نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

کچرے کا مستقبل

کچرے کے پاس مستقبل ہو نہ ہو، اس کا ایک ماضی ضرور ہوتا ہے۔ کبھی وہ شو کیس میں لذیذ بسکٹ کا پیکٹ ہوا کرتا تھا۔ جب بسکٹ ختم ہو گئی، تو اس کو ٹھکانے لگا دیا گیا۔ ایسے ہی تم بھی استعمال شدہ ہو۔ تمہیں بھی ڈسٹ بن میں پھینک دیا گیا۔ اور تم وہاں پڑے ہوئے بھج بھجا رہے ہو۔ تم وہاں سے اپنے سنہرے ماضی کی طرف دیکھتے ہو، اور اسی میں لوٹنا چاہتے ہو۔ اور تمہیں مستقبل کی فکر نہیں ہے۔ ہو بھی کیسے سکتی ہے؟ کچرے کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا الا یہ کہ وہ سڑ گل جائے۔ لیکن مشکل تو یہ ہے کہ تم ایکوفرینڈل ی کچرا نہیں ہو۔ تم پلاسٹک ہو۔ اور تمہیں صرف رسائکل کیا جا سکتا ہے۔ کچرا کبھی کہتا ہے کہ میں رسائیکل ہونا چاہتا ہوں؟ ہاں کچرے کی یہ تمنا ضرور ہوتی ہے کہ وہ واپس شو کیس میں پہنچ جائے۔ واپس چاکلیٹ کا ریپر، صابن کی ٹکیا کا چمکیلا کاغذ بن جائے۔ اس لیے وہ بار بار ذہن کو متوجہ کرتا کہ دیکھو، ہم بھی کبھی شو کیس میں سجے تھے، بلا سے تم مانو، نہ مانو، لیکن ہماری بھی کچھ شان و شوکت تھی۔ لوگ ہم کو خریدنے آتے تھے۔

ناقل اور عاقل کا فرق

ناقل اور عاقل میں قطبین کا فرق ہے۔ ناقل اور کائنات کے درمیان آیات و روایات کا حجاب حائل رہتا ہے اور وہ زندگی کے تقریباً ہر چھوٹے بڑے مسئلے میں اپنی مذہبی کتاب سے رجوع کرنے پر مجبور ہوتا ہے جبکہ عاقل کائنات کا براہ راست مطالعہ کرتا ہے اور درپیش صورتحال میں اپنی انسانی عقل سے ایک راہ عمل متعین کرتا ہے۔ دور جدید میں مذہبی معذرتخواہوں ںے ایک منقول معقولی طریق کار اپنایا ہے جس کے مطابق وہ نقل کی روشنی میں عقل سے کام لیتے ہیں۔ یعنی پہلے وہ کسی زیر بحث مسئلے میں تمام آیات و روایات کو اکٹھا کرتے ہیں، ان کے سیاق کا تعین کرتے ہیں اور پھر جدید حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک ملتا جلتا حکم اپنے اس منقول معقولی طریقہ کار سے برامد کرتے ہیں۔ یہ کوئی نیا طریقہ نہیں ہے بلکہ اگلے زمانوں میں بھی ائمہ مجتہدین اسی طریقہ کار سے کام لے کر مذہبی منقولات سے جدید احکام و ہدایات برامد کرتے تھے۔ نقل پہلے بھی عقل پر مقدم تھی، اور آج بھی ہے۔ یہ سمجھنا کہ تجدد پسندوں ںے ائمہ مجتہدین کی روش سے ہٹ کر کوئی نیا طریق کار اپنا لیا ہے، ایک خام خیالی ہے۔ جب تک مذہبی منقولات کی بالادستی انسانی ذہن پر قائم رہے گی، اس وقت تک...

مذہب اور تعمیرِ نو؟

بی بی سی ہندی پر زبیر احمد کی ایک اسٹوری میں حوالوں کے ساتھ خبر دی گئی ہے کہ سلفی مسلمانوں نے کیرلا میں ایک مثالی گاوں بسایا تھا جو اپنے مقصد میں ناکام ہو گیا۔ اس مثالی مذہبی گاوں میں ایک ہی عقیدہ کے ماننے والوں میں کسی سبب سے مذہبی اختلاف یہاں تک بڑھا کہ گاوں دو گروہوں میں بٹ گیا۔ یہی حال اس حکومت کا ہوگا جو مذہبِ اسلام یا کسی بھی دوسرے مذہب کی بنیاد پر قائم ہو۔ کوئی بھی مذہب فرقہ بندی سے خالی نہیں ہے۔ اور فرقہ بندی ایسی چیز ہے کہ کبھی اس کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ فرقہ بندی کا بنیادی سبب مذہبی منقولات یعنی آیات و روایات کی نئی تعبیر بنتی ہے۔ آیات و روایات ایک خاص سیاق یا صورتحال میں وجود آتی ہیں لیکن صورتحال ہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔ دنیا کی کوئی ایسی مذہبی کتاب نہیں جو تمام حالات میں ہدایات فراہم کرتی ہو۔

مذہبی صداقت کا شمولیتی تصور

"چونکہ حدیث کا کوئی حکم,  مثلاً ایک مشت داڑھی رکھنا یا ذی روح کی مصوری کا حرام ہونا قرآن سے ثابت نہیں ہے  اس لیے داڑھی رکھنا یا ذی روح کی مصوری کرنا کوئی اسلامی حکم نہیں ہے"، یہ موجودہ دور کی ایک غالب تقریر ہے,  اور اس کا سبب یہ ہے کہ تجددپسند اسلام کو بجائے ایک مذہب رہنے دینے کے,  ایک سیاسی آئیڈیالوجی بنا دینا چاہتے ہیں.  اس قسم کے تخفیفی اسلامزم کے سبب ہم سینہ ٹھوک کر یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا مذہب سراسر عقل و خرد کی بنیاد پر قائم ہے گو ہماری محدود عقل خدائی مصلحتوں کو نہ سمجھ سکے لیکن اس کے بعد ہم  "یہ حکم قرآن میں نہیں ہے" کہہ کر مروجہ اسلام میں جہاں چاہے تبدیلی کر سکتے ہیں. سرسید,  فراہی اور غامدی ایسے تجدد پسند اسلامسٹ اپنی دانست میں چونکہ  صداقت کو مقدس صحیفے میں برقرار رکھنا چاہتے ہیں اس لیے حتی الامکان یہ کوشش کرتے ہیں کہ حدیثوں سے کسی نہ کسی طرح نجات پالیں جن پر موجودہ سائنسی دور میں ایمان نہیں لایا جا سکتا.  لیکن اس کے بعد اسلام پانی کی طرح رقیق ہو جاتا ہے اور اس کو جس برتن میں چاہو ڈھال لو.

محمد حسن عسکری ــــ اردو ادب میں ساختیات کے بانی و خاتم؟

1 ہندوستان اور پاکستان میں ساختیات پراولین تنقیدی بحث کرنے والوں میں محمد حسن عسکری کو پہلے اردو ادیب کی حیثیت سے جانا جاتاہے۔عسکری نے فرانسیسی مصنف محمد آرکون کے نام 25 نومبر1975 کو ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے آرکون کو قرآن مجید کی ساختیاتی قرأت سے پرہیز کا مشورہ دیا تھا۔ عسکری کا یہ خط ان کے انتقال کے چودہ برس بعد 1992 میں اسٹڈیز ان ٹریڈیشن نامی جریدے میں ‘‘قرآن مجید کا ایک راسخ العقیدہ نقطہ نظر’’ کے عنوان سے مضمون کی شکل میں شائع ہوا اور وہاں سے اس کا ترجمہ ناصر بغدادی نے اردو میں کیا اور اس پر ایک تعارفی نوٹ بعنوان ‘‘ساختیات اور عسکری صاحب: ایک تعارف’’ لکھ کر شائع کرایا جسے میں نے سہ ماہی نیاورق کی جلد9، شمارہ23، (2006 عیسوی) میں پڑھا ۔ بغدادی نے مذکورہ خط پر اپنے نوٹ میں بعض ایسے دعوے کیے ہیں جو میری تحقیق کے مطابق صحیح نہیں ہیں۔ ان دعووں میں سے ایک تو یہ ہے کہ عسکری بنام آرکون خط میں ساختیات کے استرداد سے پہلے اردوادب میں ساختیات کا تعارف نہیں ہواتھا، دوسرا یہ کہ عسکری کو ساختیاتی مبادیات پر تحریری بحث کرنے والے پہلے اردو ادیب کی حیثیت حاصل ہے، تیسرا یہ کہ ساختیاتی...

امام رازی کی ’’گمراہی‘‘ کا ایک ثبوت

مولانا شبیر احمد خاں غوری امام رازی کے متعلق لکھتے ہیں: امام رازی اپنی فلسفہ بیزاری کے باوجود شیخ بو علی سینا کی ”الاشارات و التنبیہات “ کے نمط تاسع سے جو علوم صوفیا کے باب میں ہے، حد درجہ متاثر تھے، چنانچہ انہوں نے اس ”نمط“ کی شرح شروع کرنے سے پہلے لکھا تھا: انہ ذا الباب اجل ما فیہ ذا الکتاب قانہ رتب فیہ علومالصوفیة ترتیبا ماسبقہ الیہ من قبلہ و لا لحقہ من بعدہ ترجمہ: یہ باب اس کتاب میں سب سے زیادہ جلیل القدر ہے، کیونکہ (اس کے اندر شیخ بو علی سینا نے) علوم صوفیہ کو ایک ایسے ا نداز سے مرتب کیا ہے جس کی نہ اس کے پیش روؤں کو ہوا لگی تھی اور نہ بعد میں آنے والے اس تک پہنچ سکے۔ لیکن یہ نام نہاد ”علوم ِ صوفیا کی تبیین و توضیح “ نبوت کی فلسفیانہ توجیہ ہےکیونکہ اس نے نبوت کے ”وہبی“ ہونے کے عقیدہ کے خلاف اس کے ”کسبی“ و اکتسابی ہونے کے شوشہ کو ہوا دی۔ امام رازی ابن سینا کی اس فلسفیانہ توجیہ کے اس قدر گرویدہ تھے کہ انہوں نے اس کے رسالہ ”معراج نامہ “ کو جس میں اس نے ”الاشارات“ سے کہیں زیادہ وضاحت کے ساتھ اس توجیہ کو قلمبند کیا ہے، اپنے ہاتھ سے نقل کیا۔ اس معراج نامہ نے بعد کے تفلس...

امت کی بازیافت کی دنیاوی بنیاد

علامہ غزالی جن کو بصد احترام امام لکھا جاتا ہے، اور ہمارے بہت سے احباب انہیں بہت بڑا اسلامی متکلم مانتے ہیں، اور ان کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں، ان کے متعلق جاننا چاہیے کہ وہ اسلامی فلسفیوں کے سخت دشمن تھے اور ان کی تکفیر فرماتے رہتے تھے۔آج میں اپنے اسی دعوے کا ایک ناقابلِ انکار ثبوت پیش کروں گا کہ انہوں نے کم از کم دو جید، عباقرہ روزگار اسلامی فلسفیوں کو کافر قرار دیا ۔ ان میں سے ایک کو ہم معلم ثانی امام ابو نصر فارابی اور دوسرے کو شیخ الرئیس بو علی ابن سینا کے نام سے جانتے ہیں، اور ان کے متعلق ہم آج فخر سے بتاتے ہیں کہ‘‘ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نےمغربی تہذیب کو علم سکھایا اور اسے ترقی کی نئی منزلوں تک پہنچایا۔’’ اس میں شک نہیں کہ آج مغربی تہذیب کی مادی ترقی کو دیکھ کر ہمارا کلیجہ پھٹا جا رہا ہے، یہاں تک کہ اقبال ایسے مفکرِ اسلام کا دل بھی ٹکڑے ٹکرے ہو گیا : مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آبا کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا یہ کتنی بڑی بات ہے میرے بزرگو اور دوستو کہ تاریخ انسانی کے اتنے عظیم فلسفیوں پر پر کفر کا فتوی اُن حضر...