نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

جوانی میں طفلی کے قصے

خلیفہ عبدالحکیم اپنی کتاب حکمتِ رومی میں لکھتے ہیں: ’’بعض حکمت کی کتابوں کلیلہ وہ دمنہ، انوار سہیلی، اور ایسپ کے قصوں میں انسانی اخلاق اور میلانات کو جانوروں کے قصے کے طور پر بیان کیا گیا ہے، خود مثنوی میں بھی مولانا نے جبرواختیار کے مسئلے کو شیر اور خرگوش کی بحث میں بڑی بلاغت سے بیان کیا ہے۔ بچے جب یہ حکایتیں پڑھتے ہیں تو اس یقین کے ساتھ پڑھتے ہیں کہ واقعی شیر نے آدمی کی طرح بات کی اور خرگوش یا لومڑی نے آدمی کی طرح جواب دیا۔ اکثر اہل ظاہر علما اس طفولیت کی سطح سے عمر بھر اوپر نہیں اٹھ سکتے:۔ چہل سال عمر عزیزت گزشت مزاج تو از حال طفلی نہ گشت

ماضی کا اصل سبق؟

ہمارے ہاں ایک خیال یہ ہے کہ ماضی سے ہم کو جو سیکھنا چاہیے وہ ہم نہ سیکھ سکے۔ ہم نے ماضی کے اصل سبق کو بھلا دیا۔ تو اب اسی اصل سبق کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ماضی کا اصل سبق عملی طور پر تو ہم کو یاد نہیں، اور اسی لیے ہم پر زوال آیا، اس لیے ماضی کے اصل سبق کا نظریہ پڑھنے کے لیے ہم کو تاریخ سے رجوع کرنا ہوگا۔ اور تاریخ تعبیر کی متقاضی ہے۔ اور تعبیروں میں اختلاف ہونا ضروری ہے۔ تو ماضی سے متعلق جو نظریات ہم سیکھیں گے وہ مختلف فیہ ہوگا۔ اور اس طرح ماضی کا اصل سبق اختلافات کی نذر ہو کر رہ جائے گا۔ ممکن ہے بہت سی تعبیروں میں سے کوئی ایک صحیح ہو لیکن کون سی تعبیر صحیح ہے، اس کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ ماضی سے ہم کو جو کچھ سیکھنا چاہیے تھا، وہ ہمارے ساتھ ہمارے اعمال و افکار کی شکل میں حال تک چلا آیا ہے۔ ماضی سے تو ہم یقیناً کچھ نہ کچھ سیکھتے رہے اور اسی کی وجہ سے اپنی حالیہ تباہی تک پہنچے۔ اس لیے ہم کو دراصل اپنے حال سے اور حال میں سیکھنا ہے، اسی میں کچھ جوڑنا یا گھٹانا ہے، اور وہ ماضی جس کا صرف ایک موہوم خیال ہمارے اندر باقی ہے، اور جس کی گردان  ہم سیکڑوں سالوں سے کرتے آ رہے...

زوال یافتہ قوموں کے چار مسائل

زوال یافتہ قوموں کا اولین مسئلہ یہ ہے کہ ان کے افراد کے اندر تجسس کا جذبہ مر جاتا ہے جس کے سبب علوم و فنون کے میدان میں ان کی عطا صفر ہو جاتی ہے اور زندگی کے ہر میدان میں ترقی یافتہ قوموں کی تقلید کرتے رہنا ان کی مجبوری بن جاتی ہے۔ ان کا دوسرا مسئلہ اپنی اسی مجبوری کے عالم میں انتہائی غیر عقلی رویہ اپنانا ہے جو یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ بدستور ترقی یافتہ اقوام کے علوم و فنون اور طور طریقوں کی پابندی کرتی رہتی ہیں اور دوسری طرف وہ ان ترقی یافتہ اقوام کے لیے بغض و حسد کے جذبات کی پرورش بھی کرتی رہتی ہیں۔ چنانچہ ترقی یافتہ اقوام کو دن رات کوسنا اور ان کی برائیاں کرنا ان کا قومی شعار بن جاتا ہے۔

ردتشکیل کی نوعیت مذہبی یا انسانی؟

ردتشکیل یا ڈیکنسٹرکشن کا تعلق اگر کسی سامی مذہب سے ہے، اور اگر ایک فلسفی اس کو تسلیم کرتا ہے، تو پھر اس معاملے میں اس کو فلسفی کے بجائے مذہبی کہنا موزوں ہوگا۔ مزید وضاحت: ہم جانتے ہیں کہ فلسفہ میں کسی بھی قسم کے علم کا ماخذ مذہبی منقولات نہیں بلکہ انسانی ذہن اور انسانی عقل ہے۔ واضح رہے کہ فلسفہ میں منقولات کی حیثیت معلومات کی ہے، علم کی نہیں کیونکہ منقولات کو علم تسلیم کرنے کے بعد فلسفی اس کا شارح محض رہ جاتا ہے اور آزادانہ غور و فکر نہیں کر سکتا۔ پھر فلسفیانہ مسائل میں منطقی طریقے سے سوچنے پر ہی پابندی لگ جاتی ہے۔

اختلافی مسئلہ

’’الف ایک اختلافی مسئلہ ہے بے ایک اختلافی مسئلہ ہے جیم ایک اختلافی مسئلہ ہے الف بے جیم دال  چار بنیادی اصطلاحیں ہیں اور یہ بھی ایک اختلافی مسئلہ ہے

عقائد و رسوم میں ارتقائی اصلاحات کی ضرورت

دورِ جدید کا نظام ایسا ہے کہ جو لوگ اپنی عقل سے اپنے فیصلے نہیں لیتے انہیں دوسروں کی عقل سے کیے جانے والے فیصلے قبول کرنے پڑتے ہیں۔ ہم نے عقل کی بنیاد پر تو کبھی سوچا نہیں، بلکہ محض ماضی بعید کی لکھی لکھائی عبارتوں کی بنا پر حال کی زندگی گزارتے رہے اور یہ نہ سوچ سکے کہ ماضی کی عبارتوں کا جواز ماضی تک ہی تھا، زمانہ حال میں وہ کام نہیں دے سکتیں۔ لیکن ہم ایسے نادان ہیں انہیں عبارتوں کو ابدی حقیقتوں کا درجہ دیتے رہے۔ ہم نے اس بنیادی حقیقت کو نہیں سمجھا کہ وقت کے ساتھ انسان کے علم میں اضافہ ہوتا ہی ہے اور جب علم بدلتا ہے تو پرانا اخلاق بھی بدل جاتا ہے۔ اور جب اخلاق بدلتا ہے تو تمام تر رسوم و رواج وہی نہیں رہتے جو ہزار سال پرانی دنیا میں تھے۔ ان کی یا تو نئی تعبیر کر لی جاتی ہے یا پھر انہیں اٹھا دیا جاتا ہے۔ لیکن قدیم رسوم کی نئی تعبیرات کی بھی ایک حد ہوتی ہے جس کے بعد انہیں مٹنا ہی ہے۔ پرانے رسوم و رواج اور اخلاق و عادات کا مٹ جانا چونکہ علم کی تبدیلی کے سبب ہوتا ہے اس لیے جب ایک بار کسی سلسلے میں ہمارا علم بدل جائے تو ہمارا کام یہ ہونا چاہیے کہ علوم و فنون کے پرانے دفاتر مع اپنے رسوم و ر...

مذہب کی فلسفیانہ تعبیر کیوں مضر ہے؟

مذہب کی فلسفیانہ تعبیرات ہی مذہب کو نئی زندگی بخشتی ہیں اور اس کو قوم کی شناخت کا آلہ محض بن کر رہ جانے سے بچاتی ہیں اور اس کے اندر عصریت و موزونیت کی ظاہری صفت پیدا کرتی ہیں۔ لیکن درحقیقت اس سے بڑے مسائل پیدا ہوئے ہیں، دہشت گردی ان میں سے ایک پے۔ اس کے اسباب کو درجِ ذیل طور پر سمجھا جا سکتا ہے: 1. ایک طرف عوام مذہب کی ظواہر پرستانہ اور روایتی تعبیرات کو مانتے رہتے ہیں اور دوسری طرف خواص اپنے مذہب کی فلسفیانہ تعبیرات کے زیرِ اثر صداقت کو مذہب کا ہم معنی سمجھ لیتے اور اپنے مذہب کو ہر دور میں قابلِ عمل سمجھتے رہتے ہیں۔ 2. پس، عوام اور خواص دونوں کے درمیان مذہب ایک قدرِ مشترک کے طور پر ابھرتا ہے اور اس سبب سے سیاست پر اثرانداز ہوتا ہے۔