مولانا مودودی کا مضمون "ہماری ذہنی غلامی اور اس کے اسباب" ماہنامہ ترجمان القرآن کے ستمبر 1934 عیسوی کے شمارے میں شائع ہوا تھا. درج ذیل اقتباس سے معوم ہوتا ہے کہ مولانا مودودی نے گو "تہذیبوں کا تصادم" کو اصطلاح کے طور پر نہ استعمال کیا ہو لیکن وہ تہذیبوں کے مابین تصادم کے تصور سے پوری طرح آگاہ تھے. اور اس اعتبار سے وہ سیموئیل پی ہنٹنگٹن کے پیش رو کہے جا سکتے ہیں. "مغربی تہذیب کے ساتھ جن قوموں کا تصادم ہوا ان میں سے بعض تو وہ تھیں جن کی کوئی مستقل تہذیب نہ تھی۔ بعض وہ تھیں جن کے پاس اپنی ایک تہذیب تو تھی مگر ایسی مضبوط نہ تھی کہ کسی دوسری تہذیب کے مقابلہ میں وہ اپنے خصائص کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتی۔ بعض وہ تھیں جن کی تہذیب اپنے اصول میں اس آنے والی تہذیب سے کچھ بہت زیادہ مختلف نہ تھی۔ ایسی تمام قومیں تو بہت آسانی سے مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگ گئیں، اور کسی شدید تصادم کی نوبت نہ آنے پائی۔ لیکن مسلمانوں کا معاملہ ان سب سے مختلف ہے۔ یہ ایک مستقل اور مکمل تہذیب کے مالک ہیں۔ ان کی تہذیب اپنا ایک مکمل ضابطہ رکھتی ہے جو فکری اور عملی دونوں حیثیتوں سے زندگی کے تمام شع