نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

عمران شاہد بھنڈر اور سارا مغربی فلسفہ

مغربی فلسفہ کی روایت میں ایک فلسفی کا کام یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کسی سامی مذہب کے پیغمبر کے پیش کردہ مقدس متون, ان سے ثابت شدہ عقائد کا اثبات کرے. اگر ایک فلسفی ایسا کرتا ہے تو یہ اپنے فلسفیانہ منہاج کو دریابرد کر دینے کے برابر ہے. فلسفہ میں علمیات کا شعبہ اسی لیے ہے تا کہ فلسفیوں کے ایک معاشرہ میں حصولِ علم کے ماخذ اور طریقوں کا تعین ہو. اس سلسلے میں پہلی اصولی بات یہ ہے کہ فلسفہ میں فلسفیانہ علم کاماخذ انسانی ذہن و دماغ ہوتا ہے نہ کہ انسان سے ماورا کوئی فوق فطری ہستی کسی فلسفی کو بذریعہ الہام و وحی حقیقت کا علم بخشتی ہے. اگر ایسا ہو تو فلسفی کا اپنا کارنامہ کیا رہ جائے گا؟ اور اس صورت میں ایک ہی دور کے فلسفیوں میں علمی اختلافات بھی نہیں پائے جا سکیں گے, کیونکہ اگر وہ فوق فطری یا برتر قوت فلسفیوں کو علم بخشتی ہے تو ایسا علم وقت واحد میں مختلف فیہ کیسے ہو سکتا ہے؟

مذہب اور سائنس دو راستے ہیں

سوال: یہ بات درست ہے  کہ سائنس  اور مذہب الگ راستے ہیں مگر قرآن کائنات پر تدبر کرنے کی ترغیب تو دیتا ہے ۔ اور چونکہ قرآن مذہبی کتاب ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ ترغیب کس غرض سے دی گئی ہے؟ (خلیل خاں صاحب) جواب: انسان کے اندر خود یہ ترغیب موجود ہے، اور یہ ترغیب مذہبی صحیفوں میں بھی پائی جاتی ہے اور سائنسداں بھی اس کی ترغیب دیتے ہیں۔ جب آپ بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہی  کہ سائنس اور مذہب دو راستے ہیں تو  سائنس کے معاملے میں سائنس کا راستہ پکڑیے، اور مذہب کے معاملے میں مذہب کا۔ سائنس کے معاملے میں مذہب کا راستہ پکڑنے سے نہ مذہب ملے گی نہ سائنس۔

تہذیبی و مذہبی ادعا کی کامیابی کے اسباب

مختلف قبائل، ذات برادریوں، طبقوں یا قوموں کے معاشی مفادات پر مبنی ایک مجرد سیاسی صف بندی کوئی دیر پا یا مستقل چیز نہیں ہے۔ چونکہ اس سے مستقل جوڑ توڑ پر مبنی سیاسی کشمکش جاری رہتی ہے اور زندگی کا کوئی اونچا آدرش سامنے نہیں آ پاتا، اس لیے ایسی سیاسی صف بندیوں کے اثر سے محض معاشی و سیاسی مفادات پر مبنی ایک کمزور تقریر وجود میں آتی ہے۔ اس کے مقابلے میں تہذیبی قوم پرستی یا مذہبی ادعا پر مبنی تحریکات اس لیے کامیاب ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ زندگی کا ایک ہمہ گیر، جامع اور کلی نقطہ نظر اور آدرش پیش کرتی ہیں خواہ وہ آدرش بجائے خود کتنا ہی غیر آدرش ہو یا دکھائی دیتا ہو۔

آزادی فکر و عمل کا مقصود

ہماری معاشرتی اور تہذیبی بیماریاں کیا ٹھیک وہی ہیں جو ہمیں محسوس ہوتی ہیں؟ یا بیماریوں کا سبب وہ ہے جو اکثر ہمارے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آتا؟ معاشرے میں چور، غنڈے، بدمعاش، دہشت گرد، جارحیت پسند جس صورتحال میں وجود میں آتے ہیں اس میں دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون سی چیز ہے جو انسانی شخصیت کو گوں ناگوں طریقوں سے مسخ کرتی ہے؟ انسانی معاشرہ گروہوں کی شکل میں ہوتا ہے اور ہر گروہ کا اپنا ایک علیحدہ طریقہ زندگی ہے۔ زندگی کے بہت سے طریقے بہ یک وقت درست ہو سکتے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ سب میں انسانی مساوات اور آزادی اظہار و عمل کو اس حد تک ملحوظ رکھا گیا ہو کسی کو کسی کے قول سے دشنام اور فعل سے جسمانی گزند نہ پہنچے۔ لیکن یہ محض ایک قانونی قسم کی بات ہوئی اور اس سے یہ معلوم نہیں ہوا کہ خود انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے اور اس کو کس سمت میں اپنی صلاحیتوں کا ارتقا کرنا چاہیے۔

ذاکر نائیک اور تقابل ادیان

ذاکر نائیک نے تقابلِ ادیان کے نام سے ہندوستان میں پاپولر ٹی وی کلچر کی سطح پر ایک بڑی غیرسنجیدہ روایت شروع کی۔ ٹی وی پر دیگر مذاہب کے رہنما نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جس میں دوسرے مذاہب کی کمی کو اچھالا جاتا ہو اور کسی ایک مذہب کو صداقت کا آخری اڈیشن بتایا جاتا ہو۔ ذاکر نائیک نے ایک طرف مختلف مذاہب کی تعلیمات کا مقابلہ پیش کیا اور اسلام کو سب سے زیادہ اچھے اور سچے مذہب کے طور پر پیش کیا، دوسری طرف انہوں نے چند لوگوں کو برسرِ عام کلمہ پڑھوا کر اسلام قبول کرنے کے عمل کو بار بار ٹی وی کے ذریعے مشتہر کیا، تیسری طرف انہوں نے بنیاد پرستی یا فنڈامنٹلزم کے متعلق کہا کہ یہ بڑی اچھی چیز ہے، جو جتنا بنیاد پرست وہ اتنا اچھا مسلمان۔ ان تین اسباب سے ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو سخت نقصان پہنچا۔

مذہب اور سائنس کا اصولی فرق

ہمارے مذہبی دانشور سائنس اور تکنالوجی میں پیش قدمی کی بات اکثر کیا کرتے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی اس بات کو سمجھنے پر آمادہ نہیں کہ سائنس میں پیش قدمی کن شرطوں پر ممکن ہے۔ وہ چونکہ مغرب کی مادی اور تکنیکی ترقیوں کو دیکھتے ہیں اس لیے متاثر ہو کر سائنس اور ٹکنالوجی میں آگے بڑھنے کی سطحی بات کرتے ہیں۔ اگر مغرب ٹکنالوجی کے معاملے میں اتنی ترقی نہ کرتا تو ہمارے یہ مذہبی دانشور سائنس میں ترقی کرنے کی بات بھی منہ سے نہ نکالنے۔ سائنس سے ان کی ساری دلچسپی محض مغرب کی ٹکنولوجیکل ترقی کے سبب ہے۔ لیکن ٹکنالوجی کو مقصود بنا کر سائنس میں ترقی کرنے کا خیال صحیح نہیں ہے۔

ایک نئے قلعے کی ضرورت

اسلام جن عقائد و قوانین کا واقعی مجموعہ ہے, ان پر مغرب کے پیدا کردہ ماحول میں عمل ممکن نہیں رہ گیا ہے. اور اسلام کو محض بطور ایک سیاسی نظام کے نافذ تو کیا جا سکتا ہے لیکن اسلامی قوانین اور ہدایات کے نفاذ کے بعد اسے کہیں برقرار نہیں رکھا جا سکتا. اسلامی نظام میں ایک مخلوط معاشرہ کی تشکیل ممکن نہیں جہاں مرد و زن تنہائی میں گوں ناگوں اسباب سے ملاقاتیں اور وقت گزاری کر سکیں. اس میں لازماً خواتین کو چاردیواری کے اندر واپس جانا پڑے گا یا معاشرے میں ان کا رول انتہائی محدود ہو کر رہ جائے گا. اس کا سبب خواتین کے ستر عورت کی مروجہ شرعی حد ہے جس کے نفاذ کے بعد عورتوں کی نمائندگی فنون لطیفہ کی تمام تر شکلوں, میڈیا, اسپورٹس اور اولمپک اور فلموں میں ہرگز ممکن نہیں.