مغربی فلسفہ کی روایت میں ایک فلسفی کا کام یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کسی سامی مذہب کے پیغمبر کے پیش کردہ مقدس متون, ان سے ثابت شدہ عقائد کا اثبات کرے. اگر ایک فلسفی ایسا کرتا ہے تو یہ اپنے فلسفیانہ منہاج کو دریابرد کر دینے کے برابر ہے. فلسفہ میں علمیات کا شعبہ اسی لیے ہے تا کہ فلسفیوں کے ایک معاشرہ میں حصولِ علم کے ماخذ اور طریقوں کا تعین ہو. اس سلسلے میں پہلی اصولی بات یہ ہے کہ فلسفہ میں فلسفیانہ علم کاماخذ انسانی ذہن و دماغ ہوتا ہے نہ کہ انسان سے ماورا کوئی فوق فطری ہستی کسی فلسفی کو بذریعہ الہام و وحی حقیقت کا علم بخشتی ہے. اگر ایسا ہو تو فلسفی کا اپنا کارنامہ کیا رہ جائے گا؟ اور اس صورت میں ایک ہی دور کے فلسفیوں میں علمی اختلافات بھی نہیں پائے جا سکیں گے, کیونکہ اگر وہ فوق فطری یا برتر قوت فلسفیوں کو علم بخشتی ہے تو ایسا علم وقت واحد میں مختلف فیہ کیسے ہو سکتا ہے؟