جمعہ، 27 جولائی، 2012

دعوت، ادعائیت، تحکمیت

عالم اسلام میں، تمام تر فکری، مذہبی، تہذیبی و ثقافتی، سیاسی، اور تاریخی اختلافات، تنازعات اور تفرقوں، اورتمام ترگروہ بندیوں، تحریکوں، فرقوں اور مسلکوں کے باوجود، کم از کم ، یہ بات متفق علیہ ہے کہ اسلام ایک آسمانی یا الٰہی مذہب ہے۔ امتِ واحدہ کے مختلف فیہ اور متنازعہ امور کی موجودہ کثرت کے فکری، فقہی، تحریکی اور فرقہ وارانہ صورت حال میں، اور اعتدال پسند، انتہا پسند، بنیاد پرست اور ترقی پسند اسلام کی مغربی تقسیموں کے موجودہ عالمی منظرنامہ میں، اسلام وہ ہے، عالم اسلام کے افراد، مقامی معاشرے، تہذیبیں ، مکاتب، مسالک، خانقاہیں، فرقے، تنظیمیں اور تحریکیں جس کی مشق کرتی ہیں؛ اسلام وہ ہے، مسلمان، اپنے تمام تراختلافات، تنازعات اور مناقشات کے باوجود، جس پر انتہائی شرح صدر اور یقین کامل کے ساتھ، اور انتہائی سختی یا کم از کم انتہائی اصرار کے ساتھ، عمل پیرا ہیں—

کچھ ایسی سختی یا اصرار کے ساتھ کہ زیادہ تر مسلم اجتماعیتیں خود کو ایک ساتھ ‘برحق’، ‘فرقہ ناجیہ’، یا کم ازکم خود ہی کو ’حق سے قریب ترین‘ سمجھتی ہیں؛ کچھ ایسی سختی یا اصرار کے ساتھ کہ وہ، ’مغرب زدہ‘ تقسیموں کے مطابق خواہ اعتدال پسند ہوں یا بنیاد پرست، ترقی پسند ہوں یا روایت پرست، اپنے ہی ذریعے مقرر کردہ صراط مستقیم کو صراط مستقیم سمجھتی ہیں؛ کچھ ایسی سختی یا اصرار کے ساتھ کہ ان میں سے ہر ایک کےاپنے منفرد، مختلف ،متضاد اور متصادم اسلاموں کی تشکیل ہوئی ہے، خواہ ان کی تشکیلی بنیادیں کتنی ہی بڑی، چھوٹی، اہم یا غیر اہم کیوں نہ ہوں۔ اختلافات کی یہ بنیادیں مسالک اور مکاتب کے مخصوص نقطہ نظر پر استوار ہیں۔اس پورے منظرنامہ میں ، ایک اسلام وہ ہے جو عہد رسالت میں اپنی اصلی اور مکمل شکل میں جاری و نافذ تھا اور بہت سے اسلام وہ ہیں جو آج مسلمانوں کے درمیان اپنی مختلف اور متضاد اشاعتوں میں پائے جاتے ہیں، اورثابت نہیں ہوتا کہ عہد رسالت کا ’اصل اور مکمل اسلام ‘ان میں سے کون ہے؟ لیکن تقریباً ہر اجتماعیت یا گروہ کا دعویٰ یہی ہے کہ عہد رسالت میں اسلام وہی تھا جس کا تصور وہ کرسکتا ہے، یا جس کو اپنے تصور کی مدد سے وہ وجود میں لانا چاہتا ہے۔ اس لیے،ہر اسلامی گروہ بحیثیت گروہ کے اسلام کا کم اور اسلام کے اپنے مخصوص تصور کا اظہار زیادہ کرتا ہے۔ پس عالم اسلام کی موجودہ صورت حال میں، متفق علیہ اسلام سے زیادہ اپنے مختلف فیہ اسلام کا خانہ زاد بلکہ طبع زاد تصور مسلمانوں کی متعدد اجتماعتیوں کو اپنوں اور غیروں کے درمیان متحرک، سرگرداں اور برسرپیکار رکھتا ہے، اور اصل اسلام ان ہی گروہوں، مسلکوں اور فرقوں کے درمیان کہیں گم ہے، یا نظر نہیں آ رہا ہے اور غالباً درمیان ہی میں کہیں خاموشی سے اپنا کام کر رہا ہے، جس کو سامنے لانے کی ضرورت کے قائل سب ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ سامنے نہیں آتا، یعنی اس ’اصل‘ پر اتفاق نہیں ہو پاتا۔

اور مختلف فیہ کے اس ہجوم میں متفق علیہ، اور اس کا مفہوم بھی، گم ہو چکا ہے یا نظر نہیں آ رہا ہے۔ ایک نے دوسرے کو دھندلا اور گدلا کر دیا ہے۔ فروع نے اصل کو ، سپر اسٹرکچر نے بیس کو، دروبام نے زیر زمین بنیاد وں کو منکشف کرنا شروع کردیا ہے۔انتہائی بے کم و کاست طور پر، شاخوں نے اور ان شاخوں پر لگنے والے برگ و بار نے باہم مختلف ،متضاد اور متصادم اسلاموں کے ان تمام تر’’شجر ہائے طیب “ کی جڑوں کو فاش کرنا شروع کر دیا ہے۔ باہم مختلف اور متضاد اسلاموں کے مابین واقع ہونے والے نظریاتی اور عملی تصادم کی بے شمار تاریخی اور معاصر نظیریں اس بات کی علامت ہیں کہ ان کی نظریاتی جڑوں میں بعض انتہائی بنیادی نوعیت کے امراض ہیں جن کی ایک بار پھر تشخیص ہونی چاہیے۔بلاشبہ، پہلے بھی اس کی تشخیص ہوئی ہے لیکن ہر بار قرآن و سنت سے دوری اور اس کے سبب پیدا ہونے والی عملی کوتاہی کو ان امراض کی تشخیص کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے، اس حال میں کہ قرآن و سنت پر جتنی بحثیں ہوئی ہیں اتنی پہلے کبھی نہیں ہوئیں، قرآن و سنت پر جتنا کچھ لٹریچر شائع ہوا اس سے پہلے کبھی شائع نہیں ہوا، قرآن و سنت پر بولنے والے جتنے مقرر آج موجود ہیں اس سے پہلے کبھی نہیں رہے۔

اسلامی فرقوں اور تحریکوں کی طرف سے اس صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کے لیے مختلف پالیسیاں اور حکمتیں اپنائی جاتی ہیں جو متشدد اور انتہاپسندانہ طرز استدلال اور کارروائیوں سے لے کر اعتدال پسندی، جمہوری طرزِ افہام و تفہیم اور جمہوری حرکت وعمل کی شاہکار معلوم ہوتی ہیں۔ اسلام کے غلبے کے لیے کوشاں بیشتر تنظیموں اور تحریکوں کا مطمح نظر، آخری غرض و غایت یہی ہے کہ ایک بار ’اصل اسلام‘ کے انکشاف کے بعد، یا اس پر مسلمانوں کی بڑی آبادی کے درمیان اتفاق رائے کے بعد تمام تر بڑے اور بنیادی اختلافات مٹ جائیں گے، اور اسلام کا بہت کچھ ماضی ہی کی طرح ایک بار پھر بول بالا ہوگا۔ ایسی تحریکوں میں خانقاہیت سے مماثلت رکھنے والی نسبتاً ڈھیلی ڈھالی خالص روحانی و مذہبی تحریکیں ہیں جو اپنے سیاسی عزائم کا برملا اظہار نہیں کرتیں، یا جدید جاہلیت سے برسرپیکار منظم اور ہمہ گیر نوعیت کی عالم گیر تحریکیں ہیں جو علی الاعلان اسلام کو زندگی کے تمام تر شعبوں میں قائم یا نافذ کرنے کی بات کرتی ہیں۔

لیکن چونکہ ابتدا ہی سے مختلف اسباب (مثلاً تاریخی) کی بنا پر اسلام کی درجنوں مذہبی و فقہی اورسیاسی تشکیلیں ظہور میں آتی رہی ہیں اور ان میں سے بہت سی تشکیلیں اب بھی ہمارے درمیان موجود ہیں (تمام تر سنی اور شیعہ فرقے، فقہی مسالک)؛ چونکہ دین اسلام کی خدمت، اس کی عظمت، اس کی سرفرازی، اور اس کے غلبے کے لیے ایک سے زیادہ اسلامی تحریکات کا ظہور ہوا اور ہوتا رہا ہے (تبلیغی تحریک، تحریک اسلامی، حزب التحریر)؛ چونکہ اسلام کے مذہبی و سیاسی غلبے کے بجائے محض تہذیبی طور پر ایک صالح، صحتمند، ترقی پسند، پرامن اور متمدن مسلم معاشرہ کے قیام کے لیے ایک سے زیادہ ترقی پسند، جدید اور مابعد جدید اسلامی نظریات وجود میں آئے ہیں (نیاز فتح پوری، اصغر علی انجینئر، )، اس لیے ایک ہے اصل اسلام اور دوسرا ہے اس سے کسی نہ کسی حد تک مشابہ، مختلف یا متصادم ’اسلامی نظریہ‘ جو اسی اصل اور مکمل اسلام کی بازتحقیق یا بازیافت کے لیے ہر اسلامی گروہ نے تشکیل دیا ہے، یا اس کے اندر اس کا ارتقا ہوا ہے۔

مذکورہ بالا پیراگراف کو دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں: جن متنوع اور مختلف خیالات، نظریات، رجحانات، کا ظہور اعتدال پسند، انتہاپسند اور روایت پرست اسلامیوں کے درمیان ہوا ہے ان کی وجہہ سے، نیز صدراول کے بعد ہی سے مختلف تاریخی اسباب کی بنا پر،اسلامی مسلک، اسلامی نظریہ، تصور، یا آئیڈیالوجی کی ایک سے زیادہ انسانی تشکیلیں موجود ہیں (سنی، شیعہ، صوفی، تبلیغی، تحریکی، متشدد، معتدل، جمہوری، روشن خیال (لبرل)، ترقی پسند، نسوانیتی، آمرانہ، وغیرہ)، اس لیے ایک ہے ’اصل اور مکمل اسلام‘ جو تقریباً ڈیڑھ ہزار سالوں[1] سے ہماری نظروں سے، بحیثیت مجموعی، کسی نہ کسی حد تک اوجھل رہا ہے، اور جو عہد رسالت میں اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں جاری و نافذ تھا، اور دوسرا ہے اسی اصل اور مکمل اسلام کی باز تحقیق اور بازیافت کے لیے تشکیل دیے گئے اسلامی نقطہ ہائے نظر، مسالک، مکاتب اور نظریے۔ اس طرح، نتیجے کے طور پر،کم از کم عملاً، اصل اسلام اور اسلامی نظریہ ایک نہیں رہتے بلکہ دو ہو جاتے ہیں۔ اصل اسلام — یعنی متفق علیہ الٰہی یا آسمانی مذہب، اور اسلامی نظریہ — یعنی انسانوں کے ذریعے اس الٰہی مذہب تک پہنچانے کے لیے قائم کیا گیا ’انسانی نظریہ‘۔ ہمیں آج اسلام سے متعلق کسی بھی مسئلے پر بات کرتے وقت الٰہی اور انسانی کے اس بنیادی فرق کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔

الٰہی مذہب ایک الٰہی کارنامہ ہے، اور الٰہی مذہب کا تصور اور اس کی بنیاد پر ایک نظریہ قائم کرنا یا آئیڈیالوجی مرتب کرنا ایک انسانی کارنامہ۔ الٰہی کارنامہ از قسمِ فطرت ہے، انسانی کارنامہ از قسم تہذیب۔ از قسم فطرت یعنی اللہ کے ذریعے خلق کی گئی ایک قدرتی، فطری، غیر آلودہ اور معصوم حالت، اور از قسم تہذیب یعنی اللہ کی اس فطرت پر انسانی عمل کے ذریعے پیدا شدہ ایک آلودہ اورغیر معصوم حالت جس میں خطا کا امکان بہر حال موجود رہتا ہے اور ہے۔ الٰہی اور انسانی کارنامہ، یا فطرت اور تہذیب کے اس فرق کو ملحوظ رکھنا موجودہ دور میں ناگزیز ہے (بلکہ ہر دور میں ناگزیر ہی تھا)۔ اگر کوئی اسلامی فرقہ، جماعت، تنظیم یا تحریک اس بنیادی فرق کو تسلیم نہیں کرتی، تو اس کے لیے اس کے سوا کچھ لازم نہیں آتا ہے کہ وہ اپنے ہی اسلامی عقیدے، نظریے، اور تہذیب کو اسلامی عقیدہ، نظریہ اور تہذیب سمجھے اور دوسری تمام تر جماعتوں اور گروہوں کے نظریے کو کسی نہ کسی حد تک ، کسی نہ کسی سطح پر، کسی نہ کسی لحاظ سے، باطل یا گمراہ کن قرار دے، کم از کم مختلف فیہ معاملات کی حد تک۔ اور گروہ بندی یا فرقہ پرستی میں مختلف فیہ کی اہمیت ہوتی ہے نہ کہ متفق علیہ کی۔ اگر متفق علیہ ہی کی اہمیت ہوتی تو سرے سے گروہ بندی یا فرقہ پرستی کی ضرورت ہی نہ پیش آتی۔ پس عالم اسلام میں تفرقہ و اختلاف کی بنیادی وجہہ یہی ہے کہ ایک فرقہ الٰہی اور انسانی کے اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھتا یا ملحوظ رکھنے پر خود کو آمادہ نہیں پاتا۔ وہ اپنی ہی طبع زاد اسلامی فکر یا اپنے ہی خود ساختہ اسلامی فلسفے کو، جس کو روایتاً یا درایتاً چلے آتے اپنے ہی موہومہ، یا مفروضہ اسلام کی بنیاد پر اس نے استوار کیا ہے، اسلامی سمجھانے پر کمربستہ ہے اور دوسرے تمام تر فرقوں پر گمراہ، بدعتی، فتنہ پرور، لائق مذمت، قابل ملامت، یا کم از کم غلط، ناقابل عمل، غیرموزوں ، گمراہ کن وغیرہ قرار دینے پر بضد ہے۔

اور یہ ایسی نظریاتی، فکری، ایمانی ، اور مذہبی صورت حال ہے جو عملی طور پر عالم اسلام کے اتحاد کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اور یہ صورت حال کبھی ختم نہیں ہو سکتی ، کیونکہ ایک ایسی جدید فقہ جس کو تمام مسلمان بالاتفاق تسلیم کر لیں وضع نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ ایک ایسی وحدانی شریعت جس پر تمام مسلمان بصمیم قلب عمل کر سکیں، موجود نہیں ہے۔جو اسلامی تنظیمیں اور تحریکیں عالم اسلام کو ایک جسد واحد کے طور پر دیکھتی ہیں، وہ دراصل اپنے نظریے کو عالم اسلام پر مسلط کرنا چاہتی ہیں، اور عالم اسلام جو اسلامی عقائد تک میں باہم مختلف ہے،مکمل طور پر ایسے کسی وحدانی نوعیت کے نظریے کو تسلیم نہیں کر سکتا جو اس کے اندر پائے جانے والے فکری و مسلکی اختلاف کا سد باب کرنے کی کوشش کرے۔ آج عالم اسلام اس مقام پر ہے جہاں اسے مذہبی، فقہی، قانونی، تہذیبی و ثقافتی اور سیاسی طور پر متحد کرنے کی کوئی کوشش بارآور نہیں ہو سکتی ۔ اوراگر غلطی سے تاریخ کے کسی دور میں، کسی مقام پر، کسی اسلام پسند تحریک نے جوش خطابت کے بل پر ایسا کارنامہ کر بھی دکھایا تو اس کا آخری نتیجہ خون خرابے کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا ۔

دنیا کے مختلف خطوں میں رہنے والے ، گروہوں ، فرقوں اور مسلکوں میں منقسم مسلمان، اسلام کے اپنے منفرد تصور اور اپنی مخصوص تعبیر کے مطابق ہی اس کو جینا چاہتے ہیں ۔ جو اسلامی تحریکیں اس بڑی حقیقت کو نہ سمجھیں گی وہ اسلام کو دنیا میں بطور ایک نظریاتی قوت کے قائم نہ کر سکیں گی۔بلکہ وہ ایک تحریکی فرقہ بھی بن سکتی ہیں جس سے محفوظ رہنے کا طریقہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ اسلام کی تمام تر اشاعتوں، یا تمام تر جدید اور مابعد جدید اسلاموں کو صدق دل سے تسلیم کر لیں۔

[2]

عالم اسلام کی مذہبی وحدتوں کا دعویٰ ہے کہ یہ دنیا کے تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے اللہ کی طرف سے عطاکی گئی آخری کتاب ہے جسے اللہ کے آخری رسول آنجناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا ہے۔ ہر دعوےکے چند عقلی تقاضے ہوتے ہیں جن کو اگراس کے داعی پورا نہ کریں تو وہ اپنے ہی دعوے کے لحاظ سے باطل ہو جاتے ہیں۔

اگر قرآن تمام انسانوں کی طرف اللہ کی آخری کتاب ہے اور اگر یہ تمام انسانوں سے، ان کی انفرادی و اجتماعی حیثیت میں، بلاتفریق رنگ و نسل ، بلا تفریق مذہب و ملت خطاب کرتی ہے تو ہر دنیا کے ہر فرد اور جماعت کو اس کا حق آپ سے آپ حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ پہلے تو اس کتاب کو پڑھے، اور پھر صرف اور محض اپنے لیے اس کے معنی متعین کرے۔یعنی اس کتاب کے جملوں اور دعووں کی تشریح، توضیح، تاویل اور تعبیر کرے تاکہ وہ اس خطاب کو سمجھ سکے اور پھر اپنی سمجھ کے مطابق چاہے تو اس پر عمل کرے اور چاہے تو نہ کرے۔

کسی متن کے معانی کے تعین میں افراد باہم مختلف بھی ہوسکتے ہیں اور متفق بھی۔ اور یہ بھی بالکل واضح ہے کہ ایک فرد یا جماعت اس کتاب کے معنی کی توضیح، تعبیر اور تشریح کے اس عمل میں غلطی پر بھی ہو سکتی ہے لیکن اس غلطی کو بزور قوت درست کرنے کا اختیار کسی دوسرے فرد یا جماعت کو نہیں ہو سکتا۔ ایک فرد یا جماعت دوسرے فرد یا جماعت کو اس کی غلطی سے مطلع اور اس پر محض عقلی اعتبار سے گرفت تو کر سکتی ہے لیکن اس پر اس غلطی کی اصلاح کے لیے کسی قسم کا جسمانی دباو ڈالنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ کیونکہ ایسا بھی ممکن ہے کہ جو فرد یا جماعت غلطی کی نشاندہی کر رہی ہو وہ خود غلطی پر ہو، یا جس شخص سے غلطی ہو رہی ہو وہ اپنی غلطی کو غلطی ماننے کے لیے تیار نہ ہو۔

ایک شخص کا دوسرے شخص پر قرآن کو اسی طرح سمجھنے کا دباو بنانا کسی طرح درست نہیں ہو سکتا جس طرح وہ خود سمجھتا ہے، کیونکہ جس طرح قرآن ایک شخص کے پاس پہنچایا گیا ہے اسی طرح دوسرے کے پاس بھی پہنچا یا گیا ہے۔ قران کوئی پرائیویٹ نوعیت کا خط نہیں جو کسی ایک فرد، جماعت یا قوم کے نام لکھا گیا ہو اس لیے ایک شخص دوسرے شخص کو اس بات پر مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ قرآن کے معانی و مفہوم کی تعیین اسی طرح کرے جس طرح وہ خود کرتا ہے۔ قرآن پر اتھارٹی کااگر کوئی دعویٰ کر سکتا ہے تو وہی کر سکتا ہے جو اس کا خالق ہے یا پھر وہ جس نے اسے اس کے خالق کے نام سے پیش کیا ہے۔ حتی کہ دنیا کی کسی بھی ریاست یا حکومت کے لیےبھی—خواہ وہ کوئی اسلامی خلافت ہی کیوں نہ ہو— یہ جائز نہیں ہو سکتا کہ وہ کسی شخص کو قرآن کا مفہوم متعین کرنے اور اس پرعمل کرنے نیز اپنے اس متعینہ مفہوم کی تبلیغ و اشاعت سے روکے کیونکہ اس کے خالق نے اسے یکساں طور پر سب کے پڑھنے کے لیے بھیجا ہے۔اور پڑھنے یعنی قرأت کا یہ عمل معنی کے تعین کے بغیر ،یعنی اس کی حسب منشا تشریح، تعبیر اور توضیح کے بغیر پورا نہیں ہوتا۔اور قرأت اور اخذ ِمعنی کا عمل معنوی اعتبار سے تکثیری نوعیت کا ہوتاہے نہ کہ وحدانی۔

قرآن کو جس قدر افراد پڑھیں گے اس کے اتنے ہی مختلف و متصادم معانی، تعبیرات و توضیحات وجود میں آئیں گی، اور ان کی بنیاد پر ایک سے زیادہ اسلاموں، یا اسلام کی ایک سے زیادہ اشاعتوں کی تشکیل ہوگی، جو فکری سطح پر اپنی نوعیت میں مختلف بھی ہوں گے اور متضاد بھی، متصادم بھی ہوں گے اور متعاون بھی۔ اور یہ کوئی ایسی بات نہیں جوصرف ایک تخئیل آرائی ہو بلکہ یہ عہد رسالت کے تیس سال بعد سے، یعنی کم و بیش چودہ سو سالوں سے جاری ہے۔ لیکن واقعات کی دنیا میں ایک فرقہ یا جماعت دوسرے فرقہ یا جماعت کو کتاب و سنت کی حسب منشا تفسیر، تعبیر، تشریح اور توضیح کا حق دینے پر آمادہ نہیں ہے۔ اور اسی کا نتیجہ عملاً یہ ہو رہا ہے کہ تقریباً ڈیرھ ہزار سال سے مسلمانوں—اور صحیح معنوں میں کہیں تو انسانوں—کے درمیان خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔

فرقے اور جماعتیں اپنے مخصوص تصور کی بنا پر ایک دوسرے کو اسلام سے خارج کرتی رہی ہیں۔ مثال کے طور پربعض سنی فرقے شیعہ کو اسلام سے خارج کرتے ہیں لیکن شیعہ اس کے باوجود خود کو مسلمان کہتے ہیں، بریلوی دیوبندی اور وہابی کی تکفیر اور ان کو اسلام سے خارج کرتے ہیں لیکن دیوبندی اور وہابی خود کو مسلمان کہتے ہیں۔ تکفیر اور اخراج کے فتووں کے باوجود سب اپنے کو مسلمان سمجھتے اور کہتے ہیں۔ اب یا توتکفیر کے فتووں کو غلط کہا جائے یا مسلمان ہونے کے دعووں کو، یا اس وحدانی مذہبی تصور کو غلط کہا جائے جس کے تحت یہ تمام تر فرقے اور جماعتیں وجود میں آئی ہیں اورصرف خود ہی کو ’اصل‘ اسلام سمجھتی ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد فکری ضلالت و گمراہی کا بہ زور قوت استیصال کرنااسلامی فرقوں اور جماعتوں کی عدم رواداری پر مبنی ایک تاریخی روش ہے جس سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی فرقوں اور جماعتوں کی فقہی و فکری بنیادوں میں ہی جبروقہر کےعناصر پائے جاتے ہیں جو کتاب و سنت کی تکثیری قرأت اور ان کی حسب منشا تاویل و تعبیر اور اس پر آزادانہ مشق کرنے میں مزاحم ہوتے ہیں۔

کتاب و سنت کی مختلف قرأتوں کے نتیجے میں چونکہ فطری طور پر اسلام کی متعدد اشاعتیں ظہور میں آئی ہیں اور آتی رہیں گی اس لیے ’’اصل اسلام‘‘ کا تصور اب اسلامی فرقوں (یا جماعتوں) کے انفرادی واہمہ سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا۔قران جب مختلف زمان و مکاں میں رہنے بسنے والے باہم مختلف، متضاد اور متصادم طبائع ،اذہان اور رجحانات رکھنے والے انسانوں کے لیے نازل ہوا ہے تو اس کی قرأت بھی باہم مختلف، متضاد اور متصادم ہوگی اور اس کے نتیجےمیں اس کی ایک سے زیادہ تعبیرات و تشریحات وجود میں آئیں گی جن پر عمل پیرا ہونے کے نتیجے میں بالکل فطری طور پرایک سے زیادہ اسلاموں یا اسلام کی ایک سے زیادہ اشاعتوں کا ظہور ہو گا۔ البتہ قرأت کے ایسے ہی عمل کے نتیجے میں ایک ’’متفق علیہ اسلام‘‘ کا تصور ضرور ابھرتا ہے۔ بجائے اس کے کہ اسلام کی متعدد اشاعتوں کے مختلف فیہ عناصر کا انسدادکرنے کے ذریعے’فکری انسداد ‘یا ’مفتیانہ اخراج ‘[1]کے ذریعے ایک عالمگیر اسلامی وحدت قائم کرنے کی ناکام سی کوشش کی جائے، اصل پر اصرار ترک کرتے ہوئے ’’متفق علیہ اسلام‘‘ کے اس تصور کو ترقی دینے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔مگر اس کا طریقہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم جس فرقے کو چاہیں جمہوری قانون سازی سے کام لے کر اسلام میں شامل رکھیں اور جس کو چاہیں خارج کردیں۔چونکہ ملت اسلامیہ کو متحد کرنے سے زیادہ اس کو پرامن بنانے کی ضرورت ہے اور موجود دور میں ملت اسلامیہ کو متحد کرنے کی ہر کوشش نقض امن کا باعث ہوگی کیونکہ ہر اتحاد کے لیے ضرورت ہوتی ہے چند متفقہ عقائد کی اور اسلام میں کوئی ایک ایسا عقیدہ نہیں جو متفق علیہ ہو۔ توحید، رسالت اور آخرت کے بنیادی عقائد میں ہی مسلمانوں کے درمیان زبردست اختلافات ہیں تو بقیہ اسلام میں کتنے امور ونکات مشترک ہیں اس سے عملاً کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دو مختلف مذاہب بھی متعدد امور میں مشترک ہو تے ہیں۔

لیکن اگر اتحاد امت کا تصور اس قدر پرکشش ہے کہ اس سے پیچھا چھڑانا ممکن نہیں تو اس کا صحیح طریقہ صرف یہ ہے کہ متعدد قدیم و جدید اسلامی فرقے اور جماعتیں جن نکات پر متفق ہوں صرف انہیں دیکھا جائے اور جن پر اتفاق ممکن نہیں اس کی بنیاد پر تکفیرواخراج کی آمرانہ و جابرانہ جمہوری روش سے پرہیز کیا جائے ۔[2] یہ بات ہمیشہ ملحوظ رکھنی چاہیے کہ’ اصل ‘کو برامد کرنا اب کسی صورت سے ممکن نہیں ہے کیونکہ نہ ہمارے درمیان اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم موجود ہیں اور نہ ان کے صحابہ جن سے معانی کے تعین کے سلسلے میں رجوع کیا جائے۔ البتہ اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم ، ان کے صحابہ اور ان کے بعد کے لوگوں کے اقوال و آثار موجود ہیں ، مگر ان کے اقوال و آثار بھی بدلے ہوئے حالات میں نئی تعبیر کا مطالبہ کرتے ہیں اور بہ اعتبار اخذمعنی (تاویل و تعبیر کے ذریعے)ان کی نوعیت بھی وہی ہے جو قرآن کی ہے۔

جب خود انسان اپنے عادات و خصائل، رغبتوں اور نفرتوں، صلاحیتوں اور خامیوں میں اتنا مختلف اور متضاد ہے تو اسی انسان کے اپنے مخصوص اسلاموں میں یہ سب خوبیاں اور خامیاں کیوں نہ درآئیں گی؟ مختلف النوع اسلامی مسالک، افکار اور نظریات نتیجہ ہیں خود انسان کے اپنے تصور کا جو کتاب و سنت کی بنیاد پر ہر ایک نے اپنے لیے اپنی’محدود‘عقل و فہم سے کام لے کر قائم کیا ہے(جو ناگزیرہے)۔ اور خوبیوں کے اور خامیوں کے باوجود جب ایک انسان خود کو اصل انسان کے طور پر متعارف نہیں کراتا پھر کیا وجہ ہے کہ وہ صرف اپنے مذہب کو اصل مذہب کے طور پر متعارف کرائے؟ انسان کا مذہب اور مسلک محتاج ہے اس کے اپنے مخصوص نظریے کا جس کو اس نے اپنی انسانی حیثیت میں قائم کیا ہے، اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں سے کام لیتے ہوئے قائم کیا ہے ، پھر اس کی ان خوبیوں اور خامیوں کا اثر اس کے قائم کردہ نظریے میں پایا جانا کیا بعید کیا ہے کہ وہ اپنے ہی نظریے کو’’ اصل اور مکمل اسلام ‘‘کے نام سے پیش کرتا ہے؟ کیا دنیا کا کوئی انسان خود کو اصل اورمکمل انسان کے طور پر پیش کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ اس کے سوا دوسرے جتنے ہیں وہ سب بے اصل اور نامکمل یا کم اصل اور ناقص ہیں؟ پھر مذہب اور مسلک کے اپنے تصور کے ساتھ وہ یہ رویہ کیوں اپناتا ہے کہ اس کے تصور کی رو سے جو مذہب اور مسلک صحیح ہے، صرف وہی صحیح ہے اور باقی سب غلط ہیں۔

اصل مسئلہ تب پیش آتا ہے جب ایک مذہب اور مسلک خود ہی کو معنی کا حکم بنا لیتا ہے ، اپنی ہی عقل کو حجت قرار دیتا ہے اور دوسروں کی عقل کو خاطر میں ہی نہیں لاتا۔ خود کو معنی کا حکم بنانے کے ذریعے، ایک مذہب اور مسلک دوسرے مذہب اور مسلک کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے اور ایک مصلح ذہنی طورپر خود کو اپنے مقابل سے بلندذہنی و فکری سطح پر فائز پاتا ہے۔ صورت حال اس وقت مزید خراب اور ناقابل برداشت ہو جاتی ہے جب ایک مذہب و مسلک دوسرے مسلک و مذہب کو ڈنڈے کے زور پر سیدھا کرنا چاہتا ہے۔ یعنی رائے عامہ کو ہموار کرنے کے تبلیغی عمل کے ذریعے اسلامی یا غیر اسلامی ریاست میں قانون سازی کے جمہوری عمل پر اثر انداز ہونا چاہتا ہے۔ اور اس تبلیغی کوشش کے نتیجے میں فساد فی الارض رونما ہوتا ہے۔ اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ پھیلاو تو وہ بڑے وثوق سے کہتا ہے کہ ہم تو اصلاح کرنے والے لوگ ہیں۔ہرگزنہیں ، دراصل یہی وہ لوگ ہیں جو مفسد ہیں، جو اپنی حقانیت کو بہ جبر منوانا چاہتے ہیں۔ ایسی جابرانہ و مصلحانہ کوششوں سے ایک مذہبی گروہ کے اندر ادعائیت اور تحکمیت پیدا ہوتی ہے، وہ حق کا حوالہ دار بن جاتا ہے۔ تحکمانہ ادعائیت کا پیدا ہونا ، جمہوری عمل کے ذریعے فکری اقلیتوں کو اسلام سے خارج کردینا، اور انہیں خود کو اسلام سے خارج شدہ نہ سمجھنے پر جسمانی تشدد سے کام لینا، خود کو معنی کا حکم بنانے کا منطقی نتیجہ اور اس کے مقتضیات میں سے ہے۔

منگل، 7 فروری، 2012

مقلد اور شاگرد کا فرق

(ہندی سے ترجمہ، اصل متن: اوشو)

جو کچھ تمہارے اندر خوبصورت ہے اسے چھپا کر رکھو، اسے ظاہر نہ کرو۔ تمہارے اندر جو بھی سچا، حقیقی اور بیش قیمت ہے وہ چھپانے کے لائق ہے کیونکہ جب بھی حق کو دل میں چھپا کر رکھا جا تا ہے تو وہ دل میں چھپے بیج کی طرح پھوٹتا اور نشوونما پاتا ہے، ٹھیک زمین میں گہرے دبے بیج کی طرح۔ اسے باہر مت اچھالو۔ اگر تم نے بیج کو ہر ایک کو دکھانے کے لیے سڑک پر پھینک دیا تو وہ عبث ہی مر جائے گا۔ مر کر پھر وہ درخت اور نئے بیجوں کو پیدا نہ کر سکے گا۔

ٹھیک ایک بیج کی ہی طرح، تمہارے اندر جو بھی حسن، خیر اور حق ہے اس کی دیکھ بھال کرو۔ اس کا مظاہرہ نہ کرتے ہوئے، اسے دل میں چھپا کرنشو و نما پانے کے لیے جگہ دو۔ لیکن ہر شخص کے ذریعے ٹھیک اس کا الٹا کیا جاتا ہے۔ جو بھی غلط ہے، اسے تم چھپاتے ہو، تم نہیں چاہتے کہ وہ دوسروں پر ظاہر ہو۔ جو بھی قباحت آمیز ہے، اسے تم چھپاتے ہو اور جو بھی تمہارے اندر خوبصورت ہے، اگرچہ وہ حقیقت میں خوبصورت ہو یا نہ ہو، تم اسے بڑھا چڑھا کر اسے مشتہر کرتے ہو۔ یہی سب سے بڑی مصیبت ہے کیونکہ جو حسین تر ہے، وہ ضائع ہو جاتا ہے اور جو قبیح تر ہے اس کی نشوونما ہوتی ہے۔ جھوٹ پھلتا پھولتا ہے، وہ ایک بیج بن جاتا ہے اور سچ پھینک دیا جاتا ہے۔
قیمتی شئے پھینک دی جاتی ہے اور گھاس پھوس اگتی، نشو و نما پاتی ہے۔ تم جنگلی کانٹے دار بیل کی طرح ہو جاتے ہو۔ تمہاری زندگی میں پھول کھلتے ہی نہیں کیونکہ تم نے کبھی ٹھیک کام نہ کرتے ہوئے پھولوں کے بیج اپنے ہاتھ میں دبائے ہی نہیں۔ یہی الٹا راستہ ہے
ایسا شخص جو اپنی خوبیوں کو مشتہر نہیں کرتا معمولی ہی نہیں انتہائی معمولی ہوتا ہے۔ اسے کوئی بھی نہیں جانتا کہ وہ کون ہے اور وہ کون سا خزانہ اپنے اندر چھپائے ہوئے ہے۔ وہ نہ کبھی کسی بات کو مشتہر کرتا ہے نہ کسی قسم کے مظاہرے کی کوشش کرتا ہے۔ ہم کسی خوبی کو مشتہر کیوں کرتے ہیں؟ محض تکبر کی وجہ سے۔ تم خود اپنے آپ سے سے مطمئن نہیں ہو۔ تم تبھی مطمئن ہوتے ہو جب دوسرے تمہاری تعریف کریں۔ کوہ نور ہونا ہی کافی نہیں ہے۔ تمہارے پاس ایک قیمتی پتھر کا ہونا ہی کافی نہیں ۔ تم چاہتے ہو، دوسرے بھی اس کی تعریف کریں۔ تمہارا اپنا وجود نہیں، اس سے زیادہ تمہارے لیے دوسروں کی رائے قیمتی ہے۔ تم دوسروں کی آنکھوں سے دیکھتے ہو، جیسے وہ آنکھیں نہ ہو کر آئینہ ہوں۔ اگر وہ تعریف کریں یا تالیاں بجائیں، تبھی تمہیں اچھا لگتا ہے۔
تکبر ایک غیر حقیقی شئے ہے۔ وہ دوسرے افراد کے ذریعے ظاہر کی گئی رایوں یا فیصلوں کا ایک جمگھٹا ہے جس سے خود کی کوئی جانکاری نہیں ملتی۔ یہ خود، یعنی کہ نام نہاد ‘‘خود’’ ہی اصلی تکبر ہے۔ یہ اور کچھ نہ ہو کر خود کے لیے دوسروں کے خیالات کا ایک مجموعہ ہے اور یہ ہمیشہ خوفزدہ رہتا ہے۔ دوسرے اپنا ارادہ یا خیال بدل سکتے ہیں اور تم ہمیشہ ہی ان پر انحصار کرتے ہو۔ اگر وہ کہیں ، تم اچھے ہو، تو تم اچھا نے رہنے کے لیے ان کے اصولوں اور معیاروں کی پیروی کرتے ہو۔ تمہیں ان کی آنکھوں میں اچھا بنے رہنے کے لیے ان کی پیروی کرنی ہی ہوتی ہے۔ کیونکہ اگر ایک بار انہوں نے تمہارے بارے میں اپنی رائے بدل دی، تو پھر تم اچھے نہیں بنے رہ سکتے۔ تمہاری خود اپنے وجود تک کوئی سیدھی پہنچ ہی نہیں ہے۔ وہ صرف دوسروں کے ذریعے سے ہے۔ اس لیے تم نہ صرف اپنے کو مشتہر کرتے ہو، بلکہ تم بڑھا چڑھا کر جھوٹ کا سہارا لیتے ہو۔ ہو سکتا ہے تمہارے پاس ذرا سا حق ہو اور ذرا سا حسن ہو لیکن جب تم اس میں مبالغہ آرائی کرتے ہو تو وہ مضحکہ خیز ہوجاتا ہے۔
مجھ یاد ہے، اور میں اسے کبھی بھول بھی نہیں سکوں گا، جب پہلی بار مجھ سے ملا نصرالدین کا تعارف کراتے ہوئے میرے ایک دوست نے کہا، ‘‘دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ ملا نصرالدین ایک عظیم مصنف بھی ہیں۔’’ اور یہ کہتے ہوئے جان بوجھ کر مسکرانے لگا۔
اس لیے میں نے ملا نصرالدین سے پوچھا، ‘‘کیا آپ نے کچھ لکھا ہے؟’’ انہوں نے جواب دیا، ‘‘میں نے بس ابھی ابھی ‘ہیملیٹ’ ختم کیا ہے!’’
میرے کان یقین نہ کر سکے، اس لیے میں نے اس سے پھر پوچھا، ‘‘آپ نے شاید کبھی کسی ایسے شخص کے بارے میں سنا ہو یا پڑھا ہو، جسے شیکسپئیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔’’
ملا نصرالدین نے کہا، ‘‘بڑی عجیب بات ہے! کیونکہ میں نے جب پہلے میک بتھ لکھا تھا، تب بھی کسی شخص نے مجھ سے کچھ ایسا ہی سوال کیا تھا کہ یہ ولیم شیکسپئیر کون ہے! ایسا لگتا ہے کہ یہ شخص شیکسپئیر، جو کچھ میں لکھتا ہوں، اسی کی کاپی کر وہی لکھ دیتا ہے۔’’
تم سوچتے ہوکہ ہر شخص تمہاری نقل کر رہا ہے۔ جبکہ حقیقیت یہ ہے کہ تم ہی ہر ایک کی نقل کر رہے ہو۔ تم سچے آدمی نہ ہو کر دوسروں کی کاربن کاپی ہو کیونکہ ایک سچے آدمی کو کسی مظاہرہ کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔
ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کے کوٹ، اس کے زیوروں اور اس کے بچوں کے بارے میں ہی باتیں ہوتی رہیں۔ اور ہر شخص اپنی باتوں سے ہر شخص کو بور کر رہا ہے۔ اور اگر تم ایسے بور لوگوں کو برداشت کر رہے ہو تو صرف اس لیے کیونکہ تم لوگوں کے بیچ ایک آپسی سمجھوتا یا سمجھ ہے کہ کہ اگر وہ تمہیں بور کر رہا ہے تو اسے بھی تمہیں اسے بور کرنے کا موقع دینا پڑے گا۔ تم صرف انتظار کر ہے ہو کہ وہ اپنی بات ختم کرے اور تم اپنی داستان شروع کر سکو۔ اور پوری زندگی ایک نقل اور کبھی بھی نہ ختم ہونے والا ایک بھونڈا مظاہرہ بن کر رہ گیا ہے۔ تم اس کے ذریعے کیا حاصل کرتے ہو؟ صرف ایک جھوٹا احساس کہ تم اہمیت کے حامل اور غیر معمولی ہو۔
کوئی منہگے منک کوٹ اپنے پاس رکھ کر کیسے غیر معمولی بن سکتا ہے؟ قیمتی ہیرے جواہرات خرید کر کوئی کیسے غیر معمولی شخص ہو سکتا ہے؟ کوئی بھی یہ کام یا وہ کام کرتے ہوئے بھی کیسے غیر معمولی ہو سکتا ہے؟ تم جو کچھ کرتے ہواس سے غیرمعمولیت کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔
اس کا تعلق تم کیا ہو، صرف اس سے ہے۔ اور تم پہلے ہی سے غیر معمولی ہو۔ ہر شخص یکتا اور منفرد ہے۔ اسے ثابت کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ اگر تم اسے ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہو تو صرف اس کے برعکس یا الٹا ہی ثابت کر رہے ہو۔ اگر کوئی چیز پہلے ہی سے ہے تو تم اسے ثابت کیسے کر سکتے ہو؟ اگر تم اسے ثابت کرنے کوشش کر رہے ہو تو صرف یہی دکھا رہے ہو کہ جو انوکھا پن تم میں پہلے ہی سے موجود ہے تمہیں اس کا شعور نہیں ہے۔
اس لیے اگر تم کوئی چیز ثابت کرنا چاہتے ہو تو یہ صرف یہی دکھاتا ہے کہ تمہیں اس کے بارے میں شک ہے۔ تم دوسروں کی آنکھوں کے ذریعے اپنا وہ شک دور کرنا چاہتے ہو۔ درحقیقیت تمیں اپنے خوبصورت ہونے کا یقین نہیں ہے اور چاہتے ہو کہ دوسرے کہیں کہ تم خوبصورت ہو!
ایک چھوٹے سے گاوں میں یہ روایت تھی کہ جب بھی کسی کی شادی ہوتی تھی تو چرچ کا پادری دلہن کا بوسہ لیتا تھا۔ یہ ایک قدیم رسم تھی۔ ایک عورت جس کی عنقریب شادی ہونے جا رہی تھی، وہ اپنے کو بہت حسین سمجھتی تھی، جیسا کہ سبھی عورتیں سمجھتی ہیں۔ یہ عورتوں کی فطرت ہے اور اس میں نیا کچھ بھی نہیں ہے۔ حقیقیت میں ہر عورت ایسا ہی سوچتی ہے، چاہے وہ بدصورت ہی کیوں نہ ہو۔ وہ بھی سوچتی تھی کہ وہ بہت خوبصورت ہے اور اس لیے وہ پریشان ہو کر بار بار اپنے ہونے والے شوہر سے کہتی تھی، ‘‘جاؤ اور جا کر پادری سے کہو کہ میں نہیں چاہتی کہ نکاح کرانے کے بعد وہ میرا بوسہ لے۔’’
شادی ہونے سے ٹھیک پہلے اس نے ہونے والے شوہر سے پھر پوچھا، ‘‘کیا تم پادری کے پاس گئے اور اس سے وہ پوچھا جس کی بابت میں نے تم سے کہا تھا؟’’
دولہے نے بہت اداسی سے کہا، ‘‘ہاں۔’’
دلہن نے پوچھا، ‘‘پھر تم اتنے اداس کیوں ہو؟’’
دولہے نے جواب دیا ‘‘جب میں نے پادری سے تمہاری خواہش کے بارے میں بتایا تو اس نے بہت خوش ہو کر کہا، اس صورت میں میں اپنی فیس سے آدھی فیس ہی لوں گا!’’
تم اپنے خوبصورت ہونے کے متعلق مسلسل ہی سوچے چلے جاو لیکن تمہارے بارے میں اس طرح کوئی اور نہیں سوچتا کیونکہ ہر ایک و اپنی ہی خوبصورتی سے سے مطلب ہے۔ تمہاری خوبصورتی سے نہیں۔ اور اگر کوئی اسے قبول کر کے کہتا ہے ، ‘‘ہاں تم خوبصورت ہو’ تو وہ صرف یہ انتظار کر رہا ہے کہ تم بھی اس کی خوبصورتی کو قبولیت دیتے ہوئے اس کی تعریف کرو۔
یہ ایک آپسی سودا ہے۔ من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو! میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم خوبصورت نہیں ہو اور تم بھی اچھی طرح جانتے ہو کہ میں خوبصورت نہیں ہوں، لیکن میں تمہاے جذبہ تفاخر کی تسکین کر رہا ہوں، اس لیے تم بھی میرے ایسے ہی جذبے کی تسکین کا ذریعہ بنو۔
اور ہر شخص کو اپنے یکتائے روزگار ہونے کا دعویٰ کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی تک تم اپنے ہی وجود کو نہیں جان پائے جو کہ منفرد اور یکتا ہے اور اسے کسی دعوے یا دلیل کی ضرورت ہی نہیں۔ جھوٹ کو ثابت کرنے کے لیے ہی دلیلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تم خدا کا ہونا ثابت نہیں کر سکتے کیونکہ وہی آخری سچ ہے۔ صرف جھوٹ کو ہی ثبوتوں کی ضرورت ہوتی ہے، سچ کے لیے کسی دلیل کی کوئی ضرورت نہیں، وہ صرف ہے۔
اور میں تمہیں بتا دوں کہ تم منفرد اور غیرمعمولی ہو۔ ویسا ہونے کی کوشش مت کرو، یہ مضحکہ خیز ہے، تم صرف مضحکہ خیز بن کر رہ جاتے ہو اور تمہارے پیٹھ پھیرتے ہی دوسرے لوگ مسکراتے ہیں۔ اگر تمہیں ہی اپنی انفرادیت کا یقین واثق نہیں ہے تو دوسرے کو کیسے ہو سکتا ہے؟ یقین واثق دلائل کے پار ہے۔ اور یہ کیسے آتا ہے؟ یہ آتا ہے خود کو جاننے کے ذریعے سے۔
اس طرح جاننے کے دو طریقے ہیں۔ پہلا ہے، راست علم، سیدھے خود کو جاننا اور یہی سچا طریقہ ہے۔ اور دوسرا غلط طریقہ ہے، دوسروں کے ذریعے اپنے کو جاننا کہ کہ وہ تمہارے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ اور اگر تم ہی خود کو نہیں جانتے ہو تو دوسرے کیسے جان سکتے ہیں؟ وہ تو تم سے بہت دور ہیں۔ خود کو جاننے کے لیے سب سے قریب ترین شخص تم خود ہو۔ اگر تم ہی اپنی خود کی حقیقت کو نہیں جانتے، تو دوسرے کیسے جان سکتے ہیں؟
لیکن چونکہ ہمیں اپنی حقیقت کا علم نہیں ہے، اس لیے ہمیں اس کی جگہ اس کا متبادل چاہیے۔ تکبر ہی اس کا متبادل بنتا ہے اور مسلسل مظاہرے میں لگا رہتا ہے۔ تم بازار میں سامان کو سجا کر رکھنے والے ایک شوکیس کی طرح ہو۔ تم ایک بے جان شئے بن گئے ہو۔ تم نے اپنے کو سجاوٹ کا ایک سامان بنا لیا ہے۔ تم ہر ایک سے عاجزانہ درخواست کر رہے ہو، یہ کہنے کی درخواست کہ وہ تمہارے متعلق کہے کہ تم اچھے، خوبصورت، عالم، عظیم اور غیر معمولی ہو۔
ایک شخص جو خود آگاہی کی تلاش میں ہے، دوسروں کی نظر میں معمولی ہی بنا رہے گا۔ وہ فکر ہی نہیں کرے گا، وہ اپنے کو چھپا کر رکھے گا، وہ اپنا مظاہرہ نہیں کرے گا، وہ نمائش نہیں بنے گا۔ وہ ایک اسٹیج شو نہیں ہوگا۔ وہ خاموش رہے گا، چین سے جیے گا اور خاموش رہتے ہوئے ہی زندگی کی مسرت حاصل کرے گا۔ وہ چاہے گا کہ کوئی بھی اس کے بارے میں پریشان نہ ہو، کیوں؟ جب بھی کوئی تمہارے بارے میں سوچتا ہے، تمہاری فکر کرتا ہے، تو سب کچھ مشکل اور پیچیدہ ہو جاتا ہے اور خود کو جاننا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
وہاں تمہیں اکیلے ہی جانا ہے اور اگر تم بھیڑ کی طرف دیکھ رہے ہو اور سوچتے ہو کہ بھیڑ تمہاری پیروی کرے، تو پھر تم کبھی پہنچوگے ہی نہیں۔
اگر تم ایک نمائش پسند ہو، تو تم ایک شئے ہی بنے رہو گے۔ تم کبھی ایک شخصیت ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ شخصیت تو تمہارے وجود کے ایک گوشے میں مخفی ہے۔ تمہارے تمام تروجود میں یہی سب سے گہرا امکان ہے۔ تم ہی سب سے بڑی اتھاہ کھائی ہو۔ تمہارے ساتھ، تمہارے سوا وہاں کوئی اور جا بھی نہیں سکتا۔ تمہیں وہاں اکیلا ہی جانا ہوگا۔ اور اگر اس میں تمہاری دلچسپی ہے کہ دوسرے کیا کہیں گے اور کیا سوچیں گے، تو تم سطح پر ہی بنے رہو گے۔ یہ تو ہوئی ایک بات۔
دوسری بات یہ کہ اپنا مظاہرہ کرتے ہوئے تم اپنی قباحت چھپا رہے ہو۔ جو کچھ غلط اور بدصورت ہے، اسے تم کپڑوں، لفظوں، مکھوٹوں، چہرے مہرے، ہاو بھاو اور اپنے کاموں سے چھپانے کی کوشش کر رہے ہو۔ یہ تم کیا کر رہے ہو؟ یہی غلط تمہارے اندر ایک بیج بن کر پھوٹے گا۔ اور تم اسے جتنا زیادہ قوت کے تمام مراکز کی طرف پھیینکنے کی کوشش کروگے، یہ اتنا ہی مضبوط ہوتا جائے گا۔ اور جو تمہارے اندر خوبصورت ہے، اسے تم باہر پھینک دوگے اور وہ کبھی بیج نہ بن سکے گا۔
ٹھیک اس کا الٹا کرو۔ اگر تمہارے اندر جو کچھ بدصورت ہے، اسے دوسروں کو دکھاو، وہ بھاپ بن کر اڑ جائے گا۔ اگر تم غصہ ور ہو، تو ہر ایک کو بتاو، میں ایک غصہ ور شخص ہوں، نہ میرے دوست بننا، اور مجھ سے محبت کرنا۔ میں برا، بدصورت، بداخلاق، لالچی اور بوالہوس ہوں۔ جو کچھ تمہارے بارے میں قبیح ہو، اس کے متعلق سبھی کو بتانا، اور بتانا یا کہنا بھی کافی نہیں ہے، بلکہ مدلل طور پر اس کی اداکاری بھی کرنا۔ اور تم حیرت زدہ رہ جاوگے کہ جب کوئی چیز باہر پھینک دی جاتی ہے، تو وہ گویا بہہ جاتی ہے۔
اور جو خوبصورت ہو، اسے چھپانا۔ اسے گہرے اتر جانے دینا، جس سے وہ تمہارے وجود کی جڑیں بن جائے، ترقی پائے۔ لیکن تم تو اس سے ٹھیک الٹا کر رہے ہو۔

چانگ سو ہمیشہ بندروں کو دیکھا کرتا تھا۔ اس کی ان میں بہت زیادہ دلچسپی تھی کیونکہ وہ انسان کے آبا و اجداد ہیں اور ایک بندر تمہارے اندر بھی چھپا ہوا ہے۔ یہ پوری دنیا اور کچھ نہیں، بلکہ بندروں کا ایک پہاڑ ہے۔ چاروں طرف بندر ہی بندر ہیں۔ بندر کی خصوصیت کیا ہے؟ بہت گہرائی میں بندر کا کردار کیا ہے؟ وہ ہے نقل کرنا۔
گرجیف کہا کرتا تھا، جب تک تم بندر بننا بند نہیں کرتے، تم ایک انسان نہیں ہو سکتے اور وہ ٹھیک تھا۔ سہی کہتا تھا۔ کسی نے اس سے پوچھا، ‘‘بندر کی سب سے نمایاں خصوصیت کیا ہے؟’’ اس نے جواب دیا، ‘‘نقل کرنا!’’
بندر پورا نقلچی ہے۔ تم اپنے پوری زندگی بھر کیا کرتے رہے ہو؟ تم ایک انسان یا ایک بندر بن کر جیے ہو۔ تم اپنے چاروں طرف دیکھ کر اس کی نقل اتارتے رہے ہو۔ تم تقلید و اتباع کرتے ہوئے نقلی اور جھوٹے بن گئے ہو۔ تم نے کسی کو، کسی مخصوص طریقے سے چلتے ہوئے دیکھا اور تم اسی طرح چلنے کی کوشش کرتے رہے ہو، کسی نے کوئی خاص لباس پہنا، تم نے ویسے ہی لباس کی چاہ کی، تم نے کسی کے پاس کار دیکھی اور تم نے اپنے لیے بھی کار کی خواہش کی۔ اور اسی طرح ہر شئے کی خواہش کی۔
تم نے کبھی یہ دیکھا ہی نہیں کہ تمہاری کیا ضرورت ہے۔ اور اگر تم نے اپنی ضرورت کو ٹھیک سے جانا ہوتا، تو زندگی ایک مسرت بھرا احساس بن کر چھا جاتی کیونکہ ضرورتیں بہت تھوڑی ہیں۔ تمہیں نقل اس راہ پر لے جاتی ہے، جو کہیں پہنچاتی ہی نہیں اور نہ کہیں اس کا خاتمہ ہوتا ہے۔ ضرورتیں زیادہ بھی نہیں ہیںَ وہ بہت تھوڑی سی ہیں۔ اگر تم اپنی ضرورتوں کو دیکھو، تو تم مطمئن ہو سکتے ہو۔ تشفی آسانی سے ہو جاتی کیونکہ ضرورتیں کتنی ہیں؟ ضرورتیں بہت تھوڑی سی ہیں۔ لیکن اگر تم نقل اتارتے یا پیروی کرتے ہو تو غیر ضروری طور پر لاتعداد ضروریات کی بھیڑ تمہارے چاروں طرف اکٹھی ہو جاتی ہے۔ اور وہ کہیں ختم نہیں ہوتیں کیونکہ کروڑوں انسان ہیں اور تم ہر ایک کی پیروی کرنا چاہتے ہو۔ اگر تم ہر ایک کی طرح زندگی جینا شروع کر دو، جو کہ ناممکن ہے، تو تم یہ بھول ہی جاوگے کہ تم یہاں اپنی رغبتوں اور وسعتوں کے مطابق کام کرنے آئے تھے اور ایک نقلچی بن کر رہ گئے۔
تم یہاں اپنی تقدیر کو پورا کرنے کے لیے آئے ہو اور ہر ایک کی اپنی نجی تقدیر ہے۔ وہ کسی دوسرے کی تقدیر نہیں ہے۔ اس عالمِ وجود نے تمہیں ایک متعین غرض کو پورا کرنے کے لیے خلق کیا ہے، جو کسی کے ذریعے پوری نہیں کی جا سکتی۔ کوئی بدھ یا عیسیٰ بھی اسے پورا نہیں کر سکتے، صرف تم ہی اسے کر سکتے ہو۔ اور تم دوسروں کی نقل اتار رہے ہو۔ اسی لیے ہندو کہتے ہیں کہ جب تم دوسروں کی پیروی کرنا بند نہیں کرتے، تمہیں بار بار سنسار میں جنم لینا ہوگا۔ آواگون اور پنرجنم کا یہی سدھانت ہے۔ جب تک تم اپنی تقدیر پوری نہیں کرتے، جب تک تمہاری کھلاوٹ نہیں ہوتی، تمہیں بار بار پیدا ہو کر اس دنیا میں آنا ہی ہوگا۔ اگر تم نقل کرتے رہے، تو تمہاری کھلاوٹ کیسے ہوگی؟ تم ایک موسیقار کو دیکھتے ہو اور موسیقار بننا چاہتے ہو۔ تم نے ایک اداکار کو دیکھا اور اداکار بننے کی سوچنے لگے اور ایک ڈاکٹر کو دیکھ کر تم ڈاکٹر بننا چاہتے ہو۔ تم اپنے سوا سب کچھ بننا چاہتے ہو اور جو تم بن سکتے ہو، وہ سب کچھ تمہارے اندر ہے، اس کے سوا اور کچھ ہے ہی نہیں۔ تم جیسا کوئی دوسرا ہے ہی نہیں اور نہ کوئی تمہارا آئیڈیل ہو سکتا ہے اور نہ کچھ اور ہونا ممکن ہے۔
گوتم بدھ سے محبت کرو، بدھ خوبصورت ہیں، لیکن ان کی ظاہری اتباع مت کرو، ورنہ تم چوک جاوگے۔ عیسیٰ ایک معجزہ ہیں، لیکن اب ان کی اور کوئی ضرورت نہیں، وجود کی وہ غرض پوری ہو گئی، وہ کام انجام پا گیا۔ ان کی کھلاوٹ پوری ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص پوری طرح کھل اٹھتا ہے، وہ کبھی واپس لوٹ کر نہیں آتا۔ عیسیٰ سے محبت کرو لیکن ان کی نقل مت کرو، ان کی اتباع مت کرو، ورنہ اس کا انجام دکھ درد اور ادھورے پن میں ہوگا۔ درحقیقیت تم کسی کی نقل کر ہی نہیں سکتے۔ تم صرف اشارات لے سکتے ہو، لیکن تب تمہیں بہت ہوشیار رہنا ہوگا۔ اشاروں کو اندھی تقلید میں نہیں بدلنا چاہے۔
جب تم کسی بدھ کو دیکھو، تو اس کی موجودگی میں یہ آہٹ پکڑو کہ اس کی کھلاوٹ کیسے ہوئی؟ اس نے کون سے طریقے استعمال کیے؟ وہ کیا کرتا رہا؟ اسے سمجھنے کی کوشش کرو اور اس کی سمجھ کو اپنے میں جذب کرو۔ تمہیں دھیرے دھیرے اپنے راستے کا تجربہ ہونا شروع ہو جائے گا۔ وہ راہ بدھ کی راہ جیسی نہیں ہوگی۔ ہو بھی نہیں سکتی۔ وہ پوری طرح الگ ہوگی۔ لیکن بدھ کو پینے اور اپنے میں جذب کرنے سے تمہیں مدد ملے گی۔ تم اپنے ہی ڈھنگ سے نشوونما پانے لگوگے لیکن اسے اپنے میں جذب یا سوکھنے سے تمہارے اندر زیادہ سمجھ پیدا ہوگی۔
یہی فرق ہوتا ہے کسی مذہبی رہنما کے ایک حقیقی شاگرد اور مقلد کے درمیان۔ تقلید کرنے والا نقلی یا جھوٹا ہوتا ہے۔ ایک تقلید کرنے والے سے ایک شاگرد پوری طرح سے الگ اور کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ وہ نقل نہیں کرتا بلکہ مذہبی رہنما کے عمل کی نقل نہیں کرتا۔ شاگرد کا کام اداکاری کرنا نہیں ہوتا۔ اداکاری تو ایک قسم کی ریاکاری ہے جس میں مذہبیت کی تھوتھی سمجھ رکھنے والے مبتلا ہوتے ہیں۔ تم چاہو بھی تو گوتم بدھ نہیں ہو سکتے۔ تم چاہو بھی تو مہاویر کی طرح نہیں ہو سکتے۔ تم جتنا جتنا بدھ اور مہاویر جیسا بننا چاہو گے اتنا اتنا تم ان سے دور ہوتے چلے جاوگے۔ تم اپنے جیسا بنو۔ البتہ بدھ، مہاویر اور عیسی سے تم اشارات لے سکتے ہو۔ لیکن اس صورت میں تمہیں محتاط رہنا ہوگا۔

جمعرات، 30 جون، 2011

سماجی علوم کا نصب العین اور طریقہ کار

یہ موضوع بحث کے تفصیلی مطالعے کے بعد لکھی گئی کوئی باضابطہ، مربوط اور منظم تحریر نہیں ہے۔اس میں سائنسی اور سماجی علوم کے نصب العین اور طریقہ کار کے سلسلے میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے اس کی نوعیت صرف ایک سرسری اور طائرانہ نظر کی ہے۔ سائنسی و سماجی علوم میں اوپر اور دور سے جو کچھ نظر آتا ہے بس اسی کو پیش نظر رکھ کر ایک بے ضابطہ سا مقدمہ قائم کیا گیا ہے ۔ اس لیے اس تحریر کو مصنف کی طرف سے حرف آخر نہ سمجھا جائے۔


ایک

موجودہ دور میں علوم و فنون کی درس و تدریس کو دو بڑے حصوں کے تحت انجام دیا جاتا ہے۔ ایک کا نام سائنس ہے اور دوسرے کا آرٹس۔ سائنس کے تحت طبیعیات (فزکس)، حیاتیات (بایولوجی)، کیمیا (کیمسٹری) اور ان تینوں بنیادی سائنسی علوم سے مرکب متعدد علوم آتے ہیں مثلاً بایو کیمسٹری، بایو فزکس۔ سائنس کے عملی انطباق (پریکٹیکل ایپلی کیشن) کو تکنالوجی کہتے ہیں۔ اسے بھی سائنس کے ساتھ ہی رکھا جاتا ہے. آرٹس کے تحت مذہبیات، منطق، ریاضی، فلسفہ، ادبیات عالیہ، فنون لطیفہ (رقص وموسیقی، مصوری، مجسمہ سازی) سماجیات، سیاسیات، معاشیات، نفسیات، جغرافیہ وغیرہ جیسے علوم آتے ہیں۔ آرٹس کے تحت آنے والے علوم کی جن شاخوں (Disciplines) کے مطالعے کا موضوع ‘‘انسان اور اس کے متعدد انفرادی و سماجی معاملات و مسائل’’ ہے اسے انسانی و سماجی علوم کے دائرے میں رکھا جاتا ہے۔ انسانی و سماجی علوم کے دائرے میں سماجیات، نفسیات، معاشیات، جغرافیہ، لسانیات اور ان بنیادی سماجی علوم سے مرکب متعدد علوم آتے ہیں۔ مثلاً سماجی نفسیات (سوشل سائیکالوجی)، سیاسی جغرافیہ (جیوپالیٹکس)، سماجی لسانیات (سوشیو لنگوسٹکس) وغیرہ۔
یہ ایک مختصر ترین خاکہ ہے جس کی مدد سے علم و فن کی درس و تدریس کے موجودہ ڈھانچے کا ایک مجمل سا تصور ہمارے ذہن میں پیدا ہو سکتا ہے۔ اس وقت علوم و فنون کی موجودہ ترتیب و تقسیم سے کسی قسم کا تعرض کیے بغیر میں سب سے پہلے سماجی و سائنسی علوم میں ‘‘علم’’ کا کیا مفہوم متعین ہونا چاہیے اس سے بحث کروں گا پھر اس بات کی وضاحت کی کوشش کروں گا کہ انسانی و سماجی علوم(Humanities and Social Sciences) میں ‘‘علم’’ کی کیا کیفیت ہے اور جن امور کو حسن ظن سے کام لیتے ہوئے علم کے زمرے میں رکھا جاتا ہے وہ دراصل علم کے نہیں بلکہ ظنون و قیاسات کے مرتبے پر ہیں۔
سائنسی علم کی صحت کے سلسلے میں ہمیں یقین کامل ہوتا ہے کہ وہ قطعی طور پر حقیقت ہے یعنی اس میں کسی تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں نہ پہلے کبھی تھی اور نہ بعد میں کبھی ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر زہر کھانے سے انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ وٹامن ڈی کی کمی سے سوکھے کا مرض ہو جاتا ہے۔ زمین سورج کے چاروں طرف گردش کرتی ہے۔ پانی 100 ڈگری سینٹی گریڈ پر بھاپ بن جاتا ہے۔ ان معاملات کا علم قطعی اور یقینی ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہ کبھی واقع ہوئی ہے اور نہ ہو سکتی ہے۔ اسی طرح اگر ہم یہ کہیں کہ سن 2001میں اٹل بہاری واجپائی ہندوستان کے وزیر اعظم تھے تو اب سے ایک ہزار سال پہلے بھی یہ سچ تھا اور اب سے ایک ہزار سال بعد بھی یہی سچ ہوگا۔ بعد میں حالات بدل گئے اور من موہن سنگھ وزیر اعظم ہوئے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب علم بدل گیا۔ علم حالات سے متعلق ہوتا ہے۔ جب حالات میں تبدیلی واقع ہو گی تو ان حالات کو ظاہر کرنے کے لیے نیا علم بھی وجود میں آئے گا۔ لیکن کوئی تبدیل شدہ حالت اپنے سے پہلے والی حالت کے وجود کی نفی نہیں کر سکتی۔ جب پچھلی حالت کے وجود کی نفی نہ ہوئی تو پچھلی حالت کے علم کی نفی بھی نہیں ہو سکتی۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ علم وہی ہے جس میں کوئی تغیر واقع نہ ہو۔
اس سلسلے میں ایک اور اشکال وارد ہوتا ہے۔ عہد وسطی میں سائنسی علم یہ تھا کہ سورج زمین کے چاروں طرف گردش کرتا ہے۔ دور جدید میں معلوم ہوا کہ خود زمین سورج کے چاوں طرف گردش کرتی ہے۔ مذہبی حلقوں میں اکثر یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ اس طرح تو سائنسی علم بھی اعتقاد ہی ثابت ہوتا ہے۔ اگر عہد وسطیٰ میں سورج کے متعلق سمجھا جاتا تھا کہ وہ زمین کے چاروں طرف گھومتا ہے اور موجودہ دور میں اس کے برعکس سمجھا جاتا ہے تو کیا یہ ممکن نہیں کہ اب سے ہزار پانچ سو سال بعد موجودہ دور کا یہ سائنسی اعتقاد بھی غلط ثابت ہو جائے؟ جس طرح عہد وسطیٰ کے لوگ اپنے سائنسی علم کے خلاف سوچ بھی نہین سکتے تھے اسی طرح دور جدید کے لوگ بھی موجودہ سائنسی علم کے خلاف نہیں سوچ سکتے۔ عہد وسطی میں دوربین اور دیگر سائنسی آلات ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ لوگ علم کے لیے غور و فکر اور حواس خمسہ کے راست استعمال پر منحصر تھے اسی لیے وہ جو کچھ دیکھتے تھے اس پر ایمان لے آتے تھے، حالانکہ وہ صحیح نہیں تھا۔ دور جدید میں سائنسی آلات کی ایجاد کے بعد ہی زمین کی سورج کے گرد گردش کرنے والی بات سمجھ میں آ سکی۔ اسی طرح عین ممکن ہے کہ اب سے ہزار پانچ سو سال بعد کی سائنسی تحقیقات کی رو سے موجودہ علم کی نفی بھی ہو جائے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ سائنسی حقائق بھی زمانے کے ساتھ بدل سکتے ہیں۔ میں صرف اتنا کہوں گا کہ زمین کا سورج کے گرد گھومنا اگر واقعی ناقابل اعتبار ہے تو پھر اسے سائنسی علم کی فہرست سے خارج کر دینا چاہیے اور اسے علم کے بجائے گمان غالب یا ایک قسم کا فلسفہ ہی سمجھنا چاہیے۔ لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں زمین کی سورج کے گرد گردش کو ہر مکنی زاویے سے دیکھ لیا گیا ہے تب ہی جا کر اسے ایک حقیقت کے طور پر تسلیم گیا ہے۔ اب اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر واقعی ایسے امور میں بھی شک و شبہ کی گنجائش ہے تو پھر انہیں بھی احتیاطاً سائنسی علم کے زمرے سے نکال کر ظن و قیاس کے زمرے میں رکھنا ہوگا۔ ہم یہ نہیں کر سکتے کہ قیاسات کو تیقنات کے نام سے موسوم کریں اس حال میں کہ ہم جانتے ہوں کہ یہ دراصل قیاسات ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اور اہم سوال اٹھایا جا سکتا ہے۔ آخر ہمیں یہ کیسے معلوم ہوگا کہ موجودہ دور کا کون سا علم مستقبل میں غلط ہو جانے والا ہے؟ یہ سوال پریشان کن تو ہے لیکن سائنسی علم اپنی پشت پر چند دلائل اورشہادتیں رکھتا ہے جن کی مدد سے ان کی بار بار تصدیق ہو سکتی ہے اور اسی لیے انہیں سائنسی علم کہا گیا ہے۔ ورنہ انہیں بھی فلسفیانہ قیاس کے زمرے میں ہی رکھا جاتا۔ ایٹم میں الیکٹران پروٹون اور نیوٹران کے وجود اور ان کی کارکردگی کے سلسلے میں سائنس کے دعووں کو ہم اس لیے نہیں مان لیتے کہ مٹھی بھر سائنسداں اس کا دعویٰ کر رہے ہیں اورہمیں ان کی بات پر ایمان بالغیب لانا ہی ہوگا ورنہ تحصیل علم کی گاڑی ایک منٹ کے لیے بھی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ سائنس میں ایمان بالغیب لانے جیسی کوئی بات نہیں۔ یہاں ہر ایک امر کی تصدیق کے لیے سیدھا راستہ کھلا ہوا ہے کہ جو چاہے آئے اور سائنسی آلات و ظروف کی مدد سے سائنس کے دعووں کی سچائی معلوم کر لے۔ سائنسی علم ہمیں اپنی بازتصدیق کا موقع فراہم کرتا ہے۔ سائنس مذہب کی طرح ‘‘لن ترانی’’ نہیں کہتی اور نہ اپنے پر ایمان بالغیب لانے کی دعوت دیتی ہے۔ سائنسی علم میں اس قدر قطعیت اور وضاحت اسی لیے ہے کہ اس میں معقولات کے ساتھ ساتھ محسوسات کو بھی حجت قرار دیا گیا ہے۔ اگر کسی امر معقول کی تصدیق محسوسات سے نہیں ہوتی تو سائنس کے مطابق وہ سرے سے سائنسی علم ہی نہیں ہے۔
اگر ہم عقل کے ساتھ ساتھ حواس کو بھی حجت قرار دیں تو علم اور قیاس میں فرق بالکل واضح ہو جائے گا۔ ہمیں یہ صاف صاف معلوم ہو جائے گا کہ کیا چیزیں علم ہیں اور کیا چیزیں قیاس یا فلسفہ۔ دنیا ہمیشہ سےناقابل انکار محسوس حقائق اور ظنون و قیاسات کے درمیان فرق کرتی آئی ہے۔ معقولات و محسوسات کے میل سے ناقابل انکار حقائق پیدا ہوتے ہیں۔ اور ‘‘علم’’ کو بھی ناقابل انکار اور ازقسم محسوسات ہی ہونا چاہیے۔ دو فلسفی اپنے اپنے غوروفکر یا قیاس کی مدد سے ایک ہی معاملے میں دو متضاد حکم لگا سکتے ہیں۔ جبکہ دو سائنسداں کسی ایک معاملے میں دو متضاد حکم نہیں لگا سکتے۔ مثال کے طور پر ایک سائنسداں اگر یہ کہتا ہے کہ سائینامائیڈ کھانے سے انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے تو دوسرا اس کی نفی نہیں کر سکتا۔ دونوں کو ایسے امور پر لازماً متفق ہونا ہوگا کیونکہ سائنس کے لیے معیار حواس ہوتے ہیں نہ کہ ذہنی تخیل آرائی۔ فلسفی کے لیے حواس معیار تحقیق نہیں ہے۔ اس کے معیارات سائنسی معیارات سے کم بھی ہو سکتے ہیں اور زائد بھی۔ایک فلسفی چاہے تو محسوسات کا انکار بھی کر سکتا ہے اور چاہے تو معقولات کے ساتھ ساتھ منقولات کو بھی اپنے فلسفہ کی بنیاد بنا سکتا ہے۔

دو

سماجی علوم کا موضوع مطالعہ ‘‘انسانی معاملات و مسائل’’ ہے اور اس کا طریقہ کار سائنسی ہے۔ سائنسی طریقہ کار میں معقولات کی تصدیق محسوسات کے ذریعے کی جاتی ہے۔ گویا محسوسات کی حیثیت براہین قاطعہ کی ہے۔ مولانا مودودی نے سائنس کے متعلق کہیں لکھا ہے کہ یہ محسوسات کی غلام ہے۔ یہ سائنس کا خاصہ اور اس کی فطرت ہے ۔ اگر محسوسات کی شرط کو ہٹا دیا جائے تو سائنس میں معقولات کے سوا کچھ نہ رہ جائے گا اور سائنس اور فلسفہ ایکم ایک ہوجائیں گے۔ انسانی سماج میں بے شمار ایسے مسائل ہیں جن کی حقیقی وجہ تک محسوسات تو دور بعض اوقات معقولات کی رسائی بھی نہیں ہو پاتی۔ مثلاً خود کشی ایک سماجی مسئلہ ہے۔خود کشی کے مرتکب افراد خوب سوچ سمجھ کر اس کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ہم کیسے یہ حکم لگا سکتے ہیں کہ خودکشی کرنے والے نے جلدبازی میں ایسا کیا؟ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی زندگی سے تنگ آگیا ہو یا اسے کینسر جیسا مہلک مرض ہو گیا ہو جس میں تکلیف ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکی ہو۔ ایسے معاملات میں کچھ لوگوں کی عقل بھی یہی حکم لگاتی ہے کہ تکلیف دہ زندگی جھیلنے سے اچھا موت کی نیند سو جانا ہے۔ یاایسا بھی ہو سکتا ہے کہ بعض اذیت پسند لوگ حصول لذت کے لیے خودکشی کر گزریں۔ بعض صوفیوں اور مجاہدوں کو بھی قتل ہونے میں خاص قسم کی لذت محسوس ہوتی ہے۔ جنگ کرنا اور جنگ میں اپنی جان دے دینا ایک سراسر غیرمعقول طرز عمل ہے۔
انسانی سماج میں قدم قدم پر ایسے ہی سوالوں سے سابقہ پڑتا ہے جس کی کوئی سائنسی توجیہہ پیش کرنا ناممکن ہے۔ عقلی و سائنسی طور پر بہت سی نصیحتیں حق بہ جانب نظر آتی ہیں لیکن کوئی ضروری نہیں ہے کہ ایک سماج کے افراد ان پر عمل کرنے لگیں۔ انسانی سماج یا اس کے افراد عقل و سائنس کی بنیادوں پر بہت کم اور اعتقادات و توہمات کی بنیاد پربہت زیادہ چلتے ہیں۔ ہر دور میں ‘‘آستھا’’ سائنس سے زیادہ قوی رہی ہے۔ جو چیزیں سائنسی بنیادوں پر کام ہی نہیں کر رہی ہوں ان کےسائنسی مطالعہ کا آخر کتنا فائدہ ہے؟
اوپر کی معروضات کے خلاف یہ کہا جا سکتا ہے کہ ‘‘بے شمار فطری مظاہر بھی ایسے ہیں جن کی کوئی سائنسی توجیہہ ابھی تک پیش نہیں کی جا سکی تو کیا صرف اس بنا پر ہم فطرت کے مطالعے میں سائنسی طریقہ کار سے مدد لینا ترک کر دیں گے؟ اگر فطرت کا مطالعہ ہم سائنسی طریقہ کار سے کر رہے ہیں اور کوئی ضروری نہیں ہے کہ سائنسی طریقہ کار کی مدد سے تمام تر فطری مظاہر کی توجیہہ پیش کی جا سکے اور صرف اسی وجہہ سے ہم مطالعہ فطرت میں سائنسی طریقہ کار سے مدد لینا ترک نہیں کرتے تو پھر انسانی سماج کے مطالعے کے سلسلے میں ہی ہم سائنسی طریقہ کار سے مدد لینا کیوں ترک کر دیں؟ فطرت ہی کی طرح سماج کے مطالعے میں بھی تو بہت سے مظاہر ایسے ہیں جن کی کوئی سائنسی توجہہ پیش نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے جس طرح فطرت کے مطالعے میں سائنسی طریقہ کار سے مدد لینے کا انکار نہیں کیا جا سکتا اسی طرح انسان اور سماج کے مطالعے میں بھی سائنسی طریقہ کار سے مدد لینے کا انکارنہیں کیا جا سکتا۔’’
یہ طرز استدلال بظاہر بہت جاندار معلوم ہوتا ہے۔ لیکن ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ انسان یا اس کا سماج فطرت کی طرح کوئی اندھا گونگا، بہرا اور بے شعور موضوع نہیں ہے۔ فطرت کسی پیچیدہ مشین کی طرح خودکار اور خود منضبط ہے۔ جبکہ انسانی سماج میں ایسی مشینی خودکاری اور خود انضباطی نہیں پائی جاتی۔ انسان اور اس کے سماج کا مطالعہ موسمیات کے مطالعے جیسی کوئی چیز نہیں ہے کہ ہم انسان اور اس کی تقدیر کے سلسلے میں کسی قسم کی پیشینگوئی (پریڈکشن) کر سکیں۔ اس تحریر کو پڑھتے وقت ایک اور غلط فہمی یہ ہو سکتی ہے کہ میں شاید انسانی و سماجی علوم میں سائنسی طریقہ کار کے استعمال کے خلاف کچھ کہہ رہا ہوں۔ میرا مدعا یہ نہیں ہے۔سماجی علوم میں سائنسی طریقہ کار کا استعمال بدرجہ اتم ہونا چاہیے ۔ یہاں میرا اصل مدعا صرف یہ ہے کہ سائنسی طریقہ کار کے استعمال کی ناگزیریت کے باوجود انسانی و سماجی علوم ‘‘سائنس’’ نہیں بن سکے ہیں اور نہ کبھی بن سکتے ہیں کیونکہ موضوعِ انسانی میں فطرت کی طرح مشینی خودکاری اور خود انضباطی کا عمل نہیں پایا جاتا۔ (واضح رہے کہ مشینی خودکاری محض ایک استعارہ ہے)۔
انسان ایک خود مختار وجود ہے۔ اپنی مرضی کا مالک ہے۔ انسان کی خود مختاری کی اصل وجہہ اور اس کے تمام تر خودمختارانہ افعال کا مرکزو محور اُس کی نیت ہے اور نیت کی حتمیت کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ انفرادی اور اجتماعی طور پر انسانی اعمال کے پس پشت موجود نیت ہمہ وقت غیرمعقول اور غیر محسوس طور پر مختلف النوع تغیرات کی زد میں رہتی ہے۔ نیت کا دائرہ کار صرف گناہ اور ثواب سے ہی متعلق نہیں۔ نیت انسانی افراد، اداروں اور انجمنوں کے تمام تر اعمال و وظائف کے پس پشت موجود ناگفتہ بہہ/ ناقابل اظہار/ناقابل فہم اغراض و مقاصد کا نام ہے۔ کسی سماج میں ایک شخص یا جماعت کسی مخصوص عمل یا روایت پر کیوں عمل پیرا ہے اس کی کوئی ٹھیک ٹھیک سائنسی توجیہہ اس طرح ممکن نہیں ہے جس طرح سائنسی علوم میں مظاہر فطرت کا مطالعہ کرتے وقت ہو جاتی ہے۔ انسانی نیت کے سلسلے میں کوئی کامیاب پیش گوئی نہیں کی جا سکتی ہے۔ پس جب نیت ہی ناقابل مطالعہ اور ناقابل تحقیق ہوگئی جس پر انسانی سماج کے افراد، اداروں اور انجمنوں کے تمام تر اعمال و ظائف کا دار و مدار ہے تو ظاہر ہے سائنسی طریقہ کار کے ذریعے انسانی و سماجی علوم میں حاصل کیے جانے والے علم کی قطعیت وحتمیت کی ضمانت بھی نہ رہی اور اس طرح تمام تر انسانی و سماجی علوم ان معنوں میں ناکام قرار پائے جن معنوں میں فطری سائنس ہمیشہ سے کامیاب قرار پاتی رہی ہے۔ پس سماجی علوم میں دراصل علم یا سائنس نہیں بلکہ سائنس کی دھجیاں اور پرزے ہیں۔ وہاں محسوسات پر مبنی چند سائنسی حقائق کو معقولات سے جبراً منسلک کر دیا گیا ہے اور اسی کے ذریعے اپنے مزعومہ ‘‘ سوشل سائنس’’ کی تشکیل کی گئی ہے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جب نیت کی عدم قطعیت کی وجہہ کر انسان کے انفرادی یا اجتماعی عمل کی کوئی قطعی سائنسی توجیہہ ممکن نہیں تو سائنسی طریقہ کار کی حیثیت کتنی رہ جاتی ہے؟ نربلی، مذہبی ماتم، جنسی اذیت رسانی، لذت کوشی، محرمات سے نکاح کا ممنوع ہونا، جرم و سزا، جنگ و خونریزی، پسند و ناپسند، ذوق اور بدذوقی، تہذیب اور بربریت، سماجوں میں پائی جانے والی مختلف الاقسام حلتیں اور حرمتیں، ان میں سے کون سی چیز خالص عقلی و سائنسی طور پر قابلِ مطالعہ ہے؟ ہاں البتہ ایسے معاملات و رسومات کا کوئی مفصل ریکارڈ رکھنا ہو تو اس میں سائنسی طریقہ کار ضرور کارآمد ہو سکتا ہے۔ پھر سماجی علوم میں میں علما و مفکرین سے زیادہ منشیوں اور محرروں کی خدمات حاصل کرنا زیادہ بہتر ہوگا۔ ایک منشی یا محرر زیادہ صحت کے ساتھ سماجی امور و مسائل کو نقل کر سکتا ہے۔ ظاہر ہے سماج اور اس کے افراد کے اعمال و وظائف وغیرہ کا کوئی مفصل ریکارڈ رکھنا سماجی علوم کے پیش نظر نہیں ہے۔ وہ تو سائنس کی طرح سماجی مظاہر اور انسانی معاملات کی توضیح و تعبیر کرتے ہیں۔ اور کسی بھی سماجی عمل کی توضیح و تعبیر اور نظام فطرت کی سائنسی توضیح تعبیر میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
سائنسی طریقہ کار کے استعمال کا صاف مطلب یہ ہے کہ جس طرح فطری سائنسوں میں ہم جس غیر جانب داری کے ساتھ فطرت پر کوئی اخلاقی تبصرہ کیے بغیر اس کا مطالعہ کرتے ہیں اسی طرح سماجی سائنسوں میں بھی غیرجانب داری کے ساتھ افراد یا سماج کی اخلاقیات سے کوئی چھیڑچھاڑ کیے بغیر سماج کا مطالعہ کریں تاکہ طلبا کا ذہن کسی فرد یا سماج کے سلسلے میں مثبت یا منفی طرز فکر کا شکار نہ ہو۔ لیکن سماجی امور کا مطالعہ کرتے وقت ہم متعدد تعصبات اورتوہمات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ غیر جانب دار رہنے کا مفہوم یہ بھی ہے کہ ہم سماج کو صرف سمجھ کر رہ جائیں۔ اس کو بدلنے کی کوشش نہ کریں۔ جوں ہی کہ ہم نے بدلنے کی کوشش کی، ہم غیر جانب دار نہ رہ سکے۔ سماجی امور و مسائل پر سائنسی طریقے سے تحقیق و تفتیش کرتے ہی ہمارے سامنے حق اور ناحق کا سوال اٹھنے لگتا ہے۔ سماجی علوم کے علما چونکہ سماجی علوم کو ‘‘سائنس’’ بنانا چاہتے ہیں اس لیے وہ سماج کا مطالعہ کرتے وقت اپنے اخلاقی ردعمل سے پیچھا چھڑانے کی عمداً کوششش کرتے ہیں لیکن اس میں وہ کماحقہ کامیاب نہیں ہو پاتے۔وہ انسانی سماج ، اس کی فطرت اور اس کی ساخت کے ایسے قاری ہوتے ہیں جن کی قرات میں اپنے ردعمل کو پوشیدہ رکھنے کی مشق کے سبب ایک مخصوص قسم کی ریاکاری اور منافقت پیدا ہوجاتی ہے۔ شعوری طور پر اس منافقانہ قرات کے نتیجے میں تمام تر انسانی و سماجی علوم کا لاشعور (جو تحریر ی طور پر وجود میں نہیں رکھتا، آف دی ریکارڈا) غیر اخلاقی کثافت اور مختلف النوع تعصبات سے لبالب بھر جاتا ہے۔

تین

سائنسی تحقیقات کی بنیاد جذبہ تجسس پر ہے اس لیے سائنس داں مظاہر فطرت کا علم حاصل کر کے رک جاتا ہے۔ یہاں اس کے جذبہ تجسس کی تشفی ہو جاتی ہے۔ جذبہ تجسس کی تشفی کی بنیاد پر سوچا جائے تو مجرد سائنس کا نصب العین صرف اور صرف جاننے کے سوا اور کچھ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ سائنس صرف اشیا کے جاننے کا عمل ہے خواہ اس عمل سے نوع انسانی کو فائدہ ہو یا نقصان۔ سیاروں اور ستاروں کا نظام کیسے کام کرتا ہے۔ پانی کیسے برستا ہے، انسان کے جسمانی اعضا کے اعمال وظائف کیا ہیں۔ دن کیسے ہوتا ہے، رات کیسے آتی ہے۔ یہ سوالات عملاً معصوم ہیں۔ ان سے حیات و کائنات پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا۔ صرف جاننا یا مجرد علم دنیا کو نہیں بدل سکتا۔ علم کے ساتھ جب عمل کی قوت جڑتی ہے تو فلسفہ پیدا ہوتا ہے۔ فلسفہ زندگی کو ویسے کا ویسا قبول نہیں کرتا جیسی کہ وہ عملاً ہوتی ہے۔ وہ ‘‘ہونا چاہیے’’ پر عمل کرتا ہے۔ سائنس کی مدد سے وہ پہلے چیزوں کی کارکردگی کا علم حاصل کرتا ہے پھر ان چیزوں کو اپنے آرام و آسائش کے لیے استعمال کرتا ہے۔ بدلتا ہے۔ سائنس کے تمام تر سوالات چونکہ معصومیت کی انتہا پر ہوتے ہیں اس لیے وہ ہر معاملے کو جاننا چاہتی ہے۔ اور جاننے کے لیے تجربہ و مشاہدہ کا استعمال کرتی ہے۔ تجربہ و مشاہدہ یعنی مجرد فکر سے اوپر اٹھ کر اشیا کو دیکھنے، سونگھنے، چکھنے وغیرہ کی شرط لگاتی ہے۔ جبکہ فلسفہ ایسی کسی شرط سے بندھا ہوا نہیں ہے۔ وہ بے شرط ہے۔ اور فلسفہ کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ کسی شرط سے بندھا ہوا نہ رہے۔ اگر وہ ہر معاملے میں دیکھنے سونگھنے اور چکھنے کی شرط لگائے تو پھر وہ فلسفہ نہ ہوگا بلکہ سائنس ہو گی جو اپنی کاوشوں کی بدولت عالم غیب کی چیزوں کو عالم شہادت میں لا دیتی ہے۔
سائنس کا مقصد یہ جاننا ہے کہ چیزیں کیا ہیں، کیوں ہیں اور وہ کیسے کام کرتی ہیں۔ وہ معروضی ہوتی ہے۔ جیسا کہ سائنسدانوں کا دعویٰ ہے۔ اگر سائنسدانوں کا یہ دعویٰ صحیح ہے تو پھر کہنا پڑے گا سائنس ازخود فطرت کو نہیں بدلتی، اس پر فتح نہیں پانا چاہتی۔ اس کو انسانوں کے حق میں استعمال (ایکسپلائٹ) نہیں کرتی۔ بلکہ یہ فلسفہ ہے جو سائنس کی مدد سے فطرت کو بدلتا ہے۔ سائنس ایک تحقیق کرتی ہے اور فلسفہ اس تحقیق کا استعمال کرتا ہے۔ مثلاً سائنس بتاتی ہے کہ پانی بھاپ کیسے بنتا ہے اور بھاپ میں کیا کیا قوتیں پنہاں ہیں۔ اورپھر انسان کی قوت فکر یعنی فلسفہ آگے آتا ہے اور سائنسی علم کا عملی انطباق کرتے ہوئے اس کا اچھا یا برا استعمال کرتا ہے۔ یہ انسان کی قوت اختراع ہے جو بھاپ کی قوت سے ریل کا انجن بناتی ہے۔ اور قوت اختراع کو ہم سائنس نہیں کہہ سکتے۔ سائنسی ایجادات و اختراعات میں کوئی نہ کوئی آئیڈیولوجی یا فلسفہ بالقوہ موجود رہتا ہے۔ سائنس تو وہ تھی جس نے انتہائی معصوم طریقے سے بھاپ کی نوعیت و ماہیت کا انکشاف کیا۔ گویا سائنسداں کے ذہن میں ایک معصوم سوال پیدا ہوا اور اس نے اس کے معصوم جواب کی تحقیق کی۔ یہ درحقیقت کسی نظام اخلاق سے متعلق آئیڈیولوجی یا فلسفہ ہی تھا جس نے سائنس کی معصومت کا استعمال یا استحصال کیا اور بھاپ سے وہ کام لیا جو وہ چاہتا تھا۔ یورینیم کے ایٹم میں پنہاں قوت کو کس نے آشکار کیا؟ سائنس نے۔ اور اس سے ایٹم بم کس نے بنایا؟ ٹکنالوجی نے۔ اور ٹکنالوجی کیا ہے؟ سائنس کا عملی انطباق یعنی قوت ایجاد و اختراع جس میں کوئی نہ کوئی آئیڈیولوجی یا فلسفہ موجود رہتا ہے۔پس ایک ہے غیر جانب دار سائنسی تحقیق اور دوسرا ہے جانب دار فلسفہ جو سائنسی تحقیقات کا استعمال کرتا ہے۔
سائنس چونکہ ازقسم محسوسات ہے اس لیے وہ آگے چلتی ہے اور فلسفہ اس کے پیچھے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ سائنس فلسفہ کی رہنمائی کا کام انجام دے رہی ہے۔ سائنس کی حیثیت تو ایک روشن چراغ کی ہے فلسفہ جس کی روشنی میں آگے بڑھتا رہتا ہے۔ اپنے ہاتھ میں سائنس کے اس چراغ کو پکڑے ہوئے فلسفہ جس طرف بھی رخ کرتا ہے چراغ کی روشنی بھی ادھر ہی پھیلیتی ہے۔ عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ رہنمائی دراصل چراغ کی ہے۔ لیکن کم لوگوں کو علم ہوتا ہے کہ امامت تو ابھی بھی اسی کے ذمے ہے جو سائنس کے چراغ کو تھامے ہوئے ہے۔ یوں کہیں تو بے جا نہ ہو گا کہ سائنس دراصل فلسفہ کے ہاتھ کی کٹھ پتلی ہے۔ اور وہ جس طرح چاہے سائنس سے اپنا کام نکالتا ہے۔سائنس اور سائنسی طریقہ کار کے نام سے اس دھوکہ دہی سے یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ یا تو فلسفہ خود گمراہ ہے یا عام لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے ایسا کر رہا ہے۔ مجھے ہمیشہ ایسا لگتا ہے کہ سماجی علوم کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم کا بھی یہی حال ہے۔ حالانکہ غالب اور برسراقتدار فلسفے سائنس کے ذریعے ذہنی و فکری طور پر وہ تباہی نہیں پھیلا سکے ہیں جو سماجی علوم کے ذریعے سے انہوں نے پھیلا دی ہے۔

چار

تمام فلسفہ عالم غیب سے متعلق ہوتا ہے۔ اور تمام سائنس عالم شہادت سے۔ اور دنیا کے تمام معقولات و قیاسات عالم غیب سے متعلق ہوتے ہیں نہ کہ عالم شہادت سے۔ اور علم کا تعلق عالم شہادت سے ہے نہ کہ عالم غیب سے۔ اور تمام تر انسانی و سماجی علوم زیادہ تر عالم غیب سے تعلق رکھتے ہیں۔ پس ان کو علوم کہنا ایک غیر معقول امر ہے جس کی غیر معقولیت کوتسلیم کیے بغیر چارہ نہیں۔
محسوسات عالم شہادت کی بنیاد ہیں اور معقولات عالم غیب کی۔ محسوسات اور معقولات کے درمیان جس قدر فاصلہ ہوگا ہم حقیقی علم سے اسی قدر دور ہوں گے۔ حقیقی علم وہی ہے جس میں محسوسات اور معقولات کے درمیان فصل نہ ہو کر وصل ہو۔ جوں ہی کہ ان دونوں کے درمیان وصل ہوا علم وجود میں آ گیا۔ اس سے پہلے جو کچھ ہے وہ بس اٹکلوں اور قیاسات کے مرتبے پر ہے۔ دنیا میں تنازعات کی اصل وجہہ تجربات و محسوسات سے نہیں بلکہ قیاسات و معقولات ہیں۔ جو چیزیں محسوسات کی بنیاد پر اظہر من الشمس ہیں ان میں نہ کبھی کوئی اختلاف ہو سکتا ہے اور نہ ہوا ہے۔ تجربات و محسوسات کا انکار کون کر سکا ہے؟ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، تجربہ کیجے اور خود محسوس کر لیجیے کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح۔ سوشل سائیسیز یا سماجی علوم میں سائنسی طریقہ کار پر اس قدر زور کیوں دیا جاتا ہے؟ تاکہ دنیا یہ یقین کر لے کہ ہمارے معقولات برحق ہیں۔ برحق ہیں کیونکہ محسوسات نے ان پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔سائنسی طریقہ کار کا مطلب ہی یہ ہے کہ شک کی کوئی بات نہیں۔ ہم جا کر دیکھ آئے ہیں، محسوس کرآئے ہیں، یہی صحیح ہے جو ہمارے نظریے کی رو سے ثابت ہو رہا ہے۔ پس انسانی و سماجی علوم میں سائنسی طریقہ کار کی اہمیت محض اتنی ہے کہ وہ فلسفیانہ نظریات کو تجربہ و مشاہدہ کی بنیاد پر پرکھنے کا بھرم قائم رکھے۔ لیکن یہ بھرم لمبے عرصے تک قائم نہیں رہ سکتا۔ اوپر اور دور ہی سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں اولیت محسوسات کو نہیں بلکہ معقولات و قیاسات کو حاصل ہے۔ انسانی معاملات و مسائل پر غور و فکر کے ذریعے ہر دور میں نظریات قائم کیے جاتے رہے ہیں اور بعد میں محسوسات یعنی سائنسی تحقیقات کی مدد سے انہیں پایہ ثبوت تک پہنچانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اس کے سوا کوئی اور چارہ کار ہے بھی نہیں۔
سماجی علوم میں ہی نہیں بلکہ سائنسی علوم میں بھی محسوسات کو اولیت حاصل نہیں رہی۔ نظریہ ہر حال میں مقدم ہے۔ کسی بھی امر کے اثبات کے لیے یہ ایک فطری طریقہ کار ہے۔ لیکن جب تک سائنسی طریقہ کار کی مدد سے کسی امر کا اثبات نہ ہو جائے تب تک اس کو سائنس کیوں سمجھا اور کہا جائے؟ جب ایک بار یہ معلوم ہو گیا کہ انسانی و سماجی علوم میں سائنسی طریقہ کار کی حیثیت کیا ہے اور قیاسات و معقولات کی کیا تو پھر انہیں ‘‘علوم’’ میں کیوں شمار کیا جائے؟ علم یعنی سائنس، علم یعنی محسوسات، یعنی ہر قسم کے شک و شبہ سے پرے۔ علم یعنی وہ چیز جس کو ہم آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں اور کانوں سے سن چکے ہیں۔ اور دیکھی اور سنی ہوئی باتوں سے انکار ممکن نہیں۔ کیا جملہ سماجی علوم کی یہی کیفیت ہے؟ ظاہر ہے نہیں۔ وہاں تو زیادہ تر معاملات و مسائل کے سلسلے میں ایک سے زیادہ نظریے موجود ہیں جن کی رہنمائی میں ہی سائنسی طریقہ کار کی مدد سے تحقیقات انجام دی جاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سماجی علوم میں ہم قدم قدم پر اختلافی آرا سے دو چار ہوتے ہیں۔ سائنسی علوم میں ہم چند ایک چیزوں کو چھوڑ کر مشکل ہی سے مختلف فیہہ چیزوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ کوئی بھی شخص بہ آسانی اندازہ لگا سکتا ہے کہ سائنسی علوم میں متفق علیہ کا غلبہ ہے اور سماجی علوم میں مختلف فیہہ کا۔ اس لیے کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ ہم سماجی علوم کو سماجی فلسفہ کے نام سے موسوم کرتے؟ لیکن ایسا نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ یہ موجودہ انسانی و سماجی علوم کے نصب العین کے خلاف ہے۔
سماجی علوم کی ہر شاخ اپنی جگہ سائنس بننا چاہتی ہے۔ حتی کہ فلسفہ میں بھی بعض ایسے فکری دھارے (مثلاً ہوسرل کی فینومینولاجی) پائے جاتے ہیں جو اپنی فلسفیانہ کاوشوں کو بھی باضابطہ سائنس بنانا چاہتے ہیں۔ جب فلسفہ اس حماقت میں مبتلا تو تو پھر سماجی علوم کے متعلق کیا کہنا! بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ! بہر حال کہنا صرف اس قدر ہے کہ فلسفہ ہو یا سماجی علوم، سائنس بننا دونوں میں سے کسی کے بس کی بات نہیں۔ یہ ایک ناممکن الحصول نصب العین ہے جس کی تکمیل تبھی ہو سکتی ہے جب علمائے سماجی سائنس کو مافوق الفطری قوتیں حاصل ہو جائیں۔

پانچ

سائنسی اور سماجی علوم کے نام سے جو کچھ طلبا و طالبات کو اسکول کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے اس میں علم کم اور قیاسات زیادہ ہیں خواہ وہ قیاسات کتنے ہی قوی یا حقیقت سے قریب ترین معلوم ہوتے ہوں۔ مثال کے طور پر پانچویں چھٹی کلاس سے ہی بچوں کو اسکولوں میں نظریہ ارتقا پڑھانا شروع کر دیا جاتا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ اسکولوں اور کالجوں میں نظریہ ارتقا نہیں پڑھایا جانا چاہیے۔ خود اب میرا بھی یہی خیال ہے کہ نظریہ ارتقا کائنات میں زندگی کے حقائق کو سمجھنےکی طرف ایک اہم قدم ہے۔ لیکن چونکہ ابھی تک یہ قطعی طور ثابت نہیں ہو سکا اس لیے اسے باضابطہ طور پر فلسفہ ہی کہہ کر پڑھا اور پڑھایا جانا چاہیے نہ کہ سائنس قرار دے کر۔ جو چیز سائنسی معیارات پر پوری نہیں اترتی اس کو سائنس کہہ کر پڑھانے کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا۔
اونچے درجوں کی سائنس کی کتابوں میں خود اس حقیقت کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ نظریہ ارتقا ابھی تک مکمل طور پر ثابت نہیں ہو سکا۔ لیکن نچلے درجوں تک یعنی دسویں تک تو اس کو سائنس کہہ کر ہی پڑھایا جاتا ہے۔ نصابی کتابوں کا پورا ماحول اور طرز استدلال نظریہ ارتقا کے برحق ہونے کا پروپیگنڈا کرتا ہے۔ سائنسی طور پر کسی امر کو اس وقت تک حقیقت نہیں کہا جا سکتا جب تک کہ اس کا اثبات محسوسات کی بنیاد پر نہ کر لیا جائے۔ جیسا کہ میں نے اوپر کہا، سائنس کے اونچے درجوں میں اس حقیقت کو تسلیم کیا جاتا ہے اور فلفسیانہ نظریات و قیاسات اور سائنسی حقیقت کے مابین فرق کیا جاتا ہے۔ لیکن تب تک بہت سارا پانی بہہ چکا ہوتا ہے۔ طلبا کو یونیورسٹی تک آتے آتے دس بارہ سال گزر جاتے ہیں اور ان کا ذہن اس قدر پختہ ہو چکا ہوتا ہے کہ وہ اس سے اختلاف کرتے ہوئے کسی اور رخ پر نہیں سوچ سکتے۔ بہت کم طلبا ہوتے ہیں جو غیر جانب دار رہتے ہوئے نظریہ ارتقا کے سلسلے میں منطقی ریب و تشکیک میں مبتلا ہوتے ہیں۔
مناسب یہ ہوگا کہ جو چیزیں سائنسی طور پر ثابت شدہ اور مصدقہ ہیں، بار بار آزمائے جا چکے ہیں اسکولوں میں صرف انہیں ہی سائنس کہہ کر پڑھایا جائے اور بقیہ کو محض نظریات و قیاسات کے طور پر۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سائنسی علوم کی اسکولی تدریس میں بھی غیر سائنسی عناصر پائے جاتے ہیں جن کی بیخ کنی آزادی فکر کے فروغ کے لیے ضروری ہے۔
یہ تو تھی سائنسی علوم میں علم کی کیفیت کے سلسلے میں ایک اصولی بات۔ اب آئیں انسانی و سماجی علوم کی طرف۔ علم کے نام پر محض قیاسات و نظریات پڑھانے کی نامعقول روایت کا تماشا اگر دیکھنا ہو تو بنیادی سماجی علوم میں سے کسی ایک کو اٹھا کر دیکھیے۔ اس میں قدم قدم پر نظریہ ارتقا کی گونج سنائی دے گی۔ ایک غیر ثابت شدہ نظریہ اس قدر اہمیت اخیتار کر گیا ہے کہ یہ تقریباً ہر سماجی علم کی بنیاد ہے۔ تاریخ کو بھی سماجی علوم میں شمار کیا جاتا ہے۔ اور اس کی بنیاد بھی یہی غیر ثابت شدہ نظریہ ہے۔ ماقبل تاریخ کے ابتدائی اسباق پڑھتے ہوئے بار بار یہ احساس ہو گا کہ آپ تاریخ کم اور حیاتیات زیادہ پڑھ رہے ہیں۔ میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نظریہ ارتقا غلط اور بے بنیاد ہے۔ میرا خیال ہے کہ زمین پر زندگی کو سمجھنے کے لیے اب تک کے تمام نظریات میں یہی سب سے زیادہ معقول اور حق سے قریب ترین نظریہ ہے۔ لیکن با ایں ہمہ یہ مکمل طور پر ثابت شدہ نہیں ہے۔ اس لیے علمی حزم و احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو سماجی علوم کی بنیاد نہ بنایا جائے۔ کیا اور کتنا فرق پڑے گا اگر تاریخ کی کتابوں میں انسانی زندگی کی ابتدا کو غیر جانب دار طور پر شروع کیا جائے؟ یا کم از کم نظریہ ارتقا کے خلاف جو دلائل دیے جاتے ہیں انہیں بھی اسی جوش و خروش اور تفصیل کے ساتھ درج کیا جائے؟ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ نصابی کتابوں میں حیات انسانی کی ابتدا سے متعلق مختلف اور متضاد نظریات کے تمام حامیوں کے دلائل کو بے کم و کاست بیان کر دیا جائے۔ اس سے خطرہ یہ ہے کہ کم عمر اسکولی طلبا کا ذہن گمراہ ہو کر رہ جائے گا۔ لیکن یہ گمراہی کسی غیر ثابت شدہ صراط مستقیم سے زیادہ بہتر ہے۔ نصابی کتابوں میں مختلف و متنوع نظریات کو زیر بحث لانے سے بلاشبہ طلبا کنفیوز تو ہوں گے لیکن اسی کنفیوزن کی بدولت وہ مزید غور و فکر کی طرف مائل ہوں گے اور اپنے لیے زیادہ شعور کے ساتھ حیات انسانی کی ابتدا کے سلسلے میں کسی بھی نقطہ نظر کو اپنا سکیں گے۔ لیکن چونکہ موجودہ علمی و فکری روایت میں کلیت پسندانہ رجحانات کا غلبہ ہے اس لیے اس کے اندر کسی ایسے نصاب کو برداشت نہیں کیا جا سکتا جو مختلف و متضاد نظریات کی تعلیم کے ذریعے طلبا کے سامنے ایک سے زیادہ نظریہ یا فلسفیانہ متبادل پیش کر سکے۔ دنیا کے ہر اجتماعی نظام تعلیم و تربیت کا مقصد اپنے مقلدوں کو پیدا کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ ان اغراض و مقاصد کو پورا کرتے رہیں جن کے پورا کرانے کے لیے اس اجتماعی نظام تعلیم و تربیت کو وجود میں لایا گیا ہے۔

25.06.2011