مضامین لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مضامین لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار، 5 مئی، 2013

ادارت کا فن اور اس کے مراحل

کوئی بھی انسانی کارنامہ اپنی تمام تر خوبیوں کے باوصف تسامحات، غلطیوں اور فروگزاشتوں سے مبرا نہیں ہوتا۔ اس میں کسی نہ کسی سطح پر اور کسی نہ کسی حد تک خطا کا امکان بہرحال پایا جاتا ہے اور یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ خامیوں سے یکسر محفوظ ہے اور اس میں کسی بھی نقطہ نظر سے حذف و اضافہ، تصحیح یا ترتیب و تہذیب کی ضرورت نہیں۔زندگی کے مختلف شعبوں میں انسانی کارناموں کو نقائص سے ممکنہ حد تک پاک کرنے اور انہیں ایک زیادہ مکمل شکل دینے کی غرض  سے مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں۔علوم و فنون کے متعدد شعبوں  میں ادارت ایسا ہی ایک طریقہ ہے جو علم و ادب سے متعلق  متعدد اصناف کی تصحیح و تکمیل کے لیے ابتدا ہی سے  اپنایا جاتارہا  ہے۔ موجودہ دور میں دیگر علوم و فنون کی طرح ادارت کے فن نے بھی بڑی ترقی کی ہے جس کے نتیجے میں وہ ایک منظم ، باضابطہ اور باقاعدہ فن کے طور پر تسلیم کیاجاتا ہے۔فی زمانہ ادارت کاعمل الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے میں جاری و ساری  ہے  اورعلمی و فکری کارناموں اور اخباری صحافت کے علاوہ  فلم ، ریڈیو اور ٹیلی وژن  کی دنیا میں بھی اس فن کا دور دورہ ہے۔ لیکن ذرائع ابلاغ کی مختلف اصناف اور ہیئتوں میں  فن ادارت کی اپنی منفرد اور جداگانہ اہمیت ہے۔ مثلاً فلم اور ڈاکیومنٹری کی صنف میں ادارت  بعینہ وہی چیز نہیں ہے جو جو صحافت کے شعبے میں ہے ۔ وہاں اس کا تصور، اس کا ضابطہ ٔ اخلاق ، اس کے حدود کار اور اس کے مراحل بہت دوسرے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ صحافت کی دنیا میں مدیروں کو وہی اختیارات حاصل ہیں جو فلمی دنیا میں ہدایت کاروں کو۔ لیکن فن ادارت کی مختلف شعبوں اور اصناف میں اس کی حیثیت و نوعیت سے انتہائی حد  تک صرف نظر کرتے ہوئے ہم یہاں علم و فکر، شعروادب ، ترجمہ اور صحافت کی دنیا میں فن ادارت  اور اس کے مختلف مراحل کا جائزہ لیں گے۔
ادارت ‘ عربی کے لفظ ’ادارہ‘ سے ماخوذ ہے جس کے معنی تدبیر، انتظام ،حکم، اور توجیہ کے ہیں۔  اردو میں اس سے مراد ایک اجتماعی ہیئت  کے بھی ہیں جس نے کوئی کام اپنے ذمے لیا ہو۔ آگے چل کر علمی ضروریات کے تحت اردو میں ادارت کے لفظ میں انگریزی کے لفظ edit کے مختلف لغوی اور اصطلاحی معنی بھی شامل ہو گئے جن میں سے ایک ہے: ’’کسی تحریری، سمعی، یا بصری مواد کی اشاعت کی غرض سے اس کو ترتیب دینا اور اس پر نظرثانی کرنا‘‘۔ آسان طور پر اس کا مقصد کسی متن میں ممکنہ طور پر پائی جانے والی مختلف قسم کی خامیوں اور کمیوں کی اصلاح ہے تا کہ مواد یا متن کو اشاعت کی غرض سے بہتر اور مکمل شکل میں پیش کیا جا سکے۔
فن ادارت کاایک  وسیع تر مفہوم
بہت کم تحریریں یا متون ایسے ہوتے ہیں جو ادارت کے مختلف مراحل سے گزرے بغیر شائع کیے جا سکتے ہوں۔ اور اس صورت میں بھی عام طور پر مصنف خود اپنے متن کی ادارت کرتا ہے۔ البتہ بعض استثنائی صورتیں اس کے باوجود پائی جاتی ہیں، مثلاً بہت سے شعرا اپنی موزونی طبع کے سبب فی البدیہ طویل نظمیں اور غزلیں بھی کہتے رہے ہیں، اور بہت سے مقرر ایسے خطبے بھی دیتے  رہے ہیں، جنہیں تحریری شکل میں لانے کے بعد ادارت کی گنجائش نہیں رہتی یعنی ان میں کسی حذف و اضافہ یا تصحیح مزید کی گنجائش نہیں ہوتی۔ پھربھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ شعرا اور مقررین اپنے فی البدیہہ اظہار سے پہلے خود اپنے ذہن میں خلق ہونے والے اشعار یا خطبے کی تصحیح نہ کرلیتے ہوں گے، یا کم از کم اظہار سے پہلے ان کے ذہن میں ادارت یا اس جیسا کوئی عمل واقع نہ ہوتا ہوگا۔ پس بغور جائزہ لینے پر امرواقعہ تو یہی نظر آتا ہے کہ وسیع ترین معنوں میں ادارت خود تخلیق کے متوازی طور پر، یا اس کے فوراً یا ایک عرصے کے بعد پیش آنے والا فطری عمل ہے جو کہ ایک طرف شاعر، مقرر یا مصنف کی سطح پرانجام دیے جانے والے تخلیقی و تنقیدی عمل کا  حصہ ہے تو دوسری طرف اس متن کی نشرواشاعت کے لیے ادارتی سطح پر انجام دیا جانے والا ایک غیرجانب دارانہ اورہم نفسی پر مبنی عمل[1] ہے جس کے لیے مختلف الاقسام صلاحیتوں کے ساتھ تنقیدی و تخلیقی صفات بھی  درکار ہوتی ہیں۔
فن ادارت کی تعریف
فن ادارت کے اس قدر وسیع تر معنوں کے ساتھ اس کامتعینہ مفہوم اور اصطلاحی معنی بھی ہیں اور اس کے کچھ فکری و تکنیکی تقاضے اور پیشہ ورانہ اصول و آداب یا حدود بھی۔ متعینہ معنوں میں ادارت کسی متن میں ممکنہ طور پر پائی جانے والی مختلف قسم کی خامیوں اور غلطیوں کی تصحیح، اور متن میں حذف و اضافہ کرنا ہے تا کہ  اس میں بقدر ضرورت اور / یا مطلوبہ جامعیت اور ایجاز و اختصار پیدا ہو سکے۔موجودہ دور میں ادارت پرنٹ میڈیا سے لے کر الیکٹرانک میڈیا تک میں رائج ایک وسیع سرگرمی ہے جس کی تعریف درج ذیل طور پر کی جا سکتی ہے:
ادارت کسی منتخب سمعی، بصری اور تحریری مواد یا متن کی تصحیح، اس کی بقدر ضرورت تلخیص، اس کی تنظیم، اور دیگر تبدیلیوں پر مبنی ایک تخلیقی، تحقیقی اور تنقیدی عمل ہے جس کا مقصد اس مواد یا متن کو بہتر، مربوط ، جامع ومانع اور مکمل شکل میں پیش کرنا ہے۔
ادارت بحثیت فن
ادارت ایک فن  یا آرٹ ہے ۔ اور آرٹ  ہمیشہ اپنی فطرت میں سائنس سے بہت دور ہوتی ہے۔  بلاشبہ ادارت  کے تحت  سائنسی نوعیت کی کارروائیاں بھی ہوتی ہیں، مثلاً، متن کے لسانیاتی، کتابیاتی، اشاریاتی ، حوالہ جاتی اور حسابی پہلو و ں کی ادارت ۔ لیکن بحثیت مجموعی ادارت متن کے ساتھ اس قدر لطیف ، نہ پکڑ میں آنے والی مگر اثر انگیز کارروائی ہے کہ جب ایک لائق مصنف ادارت کے بعد اپنے متن کو دیکھتا ہے تو اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہے تو وہی متن جو اس نے لکھا تھا لیکن صحت و صفائی کے بعد اس کی فکری صلابت اور اثرپذیری میں بڑا اضافہ ہوگیا ہے ۔ اور اس بات کو صرف ایک مصنف ہی محسوس کر سکتا ہے یا  پھر وہ لوگ جو ادارت کے فن پر قدرت کاملہ رکھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ادارت کسی ناکارہ متن کو بامعنی بنا سکتی ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ وہ ایسے متون کو جو انتہائی عجلت میں لیکن برسوں کے غور و فکر کے بعد لکھے گئے ہوں، انتہائی حد تک بااثر بنا سکتی ہے۔ دراصل مدیر کی فنکارانہ مہارت ایسے متون کے قلب میں جھانکتی ہے اور وہاں سے وہ کچھ نکال لاتی ہے جو مصنف کے لیے وقت کی کمی اور عجلت کے سبب ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔ ایک فن کی حیثیت سے ادارت اپنے پیش نظر متن میں اسی طرح مستغرق اور منہمک ہوتی ہے جس طرح ایک سنگ تراش اپنے مجسمے کی تخلیق کے بعد اس کی مزید  تراش خراش  کرتے ہوئے فائینل ٹچ دیتا ہے ۔ یہ واقعی ایک حیرت انگیز امر ہے کہ مدیر اس متن کو جونہ کبھی اس کا تھا اور نہ کبھی اس کا ہو سکے گا، کچھ اسی طرح سنوارتا ہے جس طرح ایک مصور اپنی پینٹنگ کی ، ایک فوٹوگرافر اپنی تصویر کی نوک پلک  درست کرتا ہے۔ دوسروں کے متن کی اس قدر انہماک کے ساتھ نوک پلک  درست کرنا، اس کو اس رخ پر لے جانا جس پر خود اس متن کا مصنف لے جانا چاہتا تھا، دراصل ایک ایسا بے غرض اور لوث فن ہے جو کہ انسانی بصیرتوں سے معمورایک ذہن و دل کا وظیفہ  ہی ہو سکتا ہے۔ ادارت کی سب بڑی اور بااثر منزلوں میں سے ایک ہے ایک  بااثر رسالے کا مدیر ہونا جس کے تحت ایک مدیر اپنے رسالے میں شائع ہونے والی تحریروں پر اثر ڈالتا ہے اور ایسے مصنفوں کی بھیڑ سے ایسے مصنفوں کو نکال لاتا ہے جن کے متن واقعی قابل رشک کہے جا سکتے ہیں۔ اردو ادب میں ایسے مدیروں اور رسالوں کی کمی نہیں ہے۔
ادارتی عمل کیا ہے؟
ادارت کے فن کی حقیقت و نوعیت کواور قریب  سے سمجھنے کے لیے ادارت کے عمل  سے واقفیت اور اس کو محسوس کرنا ضروری ہے۔ ادارتی عمل متن کے ساتھ مختلف الاقسام کارروائیوں پر مشتمل ہے۔ اس میں زبان و بیان کی روانی و سلاست کے نقطہ نظر سے بھی حذف و اضافے کیے جا سکتے ہیں، اور موضوع و مضمون کے لحاظ سے سے بھی بعض مشکل مقامات کو کھولا جا سکتا ہے: متن میں نئے الفاظ اور جملے جوڑے جا سکتے ہیں؛ غیر موزوں الفاظ اور جملوں پیرگراف، حتی کہ ابواب تک کو قلم زد کیا جا سکتا ہے اگر اس کی واقعی ضرورت ہو؛ متن کے مدعا، اس کے مشتملات ، اور  سیاق و سباق کو ملحوظ رکھتے ہوئے جملوں اور پیراگراف، اور ابواب کو آگے پیچھے کیا جا سکتا ہے؛ کہیں پر مصنف کا مدعا واضح نہ ہو تو حاشیے میں مصنف کا مدعا ظاہر کیا جا سکتا ہے (خاص طور سے اگر مصنف زندہ یا دستیاب نہ ہو) اور دیگر نوعیتوں کے ادارتی حاشیے بھی لکھے جا سکتے ہیں؛ بعض اوقات ادبی متون میں مصنف کی اجازت سے نئے استعارات و تشبیہات اور دیگر ادبی نوعیت کی تفصیلات داخل کرنے کے مشورے دیے جا سکتے ہیں ؛ زبان و بیان کی غلطیوں کی مروجہ معیاری زبان کے لحاظ سے تصحیح کی جا سکتی ہے اور انہیں روزمرہ کے لحاظ سے درست کیا جا سکتا ہے نیز مروجہ یا راجح املا کے لحاظ سے الفاظ کی تصحیح کی جا سکتی ہے—الغرض ایک متن کو فنی لحاظ سے معیاری، جامع، موزوں، بقدر ضرورت مختصر، موثر اور مکمل شکل دینے اور اس طرح اس کو قابل اشاعت بنانے کے لیے فن ادارت سے کام لیتے ہوئے ہر وہ کارروائی کی جا سکتی ہے جو مسلمہ علمی وفکری او راخلاقی اصولوں کے اعتبار سے مفید، ضروری یا ناگزیر ہو۔
فن ادارت  اور مدیر کے حدود و اختیارات
لیکن اس پورے عمل میں یہ واضح رہنا چاہیے کہ ہرمدیر کو کسی متن کو اڈٹ کرتے وقت ان سب کارروائیوں کے اختیارات  ایک ساتھ حاصل نہیں ہوتے۔ ایک مدیر کو مذکورہ کارروائیوں کا اختیار تبھی حاصل ہوتا ہے جب اخبار، رسالے یا اشاعت گھر کے مالک، اور خود متن کے مصنف کو مدیر کی علمی و فکری صلاحیت و لیاقت اور اس کی اخلاقی دیانت داری پر پورا اعتماد ہو اورانہوں نے اس کا باضابطہ اظہار بھی کیا ہو۔ ورنہ ایسا بھی دیکھنے آتا رہا ہے کہ مدیروں کو اپنی اصلاح اور کاٹ چھانٹ کے نیتجے میں بعض قانونی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس ضمن میں ہر ادارہ ایک واضح پالیسی اپناتا ہے اور مصنف یا متن کے خالق سے ادارت کی پیشگی اجازت لیتا ہے یا یہ بات از خود ملحوظ ہوتی ہے، اور مدیر کو ادارہ کی پالیسیوں کے مطابق کام کرنا ہوتا ہے۔ دراصل مدیر کی پیشہ ورانہ ایمانداری کا اولین تقاضا یہی ہے کہ وہ اپنے ادارے کی پالیسی کے لحاظ سے، اور حاصل شدہ اختیارات کے مطابق اپنے فرائض انجام دے۔

فن ادارت  کے لیے مطلوبہ صلاحیتں اور اس کی صفات
ادارت کا پورا عمل اس قدر نازک، پیچیدہ، نتائج کے اعتبار سے دوررس ہوتا ہے کہ ایک مدیر اگر انتہائی ذکی الحس اور فکری طور پر پختہ نہ ہو تو بڑے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ادارت کے لیے ایک شخص میں مطلوبہ تخلیقی، تحقیقی اور تنقیدی صلاحیت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر اس میں مطلوبہ تخلیقی صلاحیت نہیں پائی جائے گی تو وہ مصنف کے ذریعے تخلیق کردہ متن کو کماحقہ سمجھ نہیں سکتا۔ اسے مصنف کے ذہن میں چل رہے تخلیقی پروسیس میں جھانکنا ہوتا ہے تا کہ وہ پیش نظر متن کو سمجھنے کے بعد اس میں کسی قسم کا حذف و اضافہ کر سکے۔ اسی طرح اگر وہ تحقیقی و تنقیدی صلاحیت سے عاری ہوگا تو نہ تو وہ متن میں پائی جانے والی غلطیوں کی نشاندہی کر سکتا ہے اور نہ اس کی تصحیح کے سلسلے میں کوئی فیصلہ لے سکتا ہے۔ یہ تمام تر صفات ایک شخص کے اندروسیع مطالعہ، مسلسل غور و فکراور اپنی تخلیقی و تنقیدی صلاحیت کوبروئے کار لانے، نیز مسلسل علمی نوعیت کے کام کرنے رہنے سے پیدا ہوتی ہیں۔ پھر ایک طویل عرصے تک ادارتی کاموں کی مشق کرتے رہنے سے ایک شخص کے اندر وہ مطلوبہ بصیرت پیدا ہو جاتی ہے جس کی بنیاد پر وہ بہ آسانی یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ متن میں کہاں کہاں اور کیا کیا حذف و اضافہ کی ضرورت ہے، یا اس میں سرے سےکسی بڑی تبدیلی کی ضرورت نہیں۔
ادارت کے مراحل
کسی بھی متن کی ادارت کے کئی مراحل ہیں اور ضرورت پڑنے پر ہر مرحلے کے لیے الگ الگ مدیروں کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔ پھر ہر ایک مرحلے میں اگر ضرورت ہو تو مدیر متعلقہ مصنف سے رابطہ قائم کرتا ہے اور اسے متن میں مختلف نقطہ ہائے نظر سے اصلاحات کی تجاویز پیش کر سکتا ہے۔ ادارت کے خاص مراحل درج ذیل ہیں:


پہلا مرحلہ: مصنف کا مسودے پر نظرثانی کرنا
کسی متن کو مدیر کے حوالے کرنے سے پہلے مصنف خود اس پر نظر ثانی کرتا ہے اور مختلف پہلووں سے اس میں حذف و اضافہ کرتا ہے اور اسے اپنی طرف سے آخری شکل دیتا ہے۔
دوسرا مرحلہ: متن کا جائزہ اور مصنف کو مشورہ
مدیر زیر نظر متن کا بقدرضرورت بغور جائزہ لیتا ہے اور اس میں موجود مسائل یا خامیوں کا پتا لگاتا ہے اور اس غرض سے یادداشتیں تحریر کرتا ہے۔ اس عمل میں وہ بطور نمونہ متن کے چند پیراگراف یا ضرورت ہو تو طویل اقتباسات یا متن کے بعض منتخب حصوں کی بنیاد پر تمام تر متن میں موضوع اور مضمون، اسلوب، زبان و قواعد، اور فکری و فنی لحاظ سے پائے جانے والے مسائل یا خامیوں کا پتا لگاتا ہے۔ اس جائزے کے بعد وہ مصنف کو بحیثیت مدیر اپنے تاثرات سے مدلل طور پر زبانی یا تحریری طور پر آگاہ کرتا ہے۔ (بعض اوقات مدیر کو مصنف یا پبلشر کی طرف سے ہر قسم کی اصلاح کی پیشگی اجازت حاصل ہوتی ہے۔)
تیسرا مرحلہ: ساختی ادارت (Structural Editing)

یہ تیسرا مرحلہ ہے جو مصنف یا پبلشر کی طرف سے مجوزہ اصلاحات کی اجازت مل جانے کےبعد شروع ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں مدیر بنیادی طور پر اپنے حاصل شدہ اختیارات اور ادارتی پالیسی کے حدود میں رہتے ہوئے متن کے موضوع اور مضمون، اس میں پائے جانے والے مفاہیم، منطقی ترتیب، خیالات کے مابین ربط و تعلق کا جائزہ لیتا ہے اور اس سے متعلق اصلاح کا کام انجام دیتا ہے۔ اس مرحلے میں درج ذیل کام انجام دیے جاتے ہیں:
۱۔ مدیر اپنے پیش نظر ادبی، علمی، سائنسی یا دیگر نوعیت کے متن کے  ابتدائی حصے (تعارف، مقدمہ)، اس کے درمیانی حصے (تحقیق، تجزیہ) اور آخری حصے (حاصل کلام، نتیجہ) کا جائزہ لیتا ہے کہ آیا ان میں موضوع اور مضمون کے لحاظ سے ربط ہے یا نہیں نیز متن کے کلی مفہوم کے اعتبار سے کوئی منطقی عدم تسلسل تو واقع نہیں ہو رہا ہے۔ یعنی وہ دیکھتا ہے کہ: ابتدائی حصے میں پورے متن کا تعارف ٹھیک طور پر لکھا اور تمام مقدمات درست طور پر قائم کیے گئے ہیں یا نہیں؛ درمیانی حصے میں ابتدا میں قائم کردہ مقدمات کی بنیاد پر منطقی تحقیق و تجزیہ یا اس کے مناسب و موزوں اظہار خیال کیا گیا ہے یا نہیں؛ پھر آخری حصہ میں، ابتدائی اور درمیانی حصے کی بنیاد پر برامد ہونے والے نتائج یا اثبات شدہ حقائق کو صحت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے یا نہیں؛ اور اگر مدیر کے پیش نظر کوئی ادبی متن ہے تو کہانی یا نظم کی ساخت، اس کی ابتدا، وسط اور انتہا میں ربط و تسلسل ہے یا نہیں، نیز ان میں موضوع کے مناسب حال اسلوب، تفصیلات اور ادبی نوعیت کے مشتملات پائے جاتے ہیں یا نہیں۔
مذکورہ تمام جائزوں کے بعد یا تو متوازی طور پر بروقت تصحیح کی جاتی ہے یا متن کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے اور ضرورت پڑنے پر مصنف کو اس کے بعض حصوں کو دوبارہ لکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
ساختی ادارت میں چونکہ کئی بار مصنف سے مشورہ کرنا پڑسکتا ہے، اس لیے اُس مرحلے میں میں ہر سطر کی ادارت نہیں ہو سکتی۔  سطر در سطر ادارت کے لیے ایک الگ مرحلہ ہے جس کو سطری ادارت کہتے ہیں۔
چوتھا مرحلہ: سطری ادارت
 (Line Editing)
اس مرحلے میں متن کے ایک ایک جملے اور پیراگراف کو بغور پڑھتے، ربط و تعلق کا جائزہ لیتے ہوئے خامی پائے جانے پر اس کی تصحیح بھی کی جاتی ہے، مثال کے طور پر:  جملوں میں غیرضروری الفاظ اور پیراگرافوں میں خیالات کی غیرضروری تکرار کو حذف کرنا؛ ایک جملے کو دوسرے جملے سے جوڑنا اور توڑنا؛ حاصل شدہ اجازت اور موضوع اور مضمون کے لحاظ سے، نیز مصنف کے اسلوب کے لحاظ سے مصنف کو نئے الفاظ اور جملوں کا اضافہ کرنے کا مشورہ دینا، یا خود ہی مختصر اضافے کردینا۔ یہ پورا عمل چونکہ مصنف اور مدیر کے درمیان طے شدہ معاہدے اور متن کی نوعیت پر منحصر کرتا ہے، اور یہ نظری سے زیادہ عملی نوعیت کا مسئلہ ہے، اس لیے اس کے کوئی بہت واضح اصول متعین نہیں کیے جا سکتے ہیں، البتہ اس سلسلے میں مدیر کو مصنف اور مدیر کا فرق بہرحال ملحوظ رکھنا چاہیے اور کسی ایسے حذف و اضافہ سے کام نہیں لینا چاہیے جو تصنیف و ادارت دونوں کے پیشہ ورانہ اخلاقی اصولوں کے منافی ہو۔
سطری ادارت ساختی ادارت سے مختلف تو ہے لیکن اس میں بھی تقریباً انہی صلاحیتوں کی ضرورت پڑتی ہے اس لیے عام طور پر ساختی ادارت کرنے والے مدیر کو ہی سطری ادارت کرنی چاہیے۔
پانچواں مرحلہ: کاپی ادارت
 (Copy Editing)
یہ ادارت کا آخری مرحلہ ہے۔ متن کی بڑی خامیاں اس سے پہلے کے مراحل میں دور ہو چکی ہوتی ہیں۔ کاپی ادارت کے اس مرحلے میں پورے مسودے کو سطردرسطر بغور پڑھتے ہوئے اور قواعد، املا، رموز اوقاف وغیرہ کے لحاظ سے اس کی تصحیح کی جاتی ہے۔ اکثر رموز اوقاف کے نامناسب استعمال سے مفہوم میں غیرمتوقع تبدیلیاں واقع ہو جاتی ہیں۔ کبھی کبھی مصنف یا خود سابقہ ادارت کے عمل میں غیر مروجہ املا درج ہو جاتا ہے، کبھی لفظوں، سطروں اور پیرگراف کے درمیان خلا کی کمی یا زیادتی جیسی متعدد غلطیاں متن میں راہ پا جاتی ہیں ۔ کاپی اڈیٹران سب خاموں کی اصلاح اپنے ادارے میں مروجہ اسٹائیل مینوئیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کرتا ہے۔
مذکورہ بالا پانچ مراحل میں ادارتی عمل کی انجام دہی سے متن میں زبان و بیان کے اعتبار سے سلاست و روانی پیدا ہوتی ہے اور وہ موضوع و مضمون کے اعتبار سے ایک نکھری ہوئی اور مکمل شکل میں سامنے آتا ہے۔ پھر مسودے کو کتابت یا کمپوزنگ کے لیے روانہ کر دیا جاتا ہے جہاں کاتب اڈٹ کیے گئے مسودے کی کتابت کرتا ہے یا اسے کمپیوٹر پر ٹائپ کرتا ہے۔ آج کل زیادہ تر مصنف کمپیوٹر پر ہی لکھنا پسند کرتے ہیں اوراکثروبیشتر حالات میں مسودہ ادارتی عمل سے پہلے ہی کمپوز ہو چکا ہوتا ہے۔ آج کے مدیران مسودے کی صحت و صفائی کے خیال سے پرنٹیڈ مسودے کو ترجیح دیتے ہیں اور ادارت کا عمل اسی پرنٹیڈ مسودے پر انجام دیا جاتا ہے۔ جب ادارت کے تمام تر مراحل پورے ہو جاتے ہیں تو پھر ادارت شدہ مسودے کو ایک بار پھر کاتب کے پاس بھیجا جاتا ہے جو مدیر کی ہدایت کے عین مطابق اس میں حذف و اضافہ کرتا ہے۔ اس کے بعد فائینل پرنٹ نکال کر کتابت شدہ مسودے کو پروف خواں کے پاس بھیجا جاتا ہے۔ وہ یکے بعد دیگرےمسودے کے کئی پروف پڑھتا ہے اور آخری پروف کے بعد اشاعت کے لیے تیار مسودے کی فائینل کاپی اڈیٹر کو روانہ کر دیتا ہے۔
برسبیل تذکرہ: موجودہ دور میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے استعمال نے ادارت کے فن میں مختلف النوع سہولتیں پیدا کر دی ہیں۔ مثلا اب ادارت کا کام بجائے کاغذ کے براہ راست کمپوٹر پر ہو رہا ہے جس سے حذف و اضافہ اور اصلاح کے عمل میں صفائی اور آسانی پیدا ہو گئی ہے۔ مائیکروسافٹ ورڈ کے ریویو آپشن میں ادارتی کام ٹھیک اسی طرح انجام دیے جا سکتے ہیں جا سکتا ہے جس طرح ہم کاغذ پر دیتے آ رہے ہیں۔ نیز،اس سافٹ ویر میں ادارت کے تمام ترمراحل کو بہ آسانی محفوظ بھی کیا جا سکتا ہے اور کس مدیر نے کس وقت کس مسودے میں کیا حذف و اضافہ یا اصلاح کی اسے بہ آسانی ٹریک کیا جا سکتا ہے۔
فن ادارت تخلیقی، تحقیقی اور تنقیدی نوعیت کا ایک عظیم فن ہے جو اپنے وسیع معنوں میں خود تصنیفی عمل کا ایک حصہ ہے کیونکہ یہ تخلیقی پروسیس میں متوازی طور پر جاری رہتا ہے اور/یا متن کے وجود میں آنے کے فوراً یا کچھے عرصہ بعد شروع ہوتا ہے۔ لیکن یہ فن اپنے اصطلاحی اور متعینہ معنوں میں تصنیفی عمل سے الگ ایک باقاعدہ، باضابطہ، مرحلہ وار اور منظم فن ہے جس کی ضرورت اور اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔
ادارت کا فن تبھی کامیاب ہو سکتا ہے جب  متن کو ادارت کے تمام تر مراحل  سےانتہائی چابکدستی اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ گزارا جائے۔ ادارت کے ابتدائی مرحلوں سے آخری مرحلے تک بلکہ  پروف خوانی کے بعد بھی  ایک مدیر کی ذمہ داریاں ختم نہیں ہوتیں اور اسے ہر لمحہ متن کے معیار اور مشتملات کی ترتیب و تہذیب اورمسلسل نگرانی   کرنی ہوتی ہے۔
کامیاب ادارت لسانی، فکری، تخلیقی، تنقیدی، تحقیقی اورجدید ترین علمی اور تکنیکی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے پر منحصر کرتی ہے۔ایک اچھے مدیر کو زبان و بیان کے اعتبار سے عمدہ اور موضوع کے اعتبار سے وسیع المطالعہ ہونا چاہیے، نیز اس میں غور و فکر کی صلاحیت، تاریخی شعور، عصری آگہی، مجتہدانہ بصیرت اور انسانی معاملات و مسائل پر گہری نظر اور دوسروں کے نقطہ نظر کو کماحقہ سمجھنے اور اس کا احترام کرنے، نیز اختلافات کو برداشت کرنے کا مادہ بھی ہونا چاہیے تب ہی جا کر وہ ایک غیرجانب دار، انصاف پسند اور مثالی مدیر بن سکتا ہے یا اس فن میں قابل قدر اضافہ کرتے ہوئے اسے بلندیوں تک لے جا سکتا ہے۔
[1] Empathetic process

تحقیق کے مسائل


تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات  کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں  حتی الامکان  منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے  طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق  معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن  اس ناقابل حل  مسئلے  کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔

تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف  پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے دوسرا لفظ حقیقت بنا ہے۔ تحقیق کے لغوی معنی کسی شئے کی حقیقت کا اثبات ہے۔ ’’تحقیق کے لیے انگریزی میں استعمال ہونے والا لفظ ریسرچ ہے…اس کے ایک معنی توجہ سے تلاش کرنے کے ہیں، دوسرے معنی دوبارہ تلاش کرنا ہیں …ریسرچ فرنچ سے نکلا ہو لفظ ہے جس کے معنی ہیں پیچھے جا کر تلاش کرنا۔‘‘  (تحقیق کا فن از گیان چند جین) مختلف علوم کے ماہرین نے تحقیق کے  اصطلاحی معنی بھی بیان کیے ہیں اور ان میں لفظی و معنوی اختلاف و نزاع  ہے ۔  ان سب کے احاطے کا موقع نہیں لیکن بطور ایک اصطلاح کے تحقیق  کے جو بھی معنی ہوں،تحقیق کو اور تحقیق میں  درپیش  مسائل کے باب میں  اصل بات دیکھنے کی یہ ہے کہ کیا  تحقیق کے مقاصد اور  اس کی منہاجیات پرمذہبی، فلسفیانہ و سائنسی اور دیگر تمام علوم کے مابین کوئی  ہمہ گیر اتفاق پایا جاسکتا ہے؟ جواب ہے  نہیں۔کیونکہ خود زندگی اور اس کے مقاصد مختلف فیہ اور متصادم  ہیں۔ اور زندگی کے انہیں  مختلف النوع مقاصد کے اعتبار سے باہم  مختلف متضاد اور متصادم علوم و فنون پائے جاتے ہیں۔ غیب کو شہود  یا  شہود کو غیب میں بدلنے کے ان کے  مقاصد جدا  اور طریقے مختلف ہیں۔مابعد جدید ادوار میں علمی تحقیق کو صرف تیقین کے لیے نہیں بلکہ تشکیک کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پروفیسر ژاں بودریلار  جب اپنی کتاب
The Gulf War Did Not Take Place (1991)
میں ثابت کرتا ہے کہ ۱۹۹۱ میں خلیج کی جنگ دراصل واقع ہی نہیں ہوئی تو ایسا نتیجہ دراصل رائج الوقت نظامہائے فکر و نظر پرتشکیک کے ایک گہرے عمل کے بعد ہی نکالنا ممکن ہے۔ ظاہر ہے یہ سن کر ذہن چونکتا ہے اور جنگ ِخلیج کے مناظر کے خلاف شک پیدا کرتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جو حقائق ہماری آنکھوں کے سامنے دن رات ٹی وی سے نشر کیے جاتے ہیں، وہ واقعی حقائق بھی ہیں؟    بودریلار  یہ قطعی نہیں کہہ رہا کہ خلیج میں سرے سے  کچھ ہوا ہی نہیں، بلکہ وہ صرف یہ کہتا ہے جو کچھ ہوا اس  پر ’’جنگ‘‘ کی تعریف کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔وہاں جو کچھ واقع ہوا  وہ ظلم تھا جس  نے جنگ کا ’بہروپ‘ بھر کر دنیا کو گمراہ کیا۔جو کچھ ہوا اگر وہ جنگ نہیں تھا تو پھر وہ ہوا ہی نہیں۔ اس کے بجائے کچھ دوسری چیز ہوئی جس کو اخباری ذہن قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ تحقیق اخباری ذہنیت سے نکل کر اوہام  اور دروغ کی دھند کو ہٹا نے اور ان پر شک کرنے کا عمل ہے اور جب تک خود  مروجہ ’’حقائق‘‘  پر شک نہ کیا جائے ، ان کے اندر سے جو واقعتاً  حق ہے وہ کبھی برامد نہیں ہوسکتا۔
 پس کیا چیزیں قطعیات و تیقنات کے دائرے میں داخل ہیں ، بلکہ یہاں تک بھی کہ کیا چیزیں بدیہیات میں شمار ہیں اور کیا نہیں، ان کی بنا پر دنیا میں ہمیشہ سیاست ہوتی رہی ہے۔ کہنا مقصود یہ نہیں ہے کہ تحقیق کوئی قابل اعتماد سرگرمی نہیں ہو سکتی، مگر  اب  لوگ  اس پربھی غور کرنے لگے ہیں کہ   انسانی زندگی اور ان سے متعلق علوم و فنون، اور وہ علوم  جو  سماجی علوم   اور انسانیات کے دائرے میں آتے ہیں اپنے  فکری و تحقیقی طریقہ  کار میں کیا واقعی قابل اعتماد ہیں؟ فلسفہ میں  متشککین کا ایک گروہ ہمیشہ سے رہا ہے جو   زندگی کو عملاً برتتے ہوئے بھی تمام تر موجودات  کو دلائل کی بنیاد پر ’’حلقہ ٔ دام خیال‘‘ مانتے رہے ہیں۔ دور جدید میں بھی سائنسدانوں کی طرف سے  یہ قیاس کیا جاتا رہا ہے کہ   کائنات دیکھنے کے حسی عمل میں  وجود پذیر ہوتی رہتی ہے ، اورکائنات کا وہ  مادی  تصور جو ہزارہا سالوں سے چلا آرہا تھا سائنسی بنیادوں پر ثابت نہیں ہوتا۔ چونکہ  سائنس کی ایک شرط حواس خمسہ کو پہنچنے والا علم ہے ، اور حواس خمسہ  قائم بالذات نہیں، اور اس کو بھی عقل و شعور   سے تصدیق کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے  محسوسات  اپنے سے باہر کی ایک شئے ، یعنی معقولات  کو حجت بنانے پر مجبور ہے اور محض اسی لیے سائنسی نوعیت کا’’ معقول‘‘ یا بہ الفاظ دیگر  ’’ نظریہ ٔ  سائنس ‘‘ خود ایک فلسفیانہ زاویہ ہے خود اپنے ہی  ’’محسوس ‘‘ کا اثبات  اپنے ہی ڈسکورس میں کرتا ہے ، اور اس کی صحت و عدم صحت کے لیے  دیگر فلسفیانہ زاویوں سے طبعاً رجوع نہیں کر سکتا کیونکہ اس کی نظر میں دیگر فلسفیانہ زاویوں سے اس کی عداوت ہے۔ اس خیال میں صداقت کا ایک عنصر پایا جا سکتا ہے۔ بارہا دیکھا گیا ہے  کہ سائنسی نظریہ’’ محسوسات‘‘ سے کام لے کر دیگر فلسفیانہ زاویوں کا انسداد کرتا ہے یعنی:  انہیں  ہیومین سائنسیز  کے ڈسکورس سے یا تو مکمل طور پر  باہر کر دیتا ہے یا اس  ڈسکورس میں رکھ کر ان پر اپنے طریق و منہاج  کی رو سے تحقیقاتی کارروائی کے ذریعے  کبھی حسبِ منشا  ان کی تربیت کرتا اور کبھی ان میں سے بعض پر قابو پا کر انہیں بے دست و پا کر دیتا  ہے ۔تحقیق کا یہ  ایک ایسا مسئلہ ہے جو تاحال ناقابل حل ہے الا یہ کہ سائنسی نظریہ اور دیگر فلسفیانہ (بشمول متصوفانہ ) زاویوں کے درمیان کسی فکری  نوعیت کی مفاہمت  کی گنجائش نکالی جا سکے جس سے کہ  تمام تر علوم انسانی  کا انفراد بھی قائم رہے اور وہ  اپنے مخصوص میدان میں اپنی طرح ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حقیقت  تک  رسائی حاصل کر سکیں۔اس طرح علوم کے درمیان مکالمہ کا ایک عمل شروع ہوتا ہے جو بین العلومی تحقیق سے عبارت ہے( جس کے اپنے مسائل اور امکانات ہیں۔ اس کی   تفصیل اس مضمون کے اگلے حصے میں درج کی جائے گی)۔
اس پورے مسئلے کو ایک اور نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں: جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے جدلیاتی و مکالماتی  ڈسکورس میں پائے جانے والے   تنقیدی  رجحانات انسانی علوم میں تحقیقات کی رو سے   جاری مسلمات سازی کے عمل میں مداخلت (Intervention) کرتے ہیں، اور کچھ اس قسم کے دلائل پیش کرتے ہیں: جو علوم  و فنون  سائنس کے دائرے میں  آتے ہی نہیں، ان میں معقولاتی و منقولاتی نیز جزوی طور پر حسی طریق ہائے کار سے تو کام لیا جا سکتا ہے لیکن  وہاں سائنسی طریقۂ   کار سائے کی طرح ہمارے ساتھ  نہیں رہ سکتا،اور   نتیجتاً و  لازماً تحقیق کو  کہیں نہ کہیں فلسفیانہ تعبیر ات کا ’’شکار ‘‘ہونا پڑتا ہے، یا زیادہ غیرجانب دار طور پر کہا جائے تو اسے کہیں نہ کہیں  ان فلسفیانہ تعبیرات سے ’’مدد لینی‘‘ پڑتی ہے اور تعبیرات میں پہلے ہی عقولِ انسانی کے مابین  اختلافات ہیں۔یہی سبب ہے کہ انسانیات اور سماجی علوم کے میدان میں سائنسی طریقے سے انجام دی  جا رہی تحقیقات  میں کسی زیرتحقیق  مسئلہ پر وقت واحد میں دستیاب یکساں  ماخذ و مواد کے باوجود عقلی نوعیت کی تعبیرات  و ترجیحات کے سبب  زاویے کا اختلاف ہو سکتا اور ہوتا ہے۔  اور جیسے ہی ہم ان تعبیرات و ترجیحات کو دفع کرنے کی غرض سے ان پرسائنسی اصولوں کا سخت اطلاق  (rigorous implementation)  کرتے ہیں ، عمل تحقیق ایک ہمالیائی ریاضت  بن کررہ جاتی ہے ۔اسی  دقت کے پیش نظر ہماری یونیورسیٹیوں میں تحقیق کی یہ تعریف کی جاتی ہے:
Discovery of new facts or new interpretation of old facts.
ظاہر ہے تحقیق کے میدان میں تعبیرکی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے  ورنہ فقط محسوسات سے کام آگے نہیں بڑھ سکتا۔ لیکن  اس کے سبب دیگر  کئی اہم مسائل پیدا ہوتے ہیں اور اسی سبب سے گیان چند جین  تحقیق کی اس تعریف کو’’ بدقسمتی‘‘ سے  تعبیر کرتے ہیں (تحقیق کا فن، صفحہ ۸۰)۔ تعبیر کے حد سے زیادہ بڑھ جانے کے سبب تحقیق میں کیا مسائل پیش آتے ہیں اس کا اشارہ اس مضمون کے اگلے حصوں میں لیا جائے گا۔

موجودہ دور میں علوم کی فہرست زمانہ کی ترقی کے ساتھ طویل ہوتی جا رہی ہے۔ کیا ان میں کوئی ایسی درجہ بندی  یا تقسیم  کی  جا سکتی ہے جیسی حیاتیات میں انواع و اقسام کی درجہ بندی رائج ہے؟ یا یہ اسی طرح الگ الگ رہیں گے جیسے مختلف قوموں، زبانوں  اور مذہبوں نے اپنا آزادانہ تشخص قائم کر رکھا ہے اور ان میں ادغام ممکن نہیں کیونکہ  یہ سب علوم و فنون جو کچھ ’کہنا ‘چاہتے ہیں ،  اپنی طرح  کہتے ہیں، اپنے مواد اور موضوع،  اور اپنے مخصوص رجحانات کے ساتھ  سائنسی  تحقیق کرتے ہیں۔ لیکن کیا مشترکہ طور پر وہ کوئی ایک بات کہتے ہیں؟ کسی ایک طریقے پر متفق ہیں؟ایک بار پھر جواب نہیں میں ہی ہوگا۔ تحقیق کا ایک بڑا مسئلہ یہی ہے کہ اس کا کوئی ایک طریقہ نہیں بلکہ جس قدر علوم و فنون ہیں اسی قدر طریقے بھی پائے جاتے ہیں ،اور ان میں اگر کوئی قدر مشترک ہے تو اس کی نوعیت تحقیقی نہ ہو کر تخلیقی ہے۔ موجودہ دور میں ’’علم کی تخلیق‘‘ یا
Creation of Knowledge
جیسی عام بولے جانے والے الفاظ اسی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ورنہ عقل میں یہ بات نہیں آتی کہ علم کی تخلیق آخر کیسے کی جا سکتی ہے؟ یا تو تخلیق کی تعریف میں کوئی غلطی ہے یا علم کی تعریف میں۔ ’’علم کی تخلیق ‘‘ کا یہ خیال  کیا اس لیے جائز ہے کہ  ایک ’’معلومات‘‘ جس کا وجود نہیں تھا ، اب  تحقیقی کاوش کی مدد سے  اس کو وجود میں لا دیا گیا؟ گویا عدم سے وجود میں آنے کو اگر تخلیق کہا جائے تو پھر کمپوٹر پر کسی لفظ کو کاپی  اور پیسٹ کرنے کے بعد بھی جونئی  ’’نقل ‘‘ وجود میں آتی ہے وہ بھی  تو عدم سے ہی آتی ہے، پھر کیا سبب ہے کہ ہم اس کو تخلیق نہ کہیں؟ اسی طرح ایک شخص اپنی تحقیق کے بعد کسی بات کو مستند ذرائع سے من و عن ’’نقل ‘‘کردیتا ہے  جو ہمیں پہلے معلوم نہیں ہوتی تویہ عمل کاپی اور پیسٹ کے عمل  سے کس حد تک مختلف ہے؟ بے شک ہم  ایسے محقق کو  ناقل نہیں کہہ سکتے  کیونکہ اس نے اس میں ذہنی کاوش کا مظاہرہ کیا ہے۔لیکن ذہنی  کاوش کا مظاہرہ تو  فلسفی ، ادیب، نقاد، شاعر اور فنکار سب کرتے ہیں۔ اگر شخص کا مطالعہ  اور یادداشت بہت وسیع ہو تو اس کی تحقیق بھی شاعری کی طرح فی البدیہہ ہوسکتی ہے۔
جس طرح علوم و فنون کے درمیان تفریق ظواہر کی بنا پر کی جاتی ہے  اور اسی بنا پر ان میں ہونے والی تحقیقات  کے طریق ہائے کار کو متعین کیا جاتا ہے، اسی طرح تحقیق ، تخلیق اور تنقید میں بھی تفریق کی جاتی ہے حالانکہ ان کے باطن میں ایکا ہے۔  چونکہ ظواہر میں ہم اختلاف دیکھتے یا دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں اسی  لیے ہم ایک کو دوسرے سے اور دوسرے کو تیسرے سے ممیز کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن مختلف علوم و فنون میں طویل عرصے کی تحقیقی، تخلیقی اور تنقیدی کاوش کے بعد ان کے مشتملات میں گہرائی اور دائرہ میں وسعت پیدا ہونے لگتی ہے اور ایک کی سرحد دوسرے کو چھوتی ہے اور دوسرے کی تیسرے کو ۔ حتی کہ جس طرح  شاعری میں  جدیدفکری مسائل کے بڑھنے سے وزن و آہنگ متاثر ہوا اور نثری نظموں کا سیلاب آیا، فلسفیانہ اسالیب میں ادبیت عود کر آئی (ژاک دریدا)، ادب فلسفہ بننے کی کوشش کرنے لگا،  سائنس  اور مذہب نے باہم ایک دوسرے کو متاثر کیا،  سماجیات نے نفسیاتی تجزیہ شروع کیا اور سماجی نفسیات کا وجود ہوا، غرض ایک علم یا فن نے جس طرح اپنے ہی ظواہر کے میدان کو اس طرح پھیلایا  کہ ایک کے مشتملات دوسرے کی سرحد پر سرمارنے لگے ، ٹھیک اسی طرح تفکیر، تنقید، تخلیق اور تحقیق کا ادغام دکھائی دینے لگا۔تنقید نے تحقیق پر عمل جراحی شروع کیا اور تحقیق نے تنقید میں سیندھ لگائی، اور تخلیق نے   فن پاروں  کی شکل میں تنقید  یاتحقیق کا عمل انجام دینا شروع کیا۔اسی کو  گیان چند جین نے علوم و فنون کے درمیان ’’وصل‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اس لیے اگر موجودہ دور میں تحقیق کہیں پر تنقید بنتی دکھائی دے، یا اس میں تخلیقی کیفیت نظر آئے تو یہ ایک  بہت بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔ اور اکادمک دنیا کی روایت کے بظاہر خلاف ہوتا ہے  ۔ بعض اوقات اس روایت کے زیر اثر تحقیق کے میدان میں  معروضیت پر اصرار اس حد تک کیا جاتا ہے کہ وہ علوم و فنون کے  مجموعی رجحان کے خلاف ہوجاتا ہے۔اس سے عملاً بڑے نقصانات ہوتے ہیں۔
علوم کے درمیان وحدت قائم کرنے اور کبھی ان کے انفراد پر اصرار کرنے  کے پس پشت دراصل فلسفیانہ تفکیر کا عمل جاری رہتا ہے جو سیاسی جغرافیے کی طرح  ایک عہد میں علم کو منقسم کرتا  اور دوسرے عہد میں انہیں  باہم ملانے کی سعی کرتا  ہے۔تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے فلسفہ نے ادب اور  سائنس کو اپنے سے الگ کیا، پھر اس کے بعد دیگر علوم مثلاً تاریخ، جغرافیہ، نفسیات، وغیرہ کو اپنے سے الگ کرتا چلا گیا۔ موجودہ دور کا فلسفیانہ رجحان تمام تر  متفرق علوم و فنون  میں  احدیت یا اکھنڈتا کے تصور کو نافذ کرنا  تو نہیں البتہ ان کے درمیان رابطہ بحال کرنے پر ہے جو کبھی ماضی میں پایا جاتا تھا۔  اور یہ عمل بین العلومی تحقیقات کے دائرے میں انجام دیا جاتا ہے۔ظواہر کی سبب چیزوں کو الگ الگ سوچنا اور پھر ایک  طویل عرصے کے بعد ان  میں  ’’تحقیق‘‘ کے ذریعے بازارتباط کی سعی کرنا’’علم ‘‘ کے میدان میں کسی بحران کی نشاندہی کرتا ہے جس سے تحقیق کو آنکھیں چار کرنا ہے  اور یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس میں  سائنسی معروضیت  اور عقلی تعبیروں سے کس حد تک کام لیا جا سکتا ہے  اور کس حد تک نہیں ۔

تحقیق زندگی اور اس کے مسائل سے انتہائی واضح طور پر جڑی ہوتی ہے ۔ آج سے پچیس پچاس سال پہلے کہا جاتا تھا کہ خلائی تحقیقات کے ذریعے ’’ستاروں‘‘ پر کمند ڈالنے کا آخر کیا فائدہ ہے؟ انسان اپنی زمین کے مسائل کیوں نہیں حل کرتا کہ آسمان کی طرف متوجہ ہے؟  بعد میں ہمیں معلوم ہو گیا کہ وہاں انتہائی کارآمد معدنیات اور انرجی کے ذخائر  ہیں اور انسان وہاں جا کر بھی قیام پذیر ہو سکتا ہے۔  علمی و سائنسی تحقیق پرجس نوع کے  اعتراضات  سننے کو ملتے رہے ہیں وہ  کچھ اس سبب سے تھے کہ یہ فضول خرچی ہے اور کچھ اس سبب سے کہ سائنسی  و سماجی تحقیقات  و اکتشافات سے پرانے معیار اور رسوم و رواج ،  اور ازکار رفتہ خیالات  بدلنے لگتے ہیں۔ موجودہ دور میں مذہبی حلقوں کی طرف بارہا یہ اعتراض کیا جاتا رہا ہے کہ آخر نظریۂ  ارتقا پر تحقیق  و تجسس کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن  یہ بالکل ممکن ہے آئندہ اسی عمل سے انسان کو خدا تک پہنچنے کا کوئی وسیلہ پا لے۔
تحقیق دراصل فلسفیانہ تجسس کے سبب پیدا ہوتی ہے۔ اور تنقید کے سبب آگے بڑھتی ہے۔ اور زندگی کی نئی صورت حال کی تخلیق میں معاون ہوتی ہے۔ لیکن موجودہ دور میں تحقیق کو درپیش مسئلہ فلسفیانہ تجسس کے زوال کا ہے۔برصغیر میں فلسفہ کے  ادارے انتہائی تیزی سے ختم ہو تے جا رہے ہیں، اور کم طلبا اس میں داخلہ لیتے ہیں۔  چونکہ سبب زوال پذیر ہے اس لیے تحقیقی عمل  میں دلچسپی کی  وہ کیفیت نہیں پائی جاسکتی جو مطلوب ہے۔ یوں تحقیق ایک تھکان محسوس کرانے والی سرگرمی  بن جاتی ہے ۔ریسرچ اسکالروں کے سامنے زندگی کے مسائل اپنی تمام تر آب و تاب کے ساتھ روشن نہیں  ہوپاتے ۔ فلسفیانہ کاوشوں کے سبب زندگی میں سوال بھی پیدا ہوتا ہے اور خلا کا احساس بھی۔ کسی معاشرے میں جب  فلسفہ کی  روایت کمزور ہو جاتی ہے تو محقق کے سامنے موضوعات و سوالات  اس  تہذیب  کے نہ ہو کر اُن تہذیبوں کے ہوتے ہیں جہاں  فلسفیانہ عمل انتہائی تیز ہوتا ہے۔ ظاہر ہے انسان  جب تک اپنے ہی معاشرے اور اپنی ہی تہذیب   یعنی  اپنی  ’’اجتماعی خودی ‘‘  اور شعور میں نہ ڈوبے تب تک اسے  اپنے وجود اور اپنے شناخت سے باہر کی چیزوں سے وہ دلچسپی نہیں ہو سکتی۔ برصغیر میں انسانیات اور سماجی سائنسوں میں تحقیق ایک خشک اور بے جان شئے  اسی سبب سے ہے۔

تحقیق کا تعلق علم سے ہے، اور  علم اور جہل میں ہمیشہ سے امتیاز کیا جاتا رہا ہے۔ کیا چیزیں علم ہیں اور کیا چیزیں علم نہیں ہیں، ہر دور میں مقتدر فلسفیانہ یا مذہبی عقائد کے ذریعے انہیں طے کرنے کی روایت رہی ہے۔موجودہ زمانہ جس حد تک ا رتقا کر چکا ہے، یا جہاں تک وہ اپنے تمام تر تعصبات و تیقنات کے ساتھ پہنچ چکا ہے اس میں میں  ’’علم ‘‘ کو’’ جہل‘‘ سے کم از کم توہم سے، عمل کی سطح پر ممتاز کرنے رجحان دیکھا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں بھی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کو’’ علم‘‘ تسلیم کرنے میں اتفاق نہیں ہے مثلاً  جادو اور جیوتش، علم القیافہ، ستارہ شناسی، مستقبل بینی ۔بلکہ کسی نہ کسی  حد تک مذہب اور  تصوف کے ساتھ بھی موجودہ علمی نظام یہی فلسفیانہ موقف اپنانے پر مجبور ہوئی ہے۔ میرا مدعا یہ ہر گز نہیں ہے کہ ان چیزوں میں ’’حقیقت‘‘ کے کسی پہلو کا کوئی علم مخفی  نہیں ہے، لیکن موجودہ علمی نظام کے مطابق یہ چیزیں  اصلاً’’ حقیقت کے علم‘‘ کے دائرے سے خارج ہیں، اور محسوسات کو معیار بنا کر  ان کا مطالعہ’’ معلومات‘‘ کی حیثیت سے کیا جاتا ہے۔ مثلاً، جادو منتر کے زور پر بھوت بیتال کوبلانے یا تسخیرِ اجِنّا  کا عمل  مستند سرگرمی نہیں ہے ۔ بلکہ اب تو جادو کی تعریف تک بدلنے لگی ہے اور جادوگری کی سرّی تعبیر کے بجائے اس کی  ایک عقلی و حسی توضیح کو بھی اختیار کیا جاتا ہے اور متعدد انسٹی ٹیوٹس میں اسے سائنسی فن  یا’ ٹرک ‘کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔
مذہب، اساطیر اور تصوف جیسی چیزوں  کا مطالعہ بھی  ’’معلومات‘‘ ہی  کی حیثیت سے کیا جاتا ہے  اور  ان میدانوں  کی تحقیق میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ان کے دعاوی میں کیا سچائی ہے بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ انسان سے کیا کہہ رہے ہیں اور انسان کو کیسے متاثر کرتے ہیں۔ تصوف اپنے ابتدائی بیانیہ میں انتہائی سائنسی معلوم ہوتا ہے  کیونکہ  اس کے ذریعے سے بھی غیب کو حضور میں بدلنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، مثلاً جمع الجمع ، حقیقت کو بچشم خود دیکھ سکنے کی ریاضت۔ لیکن آگے چل کر اس کا بھی حال جادو سے مختلف نہیں ہوتا۔ تصوف اور جادو کا عمل سب کے لیے یکساں  قابل استعمال اور مفید نہیں ہوتے۔ خود مذہب کے  اساسی دعاوی کا تجرباتی اثبات  اب تک نہیں کیا جاسکا ۔ اور اس لیے یہ بھی علم کے دائرے سے خارج ہے اور بطور ایک ’’شئے‘‘ کے اس کا مطالعہ کیا جاتا ہے، مثلا اسلامک اسٹڈیز۔ یعنی ان سب چیزوں کو چونکہ اعتقاد عامہ مبنی برحقیقت  سمجھتی ہے اس لیے ان کا مطالعہ سائنسی  طریقہ کار سے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔  ایسے سب معاملات میں تحقیق کا ایک کام  ہے کہ جو چیزیں ’علوم ‘نہیں ہیں ،  ان کو بہت کچھ ’’اوہام‘‘ یا کچھ اور باور کرتے ہوئے علوم کے دائرہ کار میں بطور ایک ’’ شئے‘‘ کے لانا اوران کا مطالعہ کرنا۔ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کہ یہ چیزیں انسانی معاشرہ پر اثرانداز ہوتی ہیں، لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں۔
سائنسی ، تجرباتی یا محسوساتی طریقہ ٔٔ  کار سے  ان ’’اوہام‘‘ یا جو کچھ بھی وہ ہیں، پر تحقیق کرنے سے نہ صرف یہ کہ ان پر منفی اثر پڑتا ہے بلکہ  اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ خود تحقیق غیرجانب دار نہیں رہ پاتی، اور ان چیزوں  کے سلسلے میں بھی ایک طرف جھک پڑتی ہے، اور ایک طرح سے فیصلہ سنانے لگتی ہے، جن پر اس کو  اپنے موجودہ  سائنسی طریقۂ کار کی رو سے  مکمل خاموشی اختیار کرنی  چاہیے تھی۔  (اس کی دلیل آگے آ رہی ہے)  ۔ مختلف النوع اکادمیوں اور فلسفیانہ رجحانات کے تناظر میں تحقیق بطور  ایک زندہ  وجود کے   اپنی  گروہی ،فلسفیانہ، نظریاتی، منہاجیاتی، ترجیحات  کی رو سے حیات و کائنات کے متعلق کوئی نہ کوئی اساسی نظریہ قائم کرنے پر مجبور ہوتی ہے اور اسی کے زیر اثر تحقیق کے طریقے،اس  کے موضوعات  کا تعین ہوتا ہے۔ کیا چیزیں تحقیق کے دائرے میں ہیں اور کیا اس سے باہر ، اس کا کوئی یکساں  معیار ہمارے نزدیک نہیں ہوتا اور صاف نظر آجاتا ہے کہ ایک معاملے میں ہم جس اصول کو ترجیح دیتے ہیں دوسرے معاملے میں اس کو نظرانداز کرتے ہیں۔ چونکہ علم  پردہ ٔ غیب میں ہے اس لیے ہم  کسی موضوع کے سلسلے میں ایک مفروضہ، ایک مقدمہ قائم کرتے ہیں، گویا ایک طرف کو جھکتے ، جانبدار ہو جاتے ، پھر اسی مقدمہ کے اعتبار سے مواد جمع کرتے ، اور ان کے تجزیے کی بنا پر ہی اپنے مخصوص نتائج نکالتے ہیں۔ مقدمہ خود  تحقیق کے اندر کا  اساسی مسئلہ ہے۔ اگر کوئی امر واقعہ یا فیکٹ  مستقبل  میں تحقیقی مواد کے تجزیے سے برامد ہونا ہے ، اور وہ تاحال برامد نہیں ہو سکا، اور اسی لیے ہم ایک  مفروضہ قائم  کرتے ہیں تو اصولاً تو یہ ہونا چاہیے  کہ ہم کو اپنے مفروضے کے خلاف ایک دوسرا مفروضہ  یا مفروضات پیش کرتے ، اوران کے حق میں بھی مواد تلاش کرتے ،لیکن انسان فطرتاً اپنے فلسفیانہ عقائد و  مفروضات کا ’’ مومن‘‘ ہے اور ان کے خلاف از خود دلائل پیش کرنا اس کے لیے اکثر و بیشتر ممکن نہیں ہوتا ۔ اگر اعلیٰ درجے کی تحقیق میں یہ اصول پیش نظر رکھا جائے تو  ایسی تحقیق  اپنے آپ میں ایک  تنقیدی کائنات  بن جاتی ہے  جس میں ایک سے زیادہ مفروضے کارفرما نظر آتے ہیں اور آخر کار کسی ایک نتیجے کی ترجیحی تعبیر پیش کرتے ہیں۔ اگر تحقیق  میں تعبیر کی گنجائش ہے تو ایک ہی واقعے کی وقت واحدمیں  ایک سے زیادہ تعبیریں ممکن ہیں۔ لیکن رشید حسن خاں لکھتے ہیں:
اس زمانے میں یہ رجحان فروغ پا رہا ہے کہ تحقیقی مقالوں کے لیے ایسے موضوعات منتخب کیے جاتے ہیں جو اصلاً تنقید کے دائرے میں آتے ہیں۔ یہ تحقیق اور تنقید دونوں کی حق تلفی ہے۔۔۔ تحقیق بنیادی حقائق کا تعین کرے گی ۔۔۔۔ اخذ نتائج میں جہاں سے تعبیرات کی کارفرمائی شروع ہوگی اور ان پر مبنی اظہارِ رائے کا پھیلاو شروع ہوگا، وہاں تحقیق کی کارفرمائی ختم ہو جائے گی۔ ‘‘ (ادبی تحقیق صفحہ ۱۲ بحوالہ تحقیق کا فن صفحہ ۸۱) ۔
لیکن اگر’’بنیادی حقائق کا تعین ‘‘ کو تحقیق کی لازمی شرط قرار دے دی جائے اور تعبیرات کو تحقیق کے دائرے سے بالکلیہ خارج کر دیا جائے ، تو پھر خود تحقیق کا دائرہ اپنے موضوعات سے لے کر عنوانات تک  انتہائی تنگ ہو کر رہ جائے گا ۔ محسوسات پر اس قدر اصرار کرنے سے (جس سے بہرحال مفر نہیں) تحقیق کے لیے  ،جواپنی نظری، گروہی، مکتبی، اکادمیاتی  حیثیت میں  ایک’’ زندہ اور مسلسل عمل‘‘ ہے ، سانس لینا بھی دشوار ثابت ہوگا۔ لیکن گیان چند جین کے مطابق:
بدقسمتی سے یونیورسیٹیوں میں ریسرچ کی تعریف یہ کی جا تی ہے:
Discovery of new facts or new interpretation of old fact.
اس میں  ’’پرانے حقائق کی نئی تشریح‘‘  کے پردے میں تحقیق کے حصار میں خالص تنقیدی موضوعات کا در یا ڈربہ کھل جاتا ہے۔ (حوالہ سابق، صفحہ نمبر ۸۰)
یہ مسئلہ اپنی جگہ انتہائی  مبنی بر حقیقت ہے۔ اور اس سے کسی طور انکار کرنا میرے پیش نظر نہیں۔ لیکن یہ مسئلہ اسی لیے تو پیش آ رہا ہے کہ اکادمیاتی دنیا سے تنقید ی عمل کو خارج کر دیا گیا ہے۔ اور تنقید کا پانی  اپنے  باندھ  کو توڑ کرتحقیق کی حدوں میں داخل ہو جاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ آج  تحقیق کو جو مسائل درپیش ہیں ان کو خود تحقیق کی رو سے نہیں سلجھایا جا سکتا۔ تحقیق اپنے پیروں پر نہیں کھڑی ہوئی ہے کیونکہ اس کا طریقہ کارکسی نہ کسی  فلسفہ  یا تنقیدی نظریہ  سے  مستعار ہے۔
علم وفن کا کوئی بھی رخ خواہ  وہ تخلیق ہو، تنقید ہو، یا تحقیق ہو ایک دوسرے آزاد نہیں ہے۔علمی و  بین  العلومی و بین الفنونی تحقیق، تنقید، اور تخلیق کو ایک دوسرے سختی سے جدا کرنا اور اکادمیوں میں صرف ایک پہلو  ’’تحقیق‘‘ کا فروغ پانا اور دیگر پہلوؤں  کا انسداد  تحقیق کو درپیش  اس مسئلے کا ایک  سبب ہے جس کی طرف گیان چند جین نے اشارہ کیا ہے۔ اگر ہمارے ہاں اکادمک  صحت مند اور باادب تنقید کو باضابطہ فروغ  دیا جاتا تو تحقیق کے حصار میں خالص تنقیدی موضوعات کا ڈربہ  ہر گز نہ کھلتا، کیونکہ ناقدانہ مزاج  کے لیے  جو تحقیق کے فن میں دلچسپی نہیں رکھتا ایک تنقیدی کام کا  متبادل ہمیشہ موجود رہتا۔

ہم کوئی تحقیق اسی لیے انجام دیتے ہیں کہ اس کی بنیاد پر جو نتیجہ نکلے گا وہ حرفِ آخر کا حکم رکھتا ہوگا۔ اس پر کسی کلام کی گنجائش نہ ہوگی۔ وہ ہر قسم کے شک و شبہے سے بالا تر ہوگا۔ یہ تحقیق کا آدرش ہے جس کو لے کر ہم آگے بڑھتے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے ہم تحقیق کے میدان میں دستیاب علمی ماخذ کے ساتھ آگے بڑھتے جاتے ہیں، ویسے ویسے ہم کو یہ معلوم ہوتا جاتا ہے کہ اصول اور آدرش اپنی جگہ، لیکن واقعات کی دنیا میں اس کو قائم کرنا تقریباً ناممکنات میں سے ہے۔کیونکہ حیات و کائنات کے اکثرو بیشتر امورو مسائل  میں بلکہ  انسانی زندگی کے انتہائی اساسی امور تک میں عالم غیب کا حصہ عالم شہادت سے  انتہائی ناقابل ادراک طور پر زیادہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود انسان میں جرأ ت تحقیق پائی جاتی ہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ  وہ دنیا میں تحقیق کے ذریعے کوئی نہ کوئی عملی  رویہ ،پالیسی اور  راستہ اپنانے پر مجبور ہے۔ تحقیق کا یہی لزوم اس کی روز افزوں اہمیت کا سبب بھی ہے۔
شہود سے غیب تک  جانے یا نا معلوم کو معلوم کرنے  کے عمل میں تحقیق سے مدد لیتے ہوئے ہم جن موضوعات کو منتخب کرتے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم نتیجے میں ’’ قطعیت ‘‘ چاہتے ہیں ورنہ بہت سے ایسےامور ہیں جو تجسس کا موضوع ہیں، اور ہمارے لیے مستقل مسئلہ  کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ہم انہیں تحقیق کا موضوع بنانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ انسانی زندگی سب سے اہم موضوعات ، مثلاً ،’’ خدا  ہے یا نہیں ؟‘‘، تحقیق کے دائرے سے باہر ہے، اصولاً تحقیقی آدرش کو سامنے رکھ کر سوچا جائے تو ایسے موضوعات بھی تحقیق کے دائرے سے باہر نہیں ہونے چاہئیں کیونکہ ایسے مسائل ہمارے سامنے بہرحال نہ صرف موجود ہوتے ہیں بلکہ ہم پر اثرانداز بھی ہوتے ہیں۔  اور ہم ان کے سلسلے میں فلسفیانہ یا متعصبانہ یا جذباتی طور اپنی اپنی ذاتی ترجیحات قائم کر لیتے ہیں۔ اور یہی مسائل انسان کے لیے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ خدا انسان کی آنکھوں سے اوجھل ہے لیکن سب سے زیادہ اسی موضوع پر تجسس کا اظہار کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ تحقیق کا موضوع اس لیے نہیں ہو سکتا کہ اس سمت میں بہت جستجو کی جا چکی ہے لیکن کسی کے ہاتھ کچھ نہ آ سکا اور حل نہ ہو سکنے کے سبب یہ ایمان یا آستھا کا مسئلہ ہے بن کر رہ گیا ہے ۔اس جیسی بہت سی مثالیں پائی جا تی ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسانی  زندگی کے وہ  ناقابل حل مسائل جو تحقیق کے موضوع سے باہر ہیں، ہمارے لیے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں، اور کسی نہ کسی طور ان مسائل پر جو تحقیق کے موضوع کے اندر ہیں اثر انداز ہوتے ہیں۔ خدا کا وجود ہے یا نہیں، اس پر تو کوئی سائنسی تحقیق نہیں چلائی جا سکتی، لیکن نظریۂ ارتقا پر بڑے اطمینان سے تحقیق جاری رکھی جا سکتی ہے جس سے خدا کے نظریے کو زک یا تقویت پہنچ سکتی ہے۔ نظریہ ارتقا سے متعلق ہر مثبت یا منفی تحقیق پر عام  تعلیم یافتہ آبادی انتہائی شد و مد سے دلچسپی لیتی ہے۔ موجودہ دور میں براہ راست خدا کے نظریے پر تحقیق نہ کر کے تخلیق کائنات کے نظریہ   Intelligent Design پر بھی تحقیق جاری ہے۔ گویا ہمارے لیے تحقیق کا کوئی نہ کوئی ایسا موضوع ہونا چاہیے جس پر تحقیق کا نتیجہ شائع کرنے کے ذریعے ہم تحقیق کے دائرے سے باہر کے ’’زیادہ حساس اور ناقابل تحقیق موضوعات‘‘ پر کسی نہ کسی طور پر اثرانداز ہو سکیں۔

الحاصل ، علوم میں تحقیق کے مسائل بے شمار ہیں۔ اصل مسئلہ خود تحقیق کی تعریف کا ہے۔ اس کو تنقید ، تفکیر اور تخلیق سے  واضح طور پر الگ کرنے کا ہے۔ اور یہی نہیں ، جب ہم ایک کو دوسرے سےبہت  الگ کرنے لگتے ہیں تواس کے سبب  دوسرے مسائل تحقیق کو درپیش ہو جاتے ہیں۔ اور اس پورے عمل میں سائنسی معروضیت   کی حد متعین کرنا، اس میں فلسفیانہ تعبیروں کی گنجائش پیدا کرنا نہ کہ اس کو مکمل طور پر فلسفہ کے ماتحت کردینا، اس میں دلچسپی پیدا کرنا  نہ کہ خشک اور بے جان معروضیت  پر حد سے زیادہ اصرار کرتے ہوئے  اس کو ہمالیائی ریاضت میں بدل دینا،   بین العلومیت سے کام لینا نہ کہ کسی موضوع کے علمی حصار میں مقید ہو جانا، تحقیق کو ایک مسلسل عمل کے طور پر دیکھنا نہ کہ کسی خاص مقام پر اس کو ٹھہرا کر نتائج کو حتمی بنا لینا،  اور سب سے بڑی بات یہ کہ  اپنے  تحقیقی موضوع  پر نہ صرف یہ کہ  اپنے موقف کے حق میں دلائل پیش کرنا بلکہ   بلکہ اس کے خلاف بھی چیزوں کی تلاش میں منہمک رہنا ، اور پھرتمام تر دستیاب ماخذ اور مواد کا ایسا تجزیہ اور تعبیر پیش کرنا جس سے کہ محقق کے طور پر ہمارے  ذہن میں چل رہا تمام تر پروسیس بالکل آئینہ ہو کر مقالے میں نکھر آئے — یہ سب کچھ  ایک بہت بڑا چیلنج  ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اگر خود تحقیق کو ایک مسئلہ باور کرتے  اور  بار بار اس کے طریقے پر شک کرتے ہوئے تحقیق کی جائے تو اس کے نتائج میں قطعیت  اور اعتبار و استناد کا امکان  بہت بڑھ جاتا ہے۔

جمعہ، 27 جولائی، 2012

دعوت، ادعائیت، تحکمیت

عالم اسلام میں، تمام تر فکری، مذہبی، تہذیبی و ثقافتی، سیاسی، اور تاریخی اختلافات، تنازعات اور تفرقوں، اورتمام ترگروہ بندیوں، تحریکوں، فرقوں اور مسلکوں کے باوجود، کم از کم ، یہ بات متفق علیہ ہے کہ اسلام ایک آسمانی یا الٰہی مذہب ہے۔ امتِ واحدہ کے مختلف فیہ اور متنازعہ امور کی موجودہ کثرت کے فکری، فقہی، تحریکی اور فرقہ وارانہ صورت حال میں، اور اعتدال پسند، انتہا پسند، بنیاد پرست اور ترقی پسند اسلام کی مغربی تقسیموں کے موجودہ عالمی منظرنامہ میں، اسلام وہ ہے، عالم اسلام کے افراد، مقامی معاشرے، تہذیبیں ، مکاتب، مسالک، خانقاہیں، فرقے، تنظیمیں اور تحریکیں جس کی مشق کرتی ہیں؛ اسلام وہ ہے، مسلمان، اپنے تمام تراختلافات، تنازعات اور مناقشات کے باوجود، جس پر انتہائی شرح صدر اور یقین کامل کے ساتھ، اور انتہائی سختی یا کم از کم انتہائی اصرار کے ساتھ، عمل پیرا ہیں—

کچھ ایسی سختی یا اصرار کے ساتھ کہ زیادہ تر مسلم اجتماعیتیں خود کو ایک ساتھ ‘برحق’، ‘فرقہ ناجیہ’، یا کم ازکم خود ہی کو ’حق سے قریب ترین‘ سمجھتی ہیں؛ کچھ ایسی سختی یا اصرار کے ساتھ کہ وہ، ’مغرب زدہ‘ تقسیموں کے مطابق خواہ اعتدال پسند ہوں یا بنیاد پرست، ترقی پسند ہوں یا روایت پرست، اپنے ہی ذریعے مقرر کردہ صراط مستقیم کو صراط مستقیم سمجھتی ہیں؛ کچھ ایسی سختی یا اصرار کے ساتھ کہ ان میں سے ہر ایک کےاپنے منفرد، مختلف ،متضاد اور متصادم اسلاموں کی تشکیل ہوئی ہے، خواہ ان کی تشکیلی بنیادیں کتنی ہی بڑی، چھوٹی، اہم یا غیر اہم کیوں نہ ہوں۔ اختلافات کی یہ بنیادیں مسالک اور مکاتب کے مخصوص نقطہ نظر پر استوار ہیں۔اس پورے منظرنامہ میں ، ایک اسلام وہ ہے جو عہد رسالت میں اپنی اصلی اور مکمل شکل میں جاری و نافذ تھا اور بہت سے اسلام وہ ہیں جو آج مسلمانوں کے درمیان اپنی مختلف اور متضاد اشاعتوں میں پائے جاتے ہیں، اورثابت نہیں ہوتا کہ عہد رسالت کا ’اصل اور مکمل اسلام ‘ان میں سے کون ہے؟ لیکن تقریباً ہر اجتماعیت یا گروہ کا دعویٰ یہی ہے کہ عہد رسالت میں اسلام وہی تھا جس کا تصور وہ کرسکتا ہے، یا جس کو اپنے تصور کی مدد سے وہ وجود میں لانا چاہتا ہے۔ اس لیے،ہر اسلامی گروہ بحیثیت گروہ کے اسلام کا کم اور اسلام کے اپنے مخصوص تصور کا اظہار زیادہ کرتا ہے۔ پس عالم اسلام کی موجودہ صورت حال میں، متفق علیہ اسلام سے زیادہ اپنے مختلف فیہ اسلام کا خانہ زاد بلکہ طبع زاد تصور مسلمانوں کی متعدد اجتماعتیوں کو اپنوں اور غیروں کے درمیان متحرک، سرگرداں اور برسرپیکار رکھتا ہے، اور اصل اسلام ان ہی گروہوں، مسلکوں اور فرقوں کے درمیان کہیں گم ہے، یا نظر نہیں آ رہا ہے اور غالباً درمیان ہی میں کہیں خاموشی سے اپنا کام کر رہا ہے، جس کو سامنے لانے کی ضرورت کے قائل سب ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ سامنے نہیں آتا، یعنی اس ’اصل‘ پر اتفاق نہیں ہو پاتا۔

اور مختلف فیہ کے اس ہجوم میں متفق علیہ، اور اس کا مفہوم بھی، گم ہو چکا ہے یا نظر نہیں آ رہا ہے۔ ایک نے دوسرے کو دھندلا اور گدلا کر دیا ہے۔ فروع نے اصل کو ، سپر اسٹرکچر نے بیس کو، دروبام نے زیر زمین بنیاد وں کو منکشف کرنا شروع کردیا ہے۔انتہائی بے کم و کاست طور پر، شاخوں نے اور ان شاخوں پر لگنے والے برگ و بار نے باہم مختلف ،متضاد اور متصادم اسلاموں کے ان تمام تر’’شجر ہائے طیب “ کی جڑوں کو فاش کرنا شروع کر دیا ہے۔ باہم مختلف اور متضاد اسلاموں کے مابین واقع ہونے والے نظریاتی اور عملی تصادم کی بے شمار تاریخی اور معاصر نظیریں اس بات کی علامت ہیں کہ ان کی نظریاتی جڑوں میں بعض انتہائی بنیادی نوعیت کے امراض ہیں جن کی ایک بار پھر تشخیص ہونی چاہیے۔بلاشبہ، پہلے بھی اس کی تشخیص ہوئی ہے لیکن ہر بار قرآن و سنت سے دوری اور اس کے سبب پیدا ہونے والی عملی کوتاہی کو ان امراض کی تشخیص کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے، اس حال میں کہ قرآن و سنت پر جتنی بحثیں ہوئی ہیں اتنی پہلے کبھی نہیں ہوئیں، قرآن و سنت پر جتنا کچھ لٹریچر شائع ہوا اس سے پہلے کبھی شائع نہیں ہوا، قرآن و سنت پر بولنے والے جتنے مقرر آج موجود ہیں اس سے پہلے کبھی نہیں رہے۔

اسلامی فرقوں اور تحریکوں کی طرف سے اس صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کے لیے مختلف پالیسیاں اور حکمتیں اپنائی جاتی ہیں جو متشدد اور انتہاپسندانہ طرز استدلال اور کارروائیوں سے لے کر اعتدال پسندی، جمہوری طرزِ افہام و تفہیم اور جمہوری حرکت وعمل کی شاہکار معلوم ہوتی ہیں۔ اسلام کے غلبے کے لیے کوشاں بیشتر تنظیموں اور تحریکوں کا مطمح نظر، آخری غرض و غایت یہی ہے کہ ایک بار ’اصل اسلام‘ کے انکشاف کے بعد، یا اس پر مسلمانوں کی بڑی آبادی کے درمیان اتفاق رائے کے بعد تمام تر بڑے اور بنیادی اختلافات مٹ جائیں گے، اور اسلام کا بہت کچھ ماضی ہی کی طرح ایک بار پھر بول بالا ہوگا۔ ایسی تحریکوں میں خانقاہیت سے مماثلت رکھنے والی نسبتاً ڈھیلی ڈھالی خالص روحانی و مذہبی تحریکیں ہیں جو اپنے سیاسی عزائم کا برملا اظہار نہیں کرتیں، یا جدید جاہلیت سے برسرپیکار منظم اور ہمہ گیر نوعیت کی عالم گیر تحریکیں ہیں جو علی الاعلان اسلام کو زندگی کے تمام تر شعبوں میں قائم یا نافذ کرنے کی بات کرتی ہیں۔

لیکن چونکہ ابتدا ہی سے مختلف اسباب (مثلاً تاریخی) کی بنا پر اسلام کی درجنوں مذہبی و فقہی اورسیاسی تشکیلیں ظہور میں آتی رہی ہیں اور ان میں سے بہت سی تشکیلیں اب بھی ہمارے درمیان موجود ہیں (تمام تر سنی اور شیعہ فرقے، فقہی مسالک)؛ چونکہ دین اسلام کی خدمت، اس کی عظمت، اس کی سرفرازی، اور اس کے غلبے کے لیے ایک سے زیادہ اسلامی تحریکات کا ظہور ہوا اور ہوتا رہا ہے (تبلیغی تحریک، تحریک اسلامی، حزب التحریر)؛ چونکہ اسلام کے مذہبی و سیاسی غلبے کے بجائے محض تہذیبی طور پر ایک صالح، صحتمند، ترقی پسند، پرامن اور متمدن مسلم معاشرہ کے قیام کے لیے ایک سے زیادہ ترقی پسند، جدید اور مابعد جدید اسلامی نظریات وجود میں آئے ہیں (نیاز فتح پوری، اصغر علی انجینئر، )، اس لیے ایک ہے اصل اسلام اور دوسرا ہے اس سے کسی نہ کسی حد تک مشابہ، مختلف یا متصادم ’اسلامی نظریہ‘ جو اسی اصل اور مکمل اسلام کی بازتحقیق یا بازیافت کے لیے ہر اسلامی گروہ نے تشکیل دیا ہے، یا اس کے اندر اس کا ارتقا ہوا ہے۔

مذکورہ بالا پیراگراف کو دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں: جن متنوع اور مختلف خیالات، نظریات، رجحانات، کا ظہور اعتدال پسند، انتہاپسند اور روایت پرست اسلامیوں کے درمیان ہوا ہے ان کی وجہہ سے، نیز صدراول کے بعد ہی سے مختلف تاریخی اسباب کی بنا پر،اسلامی مسلک، اسلامی نظریہ، تصور، یا آئیڈیالوجی کی ایک سے زیادہ انسانی تشکیلیں موجود ہیں (سنی، شیعہ، صوفی، تبلیغی، تحریکی، متشدد، معتدل، جمہوری، روشن خیال (لبرل)، ترقی پسند، نسوانیتی، آمرانہ، وغیرہ)، اس لیے ایک ہے ’اصل اور مکمل اسلام‘ جو تقریباً ڈیڑھ ہزار سالوں[1] سے ہماری نظروں سے، بحیثیت مجموعی، کسی نہ کسی حد تک اوجھل رہا ہے، اور جو عہد رسالت میں اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں جاری و نافذ تھا، اور دوسرا ہے اسی اصل اور مکمل اسلام کی باز تحقیق اور بازیافت کے لیے تشکیل دیے گئے اسلامی نقطہ ہائے نظر، مسالک، مکاتب اور نظریے۔ اس طرح، نتیجے کے طور پر،کم از کم عملاً، اصل اسلام اور اسلامی نظریہ ایک نہیں رہتے بلکہ دو ہو جاتے ہیں۔ اصل اسلام — یعنی متفق علیہ الٰہی یا آسمانی مذہب، اور اسلامی نظریہ — یعنی انسانوں کے ذریعے اس الٰہی مذہب تک پہنچانے کے لیے قائم کیا گیا ’انسانی نظریہ‘۔ ہمیں آج اسلام سے متعلق کسی بھی مسئلے پر بات کرتے وقت الٰہی اور انسانی کے اس بنیادی فرق کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔

الٰہی مذہب ایک الٰہی کارنامہ ہے، اور الٰہی مذہب کا تصور اور اس کی بنیاد پر ایک نظریہ قائم کرنا یا آئیڈیالوجی مرتب کرنا ایک انسانی کارنامہ۔ الٰہی کارنامہ از قسمِ فطرت ہے، انسانی کارنامہ از قسم تہذیب۔ از قسم فطرت یعنی اللہ کے ذریعے خلق کی گئی ایک قدرتی، فطری، غیر آلودہ اور معصوم حالت، اور از قسم تہذیب یعنی اللہ کی اس فطرت پر انسانی عمل کے ذریعے پیدا شدہ ایک آلودہ اورغیر معصوم حالت جس میں خطا کا امکان بہر حال موجود رہتا ہے اور ہے۔ الٰہی اور انسانی کارنامہ، یا فطرت اور تہذیب کے اس فرق کو ملحوظ رکھنا موجودہ دور میں ناگزیز ہے (بلکہ ہر دور میں ناگزیر ہی تھا)۔ اگر کوئی اسلامی فرقہ، جماعت، تنظیم یا تحریک اس بنیادی فرق کو تسلیم نہیں کرتی، تو اس کے لیے اس کے سوا کچھ لازم نہیں آتا ہے کہ وہ اپنے ہی اسلامی عقیدے، نظریے، اور تہذیب کو اسلامی عقیدہ، نظریہ اور تہذیب سمجھے اور دوسری تمام تر جماعتوں اور گروہوں کے نظریے کو کسی نہ کسی حد تک ، کسی نہ کسی سطح پر، کسی نہ کسی لحاظ سے، باطل یا گمراہ کن قرار دے، کم از کم مختلف فیہ معاملات کی حد تک۔ اور گروہ بندی یا فرقہ پرستی میں مختلف فیہ کی اہمیت ہوتی ہے نہ کہ متفق علیہ کی۔ اگر متفق علیہ ہی کی اہمیت ہوتی تو سرے سے گروہ بندی یا فرقہ پرستی کی ضرورت ہی نہ پیش آتی۔ پس عالم اسلام میں تفرقہ و اختلاف کی بنیادی وجہہ یہی ہے کہ ایک فرقہ الٰہی اور انسانی کے اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھتا یا ملحوظ رکھنے پر خود کو آمادہ نہیں پاتا۔ وہ اپنی ہی طبع زاد اسلامی فکر یا اپنے ہی خود ساختہ اسلامی فلسفے کو، جس کو روایتاً یا درایتاً چلے آتے اپنے ہی موہومہ، یا مفروضہ اسلام کی بنیاد پر اس نے استوار کیا ہے، اسلامی سمجھانے پر کمربستہ ہے اور دوسرے تمام تر فرقوں پر گمراہ، بدعتی، فتنہ پرور، لائق مذمت، قابل ملامت، یا کم از کم غلط، ناقابل عمل، غیرموزوں ، گمراہ کن وغیرہ قرار دینے پر بضد ہے۔

اور یہ ایسی نظریاتی، فکری، ایمانی ، اور مذہبی صورت حال ہے جو عملی طور پر عالم اسلام کے اتحاد کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اور یہ صورت حال کبھی ختم نہیں ہو سکتی ، کیونکہ ایک ایسی جدید فقہ جس کو تمام مسلمان بالاتفاق تسلیم کر لیں وضع نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ ایک ایسی وحدانی شریعت جس پر تمام مسلمان بصمیم قلب عمل کر سکیں، موجود نہیں ہے۔جو اسلامی تنظیمیں اور تحریکیں عالم اسلام کو ایک جسد واحد کے طور پر دیکھتی ہیں، وہ دراصل اپنے نظریے کو عالم اسلام پر مسلط کرنا چاہتی ہیں، اور عالم اسلام جو اسلامی عقائد تک میں باہم مختلف ہے،مکمل طور پر ایسے کسی وحدانی نوعیت کے نظریے کو تسلیم نہیں کر سکتا جو اس کے اندر پائے جانے والے فکری و مسلکی اختلاف کا سد باب کرنے کی کوشش کرے۔ آج عالم اسلام اس مقام پر ہے جہاں اسے مذہبی، فقہی، قانونی، تہذیبی و ثقافتی اور سیاسی طور پر متحد کرنے کی کوئی کوشش بارآور نہیں ہو سکتی ۔ اوراگر غلطی سے تاریخ کے کسی دور میں، کسی مقام پر، کسی اسلام پسند تحریک نے جوش خطابت کے بل پر ایسا کارنامہ کر بھی دکھایا تو اس کا آخری نتیجہ خون خرابے کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا ۔

دنیا کے مختلف خطوں میں رہنے والے ، گروہوں ، فرقوں اور مسلکوں میں منقسم مسلمان، اسلام کے اپنے منفرد تصور اور اپنی مخصوص تعبیر کے مطابق ہی اس کو جینا چاہتے ہیں ۔ جو اسلامی تحریکیں اس بڑی حقیقت کو نہ سمجھیں گی وہ اسلام کو دنیا میں بطور ایک نظریاتی قوت کے قائم نہ کر سکیں گی۔بلکہ وہ ایک تحریکی فرقہ بھی بن سکتی ہیں جس سے محفوظ رہنے کا طریقہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ اسلام کی تمام تر اشاعتوں، یا تمام تر جدید اور مابعد جدید اسلاموں کو صدق دل سے تسلیم کر لیں۔

[2]

عالم اسلام کی مذہبی وحدتوں کا دعویٰ ہے کہ یہ دنیا کے تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے اللہ کی طرف سے عطاکی گئی آخری کتاب ہے جسے اللہ کے آخری رسول آنجناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا ہے۔ ہر دعوےکے چند عقلی تقاضے ہوتے ہیں جن کو اگراس کے داعی پورا نہ کریں تو وہ اپنے ہی دعوے کے لحاظ سے باطل ہو جاتے ہیں۔

اگر قرآن تمام انسانوں کی طرف اللہ کی آخری کتاب ہے اور اگر یہ تمام انسانوں سے، ان کی انفرادی و اجتماعی حیثیت میں، بلاتفریق رنگ و نسل ، بلا تفریق مذہب و ملت خطاب کرتی ہے تو ہر دنیا کے ہر فرد اور جماعت کو اس کا حق آپ سے آپ حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ پہلے تو اس کتاب کو پڑھے، اور پھر صرف اور محض اپنے لیے اس کے معنی متعین کرے۔یعنی اس کتاب کے جملوں اور دعووں کی تشریح، توضیح، تاویل اور تعبیر کرے تاکہ وہ اس خطاب کو سمجھ سکے اور پھر اپنی سمجھ کے مطابق چاہے تو اس پر عمل کرے اور چاہے تو نہ کرے۔

کسی متن کے معانی کے تعین میں افراد باہم مختلف بھی ہوسکتے ہیں اور متفق بھی۔ اور یہ بھی بالکل واضح ہے کہ ایک فرد یا جماعت اس کتاب کے معنی کی توضیح، تعبیر اور تشریح کے اس عمل میں غلطی پر بھی ہو سکتی ہے لیکن اس غلطی کو بزور قوت درست کرنے کا اختیار کسی دوسرے فرد یا جماعت کو نہیں ہو سکتا۔ ایک فرد یا جماعت دوسرے فرد یا جماعت کو اس کی غلطی سے مطلع اور اس پر محض عقلی اعتبار سے گرفت تو کر سکتی ہے لیکن اس پر اس غلطی کی اصلاح کے لیے کسی قسم کا جسمانی دباو ڈالنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ کیونکہ ایسا بھی ممکن ہے کہ جو فرد یا جماعت غلطی کی نشاندہی کر رہی ہو وہ خود غلطی پر ہو، یا جس شخص سے غلطی ہو رہی ہو وہ اپنی غلطی کو غلطی ماننے کے لیے تیار نہ ہو۔

ایک شخص کا دوسرے شخص پر قرآن کو اسی طرح سمجھنے کا دباو بنانا کسی طرح درست نہیں ہو سکتا جس طرح وہ خود سمجھتا ہے، کیونکہ جس طرح قرآن ایک شخص کے پاس پہنچایا گیا ہے اسی طرح دوسرے کے پاس بھی پہنچا یا گیا ہے۔ قران کوئی پرائیویٹ نوعیت کا خط نہیں جو کسی ایک فرد، جماعت یا قوم کے نام لکھا گیا ہو اس لیے ایک شخص دوسرے شخص کو اس بات پر مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ قرآن کے معانی و مفہوم کی تعیین اسی طرح کرے جس طرح وہ خود کرتا ہے۔ قرآن پر اتھارٹی کااگر کوئی دعویٰ کر سکتا ہے تو وہی کر سکتا ہے جو اس کا خالق ہے یا پھر وہ جس نے اسے اس کے خالق کے نام سے پیش کیا ہے۔ حتی کہ دنیا کی کسی بھی ریاست یا حکومت کے لیےبھی—خواہ وہ کوئی اسلامی خلافت ہی کیوں نہ ہو— یہ جائز نہیں ہو سکتا کہ وہ کسی شخص کو قرآن کا مفہوم متعین کرنے اور اس پرعمل کرنے نیز اپنے اس متعینہ مفہوم کی تبلیغ و اشاعت سے روکے کیونکہ اس کے خالق نے اسے یکساں طور پر سب کے پڑھنے کے لیے بھیجا ہے۔اور پڑھنے یعنی قرأت کا یہ عمل معنی کے تعین کے بغیر ،یعنی اس کی حسب منشا تشریح، تعبیر اور توضیح کے بغیر پورا نہیں ہوتا۔اور قرأت اور اخذ ِمعنی کا عمل معنوی اعتبار سے تکثیری نوعیت کا ہوتاہے نہ کہ وحدانی۔

قرآن کو جس قدر افراد پڑھیں گے اس کے اتنے ہی مختلف و متصادم معانی، تعبیرات و توضیحات وجود میں آئیں گی، اور ان کی بنیاد پر ایک سے زیادہ اسلاموں، یا اسلام کی ایک سے زیادہ اشاعتوں کی تشکیل ہوگی، جو فکری سطح پر اپنی نوعیت میں مختلف بھی ہوں گے اور متضاد بھی، متصادم بھی ہوں گے اور متعاون بھی۔ اور یہ کوئی ایسی بات نہیں جوصرف ایک تخئیل آرائی ہو بلکہ یہ عہد رسالت کے تیس سال بعد سے، یعنی کم و بیش چودہ سو سالوں سے جاری ہے۔ لیکن واقعات کی دنیا میں ایک فرقہ یا جماعت دوسرے فرقہ یا جماعت کو کتاب و سنت کی حسب منشا تفسیر، تعبیر، تشریح اور توضیح کا حق دینے پر آمادہ نہیں ہے۔ اور اسی کا نتیجہ عملاً یہ ہو رہا ہے کہ تقریباً ڈیرھ ہزار سال سے مسلمانوں—اور صحیح معنوں میں کہیں تو انسانوں—کے درمیان خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔

فرقے اور جماعتیں اپنے مخصوص تصور کی بنا پر ایک دوسرے کو اسلام سے خارج کرتی رہی ہیں۔ مثال کے طور پربعض سنی فرقے شیعہ کو اسلام سے خارج کرتے ہیں لیکن شیعہ اس کے باوجود خود کو مسلمان کہتے ہیں، بریلوی دیوبندی اور وہابی کی تکفیر اور ان کو اسلام سے خارج کرتے ہیں لیکن دیوبندی اور وہابی خود کو مسلمان کہتے ہیں۔ تکفیر اور اخراج کے فتووں کے باوجود سب اپنے کو مسلمان سمجھتے اور کہتے ہیں۔ اب یا توتکفیر کے فتووں کو غلط کہا جائے یا مسلمان ہونے کے دعووں کو، یا اس وحدانی مذہبی تصور کو غلط کہا جائے جس کے تحت یہ تمام تر فرقے اور جماعتیں وجود میں آئی ہیں اورصرف خود ہی کو ’اصل‘ اسلام سمجھتی ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد فکری ضلالت و گمراہی کا بہ زور قوت استیصال کرنااسلامی فرقوں اور جماعتوں کی عدم رواداری پر مبنی ایک تاریخی روش ہے جس سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی فرقوں اور جماعتوں کی فقہی و فکری بنیادوں میں ہی جبروقہر کےعناصر پائے جاتے ہیں جو کتاب و سنت کی تکثیری قرأت اور ان کی حسب منشا تاویل و تعبیر اور اس پر آزادانہ مشق کرنے میں مزاحم ہوتے ہیں۔

کتاب و سنت کی مختلف قرأتوں کے نتیجے میں چونکہ فطری طور پر اسلام کی متعدد اشاعتیں ظہور میں آئی ہیں اور آتی رہیں گی اس لیے ’’اصل اسلام‘‘ کا تصور اب اسلامی فرقوں (یا جماعتوں) کے انفرادی واہمہ سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا۔قران جب مختلف زمان و مکاں میں رہنے بسنے والے باہم مختلف، متضاد اور متصادم طبائع ،اذہان اور رجحانات رکھنے والے انسانوں کے لیے نازل ہوا ہے تو اس کی قرأت بھی باہم مختلف، متضاد اور متصادم ہوگی اور اس کے نتیجےمیں اس کی ایک سے زیادہ تعبیرات و تشریحات وجود میں آئیں گی جن پر عمل پیرا ہونے کے نتیجے میں بالکل فطری طور پرایک سے زیادہ اسلاموں یا اسلام کی ایک سے زیادہ اشاعتوں کا ظہور ہو گا۔ البتہ قرأت کے ایسے ہی عمل کے نتیجے میں ایک ’’متفق علیہ اسلام‘‘ کا تصور ضرور ابھرتا ہے۔ بجائے اس کے کہ اسلام کی متعدد اشاعتوں کے مختلف فیہ عناصر کا انسدادکرنے کے ذریعے’فکری انسداد ‘یا ’مفتیانہ اخراج ‘[1]کے ذریعے ایک عالمگیر اسلامی وحدت قائم کرنے کی ناکام سی کوشش کی جائے، اصل پر اصرار ترک کرتے ہوئے ’’متفق علیہ اسلام‘‘ کے اس تصور کو ترقی دینے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔مگر اس کا طریقہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم جس فرقے کو چاہیں جمہوری قانون سازی سے کام لے کر اسلام میں شامل رکھیں اور جس کو چاہیں خارج کردیں۔چونکہ ملت اسلامیہ کو متحد کرنے سے زیادہ اس کو پرامن بنانے کی ضرورت ہے اور موجود دور میں ملت اسلامیہ کو متحد کرنے کی ہر کوشش نقض امن کا باعث ہوگی کیونکہ ہر اتحاد کے لیے ضرورت ہوتی ہے چند متفقہ عقائد کی اور اسلام میں کوئی ایک ایسا عقیدہ نہیں جو متفق علیہ ہو۔ توحید، رسالت اور آخرت کے بنیادی عقائد میں ہی مسلمانوں کے درمیان زبردست اختلافات ہیں تو بقیہ اسلام میں کتنے امور ونکات مشترک ہیں اس سے عملاً کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دو مختلف مذاہب بھی متعدد امور میں مشترک ہو تے ہیں۔

لیکن اگر اتحاد امت کا تصور اس قدر پرکشش ہے کہ اس سے پیچھا چھڑانا ممکن نہیں تو اس کا صحیح طریقہ صرف یہ ہے کہ متعدد قدیم و جدید اسلامی فرقے اور جماعتیں جن نکات پر متفق ہوں صرف انہیں دیکھا جائے اور جن پر اتفاق ممکن نہیں اس کی بنیاد پر تکفیرواخراج کی آمرانہ و جابرانہ جمہوری روش سے پرہیز کیا جائے ۔[2] یہ بات ہمیشہ ملحوظ رکھنی چاہیے کہ’ اصل ‘کو برامد کرنا اب کسی صورت سے ممکن نہیں ہے کیونکہ نہ ہمارے درمیان اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم موجود ہیں اور نہ ان کے صحابہ جن سے معانی کے تعین کے سلسلے میں رجوع کیا جائے۔ البتہ اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم ، ان کے صحابہ اور ان کے بعد کے لوگوں کے اقوال و آثار موجود ہیں ، مگر ان کے اقوال و آثار بھی بدلے ہوئے حالات میں نئی تعبیر کا مطالبہ کرتے ہیں اور بہ اعتبار اخذمعنی (تاویل و تعبیر کے ذریعے)ان کی نوعیت بھی وہی ہے جو قرآن کی ہے۔

جب خود انسان اپنے عادات و خصائل، رغبتوں اور نفرتوں، صلاحیتوں اور خامیوں میں اتنا مختلف اور متضاد ہے تو اسی انسان کے اپنے مخصوص اسلاموں میں یہ سب خوبیاں اور خامیاں کیوں نہ درآئیں گی؟ مختلف النوع اسلامی مسالک، افکار اور نظریات نتیجہ ہیں خود انسان کے اپنے تصور کا جو کتاب و سنت کی بنیاد پر ہر ایک نے اپنے لیے اپنی’محدود‘عقل و فہم سے کام لے کر قائم کیا ہے(جو ناگزیرہے)۔ اور خوبیوں کے اور خامیوں کے باوجود جب ایک انسان خود کو اصل انسان کے طور پر متعارف نہیں کراتا پھر کیا وجہ ہے کہ وہ صرف اپنے مذہب کو اصل مذہب کے طور پر متعارف کرائے؟ انسان کا مذہب اور مسلک محتاج ہے اس کے اپنے مخصوص نظریے کا جس کو اس نے اپنی انسانی حیثیت میں قائم کیا ہے، اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں سے کام لیتے ہوئے قائم کیا ہے ، پھر اس کی ان خوبیوں اور خامیوں کا اثر اس کے قائم کردہ نظریے میں پایا جانا کیا بعید کیا ہے کہ وہ اپنے ہی نظریے کو’’ اصل اور مکمل اسلام ‘‘کے نام سے پیش کرتا ہے؟ کیا دنیا کا کوئی انسان خود کو اصل اورمکمل انسان کے طور پر پیش کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ اس کے سوا دوسرے جتنے ہیں وہ سب بے اصل اور نامکمل یا کم اصل اور ناقص ہیں؟ پھر مذہب اور مسلک کے اپنے تصور کے ساتھ وہ یہ رویہ کیوں اپناتا ہے کہ اس کے تصور کی رو سے جو مذہب اور مسلک صحیح ہے، صرف وہی صحیح ہے اور باقی سب غلط ہیں۔

اصل مسئلہ تب پیش آتا ہے جب ایک مذہب اور مسلک خود ہی کو معنی کا حکم بنا لیتا ہے ، اپنی ہی عقل کو حجت قرار دیتا ہے اور دوسروں کی عقل کو خاطر میں ہی نہیں لاتا۔ خود کو معنی کا حکم بنانے کے ذریعے، ایک مذہب اور مسلک دوسرے مذہب اور مسلک کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے اور ایک مصلح ذہنی طورپر خود کو اپنے مقابل سے بلندذہنی و فکری سطح پر فائز پاتا ہے۔ صورت حال اس وقت مزید خراب اور ناقابل برداشت ہو جاتی ہے جب ایک مذہب و مسلک دوسرے مسلک و مذہب کو ڈنڈے کے زور پر سیدھا کرنا چاہتا ہے۔ یعنی رائے عامہ کو ہموار کرنے کے تبلیغی عمل کے ذریعے اسلامی یا غیر اسلامی ریاست میں قانون سازی کے جمہوری عمل پر اثر انداز ہونا چاہتا ہے۔ اور اس تبلیغی کوشش کے نتیجے میں فساد فی الارض رونما ہوتا ہے۔ اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ پھیلاو تو وہ بڑے وثوق سے کہتا ہے کہ ہم تو اصلاح کرنے والے لوگ ہیں۔ہرگزنہیں ، دراصل یہی وہ لوگ ہیں جو مفسد ہیں، جو اپنی حقانیت کو بہ جبر منوانا چاہتے ہیں۔ ایسی جابرانہ و مصلحانہ کوششوں سے ایک مذہبی گروہ کے اندر ادعائیت اور تحکمیت پیدا ہوتی ہے، وہ حق کا حوالہ دار بن جاتا ہے۔ تحکمانہ ادعائیت کا پیدا ہونا ، جمہوری عمل کے ذریعے فکری اقلیتوں کو اسلام سے خارج کردینا، اور انہیں خود کو اسلام سے خارج شدہ نہ سمجھنے پر جسمانی تشدد سے کام لینا، خود کو معنی کا حکم بنانے کا منطقی نتیجہ اور اس کے مقتضیات میں سے ہے۔