نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

امام رازی کی ’’گمراہی‘‘ کا ایک ثبوت

مولانا شبیر احمد خاں غوری امام رازی کے متعلق لکھتے ہیں: امام رازی اپنی فلسفہ بیزاری کے باوجود شیخ بو علی سینا کی ”الاشارات و التنبیہات “ کے نمط تاسع سے جو علوم صوفیا کے باب میں ہے، حد درجہ متاثر تھے، چنانچہ انہوں نے اس ”نمط“ کی شرح شروع کرنے سے پہلے لکھا تھا: انہ ذا الباب اجل ما فیہ ذا الکتاب قانہ رتب فیہ علومالصوفیة ترتیبا ماسبقہ الیہ من قبلہ و لا لحقہ من بعدہ ترجمہ: یہ باب اس کتاب میں سب سے زیادہ جلیل القدر ہے، کیونکہ (اس کے اندر شیخ بو علی سینا نے) علوم صوفیہ کو ایک ایسے ا نداز سے مرتب کیا ہے جس کی نہ اس کے پیش روؤں کو ہوا لگی تھی اور نہ بعد میں آنے والے اس تک پہنچ سکے۔ لیکن یہ نام نہاد ”علوم ِ صوفیا کی تبیین و توضیح “ نبوت کی فلسفیانہ توجیہ ہےکیونکہ اس نے نبوت کے ”وہبی“ ہونے کے عقیدہ کے خلاف اس کے ”کسبی“ و اکتسابی ہونے کے شوشہ کو ہوا دی۔ امام رازی ابن سینا کی اس فلسفیانہ توجیہ کے اس قدر گرویدہ تھے کہ انہوں نے اس کے رسالہ ”معراج نامہ “ کو جس میں اس نے ”الاشارات“ سے کہیں زیادہ وضاحت کے ساتھ اس توجیہ کو قلمبند کیا ہے، اپنے ہاتھ سے نقل کیا۔ اس معراج نامہ نے بعد کے تفلس...

امت کی بازیافت کی دنیاوی بنیاد

علامہ غزالی جن کو بصد احترام امام لکھا جاتا ہے، اور ہمارے بہت سے احباب انہیں بہت بڑا اسلامی متکلم مانتے ہیں، اور ان کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں، ان کے متعلق جاننا چاہیے کہ وہ اسلامی فلسفیوں کے سخت دشمن تھے اور ان کی تکفیر فرماتے رہتے تھے۔آج میں اپنے اسی دعوے کا ایک ناقابلِ انکار ثبوت پیش کروں گا کہ انہوں نے کم از کم دو جید، عباقرہ روزگار اسلامی فلسفیوں کو کافر قرار دیا ۔ ان میں سے ایک کو ہم معلم ثانی امام ابو نصر فارابی اور دوسرے کو شیخ الرئیس بو علی ابن سینا کے نام سے جانتے ہیں، اور ان کے متعلق ہم آج فخر سے بتاتے ہیں کہ‘‘ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نےمغربی تہذیب کو علم سکھایا اور اسے ترقی کی نئی منزلوں تک پہنچایا۔’’ اس میں شک نہیں کہ آج مغربی تہذیب کی مادی ترقی کو دیکھ کر ہمارا کلیجہ پھٹا جا رہا ہے، یہاں تک کہ اقبال ایسے مفکرِ اسلام کا دل بھی ٹکڑے ٹکرے ہو گیا : مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آبا کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا یہ کتنی بڑی بات ہے میرے بزرگو اور دوستو کہ تاریخ انسانی کے اتنے عظیم فلسفیوں پر پر کفر کا فتوی اُن حضر...

مولوی ذکاءاللہ اور معنی کی تکثیریت

(ایک فیس بک اسٹیٹس پر میرا تبصرہ) ساختیات و پس ساختیات کا ایک سیاق بلاشبہ مقامی (یعنی مغربی ) ہے لیکن دوسرا آفاقی نوعیت بھی رکھتا ہے۔ قاری اساس تنقید کے سلسلے میں بھی یہی نقطہ نظر اختیار کرنا چاہیے۔ بجائے اس کے کہ ہم ہر مغربی نظریے کو بے دردری سے مسترد کر تے چلے جائیں، جیسا کہ محمد حسن عسکری اور محمد علی صدیقی نے کیا، یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں خود ہمارے بزرگوں نے اس سلسلے میں کس رائے کو پسند فرمایا ہے ، اور اس کے بعد خود اپنی فکر و تحقیق سے ایک نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کریں ۔اردو میں ساختیات و پس ساختیات کو متعارف کرانے اور اس کو ادبی نظریہ کے طور پر رائج کرنے والے اردو میں فلسفہ لسان کی روایت سے باخبر نہیں تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ مولوی ذکاءاللہ کے ہاں لسانیاتی نشان کی تشکیل فرڈیننڈ ڈی سوسیئر سے پہلے ہو گئی تھی حالانکہ مولوی ذکاءاللہ کے فلسفہ زبان (خواہ وہ مغربی حکمائے زبان سے ماخوذ ہی کیوں نہ ہو) میں وہ خامیاں نہیں پائی جاتیں جن کے سبب سوسیئر کی تنقید ہوئی ۔ قاری اساس تنقید معنی کی تکثیریت کا فلسفہ ہے اور اسے بھی مولوی ذکاءاللہ نے رسالہ تقویم اللسان ...

آبِ حیات اور منرل واٹر

اگر ایک شئے کے متعلق تمہیں یہ یقین ہو کہ یہ آسمان سے نازل شدہ مقدس آبِ حیات ہے لیکن دنیا اس شئے کو یہ حیثیت دینے پر تیار نہ ہو، پھر تمہارے لیے کیا یہ جائز ہو سکتا ہے کہ اس پر منرل واٹر کا لیبل لگا کر اسے مقبولِ خاص و عام بنانے کی کوشش کرو؟ کیا تمہیں علم نہیں کہ منرل واٹر دنیا کے گڈھے سے نکالا جانے والا پانی ہے، اور لوگ دورانِ سفر منرل واٹر کے بہت سے استعمال کر سکتے اور کرتے ہیں، مثلاً وہ اس کو پی سکتے ہیں، اس سے اپنا منہ دھو سکتے ہیں، کلی کر کے پھینک سکتے ہیں. منرل واٹر کے بہت سے استعمالات ہو سکتے ہیں کیونکہ ایک بوتل منرل واٹر صرف بیس روپے میں آتا ہے اور ہر کس و ناکس کے لیے دستیاب ہے۔ لیکن جس شئے کے متعلق تمہیں یقین کامل ہے کہ وہ آب حیات ایسی بیش قیمتی شئے ہے، کیا اسے منرل واٹر کے نام سے بیچا جانا, پھر اس کا یوں صرف اور ضائع کر دیا جانا تم پسند کروگے؟ آب حیات تو اکثیرِ بینظیر اور شفائے کاملہ کی حیثیت رکھتا ہے، اور اس کا استعمال ہرگز وہ نہیں ہو سکتا جو منرل واٹر کا ہے، یعنی جب جی چاہا بیس روپوں کے عوض خرید لائے، پھر جیسے جی چاہا صرف کر دیا, اور خالی بوتل پلیٹ فارم پر لڑھکا دی. آب...

الحاد اور مذہب دشمنی

الحاد ایک شئے ہے اور مذہب دشمنی دوسری. ایک گہرے فکر و تحقیق کا نتیجہ ہے اور دوسرا سطحیت کے مارے لوگوں کا طریقہ. الحاد یہ ہے کہ زندگی پر پیغمبرانہ بلندی سے نظر ڈالی جائے اور صراط مستقیم کو چھوڑ کر وہ راستہ اختیار کیا جائے جس پر چلنے والوں کو ضال و مضل کہا جاتا ہے. جبکہ مذہب دشمنی یہ ہے کہ مذہبی لوگوں یا خود مذہبی روایت کی ہر چھوٹی بڑی بات میں کیڑے نکالیں جائیں اور یہ ہرگز نہ دیکھا جائے کہ جس بات پر ہم آج تنقید کر رہے ہیں وہ مذہب کی تشکیل کے زمانے میں کیا حیثیت رکھتی تھی اور کیوں اس زمانے کے لوگ اس کو روا یا قابل برداشت سمجھتے تھے. ملحد اپنی زندگی میں تنہائی کا شکار ہوتا ہے. اس کی فکر ابنائے زماں سے مختلف ہوتی ہے, وہ اپنی جگہ ایک تسلسل کے ساتھ سوچتا رہتا ہے کہ معاصر زندگی کے مسائل کیا ہیں اور چونکہ مذہب کے صراطِ مستقیم پر چل کر ان مسائل کو حل نہیں کیا جا سکتا, اس لیے دوسرے راستے کون سے ہیں جنہیں اختیار کیا جا سکتا ہے. لیکن ایک مذہب دشمن مذہب کو نیچا دکھانا اور تباہ و برباد کر دینا چاہتا ہے کیونکہ اس کی نظر میں مذہب دنیا کی تمام تر برائیوں کی جڑ ہے. اس لیے, ایک مذہب دشمن کا رویہ ایک غ...

مولوی ذکاءاللہ کا تصورِلفظ و معنی

1 لفظ و معنی میں تعلق کی بحث بہت پرانی ہے اور اس کی جڑیں قدیم یونانی و ہندوستانی اورعربی فلسفہ کی لسانی بحثوں میں پیوست ہیں۔ ساختیاتی و پس ساختیاتی فلسفہ لسان میں اس مسئلے پر اب تک کی تمام بحثوں کے نتیجے میں جو اہم ترین نکتہ ابھر کر سامنے آیا ہے وہ کسی نہ کسی طور یہ ہے کہ لفظ، یعنی سگنی فائر اور اس سے مراد شئے کے ذہنی تصور یعنی سگنی فائیڈ میں ’’فطری رشتہ ‘‘ نہیں بلکہ یہ دونوں ’’آربٹریری ‘‘ یعنی ’’من مانے‘‘ طور پر ایک دوسرے سے متعلق ہیں۔ بیسویں صدی کے اواخر میں جب یہ نکتہ اپنے متعلقات کے ساتھ ساختیاتی و پس ساختیاتی نظریات کے ساتھ متعلق ہو کر اردو میں زیربحث آیا تو ابتداءً لوگوں نے سمجھا کہ یہ دور جدید میں ساختیات کے بنیاد گزار فرڈی ننڈ ڈی سوسیئر کی فکری کاوش کا نتیجہ ہے ۔ سگنی فائر اور سگنی فائیڈ میں کسی فطری رشتے کے نہ ہونے کے مضمرات اتنے پریشان کن تھے کہ سوسیئر نے ان دونوں میں ’’وحدت کا ٹانکا ‘‘لگانے کی کوشش یہ کہہ کر کی تھی کہ یہ دونوں کاغذ کی دو طرفوں کے مماثل ہیں۔[1] لیکن اگر ان میں کوئی فطری رشتہ پایا ہی نہیں جاتا تو سوسیئر کی اس مثال کی حیثیت سخن سازی کے سوا کچھ نہیں رہ ...

ادب، احتجاج اور دم ہلانا

احتجاجی ادب بھی پسند و ناپسند کا معاملہ ہے اور یہ بھی آئیڈیالوجی سے متاثر ہوتا ہے۔ معاملہ احتجاج کے ادب کا ہو یا ادب کے احتجاج کا، اگر ایک شخص ہماری آئیڈیالوجی کے دائرے میں لکھتا ہے یعنی کہیں نہ کہیں ہمارے حق میں اس کی دم ہلتی رہتی، وہی بڑا ادیب اور ایکٹیوسٹ۔ جیسے ہی دم کا ہلنا بند ہوا، کہ وہ برادری سے ہی نہیں بلکہ انسانیت کے دائرے سے بھی خارج ہو جاتا ہے۔ دراصل یہ جو دم ہے وہ مالک کے اقتدار کی علامت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ ادیب پہلے بنے، دم بعد میں ہلایا اور کچھ نے ابتدا ہی سے دم ہلایا، اور ادیب قرار پا گئے۔ اس میں شک نہیں کہ پہلی قسم کا ادیب زیادہ باصلاحیت ہوتا ہے لیکن جوں ہی کہ اس نے دم ہلانا شروع کیا، اس کی صلاحیتوں میں زنگ لگنا شروع ہو جاتا ہے۔ مگر وہ اپنی زندگی کے آخر تک یہ محسوس نہیں کر پاتا کہ اس نے جس آئیڈیالوجی کے حق میں دم ہلانا شروع کیا ہے، اس کی صلاحیتوں کو پیدا کرنے میں اس آئیڈیالوجی کا کوئی خاص ہاتھ نہیں ہے۔ یہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اپنی ادبی زندگی کی ابتدا میں وہ آئیڈیالوجیکل نہیں تھا، لیکن جوں ہی کہ اس کو شہرت ملی، اور وہ مقبولِ خاص و...