جو کام چل رہا ہے، آپ اس کام کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ سائنسداں جھوٹ نہیں بول سکتے، اور اگر بولیں تو فورا پکڑے جائیں۔ سائنسداں مولانا مودودی کی طرح یہ نہیں کہہ سکتا کہ مذہبی عقائد کی طرح سائنسی عقائد کو بھی آنکھ بند کر کے مان لو ورنہ علم و تحقیق کی گاڑی ایک لمحہ کو بھی نہ چل سکے گی۔ وہ تو یہ کہتا ہے جہاں تم، وہاں میں! میں جو کچھ کہہ رہا ہوں، اس کے دلائل و شواہد موجود ہیں، تم چاہو تو میرے طریقے پر تحقیق کر کے حقیقت کا پتا لگا سکتے ہو، اور چاہو تو اپنا ایک طریقہ ایجاد کرو اور میرے اس دعوے کی جانچ کرلو۔ اگر میری بات خلاف واقعہ ثابت ہوگئی تو میں مان لوں گا۔ تم دلیل کی جانچ کرو، تجربہ و مشاہدہ کرلو، کھلی آنکھوں سے بچشم خود دیکھ لو اور ساری دنیا کو دکھا دو۔ علم و تحقیق کی گاڑی تو اسی پر چلتی ہے۔ ورنہ علم اور مذہب میں فرق کیا رہ جائے گا؟
مذہب کہتا ہے لن ترانی یعنی تو نہیں دیکھ سکتا،اور اگر دیکھ لے تو میں مذہب نہیں۔ سائنس کہتی ہے تو دیکھ سکتا ہے، دیکھنا تیرے بس میں ہے، نہ دیکھ سکے تو میں فی الحال سائنس نہیں، فلسفہ ہوں۔ مذہب کہتا ہے کہ بھروسا کر، یہی بات حق ہے جو میں کہہ رہا ہوں۔ سائنس کہتی ہے بھروسہ کا کیا سوال، شک ہے تو ابھی دیکھ لے۔ مذہب تنقیدو تردید اورریب و تشکیک کا استقبال نہیں کرتا، سائنس شک کرنے والوں کو خوش آمدید کہتی ہے۔ اگر نیوٹن پر شک نہ ہو تو آئن اسٹائن پیدا نہ ہو سکے۔ فرائیڈ پر شک نہ ہو تو ایڈلر اور ینگ پیدا نہ ہو سکیں۔ سوسئیر اور لیوی اسٹراس پر شک نہ ہو دریدا پیدا نہ ہو سکے۔ تو مذہب کے لیے شک کرنا سم قاتل اور سائنس اور سماجی علوم کے لیے آب حیات ہے۔ سائنسی و سماجی علوم کی صداقت پر شبہ کے نتیجے میں تیقن پیدا ہوتا ہے اس لیے وہاں متشککوں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے، لیکن مذہب پر جتنا شک کیا جائے، اتنا ہی گمراہ اور ضال و مضل کہہ کر کھدیڑا جاتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں پر طنز کرتے ہوئے علامہ نیاز فتح پوری نے فرمایا تھا:
’’مذہب نام ہے صرف کورانہ و جاہلانہ انقیاد و اطاعت کا، اس لیے اس کا وجود، خواہ وہ ضروری ہو یا غیرضروری، مفید ہو یا غیر مفید، صرف اسی طرح قائم رہ سکتا ہے کہ وہ اسی طرح جہل و لاعلمی کی دنیا میں رہے۔ علم کے میدان میں اس کی تگ و دو حددرجہ نامقبول جسارت ہےکیونکہ یہیں آ کر سب سے پہلے اس کے پائے لنگ کا حال کھلتا ہےاور وہ ایک مضحکہ خیز چیز بن جاتا ہے۔‘‘
مذہب کا پائے لنگ کیا ہے؟ اس میں سائنسی امور کی طرح متعددامور کی باز تحقیق یا باز تصدیق کا موقع نہ ہونا۔ سائنس اگرایمان بالغیب لانے کا مطالبہ کرتی بھی ہے تو شک ہونے پر فوراً اس کی باز تحقیق کی جا سکتی ہے اور کی جاتی ہے، اور جہاں باز تحقیق کا موقع نہیں ہوتا وہاں آثار و شواہد کی حد تک ہی ایمان لانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ اصل میں مولانا مودودی ایمان بالغیب کیا ہے یہی نہیں سمجھ سکے۔ سائنسی و سماجی علوم میں ایمان بالغیب کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ایک سائنسداں یا سماجی عالم نے کوئی دعویٰ کیا اور ہم نے اس کو فوراً سچ مان لیا۔ ہم اس سے اس کے دعوے پر دلیل مانگتے ہیں۔ اور وہ اپنے دعوے کے حق میں مختلف النوع عقلی و نقلی دلائل و آثار و شواہد پیش کرتا ہے۔ اگر ایک مورخ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ قدیم ہندوستان میں اشوک نام کا ایک شخص بادشاہ ہوا کرتا تھا۔ تو اب وہ مورخ خود ماضی میں جا کر بادشاہ اشوک کو نہیں دیکھ سکتا۔ وہ تو سابقہ تاریخی کتابوں اور تاریخی آثارو قرائن کی بنیاد پر ہی یہ دعویٰ کرتا ہے ۔اوریہ کہتا ہے کہ یہ رہے وہ تاریخی ثبوت اور دلائل جن کی مدد سے میں اس حقیقت تک پہنچا ہوں، اگر تم بھی میرے طریقے سے تحقیق کروگے تو اسی نتیجے تک پہنچوگے۔ لیکن اشوک یا گوتم بدھ کو نہ میں دیکھ سکتا ہوں اور نہ تم دیکھ سکتے ہو۔ تم جہاں ہو، وہیں میں بھی ہوں۔ اور میں تم سے اگر ایمان بالغیب کا مطالبہ کرتا بھی ہوں تو صرف اسی حد تک جس حد تک یہ آثار و شواہد بتا رہے ہیں۔ اور تم میرے اس طریقے پر چل کر میری ہی طرح مورخ بن سکتے ہو۔ بلکہ مجھ سے بڑے مورخ بھی بن سکتے ہو۔ ایک پیغمبر سرے سے حقائق کے انکشاف کے اپنے طریقہ کار یا تجربے کی کوئی تجرباتی وضاحت ہی نہیں کرتا اور نہ یہ کہتا ہے کہ اگر میرے طریقے پر چلو گے تو تم بھی پیغمبر بن جاوگے اور مجھ سے بڑے پیغمبر بھی بن سکتے ہو۔ پیغمبر اگر جبریل کو دیکھتے ہیں تو وہ اپنے کسی امتی کے سامنے جبریل کو اس کی اصلی شکل و صورت میں نہیں دکھاتے ۔ اور نہ وہ جبریل کو دیکھنے کا کوئی طریقہ بتاتے ہیں۔ وہ صرف اپنے دعوے پر ایمان لانے اور اطاعت کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
مذہب اور سائنسی و سماجی علوم میں اتنا واضح فرق ہے جس کو دنیا کا ہر شخص معلوم کرسکتا ہے۔ لیکن جو لوگ مذہب اور سائنس کو ایک کردینے کے ذریعے اپنے نفسانی خواہشات کی اطاعت کرانا چاہتے ہیں، وہ اس فرق کو تسلیم نہیں کرتے اور مطالبہ کرتے ہیں کہ جس طرح تم سائنسی و سماجی علوم کی صداقت پر ایمان بالغیب لاتے ہو، اسی طرح تم مذہبی معلومات پر بھی ایمان بالغیب کیوں نہیں لاتے؟ تم ایسا نہیں کرتے تو علم و تحقیق کی گاڑی کو روک رہے ہو۔ ہرگز نہیں، دراصل یہی وہ دعوتی پرچاری لوگ ہیں جو علم و تحقیق کی گاڑی کو روک رہے ہیں، لیکن انہیں اس کا شعور نہیں ہے۔ کیونکہ یہ زبردست ادعائیت و تحکمیت میں مبتلا ہو گئے ہیں جس سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کو یہ تیار نہیں ہیں۔
آپ آگے لکھتے ہیں:
’’علم کے ان ذرائع کو مستند سمجھنے کا منطقی تقاضہ ہے کہ ان سے حاصل ہونے والی بات اگر ہماری سمجھ میں نہ بھی آئے تو ہم اسے قبول کریں۔‘‘
آپ نے علم کے کن ذرائع کا تذکرہ کیا ہے؟ میڈیکل سائنس علم کا ذریعہ نہیں ہے۔ میڈیکل سائنس خود ’علم‘ ہے۔ اور اس کا ذریعہ ہے تفکر و تعقل، تجربہ و مشاہدہ۔ اور علم کے ماخذ ہیں عقل اور حواس خمسہ۔ انہی چیزوں سے ہمیں وہ علم حاصل ہوتا ہے جس کو ہم میڈیکل سائنس کہتے ہیں۔ میڈیکل سائنس کی کسی بھی ثابت شدہ اور مصدقہ بات پر اگر ذرہ برابر بھی شک ہو تو اس کی تصدیق ہر وقت کی جا سکتی ہے۔ ہم عام طور پر اس کو بلا چون و چرا اس لیے قبول کر لیتے ہیں کہ ان کی تصدیق کتنی ہی بار ہو چکی ہے۔ لیکن اس کے بعد بھی اگر ہمارے اندر شک ہو تو ہم خود ایک لیباریٹری قائم کر کے میڈیکل سائنس کے ان تمام حقائق کا بچشم خود مشاہدہ کر سکتے ہیں۔
اگر ہم اپنی حماقت سے ٹی بی کے جراثیم کا انکار کرتے ہیں یا یہ کہتے ہیں ٹی بی ایک متعدی مرض نہیں ہے، اور خود ڈاکٹر کو اس بات کا قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ بھی ہماری بات مان لیجیے کہ حقیقت یہی ہے تواب یہ ڈاکٹر پر منحصر ہے کہ وہ کیا ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ وہ ہماری ذہنی حالت کا معاینہ کرے گا، اور اگر ہمارے اندر صحیح الدماغ ہونے کی علامات پائی جائیں گی تو پھر وہ غور و فکر اور علم حاصل کرنے کا مشورہ دے گا۔ وہ ہم سے کہے گا کہ اگر آپ کے پیسہ ہے تو میڈیکل کالج میں داخلہ لیں، یا پھر ایک پیتھلوجیکل لیباریٹری قائم کریں اور ٹی بی کے جراثیم کا بچشم خود تجربہ و مشاہدہ کر لیں۔ پھر اگر ہم ایسا نہ کریں (حالانکہ ہم ایسا کر سکتے ہیں)، اور اس کے بعد بھی ڈاکٹر کا انکار ہی کرتے چلے جائیں تو بلاشبہ ہم صحیح الدماغ نہیں کیونکہ اپنی مذہبی ہوس میں سائنسی حقائق پر یقین رکھنے کو مذہب پر یقین رکھنے جیساایک معاملہ بنا دینا چاہتے ہیں۔ سائنسی حقائق اور مذہبی نوعیت کی غیرمعقول معلومات بالکل دو مختلف چیزیں ہیں اور دونوں میں کوئی مقابلہ جائز نہیں۔
سائنسی امور سے متعلق کوئی بات مستند ماخذ سے پہنچے اور وہ ایک شخص کے علاوہ کسی کی سمجھ میں بھی نہ آئے، یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ کمپیوٹر کیسے کام کرتا ہے لیکن چاہوں تو سمجھ سکتا ہوں۔ اگر مجھے باوجود کوشش کے سمجھ میں نہ آئے تو علمائے کمپیوٹرسائنس کی خدمات حاصل کر سکتا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی میں دیکھ رہا ہوں کہ کمپیوٹر اور ریڈیو کام بھی کر رہا ہے، اب خواہ وہ مجھے سمجھ میں آئے یا نہ آئے، میں اس کو ماننے پر مجبور ہوں کیونکہ میرے ایسا ماننے کی پشت پر میرا مشاہدہ ہے۔ میں ریڈیو یا کمپیوٹر کام کرتا ہے، اس بات پر ایمان نہیں لاتا بلکہ اس بات پر ایمان لاتا ہوں کہ وہ ’’کیسے‘‘ کام کرتا ہے۔ اور کیسے کا یہ سوال کوشش سے سمجھ میں آ سکتا ہے۔ یہ کیسے کی تفصیلات مجھے سمجھ میں نہ آئیں تو کوئی اور مجھے سمجھا سکتا ہے۔ لیکن مذہبی امور سے متعلق وہ باتیں جو کسی کی سمجھ میں نہیں آ سکتیں، ان پر ایمان لانے کا مطالبہ درست نہیں ہے۔ مثلا ۹۹۹ فی ہزار لوگ/ مشرکین ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں جائیں گے اور اس کے باوجود خدا ارحم الراحمین ہے! کیا یہ بات کسی درجہ سمجھ میں آتی ہے؟ (الا یہ کہ ہم یہ ایمان رکھیں کہ ایسی باتیں تخویف و تقویٰ پیدا کرنے کے لیے اس دور میں بے راہ روی کو دور کرنے کے لیے فرمائی گئی تھیں اور ان کی واقعاتی حقیقت ہونا عقلاً محال ہے)؟ اور اگر کسی کو مذہب کی یہ باتیں دور جدید میں سمجھ میں آتی ہیں تو وہ آ کر سمجھا دے۔
اگلے تبصرے میں آپ نے لکھا ہے:
رہی بحث دعوت اور مکالمہ کی تو ہر بات جو کہی جاتی ہے اس کی غلطی ثابت ہوجائے تو اسے تسلیم کرلیا جاتا ہے۔ ہر بڑے داعی اور اسلامی مفکر کی سوانح میں ایسے واقعات موجود ہیں کہ انہوں نے اپنی آرا سے بالاعلان رجوع کیا۔
اب اتنے واضح دلائل پا لینے کے بعد کیاآپ یہ تسلیم کر سکتے ہیں کہ آپ کی دعوت میں غلطی ہو سکتی ہے؟ آپ اصولی طور پر ہاں کہہ کر دکھائیں۔ میرا خیال ہے آپ ایسا نہیں کہہ سکتے کیونکہ ایک داعی کو اپنی صداقت کا زبردست یقین ہوتا ہے۔ داعی بریلوی ہو یا دیوبندی، تحریک اہل حدیث سے وابستہ ہو یا تحریک اسلامی سے، وہ یہ مان ہی نہیں سکتا کہ اس کی دعوت میں کوئی غلطی موجود ہے! اسی تیقن کے سبب ادعائیت پیدا ہوتی ہے، اور اسی سے آگے چل کر تحکمیت جنم لیتی ہے۔ لیکن میں یہ تسلیم کر سکتا ہوں کہ میری باتوں میں غلطی ہو سکتی ہے۔ آپ میری غلطی ثابت کر دیں میں مان لوں گا۔ آپ نے اپنی نظر میں میری ایک غلطی تو ثابت کی ہے کہ میں قرآن کو اللہ کی کتاب مانتے ہوئے بھی اس کی ہر بات کو تسلیم نہ کرنے کی غیرمنطقیت میں مبتلا ہو گیا ہوں۔ اور میں نے واضح کر دیا کہ مذہب کے میرے اور آپ کے تصور میں کیا اختلاف ہے۔ میں قرآن و سنت کےمتعدد عقائد و احکام کو اسی دور کے لیے مخصوص سمجھتا ہوں جس دور میں وہ نازل ہوئے۔ اور ایسا سمجھنے کے لیے میرے پاس فی الحال ناقابل انکار عقلی دلیلیں موجود ہیں۔ جن میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ خدا ظالم نہیں ہو سکتا اس لیے یہ احکام و عقائد مصلحتاً دیے گئے۔ ورنہ جہنم میں ۹۹۹ فی ہزار لوگوں کے محدود گناہوں کی لامحدود سزا کی اور کیا توجیہ ہو سکتی ہے؟
جب ایک بار لامحدود جہنم میں ۹۹۹ فی ہزار لوگوں کے لامحدود وقت تک جلنے کی سزا عقلا غلط ثابت ہو گئی تو پھر داعی حضرات جہنم سے ڈرنے کی دعوت کیوں دیتے ہیں؟ کیا دعوت کو غلط ثابت کرنے کے لیے اس سے بڑی کسی دلیل کی ضرورت ہے؟ میں عقل کو حجت سمجھتا ہوں اور داعی نقل کو تو پھر بحث کیسے ہو سکتی ہے؟ جب ایک داعی سے بحث ہو ہی نہیں سکتی تو متنازعہ امور میں اپنی غلطی پائے جانے پر وہ رجوع کیسے کر سکتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ ہر بڑے داعی نے رجوع کیا ہے؟
کیا آپ کے ذہن میں ایسے سوالات پیدا نہیں ہوتے؟ اور آپ بھی منقولات پر مجبوراً ایمان نہیں لاتے؟ آپ یہ مان ہی نہیں سکتے کہ آپ کے جہنم سے ڈرنے والی دعوت میں کوئی غلطی بھی ہو سکتی ہے۔ اور یہی وہ نکتہ ہے جس کو میں ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ یہ دعوتی نقطہ نظر ہی ہے جو ایسا اندھا یقین پیدا کرتا ہے جس سے اسلامی فرقوں میں زبردست ادعائیت و تحکمیت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ یہ تحکمیت اتنی بڑھتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ہاں شادی بیاہ اور دیگر تمام تعلقات حرام کر دیتے ہیں۔ حالانکہ اللہ نے قرآن میں اہل کتاب تک سے شادی کو جائز رکھا ہے! اپنی حقانیت کا اتنا یقین ہو جانا حد درجہ مہلک ہے۔
ماضی کے داعیوں نے ماضی کے حالات کے مطابق کام کیا تھا۔ موجودہ دنیا میں فکری سطح پر کسی داعی کی ضرورت فی الحال نہیں ہے۔
آپ آگے لکھتے ہیں:
’’لیکن ہر آدمی بعض باتوں کے سلسلہ میں یہ یقین رکھتا ہے کہ وہ صد فیصد سچ ہیں اور ان کی غلطی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ آپ کو یقین ہے کہ آپ انسان ہیں ، مرد ہیں، آپ کی آنکھیں دیکھ سکتی ہیں اور اردو اور انگریزی میں آپ ناخواندہ نہیں ہیں۔ کوئی اگر آپ کی اس بات کو غلط ثابت کردے تو آپ مان لیں گے۔ لیکن آپ کو یقین کامل ہے کہ ان باتوں کو غلط ثابت کیا ہی نہیں جاسکتا۔‘‘
آپ نے جو مثالیں پیش فرمائی ہیں کیا ایک شخص کو ان کی صحت کے سلسلے میں کوئی شک ہو سکتا ہے؟ کیا اس قسم کی باتوں کو کوئی غلط ثابت کر سکتا ہے؟ اور انہیں غلط ثابت کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ بہت سی باتیں ایسی ہیں جنہیں غلط اور صحیح کی بحث سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ وہ ناقابل انکار حقائق ہیں۔ سورج نکلا ہوا ہو تو کوئی یہ ثابت نہیں کرتا کہ سورج نہیں نکلا ہوا ہے۔ ہندی میں کہاوت ہے: پرتیکش کو پرمان کی آوشکیتا نہیں۔ یعنی جو حاضر ہے اس پر کوئی دلیل نہیں۔ کیونکہ جو کچھ حاضر ہے وہ از قسم محسوسات ہے۔ اس پر کوئی شک نہیں ہو سکتا الا یہ کہ اندھیری رات میں رسی کو سانپ سمجھنے جیسے وہم کا شکار ایک شخص ہو جائے۔ آپ کی مثالیں عالم شہادت سے متعلق ہیں جس میں کچھ ثابت کرنے کی ضرورت کبھی ہوتی ہی نہیں، اس میں کوئی تنازعہ کبھی ہوتا ہی نہیں، اس لیے ان باتوں پر ایمان یا یقین رکھنے کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں۔ یہ چیزیں ایمان و یقین کے دائرے سے خارج ہیں۔ کھانا کھاتے وقت ہم یہ ایمان نہیں لاتے کہ ہم کھانا کھا رہے ہیں۔ اپنے آپ کو آئینے میں دیکھتے وقت ہم یہ ایمان نہیں لاتے کہ ہم آئینہ ہی دیکھ رہے ہیں۔ ایمان و یقین کی ضرورت وہاں ہوتی ہےجہاں کچھ شک و شبہ کی گنجائش ہو، جہاں کچھ ’’مشتبہ‘‘ ہو، جہاں کچھ تنازعہ ہو سکتا ہو۔ متنازعہ امور ہمیشہ عالم غیب سے متعلق ہوتے ہیں۔
اس لیے جن باتوں میں یقین کامل ہونے کی بات آپ کہہ رہے ہیں ان باتوں میں یقین کامل یا یقین ناقص رکھنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ یقین، ایمان، بھروسا جیسے الفاظ سراسر عالم غیب سے متعلق امور میں استعمال ہوتے ہیں۔
آپ کا اگلا جملہ ہے:
’’اس یقین کی وجہ سے اس بات کی پیشکش میں ایک زبردست خود اعتمادی (جسے آپ ادعائیت کہتے ہیں) کا پایا جانا فطری ہے۔‘‘
میرے اوپر کے تجزیہ سے آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ آپ کا یہ جملہ ’باطل‘ ہے۔ میرا نام طارق صدیقی ہے۔ اور مجھے اس سلسلے میں ایمان لانے، بھروسہ کرنے، یا اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ خود اعتمادی کی ضرورت وہاں ہوتی ہے جہاں شک کی کوئی گنجائش ہو۔ میں ایک اچھا مضمون لکھ سکوں گا یا نہیں، میں امتحان پاس کر سکوں گا یا نہیں، خود اعتمادی کی ضرورت ایسے امور میں ہوتی ہے اور کوئی ضروری نہیں ہے کہ میں مضمون اچھا ہی لکھ سکوں، امتحان پاس کر ہی لوں۔ کیونکہ اچھا مضمون لکھنا، یا امتحان پاس کرنا موقوف ہے میری عقلی، علمی، ذہنی و دیگر قسم کی صلاحیتوں پر اور اس ماحول پر جس میں مجھے کوئی کام کرنا ہے۔ اور ان چیزوں کے بارے میں مجھے آئندہ حالات کا کوئی یقینی علم نہیں ہے۔
آپ آگے فرماتے ہیں:
’’ایک مومن کو خدا پر، رسول پر، قرآن پر اس سے زیا دہ ایمان ہوتا ہے جتنا مجھے یہ ایمان ہے کہ میرا تعلق بلیوں یا بکریوں کی نسل سے نہیں ہے یا یہ کہ میں جنس مونث نہیں ہوں۔‘‘
یہ جملہ بھی باطل ہے۔ ہم سب انسان ہیں، بلیوں اور بکریوں کی نسل سے نہیں ہیں، یہ ایمان کا مسئلہ ہے ہی نہیں۔ اور نہ یہ کوئی دعویٰ کرنے کی چیز ہے کہ ہم بلیوں یا بکریوں کی نسل سے نہیں ہیں۔ یہ تو ہمارے محسوسات و مشاہدات ہیں۔ لیکن ’’قرآن اللہ کی کتاب ہے‘‘ یہ ہمارا مشاہدہ نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک دعویٰ یا ایک خبر ہے۔ قول رسول کو اگر آپ حجت تسلیم کرتے ہوں تو انہوں نے فرمایا ہے کہ ’’خبر اور مشاہدہ برابر نہیں ہیں‘‘۔ یہ دونوں دو چیزیں ہیں۔ تحریکی داعیوں یا ’’ادعائیت پسندوں‘‘ کی ایک بڑی خراب بات یہ ہے کہ وہ مشاہدہ اور خبر کو ایک کر دیتے ہیں۔ دونوں کو ایک ہی درجہ میں رکھتے ہیں۔ جو چیزیں منقولات / معقولات و غیوبات میں داخل ہیں انہیں محسوسات و مشاہدات کے درجے پر لا کھڑا کرتے ہیں اور پھر ان کی پیروی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ یہ تحریکی داعی حضرات خبر کو مشاہدہ کے برابر ہی نہیں کرتے بلکہ خبر کی حیثیت کو مشاہدہ کی حیثیت سے بڑھا دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک خبر زیادہ قابل اعتماد ہوتی ہے۔ خود آپ فرماتے ہیں:
ایک مومن کو خدا پر، رسول پر، قرآن پر اس سے زیا دہ ایمان ہوتا ہے جتنا مجھے یہ ایمان ہے کہ میرا تعلق بلیوں یا بکریوں کی نسل سے نہیں ہے یا یہ کہ میں جنس مونث نہیں ہوں۔۔۔
اسلامی عقائد خبر ہیں، مشاہدہ نہیں۔ اگر ہم بلیوں یا بکریوں کی نسل سے نہیں ہیں تو یہ کوئی خبر نہیں ہے، یہ ہمارا دن رات کا مشاہدہ ہے۔ آپ نے دیکھا کہ کیسے آپ نے خبر کا درجہ مشاہدہ سے بڑھا دیا اور اس طرح قول رسول کے خلاف ایک بات فرمائی۔ اب کیا آپ اس سے رجوع کر سکتے ہیں؟
اس لئے جن باتوں کا تعلق ایمانیات سے ہے یا محکمات سے ہے اس میں یہ یقین اور خود اعتمادی ایمان کا تقاضہ ہے۔ یقین نہ ہو تو یہ نفاق کی علامت ہے۔
یقین نہ ہونا نفاق کی علامت نہیں۔ اہل نفاق کا شیوہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک شخص کے سامنے ایک بات کہیں گے اور دوسرے کے سامنے اپنی اس بات کے خلاف ایک دوسری بات کہیں گے۔ منافق چوہے کی طرح ایک سوراخ سے داخل ہوتا ہے اور دوسرے سے نکل جاتا ہے۔ ریب و تشکیک کو منافقت نہیں کہتے۔ منافق اگر اپنی منافقت کو بیان کر دے تو وہ منافق نہیں رہتا۔ لیکن شکی اگر اپنے شک کو بیان کر دے تو بھی وہ شکی ہی رہتا ہے۔ اگر اس کا شک عقل و دلیل اور تجربہ و مشاہدہ کے ذریعے دور کر دیا جائے تو اور بات ہے۔ شک اور منافقت دو مختلف چیزیں ہیں۔ دونوں کی علتیں اور ذلتیں الگ الگ ہیں۔ منافقت کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے۔ انسانی ضمیر اس کو برداشت نہیں کرتا۔ شک پر انسان کا ضمیر ملامت ہی کرے یہ کوئی ضروری نہیں۔ شک عام طور پر ظاہر کیا جاتا ہے اور منافقت عام طور پر ظاہر نہیں کی جاتی۔
منافقت انسان کی فطرتِ مذمومہ میں داخل ہے اور شک انسان کی فطرتِ صالحہ میں ۔ شک کرنا تو انسان کی فطرت ہے۔ اگر ایک شخص کو اپنے مذہب پر شک نہ ہو تو وہ اپنے مذہب کو سچا ہی سمجھتا رہے گا اور اس کے مذہبی خیالات میں کبھی کوئی تبدیلی واقع نہ ہو سکے گی۔ ایمان و یقین تبدیلیٔ مذہب و نظریہ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی ہے۔ عیسائی اپنے مذہب پر شک نہ کرے اور اس کے سچ ہونے پر صدق دل سے یقین کرتا رہے تو کبھی مسلمان نہ ہو سکے۔ ایک مسلمان اپنے مذہبی عقائد کو سچا سمجھتا رہے تو وہ کبھی دہریہ یا ملحد نہ ہو سکے۔ ایک ہندو اگر پنرجنم پر یقین کرتا رہے تو کبھی اپنے اس مذہبی عقیدے سے منحرف نہ ہو سکے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ ایک مذہبی شخص کے لیے ایمان و یقین جس درجہ ضروری ہے اسی درجہ ریب و تشکیک بھی اس کے لیے ضروری ہے۔ ریب و تشکیک تو ایک بہت بڑی خوبی ہے جو انسان کو صراط مستقیم پر لا سکتی ہے، اور صراط مستقیم وہ ہے جس کو انسان صدق دل سے صراط مستقیم سمجھے۔ آپ بھی کسی چیز کو صدق دل سے صراط مستقیم سمجھتے ہوں تو آپ صراط مستقیم پر ہیں قطع نظر اس سے کہ واقعات کی دنیا میں وہ چیز کتنی ہی بعید از عقل اور غلط ہو۔ انسان کے لیے صراط مستقیم کا تعلق ’’حقیقت‘‘ یا ’’واقعیت‘‘ سے نہیں بلکہ اس کے تلاش حق کے جذبے سے ہے جو وہ انتہائی خلوص کے ساتھ انتہائی حد تک مشکوک ہو کر کرتا ہے۔
اگر ایک انسان اپنے غور و فکر سے اس نتیجے پر پہنچے کہ خدا نہیں ہے اور اس پر اس کو شرح صدر ہو جائے تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ اللہ تعالٰی اس کو آگ کا عذاب دے۔ اصل چیز انسان کا غور و فکر کرنا ہے، اور اپنے کو اخلاق کاملہ تک پہنچانا ہے۔ اصل چیز انسان کا انسان کے ساتھ خیرخواہی کا رویہ ہے اور دیگر جانداروں کے ساتھ ممکنہ حد تک اچھا سلوک کرنا ہے۔ غالب نے کہا ہے:
وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
نہیں کچھ سبحہ و زنار کے پھندے میں گیرائی
وفاداری میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے
ظاہر ہے جب آپ صدق دل سے کچھ مان رہے ہیں تو وہ آپ کی نجات کے لیے کافی ہے۔ آپ صدق دل سے یہی مانتے رہیں کہ مرنے کے بعد تمام غیر مسلم جہنم میں جائیں گے تو آپ کی نجات میں کوئی کلام نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح ایک ہندو صدق دل سے غور و فکر کے بعد یہ تسلیم کرتا رہے کہ مرنے کے بعد تمام بدکار انسان سور اور کتوں کی یونی میں جنم لیں گے تو اس کی نجات میں بھی کلام نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح اگر ایک لامذہب شخص اپنے غور و فکر سے اس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ مرنے کے بعد انسان مٹی میں مل جائے گا اس لیے جو کچھ ہے وہ یہی دنیا ہے، اور اسی کو بہتر سے بہتر بنانا ہے تو اس کی نجات میں بھی کوئی کلام نہیں۔ اور میری نظر میں وہ تمام لوگ مسلمان ہیں جو صدق دل سے غور و فکر کرتے ہیں اور ایک نتیجے تک پہنچتے ہیں، یا صرف غور و فکر ہی کرتے رہتے ہیں، کیونکہ اسلام نام ہے اپنے کو قانون فطرت کے سپرد کردینے کا۔ اور فطرت نے انسان کو غور و فکر کا ملکہ عطا فرمایا ہے، تا کہ وہ اس کی مدد سے نیکی اور بدی کو پہچان سکے۔ پس جس کے اندر نیکی اور بدی کی سمجھ آ گئی اور وہ دوسروں کو نقصان پہنچانے سے باز آ گیا، سمجھیے کہ اس کی نجات ہوگئی۔
انسان کے لیے یہ کبھی زیبا نہیں کہ وہ کسی ایسی چیز کو آخری صداقت تسلیم کر لے جس پر اس کی عقل شدید احتجاج کرتی ہو۔ایسے امور میں انسان کے لیے تشکیک ہی واحد راہ نجات ہے۔ لیکن شاید کوئی تحریکی داعی اس چیز کو بطور ایک خوبی کے تسلیم نہیں کرتا۔ کیسے کرے گا؟ اس کے ذہن میں تو اپنی دعوت پھیلانے کاجنون ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ تعداد میں لوگ پرچارک، کامریڈ یا داعی بن جائیں، اس کی یہی کوشش ہوتی ہے۔ حالانکہ وہ خود ریب و تشکیک پھیلانے کا کام ہی کرتا ہے، دیگر تحریکات اور مذاہب کے لوگوں میں۔ مثال کے طور پر تحریک اسلامی کا داعی جب پنر جنم کے عقیدےپرعقلی اعتراضات قائم کرتا ہے تو وہ ہندو مذہب کے خلاف ریب و تشکیک نہیں پھیلاتا؟ لیکن وہ اسی کو ’’دعوت‘‘ کہتا ہے۔ اگر ریب و تشکیک کوئی بڑی خراب بات ہے ، منافقت ہے، تو آخر وہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے عقائد کو متزلزل کرنے کی کوشش کیوں کرتا ہے؟ ایک طرف وہ اپنے ہم مذہبوں کو نصیحت کرتا ہے کہ شک نہ کرو، اور دوسری طرف اپنے دلائل سے دوسرے مذاہب کے لوگوں کو ان کے عقائد سے منحرف کرتا ہے۔ پھر وہ کہتا ہے کہ ہم شک نہیں پھیلاتے۔ ہم تو اپنے مذہب کا پرچارکرتے ہیں۔ اپنے مذہب کا پرچار کرتے ہیں تو پنرجنم کا ابطال کیوں کرتے ہیں؟ کیوں اس کے خلاف کتابیں شائع کرتے ہیں؟ کبھی تحریکی داعیوں نے اپنے مذہب یا تحریک پر بھی تنقید کرکے دیکھا ہے؟ عقل کی بنیاد پر پنرجنم پر تنقید کرنا تو بہت اچھا لگتا ہے، لیکن عقل کی بنیاد پر جب اپنے عقائد پر تنقید کرنے کی باری آتی ہے تو ٹیں کیوں بول جاتے ہیں؟ کوئی مارکسسٹ داعی اپنے عقائد پر تنقید کرتا ہے؟ کوئی تحریکی داعی اپنے مذہبی عقائد کا جائزہ لیتا ہے؟ کوئی آر ایس ایس کا پرچارک سرِ عام اپنے کلچرل نیشنلزم کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی ہمت جٹا پاتا ہے؟ (الا ماشا اللہ) یہ تحریکات انسانوں کا شکار کرنے، ان کو نگلنے، اپنا لقمہ بنانے اور ان سے انرجی حاصل کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کرتیں، ورنہ دیش اوردنیا میں امن و انصاف کی خواہاں یہ دعوتی تحریکات باہمی مکالمہ کا عمل کیوں شروع نہیں کرتیں؟ کیوں آر ایس ایس، جماعت اسلامی اور کمیونسٹ جماعتیں کبھی سر جوڑ کر بیٹھتی ہیں اور صدق دل سے دنیا میں امن و انصاف کے لیے کام کرتی ہیں؟ خود ایک ہی مذہب کی دو جماعتوں (مثلاً تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی) کے درمیان سوتیا ڈاہ کیوں پایا جاتا ہے؟
اگر ریب و تشکیک بالذات کوئی بری بات ہے تو ایک مذہب یا نظریہ کا داعی دوسرے مذہب یا نظریہ کے حاملوں کے ذہن میں اپنی تنقید سے شک کے بیج کیوں بوتا ہے اور پھر اس کی فصل کیوں کاٹتا ہے؟ دوسرے مذہب پر عقلی تنقیدآپ کے لیے روا ہو جاتی ہے اور جب آپ کے مذہبی عقائد پر عقلی نوعیت کے سوال اٹھائے جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ محکمات ہیں، یہ متشابہات ہیں، ان پر کلام نہ کرو، منافق ہو جاوگے! دوسروں کے مذہبی عقائد (تثلیت یا پنرجنم) خرافات ہیں اور آپ کے مذہبی عقائد محکمات؟ ایک میں عقل کا استعمال جائز ہو جاتا ہے اور دوسرے میں عقل کا استعمال ناجائز؟ پنرجنم یا تثلیث پر عقلی تنقید کر کے ایک شخص کو آپ ’’مشرف بہ اسلام‘‘ کرتے ہیں اوراس کے بعد اس پر پابندی لگا دیتے ہیں وہ اپنے نئے مذہبی عقائد میں عقل کا استعمال نہ کرے؟ ایک طرف آپ یہ کہتے ہیں کہ پنرجنم کا عقیدہ ایک غیرمعقول عقیدہ ہے کیونکہ بدکار انسان جب کتے یا سور کی شکل میں جنم لیتا ہے تو کتے یا سور کو یہ علم نہیں ہوتا کہ اس کو کس بات کی سزا مل رہی ہے، اور خود آپ کا یہ عقیدہ آپ کے لیے معقول و غیرمعقول کی بحث سے بالکل خارج ہوجاتا ہے کہ ۹۹۹ فی ہزار لوگ جہنم میں جائیں گے (بخاری)؟ عقل کا یہ کیسا دوہرا معیار آپ نے بنا رکھا ہے؟ اور جب ایک شخص آپ کے اس غیر عقلی رویے کی طرف اشارہ کرتا ہے تو اس کو یہ فرماتے ہیں کہ تم کو منطق و فلسفہ کی الف بے سے بھی واقفیت نہیں؟ آپ اس کی علمی حیثیت کو مشکوک بنانے میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھتے۔
آخر میں لکھتے ہیں:
’’البتہ آپ کی اس بات سے مجھے اتفاق ہے کہ جزوی، اجتہادی، فروعی مسائل میں ادعائیت کی یہ شدت نہیں ہونی چاہئے اور اس میں دوسری رائے کی صحت کے امکان کو بھی تسلیم کیا جانا چاہئے۔‘‘
میرا مسئلہ تو یہ تھا ہی نہیں کہ جزوی و فروعی مسائل میں کس حد تک اتفاق رائے کیا جا سکتا ہے۔ میرا مسئلہ تو یہ تھا کہ خود مذہب کیا ہے؟ مذہبی فکر میں ارتقا ممکن ہے یا نہیں؟ مذہبی عقائد و احکام میں بھی ارتقا ہو سکتا ہے یا نہیں؟ جو مذہبی عقائد و احکام دنیا کے لیے مفید ثابت ہوئے ہیں، آئندہ زمانے میں بھی کیا وہ مفید ثابت ہو سکیں گے؟ مثلاً، مسیح اللہ کے بیٹے ہیں اور انہوں نے صلیب پا کر انسان کے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا ہے، یا تمام غیرمسلم جہنم میں جائیں گے اور جہنم میں عورتوں کی کثرت ہوگی، مرنے کے بعد بدکار انسان سور کتوں کی شکل میں پیدا ہوں گے۔ ان عقائد کی مدد سے کیا دنیا کو مختلف النوع جرائم سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے؟ اس کو پرامن بنایا جا سکتا ہے؟ یا دنیا کی مذہبی فکر میں کسی ارتقا کی ضرورت ہے تاکہ عالمی مذاہب اپنی نئی تعبیر و تشریح کر سکیں اور مذہب کا جو حقیقی مفہوم ہے اس پر تمام انسان صدق دل سے عمل پیرا ہو سکیں، بلکہ لوگ اگر مناسب سمجھیں تو اس مذہب کو قبول کر سکیں جس میں انسانی حالات کے لحاظ سے ارتقا ممکن ہو۔ یا مذہبی عقائد پر عقلی نوعیت کے سوال اٹھانا اگر غیرمنطقی ہے تو سرے سے مذہب ہی کو زیربحث لانے کی کیا ضرورت ہے؟ جب مذہب پر کوئی تنقید ہو ہی نہیں سکتی تو خواہ مخواہ اس کو علمی و فکری بحثوں میں جگہ دینے کی کیا ضرورت؟ خالص مادی اصولوں پر دنیا کی فلاح کا کام کیوں نہ کیا جائے؟ لیکن نہیں، اسلام کے سوا کسی اور مذہب والوں کو تنقید سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ اس لیے کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ سرے سے اسلام ہی کو زیربحث نہ لایا جائے؟ کیونکہ مسلمان ایسی بحثوں سے برا مان جاتے ہیں، متشدد ہو جاتے ہیں۔ چھوڑیے ہٹائیے، نہ کریں گے اسلام پر بحث۔ نہ ہو گا اسلام کا مطالعہ اور اس پر غور و فکر۔ نہ ہو گی اس پر تنقید۔ کوئی شعبہ قائم نہ ہو گا جدید یونیورسیٹیوں میں اسلامیات کا۔
اس طرح بات کریں گے تو فکری دنیا یہ رویہ بھی اختیار کر سکتی ہے۔ اور جس دن یہ خاموش رویہ دنیا کی قوموں نے اختیار کر لیا، اس دن اس بات کے ذمہ دار صرف وہ لوگ ہوں گے جو مذہب پر عقلی بحثیں اٹھانے کی ممانعت فرماتے ہیں۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس میں یہ گنجائش پائی جاتی ہے کہ جیسے جیسے انسان کا اخلاقی و روحانی ارتقا ہو ویسے ویسے اس کے عقائد و احکام میں بھی ارتقا ہوتا چلا جائے ۔ اور ارتقا کا مفہوم کسی عقیدے کی تغلیط سے نہیں بلکہ اس میں مزید ترقی سے ، اس پر مزید نئی منزلیں تعمیر کرنے سے یا اس کے آس پاس نئی عمارتیں بنانے سے عبارت ہے۔ میں تو اب بھی دلائل کی بنیاد پر یہ سمجھتا ہوں کہ اسلام سے گزشتہ مذاہب کی غیرمنطقیت کو نکال دیا گیا ہے اور مذہب کا سب سے عقلی روپ اگر کوئی ہو سکتا ہے تو وہ اسلام ہی ہے۔ اگر آپ علامہ اقبال اور نیاز فتح پوری کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ یہ دونوں حضرات اہل سنت و الجماعت کے عقائد کے برعکس عقائد رکھتے ہیں، اور انہیں’’اسلام نکالا‘‘ دینے کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہو سکے گی۔ علامہ اقبال تو صاف کہتے ہیں کہ جنت اور جہنم صرف ’’اسٹیٹ آف مائینڈ‘‘ ہے۔ وہ تو نظریہ ارتقا کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ میں تو بہ دلیل یہ کہنے کی جرات بھی نہیں کر رہا ہوں۔ میں صرف غور و فکر اور تجزیہ کرتا ہوں، کوئی نتیجہ برامد کرنا، فیصلہ سنانا، حکم لگانا میرا کام نہیں، البتہ ایسا خود بخود ہو جائے تو میں اس میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتا۔ لیکن بہر حال اپنے ہر نتیجے پر بحث و مباحثہ اور مزید غور و فکر کی راہ میں کھلی رکھتا ہوں، جو ایک ’داعیٔ حق‘‘ کے بس کی بات نہیں۔ اور یہی ابتدائی فرق ہے دعوت اور مکالمہ میں۔
اور یہ شکر کا مقام ہے کہ یہ سوالات وہ شخص کر رہا ہے جو تحریکی و دعوتی پس منظر سے نکل کر آ رہا ہے۔ کوئی دوسرا شخص جب مستقبل میں اسی قسم کے سوالات کرے گا تو دعوتی پرچاری حضرات سوائے اس کی کیا ’’توجیہ‘‘ پیش کریں گے کہ ہم ان عقائد پر عقلی نوعیت کی بحث نہیں چلا سکتے؟ اور جب ان سے یہ پوچھا جائے گا کہ: اگر خود آپ کے مذہبی عقائد انسانی عقل سے ماورا ہیں تو دوسروں کے مذہبی عقائد انسانی عقل سے ماورا کیوں نہیں ہو سکتے؟ اگر آپ اپنے مذہبی عقائد کے سلسلے میں کسی عقلی بحث پر آمادہ نہیں ہو سکتے تو دوسروں کے مذاہب پر عقلی نوعیت کی بحث کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ پھر سوائے بغلیں جھانکنے کے ان دعوتی حضرات کے پاس کیا عقلی دلیل رہ جائے گی؟
مجھے واقعی مسرت ہوئی کہ کم از کم تحریک اسلامی میں ایک صاحب تو ہیں جو میرے اٹھائے گئے سوالوں پر نہ سہی، کم از کم اپنے محکمات و یقینیات کی حد تک تو ایک داعیانہ مشورہ دے رہے ہیں، جس کو وہ ’’دوستانہ‘‘ کہتے ہیں۔ اس لیے مجھے بھی جواباً ایک دوستانہ مشورہ دینے کا حق پہنچتا ہے۔ اور وہ یہی ہے کہ شک کیجیے۔ شک کرنا ازبس لازم ہے۔ اسلامی فرقوں اور جماعتوں کی لعنت یہی ہے کہ وہ اپنے ’’محکمات‘‘ پر کبھی شک نہیں کرتیں۔ یہ ایمان و یقین میں بالکل پختہ ہیں، چکنے گھڑے کی طرح جس پر پانی کی ایک بوند بھی نہیں ٹھہر سکتی ہے۔ ان کو غور و فکر سے کوئی سروکار ہی نہیں کہ اسلام کی مدافعت کے لیے کسی صحیح رخ پر سوچ سکیں۔ یہ اپنے مخصوص فقہی قلعوں میں بیٹھے اپنی فتوحات علمیہ کے اذکاررفتہ میں مست و بے خود ہیں۔ دنیا کی قومیں عقل و اخلاق کے کس مرتبے پر فائز ہو چکی ہیں، اس پر ان کی سرے سے کوئی توجہ ہی نہیں ہے۔ غیر قوموں کی عورتیں خلائی جہاز ڈیزائن کر رہی ہیں، بلکہ خلا تک جا پہنچیں، اور یہ اپنی عورتوں کے ’’دائرہ کار‘‘ کی تعیین فرما رہے ہیں۔ تاریخ ان کا بہت سخت احتساب کرے گی اگر یہ اپنی موجودہ فقہی روش سے باز نہ آئے۔

جمعہ، 27 جولائی، 2012

دعوت، ادعائیت، تحکمیت

عالم اسلام میں، تمام تر فکری، مذہبی، تہذیبی و ثقافتی، سیاسی، اور تاریخی اختلافات، تنازعات اور تفرقوں، اورتمام ترگروہ بندیوں، تحریکوں، فرقوں اور مسلکوں کے باوجود، کم از کم ، یہ بات متفق علیہ ہے کہ اسلام ایک آسمانی یا الٰہی مذہب ہے۔ امتِ واحدہ کے مختلف فیہ اور متنازعہ امور کی موجودہ کثرت کے فکری، فقہی، تحریکی اور فرقہ وارانہ صورت حال میں، اور اعتدال پسند، انتہا پسند، بنیاد پرست اور ترقی پسند اسلام کی مغربی تقسیموں کے موجودہ عالمی منظرنامہ میں، اسلام وہ ہے، عالم اسلام کے افراد، مقامی معاشرے، تہذیبیں ، مکاتب، مسالک، خانقاہیں، فرقے، تنظیمیں اور تحریکیں جس کی مشق کرتی ہیں؛ اسلام وہ ہے، مسلمان، اپنے تمام تراختلافات، تنازعات اور مناقشات کے باوجود، جس پر انتہائی شرح صدر اور یقین کامل کے ساتھ، اور انتہائی سختی یا کم از کم انتہائی اصرار کے ساتھ، عمل پیرا ہیں—

کچھ ایسی سختی یا اصرار کے ساتھ کہ زیادہ تر مسلم اجتماعیتیں خود کو ایک ساتھ ‘برحق’، ‘فرقہ ناجیہ’، یا کم ازکم خود ہی کو ’حق سے قریب ترین‘ سمجھتی ہیں؛ کچھ ایسی سختی یا اصرار کے ساتھ کہ وہ، ’مغرب زدہ‘ تقسیموں کے مطابق خواہ اعتدال پسند ہوں یا بنیاد پرست، ترقی پسند ہوں یا روایت پرست، اپنے ہی ذریعے مقرر کردہ صراط مستقیم کو صراط مستقیم سمجھتی ہیں؛ کچھ ایسی سختی یا اصرار کے ساتھ کہ ان میں سے ہر ایک کےاپنے منفرد، مختلف ،متضاد اور متصادم اسلاموں کی تشکیل ہوئی ہے، خواہ ان کی تشکیلی بنیادیں کتنی ہی بڑی، چھوٹی، اہم یا غیر اہم کیوں نہ ہوں۔ اختلافات کی یہ بنیادیں مسالک اور مکاتب کے مخصوص نقطہ نظر پر استوار ہیں۔اس پورے منظرنامہ میں ، ایک اسلام وہ ہے جو عہد رسالت میں اپنی اصلی اور مکمل شکل میں جاری و نافذ تھا اور بہت سے اسلام وہ ہیں جو آج مسلمانوں کے درمیان اپنی مختلف اور متضاد اشاعتوں میں پائے جاتے ہیں، اورثابت نہیں ہوتا کہ عہد رسالت کا ’اصل اور مکمل اسلام ‘ان میں سے کون ہے؟ لیکن تقریباً ہر اجتماعیت یا گروہ کا دعویٰ یہی ہے کہ عہد رسالت میں اسلام وہی تھا جس کا تصور وہ کرسکتا ہے، یا جس کو اپنے تصور کی مدد سے وہ وجود میں لانا چاہتا ہے۔ اس لیے،ہر اسلامی گروہ بحیثیت گروہ کے اسلام کا کم اور اسلام کے اپنے مخصوص تصور کا اظہار زیادہ کرتا ہے۔ پس عالم اسلام کی موجودہ صورت حال میں، متفق علیہ اسلام سے زیادہ اپنے مختلف فیہ اسلام کا خانہ زاد بلکہ طبع زاد تصور مسلمانوں کی متعدد اجتماعتیوں کو اپنوں اور غیروں کے درمیان متحرک، سرگرداں اور برسرپیکار رکھتا ہے، اور اصل اسلام ان ہی گروہوں، مسلکوں اور فرقوں کے درمیان کہیں گم ہے، یا نظر نہیں آ رہا ہے اور غالباً درمیان ہی میں کہیں خاموشی سے اپنا کام کر رہا ہے، جس کو سامنے لانے کی ضرورت کے قائل سب ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ سامنے نہیں آتا، یعنی اس ’اصل‘ پر اتفاق نہیں ہو پاتا۔

اور مختلف فیہ کے اس ہجوم میں متفق علیہ، اور اس کا مفہوم بھی، گم ہو چکا ہے یا نظر نہیں آ رہا ہے۔ ایک نے دوسرے کو دھندلا اور گدلا کر دیا ہے۔ فروع نے اصل کو ، سپر اسٹرکچر نے بیس کو، دروبام نے زیر زمین بنیاد وں کو منکشف کرنا شروع کردیا ہے۔انتہائی بے کم و کاست طور پر، شاخوں نے اور ان شاخوں پر لگنے والے برگ و بار نے باہم مختلف ،متضاد اور متصادم اسلاموں کے ان تمام تر’’شجر ہائے طیب “ کی جڑوں کو فاش کرنا شروع کر دیا ہے۔ باہم مختلف اور متضاد اسلاموں کے مابین واقع ہونے والے نظریاتی اور عملی تصادم کی بے شمار تاریخی اور معاصر نظیریں اس بات کی علامت ہیں کہ ان کی نظریاتی جڑوں میں بعض انتہائی بنیادی نوعیت کے امراض ہیں جن کی ایک بار پھر تشخیص ہونی چاہیے۔بلاشبہ، پہلے بھی اس کی تشخیص ہوئی ہے لیکن ہر بار قرآن و سنت سے دوری اور اس کے سبب پیدا ہونے والی عملی کوتاہی کو ان امراض کی تشخیص کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے، اس حال میں کہ قرآن و سنت پر جتنی بحثیں ہوئی ہیں اتنی پہلے کبھی نہیں ہوئیں، قرآن و سنت پر جتنا کچھ لٹریچر شائع ہوا اس سے پہلے کبھی شائع نہیں ہوا، قرآن و سنت پر بولنے والے جتنے مقرر آج موجود ہیں اس سے پہلے کبھی نہیں رہے۔

اسلامی فرقوں اور تحریکوں کی طرف سے اس صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کے لیے مختلف پالیسیاں اور حکمتیں اپنائی جاتی ہیں جو متشدد اور انتہاپسندانہ طرز استدلال اور کارروائیوں سے لے کر اعتدال پسندی، جمہوری طرزِ افہام و تفہیم اور جمہوری حرکت وعمل کی شاہکار معلوم ہوتی ہیں۔ اسلام کے غلبے کے لیے کوشاں بیشتر تنظیموں اور تحریکوں کا مطمح نظر، آخری غرض و غایت یہی ہے کہ ایک بار ’اصل اسلام‘ کے انکشاف کے بعد، یا اس پر مسلمانوں کی بڑی آبادی کے درمیان اتفاق رائے کے بعد تمام تر بڑے اور بنیادی اختلافات مٹ جائیں گے، اور اسلام کا بہت کچھ ماضی ہی کی طرح ایک بار پھر بول بالا ہوگا۔ ایسی تحریکوں میں خانقاہیت سے مماثلت رکھنے والی نسبتاً ڈھیلی ڈھالی خالص روحانی و مذہبی تحریکیں ہیں جو اپنے سیاسی عزائم کا برملا اظہار نہیں کرتیں، یا جدید جاہلیت سے برسرپیکار منظم اور ہمہ گیر نوعیت کی عالم گیر تحریکیں ہیں جو علی الاعلان اسلام کو زندگی کے تمام تر شعبوں میں قائم یا نافذ کرنے کی بات کرتی ہیں۔

لیکن چونکہ ابتدا ہی سے مختلف اسباب (مثلاً تاریخی) کی بنا پر اسلام کی درجنوں مذہبی و فقہی اورسیاسی تشکیلیں ظہور میں آتی رہی ہیں اور ان میں سے بہت سی تشکیلیں اب بھی ہمارے درمیان موجود ہیں (تمام تر سنی اور شیعہ فرقے، فقہی مسالک)؛ چونکہ دین اسلام کی خدمت، اس کی عظمت، اس کی سرفرازی، اور اس کے غلبے کے لیے ایک سے زیادہ اسلامی تحریکات کا ظہور ہوا اور ہوتا رہا ہے (تبلیغی تحریک، تحریک اسلامی، حزب التحریر)؛ چونکہ اسلام کے مذہبی و سیاسی غلبے کے بجائے محض تہذیبی طور پر ایک صالح، صحتمند، ترقی پسند، پرامن اور متمدن مسلم معاشرہ کے قیام کے لیے ایک سے زیادہ ترقی پسند، جدید اور مابعد جدید اسلامی نظریات وجود میں آئے ہیں (نیاز فتح پوری، اصغر علی انجینئر، )، اس لیے ایک ہے اصل اسلام اور دوسرا ہے اس سے کسی نہ کسی حد تک مشابہ، مختلف یا متصادم ’اسلامی نظریہ‘ جو اسی اصل اور مکمل اسلام کی بازتحقیق یا بازیافت کے لیے ہر اسلامی گروہ نے تشکیل دیا ہے، یا اس کے اندر اس کا ارتقا ہوا ہے۔

مذکورہ بالا پیراگراف کو دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں: جن متنوع اور مختلف خیالات، نظریات، رجحانات، کا ظہور اعتدال پسند، انتہاپسند اور روایت پرست اسلامیوں کے درمیان ہوا ہے ان کی وجہہ سے، نیز صدراول کے بعد ہی سے مختلف تاریخی اسباب کی بنا پر،اسلامی مسلک، اسلامی نظریہ، تصور، یا آئیڈیالوجی کی ایک سے زیادہ انسانی تشکیلیں موجود ہیں (سنی، شیعہ، صوفی، تبلیغی، تحریکی، متشدد، معتدل، جمہوری، روشن خیال (لبرل)، ترقی پسند، نسوانیتی، آمرانہ، وغیرہ)، اس لیے ایک ہے ’اصل اور مکمل اسلام‘ جو تقریباً ڈیڑھ ہزار سالوں[1] سے ہماری نظروں سے، بحیثیت مجموعی، کسی نہ کسی حد تک اوجھل رہا ہے، اور جو عہد رسالت میں اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں جاری و نافذ تھا، اور دوسرا ہے اسی اصل اور مکمل اسلام کی باز تحقیق اور بازیافت کے لیے تشکیل دیے گئے اسلامی نقطہ ہائے نظر، مسالک، مکاتب اور نظریے۔ اس طرح، نتیجے کے طور پر،کم از کم عملاً، اصل اسلام اور اسلامی نظریہ ایک نہیں رہتے بلکہ دو ہو جاتے ہیں۔ اصل اسلام — یعنی متفق علیہ الٰہی یا آسمانی مذہب، اور اسلامی نظریہ — یعنی انسانوں کے ذریعے اس الٰہی مذہب تک پہنچانے کے لیے قائم کیا گیا ’انسانی نظریہ‘۔ ہمیں آج اسلام سے متعلق کسی بھی مسئلے پر بات کرتے وقت الٰہی اور انسانی کے اس بنیادی فرق کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔

الٰہی مذہب ایک الٰہی کارنامہ ہے، اور الٰہی مذہب کا تصور اور اس کی بنیاد پر ایک نظریہ قائم کرنا یا آئیڈیالوجی مرتب کرنا ایک انسانی کارنامہ۔ الٰہی کارنامہ از قسمِ فطرت ہے، انسانی کارنامہ از قسم تہذیب۔ از قسم فطرت یعنی اللہ کے ذریعے خلق کی گئی ایک قدرتی، فطری، غیر آلودہ اور معصوم حالت، اور از قسم تہذیب یعنی اللہ کی اس فطرت پر انسانی عمل کے ذریعے پیدا شدہ ایک آلودہ اورغیر معصوم حالت جس میں خطا کا امکان بہر حال موجود رہتا ہے اور ہے۔ الٰہی اور انسانی کارنامہ، یا فطرت اور تہذیب کے اس فرق کو ملحوظ رکھنا موجودہ دور میں ناگزیز ہے (بلکہ ہر دور میں ناگزیر ہی تھا)۔ اگر کوئی اسلامی فرقہ، جماعت، تنظیم یا تحریک اس بنیادی فرق کو تسلیم نہیں کرتی، تو اس کے لیے اس کے سوا کچھ لازم نہیں آتا ہے کہ وہ اپنے ہی اسلامی عقیدے، نظریے، اور تہذیب کو اسلامی عقیدہ، نظریہ اور تہذیب سمجھے اور دوسری تمام تر جماعتوں اور گروہوں کے نظریے کو کسی نہ کسی حد تک ، کسی نہ کسی سطح پر، کسی نہ کسی لحاظ سے، باطل یا گمراہ کن قرار دے، کم از کم مختلف فیہ معاملات کی حد تک۔ اور گروہ بندی یا فرقہ پرستی میں مختلف فیہ کی اہمیت ہوتی ہے نہ کہ متفق علیہ کی۔ اگر متفق علیہ ہی کی اہمیت ہوتی تو سرے سے گروہ بندی یا فرقہ پرستی کی ضرورت ہی نہ پیش آتی۔ پس عالم اسلام میں تفرقہ و اختلاف کی بنیادی وجہہ یہی ہے کہ ایک فرقہ الٰہی اور انسانی کے اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھتا یا ملحوظ رکھنے پر خود کو آمادہ نہیں پاتا۔ وہ اپنی ہی طبع زاد اسلامی فکر یا اپنے ہی خود ساختہ اسلامی فلسفے کو، جس کو روایتاً یا درایتاً چلے آتے اپنے ہی موہومہ، یا مفروضہ اسلام کی بنیاد پر اس نے استوار کیا ہے، اسلامی سمجھانے پر کمربستہ ہے اور دوسرے تمام تر فرقوں پر گمراہ، بدعتی، فتنہ پرور، لائق مذمت، قابل ملامت، یا کم از کم غلط، ناقابل عمل، غیرموزوں ، گمراہ کن وغیرہ قرار دینے پر بضد ہے۔

اور یہ ایسی نظریاتی، فکری، ایمانی ، اور مذہبی صورت حال ہے جو عملی طور پر عالم اسلام کے اتحاد کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اور یہ صورت حال کبھی ختم نہیں ہو سکتی ، کیونکہ ایک ایسی جدید فقہ جس کو تمام مسلمان بالاتفاق تسلیم کر لیں وضع نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ ایک ایسی وحدانی شریعت جس پر تمام مسلمان بصمیم قلب عمل کر سکیں، موجود نہیں ہے۔جو اسلامی تنظیمیں اور تحریکیں عالم اسلام کو ایک جسد واحد کے طور پر دیکھتی ہیں، وہ دراصل اپنے نظریے کو عالم اسلام پر مسلط کرنا چاہتی ہیں، اور عالم اسلام جو اسلامی عقائد تک میں باہم مختلف ہے،مکمل طور پر ایسے کسی وحدانی نوعیت کے نظریے کو تسلیم نہیں کر سکتا جو اس کے اندر پائے جانے والے فکری و مسلکی اختلاف کا سد باب کرنے کی کوشش کرے۔ آج عالم اسلام اس مقام پر ہے جہاں اسے مذہبی، فقہی، قانونی، تہذیبی و ثقافتی اور سیاسی طور پر متحد کرنے کی کوئی کوشش بارآور نہیں ہو سکتی ۔ اوراگر غلطی سے تاریخ کے کسی دور میں، کسی مقام پر، کسی اسلام پسند تحریک نے جوش خطابت کے بل پر ایسا کارنامہ کر بھی دکھایا تو اس کا آخری نتیجہ خون خرابے کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا ۔

دنیا کے مختلف خطوں میں رہنے والے ، گروہوں ، فرقوں اور مسلکوں میں منقسم مسلمان، اسلام کے اپنے منفرد تصور اور اپنی مخصوص تعبیر کے مطابق ہی اس کو جینا چاہتے ہیں ۔ جو اسلامی تحریکیں اس بڑی حقیقت کو نہ سمجھیں گی وہ اسلام کو دنیا میں بطور ایک نظریاتی قوت کے قائم نہ کر سکیں گی۔بلکہ وہ ایک تحریکی فرقہ بھی بن سکتی ہیں جس سے محفوظ رہنے کا طریقہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ اسلام کی تمام تر اشاعتوں، یا تمام تر جدید اور مابعد جدید اسلاموں کو صدق دل سے تسلیم کر لیں۔

[2]

عالم اسلام کی مذہبی وحدتوں کا دعویٰ ہے کہ یہ دنیا کے تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے اللہ کی طرف سے عطاکی گئی آخری کتاب ہے جسے اللہ کے آخری رسول آنجناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا ہے۔ ہر دعوےکے چند عقلی تقاضے ہوتے ہیں جن کو اگراس کے داعی پورا نہ کریں تو وہ اپنے ہی دعوے کے لحاظ سے باطل ہو جاتے ہیں۔

اگر قرآن تمام انسانوں کی طرف اللہ کی آخری کتاب ہے اور اگر یہ تمام انسانوں سے، ان کی انفرادی و اجتماعی حیثیت میں، بلاتفریق رنگ و نسل ، بلا تفریق مذہب و ملت خطاب کرتی ہے تو ہر دنیا کے ہر فرد اور جماعت کو اس کا حق آپ سے آپ حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ پہلے تو اس کتاب کو پڑھے، اور پھر صرف اور محض اپنے لیے اس کے معنی متعین کرے۔یعنی اس کتاب کے جملوں اور دعووں کی تشریح، توضیح، تاویل اور تعبیر کرے تاکہ وہ اس خطاب کو سمجھ سکے اور پھر اپنی سمجھ کے مطابق چاہے تو اس پر عمل کرے اور چاہے تو نہ کرے۔

کسی متن کے معانی کے تعین میں افراد باہم مختلف بھی ہوسکتے ہیں اور متفق بھی۔ اور یہ بھی بالکل واضح ہے کہ ایک فرد یا جماعت اس کتاب کے معنی کی توضیح، تعبیر اور تشریح کے اس عمل میں غلطی پر بھی ہو سکتی ہے لیکن اس غلطی کو بزور قوت درست کرنے کا اختیار کسی دوسرے فرد یا جماعت کو نہیں ہو سکتا۔ ایک فرد یا جماعت دوسرے فرد یا جماعت کو اس کی غلطی سے مطلع اور اس پر محض عقلی اعتبار سے گرفت تو کر سکتی ہے لیکن اس پر اس غلطی کی اصلاح کے لیے کسی قسم کا جسمانی دباو ڈالنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ کیونکہ ایسا بھی ممکن ہے کہ جو فرد یا جماعت غلطی کی نشاندہی کر رہی ہو وہ خود غلطی پر ہو، یا جس شخص سے غلطی ہو رہی ہو وہ اپنی غلطی کو غلطی ماننے کے لیے تیار نہ ہو۔

ایک شخص کا دوسرے شخص پر قرآن کو اسی طرح سمجھنے کا دباو بنانا کسی طرح درست نہیں ہو سکتا جس طرح وہ خود سمجھتا ہے، کیونکہ جس طرح قرآن ایک شخص کے پاس پہنچایا گیا ہے اسی طرح دوسرے کے پاس بھی پہنچا یا گیا ہے۔ قران کوئی پرائیویٹ نوعیت کا خط نہیں جو کسی ایک فرد، جماعت یا قوم کے نام لکھا گیا ہو اس لیے ایک شخص دوسرے شخص کو اس بات پر مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ قرآن کے معانی و مفہوم کی تعیین اسی طرح کرے جس طرح وہ خود کرتا ہے۔ قرآن پر اتھارٹی کااگر کوئی دعویٰ کر سکتا ہے تو وہی کر سکتا ہے جو اس کا خالق ہے یا پھر وہ جس نے اسے اس کے خالق کے نام سے پیش کیا ہے۔ حتی کہ دنیا کی کسی بھی ریاست یا حکومت کے لیےبھی—خواہ وہ کوئی اسلامی خلافت ہی کیوں نہ ہو— یہ جائز نہیں ہو سکتا کہ وہ کسی شخص کو قرآن کا مفہوم متعین کرنے اور اس پرعمل کرنے نیز اپنے اس متعینہ مفہوم کی تبلیغ و اشاعت سے روکے کیونکہ اس کے خالق نے اسے یکساں طور پر سب کے پڑھنے کے لیے بھیجا ہے۔اور پڑھنے یعنی قرأت کا یہ عمل معنی کے تعین کے بغیر ،یعنی اس کی حسب منشا تشریح، تعبیر اور توضیح کے بغیر پورا نہیں ہوتا۔اور قرأت اور اخذ ِمعنی کا عمل معنوی اعتبار سے تکثیری نوعیت کا ہوتاہے نہ کہ وحدانی۔

قرآن کو جس قدر افراد پڑھیں گے اس کے اتنے ہی مختلف و متصادم معانی، تعبیرات و توضیحات وجود میں آئیں گی، اور ان کی بنیاد پر ایک سے زیادہ اسلاموں، یا اسلام کی ایک سے زیادہ اشاعتوں کی تشکیل ہوگی، جو فکری سطح پر اپنی نوعیت میں مختلف بھی ہوں گے اور متضاد بھی، متصادم بھی ہوں گے اور متعاون بھی۔ اور یہ کوئی ایسی بات نہیں جوصرف ایک تخئیل آرائی ہو بلکہ یہ عہد رسالت کے تیس سال بعد سے، یعنی کم و بیش چودہ سو سالوں سے جاری ہے۔ لیکن واقعات کی دنیا میں ایک فرقہ یا جماعت دوسرے فرقہ یا جماعت کو کتاب و سنت کی حسب منشا تفسیر، تعبیر، تشریح اور توضیح کا حق دینے پر آمادہ نہیں ہے۔ اور اسی کا نتیجہ عملاً یہ ہو رہا ہے کہ تقریباً ڈیرھ ہزار سال سے مسلمانوں—اور صحیح معنوں میں کہیں تو انسانوں—کے درمیان خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔

فرقے اور جماعتیں اپنے مخصوص تصور کی بنا پر ایک دوسرے کو اسلام سے خارج کرتی رہی ہیں۔ مثال کے طور پربعض سنی فرقے شیعہ کو اسلام سے خارج کرتے ہیں لیکن شیعہ اس کے باوجود خود کو مسلمان کہتے ہیں، بریلوی دیوبندی اور وہابی کی تکفیر اور ان کو اسلام سے خارج کرتے ہیں لیکن دیوبندی اور وہابی خود کو مسلمان کہتے ہیں۔ تکفیر اور اخراج کے فتووں کے باوجود سب اپنے کو مسلمان سمجھتے اور کہتے ہیں۔ اب یا توتکفیر کے فتووں کو غلط کہا جائے یا مسلمان ہونے کے دعووں کو، یا اس وحدانی مذہبی تصور کو غلط کہا جائے جس کے تحت یہ تمام تر فرقے اور جماعتیں وجود میں آئی ہیں اورصرف خود ہی کو ’اصل‘ اسلام سمجھتی ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد فکری ضلالت و گمراہی کا بہ زور قوت استیصال کرنااسلامی فرقوں اور جماعتوں کی عدم رواداری پر مبنی ایک تاریخی روش ہے جس سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی فرقوں اور جماعتوں کی فقہی و فکری بنیادوں میں ہی جبروقہر کےعناصر پائے جاتے ہیں جو کتاب و سنت کی تکثیری قرأت اور ان کی حسب منشا تاویل و تعبیر اور اس پر آزادانہ مشق کرنے میں مزاحم ہوتے ہیں۔

کتاب و سنت کی مختلف قرأتوں کے نتیجے میں چونکہ فطری طور پر اسلام کی متعدد اشاعتیں ظہور میں آئی ہیں اور آتی رہیں گی اس لیے ’’اصل اسلام‘‘ کا تصور اب اسلامی فرقوں (یا جماعتوں) کے انفرادی واہمہ سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا۔قران جب مختلف زمان و مکاں میں رہنے بسنے والے باہم مختلف، متضاد اور متصادم طبائع ،اذہان اور رجحانات رکھنے والے انسانوں کے لیے نازل ہوا ہے تو اس کی قرأت بھی باہم مختلف، متضاد اور متصادم ہوگی اور اس کے نتیجےمیں اس کی ایک سے زیادہ تعبیرات و تشریحات وجود میں آئیں گی جن پر عمل پیرا ہونے کے نتیجے میں بالکل فطری طور پرایک سے زیادہ اسلاموں یا اسلام کی ایک سے زیادہ اشاعتوں کا ظہور ہو گا۔ البتہ قرأت کے ایسے ہی عمل کے نتیجے میں ایک ’’متفق علیہ اسلام‘‘ کا تصور ضرور ابھرتا ہے۔ بجائے اس کے کہ اسلام کی متعدد اشاعتوں کے مختلف فیہ عناصر کا انسدادکرنے کے ذریعے’فکری انسداد ‘یا ’مفتیانہ اخراج ‘[1]کے ذریعے ایک عالمگیر اسلامی وحدت قائم کرنے کی ناکام سی کوشش کی جائے، اصل پر اصرار ترک کرتے ہوئے ’’متفق علیہ اسلام‘‘ کے اس تصور کو ترقی دینے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔مگر اس کا طریقہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم جس فرقے کو چاہیں جمہوری قانون سازی سے کام لے کر اسلام میں شامل رکھیں اور جس کو چاہیں خارج کردیں۔چونکہ ملت اسلامیہ کو متحد کرنے سے زیادہ اس کو پرامن بنانے کی ضرورت ہے اور موجود دور میں ملت اسلامیہ کو متحد کرنے کی ہر کوشش نقض امن کا باعث ہوگی کیونکہ ہر اتحاد کے لیے ضرورت ہوتی ہے چند متفقہ عقائد کی اور اسلام میں کوئی ایک ایسا عقیدہ نہیں جو متفق علیہ ہو۔ توحید، رسالت اور آخرت کے بنیادی عقائد میں ہی مسلمانوں کے درمیان زبردست اختلافات ہیں تو بقیہ اسلام میں کتنے امور ونکات مشترک ہیں اس سے عملاً کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دو مختلف مذاہب بھی متعدد امور میں مشترک ہو تے ہیں۔

لیکن اگر اتحاد امت کا تصور اس قدر پرکشش ہے کہ اس سے پیچھا چھڑانا ممکن نہیں تو اس کا صحیح طریقہ صرف یہ ہے کہ متعدد قدیم و جدید اسلامی فرقے اور جماعتیں جن نکات پر متفق ہوں صرف انہیں دیکھا جائے اور جن پر اتفاق ممکن نہیں اس کی بنیاد پر تکفیرواخراج کی آمرانہ و جابرانہ جمہوری روش سے پرہیز کیا جائے ۔[2] یہ بات ہمیشہ ملحوظ رکھنی چاہیے کہ’ اصل ‘کو برامد کرنا اب کسی صورت سے ممکن نہیں ہے کیونکہ نہ ہمارے درمیان اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم موجود ہیں اور نہ ان کے صحابہ جن سے معانی کے تعین کے سلسلے میں رجوع کیا جائے۔ البتہ اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم ، ان کے صحابہ اور ان کے بعد کے لوگوں کے اقوال و آثار موجود ہیں ، مگر ان کے اقوال و آثار بھی بدلے ہوئے حالات میں نئی تعبیر کا مطالبہ کرتے ہیں اور بہ اعتبار اخذمعنی (تاویل و تعبیر کے ذریعے)ان کی نوعیت بھی وہی ہے جو قرآن کی ہے۔

جب خود انسان اپنے عادات و خصائل، رغبتوں اور نفرتوں، صلاحیتوں اور خامیوں میں اتنا مختلف اور متضاد ہے تو اسی انسان کے اپنے مخصوص اسلاموں میں یہ سب خوبیاں اور خامیاں کیوں نہ درآئیں گی؟ مختلف النوع اسلامی مسالک، افکار اور نظریات نتیجہ ہیں خود انسان کے اپنے تصور کا جو کتاب و سنت کی بنیاد پر ہر ایک نے اپنے لیے اپنی’محدود‘عقل و فہم سے کام لے کر قائم کیا ہے(جو ناگزیرہے)۔ اور خوبیوں کے اور خامیوں کے باوجود جب ایک انسان خود کو اصل انسان کے طور پر متعارف نہیں کراتا پھر کیا وجہ ہے کہ وہ صرف اپنے مذہب کو اصل مذہب کے طور پر متعارف کرائے؟ انسان کا مذہب اور مسلک محتاج ہے اس کے اپنے مخصوص نظریے کا جس کو اس نے اپنی انسانی حیثیت میں قائم کیا ہے، اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں سے کام لیتے ہوئے قائم کیا ہے ، پھر اس کی ان خوبیوں اور خامیوں کا اثر اس کے قائم کردہ نظریے میں پایا جانا کیا بعید کیا ہے کہ وہ اپنے ہی نظریے کو’’ اصل اور مکمل اسلام ‘‘کے نام سے پیش کرتا ہے؟ کیا دنیا کا کوئی انسان خود کو اصل اورمکمل انسان کے طور پر پیش کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ اس کے سوا دوسرے جتنے ہیں وہ سب بے اصل اور نامکمل یا کم اصل اور ناقص ہیں؟ پھر مذہب اور مسلک کے اپنے تصور کے ساتھ وہ یہ رویہ کیوں اپناتا ہے کہ اس کے تصور کی رو سے جو مذہب اور مسلک صحیح ہے، صرف وہی صحیح ہے اور باقی سب غلط ہیں۔

اصل مسئلہ تب پیش آتا ہے جب ایک مذہب اور مسلک خود ہی کو معنی کا حکم بنا لیتا ہے ، اپنی ہی عقل کو حجت قرار دیتا ہے اور دوسروں کی عقل کو خاطر میں ہی نہیں لاتا۔ خود کو معنی کا حکم بنانے کے ذریعے، ایک مذہب اور مسلک دوسرے مذہب اور مسلک کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے اور ایک مصلح ذہنی طورپر خود کو اپنے مقابل سے بلندذہنی و فکری سطح پر فائز پاتا ہے۔ صورت حال اس وقت مزید خراب اور ناقابل برداشت ہو جاتی ہے جب ایک مذہب و مسلک دوسرے مسلک و مذہب کو ڈنڈے کے زور پر سیدھا کرنا چاہتا ہے۔ یعنی رائے عامہ کو ہموار کرنے کے تبلیغی عمل کے ذریعے اسلامی یا غیر اسلامی ریاست میں قانون سازی کے جمہوری عمل پر اثر انداز ہونا چاہتا ہے۔ اور اس تبلیغی کوشش کے نتیجے میں فساد فی الارض رونما ہوتا ہے۔ اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ پھیلاو تو وہ بڑے وثوق سے کہتا ہے کہ ہم تو اصلاح کرنے والے لوگ ہیں۔ہرگزنہیں ، دراصل یہی وہ لوگ ہیں جو مفسد ہیں، جو اپنی حقانیت کو بہ جبر منوانا چاہتے ہیں۔ ایسی جابرانہ و مصلحانہ کوششوں سے ایک مذہبی گروہ کے اندر ادعائیت اور تحکمیت پیدا ہوتی ہے، وہ حق کا حوالہ دار بن جاتا ہے۔ تحکمانہ ادعائیت کا پیدا ہونا ، جمہوری عمل کے ذریعے فکری اقلیتوں کو اسلام سے خارج کردینا، اور انہیں خود کو اسلام سے خارج شدہ نہ سمجھنے پر جسمانی تشدد سے کام لینا، خود کو معنی کا حکم بنانے کا منطقی نتیجہ اور اس کے مقتضیات میں سے ہے۔