نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

بھیتر کی یاترائیں

بلی ، کتے ، گدھے ، بندر، سور پیارے پیارے اور بھیانک ، گندے یا نالی کے کیڑے بھِن بھِن یا مکھی مچھر، تتلی بھونرے بھَن بھَن سب جیتے ہیں اوپر اوپر عام سطح پر باہر باہر اِس مایا سے اُس مایا پر جا پڑتے ہیں جبری جبری بے خبری میں نہیں جانتے سب کایا ہے فانی جو ظاہر ہے سب چھایا ہے جانی ظاہر باہِر کوئی حقیقت نہیں ہے ایسی تیسی اس دنیا کی چل بھیتر جا فلس فلس فس ہاں بھیتر جا رینگ رینگ کر سرک سرک کر اپنے اندر ڈوب خودی میں اُب ڈُب اُب ڈُب پھر باہر آ کھول کے آنکھیں دیکھ یہ دنیا، سندر اور بھیاوہ ہے قدموں میں آنکھ بچھائے لوٹ رہے ہیں کس شردھا سے سب دوپائے جیت لیا نا آخر تو نے بھیتر جا کر اس دنیا کو مردِ قلندر مرد ِسکندر اس مایا کو، اس مدیرا کو چھان لیا ناآخر جی لینا ہے ٹھان لیا نا آخر! 2009

ملتِ مرحوم

ہم تاریخ میں دفن ہیں اور تہذیب ہمارا کفن ہے اورزبان ہمارے ماتم کا گیت اور مذہب ہمارے قبرستان کی کانٹے دار گھیرا بندی جو باہر ہے وہ اندر آ سکتا ہے مگر اندر کے لوگ باہر نہیں جا سکتے کھلی فضا میں (2008)

ابھی نہیں

ابھی نہیں مالک ابھی نہیں مولا ضعیفی میں میں آسانی سے مرنا چاہتا ہوں اپنی طبعی موت اپنے بستر پر رات کو سونے کے بعد گہری نیند میں مجھ سے پہلے مر چکی ہو ماں مجھ سے پہلے مر چکا ہوباپ جو سمجھتا ہے مجھے لاٹھی بڑھاپے کی اور صفیہ مجھ سے پہلے مر چکی ہو اور نافرمان اولادیں مری زندہ رہیں بدن پر کوڑھ کی مانند اور انور بھی مجھ سے پہلے مر چکا ہو کٹ چکے ہوں دوستی کے سلسلے سارے پرانے اور نئے تاکہ تنہائی مقدر ہو مرا یہاں تک کہ زندگی بوجھ بن جائے اور پھر تیری ضرورت ہو تب اٹھا لینا مجھے مشکل کشا ابھی نہیں مالک ابھی نہیں مولا (2006)

ہم تم

ہم تم ترجمے ہیں دوست ایک دوجے کے لیے آج تک جو بھی کہا میں نے تمہیں جو بھی کہا تم نے مجھے سب ترجمہ پن سے کون سمجھا ہے کسی کو تہہ تلک خوامخواہ جذبات کی رو میں سنو اوریجنل کچھ بھی نہیں ہمدم تم وہی ہو ایو میں وہی آدم اسی ڈسکورس میں جینا اسی ڈسکورس میں مرنا کبھی اقرار کا چکر کبھی انکار کا دھرنا یہی اپنا مقدر ہے یہی ہے زندگی کرنا متن سے کھینچ لوں گا ایک دن بالجبر نفس معنی کی طرح تم کو توڑ ڈالوں گا کسی دن فن کی زنجیریں تمام (2006)

عورت

عورت ایک طرح سے بیل ہے جو پاس کے پیڑ پر چڑھتی ہے عورت ایک طرح سے تیل ہے جو دیے میں جلتی رہتی ہے چپ چاپ عورت ایک طرح سے کھیل ہے جسے کھیلتے ہیں ہم بار بار جیتنے کے لیے عورت ایک طرح سے ریل ہے جس کا ڈرائیوراور گارڈ دونوں ہی ہیں مرد عورت ایک طرح سے جیل ہے جس میں قید رہتی ہے مرد کی جان بڑے آرام سے (2009)

یاد

یاد جانے کب چلی آئی کب چلی آئی دبے پاوں جیسے آتی ہے بہار معتدل موسم سرما کے بعد تنہائیوں میں جب تمہاری یاد آتی ہے تو لگتا ہے کہ آیا ہے کوئی جھونکا ہوا کا مری بے چارگی مری مصروفیت کے بند کمرے میں جھروکے سے سرک جاتی ہے گویا دل سے اک پتھر کی سل اف نہ جانے کب چلی جائے کب چلی جائے دبے پاوں آکاش میں اڑتے کسی اجلے کبوتر کے سمٹ جاتے ہیں پر جیسے زمیں پر آٹھہرتاہے وہ جب دو چار دانوں کے لیے کیوں نہیں رہتی ہمیشہ کیوں نہیں رہتی موجزن دل میں سمندر کی طرح جب بھی آئی جاں بہ لب آئی جیسے برساتی ندی 2006

جانب ِمنزل

جس دن بھر آئیں گی آنکھیں اس دن چل دوں گا چپ چاپ اٹھا کر جھولا جس میں تہہ بر تہہ ہونگے میلے کپڑے دوچار بڑھی شیو اور مڑا تڑا سا کرتا پہنے ہاتھ میں ایک ٹفن جس میں رکھ لوں گا خرید کرتھوڑے بُھنے چنے کہیں رکوں گاکسی موڑ پر کھا لوں گاسر پر ہاتھ دھرے سرکاری نل کے نیچے کپڑے دھو لوں گا اور سکھا کرپھر چل دوں گا انجانی منزل کی اُور (2009)