یہ موضوع بحث کے تفصیلی مطالعے کے بعد لکھی گئی کوئی باضابطہ، مربوط اور منظم تحریر نہیں ہے۔اس میں سائنسی اور سماجی علوم کے نصب العین اور طریقہ کار کے سلسلے میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے اس کی نوعیت صرف ایک سرسری اور طائرانہ نظر کی ہے۔ سائنسی و سماجی علوم میں اوپر اور دور سے جو کچھ نظر آتا ہے بس اسی کو پیش نظر رکھ کر ایک بے ضابطہ سا مقدمہ قائم کیا گیا ہے ۔ اس لیے اس تحریر کو مصنف کی طرف سے حرف آخر نہ سمجھا جائے۔ ایک موجودہ دور میں علوم و فنون کی درس و تدریس کو دو بڑے حصوں کے تحت انجام دیا جاتا ہے۔ ایک کا نام سائنس ہے اور دوسرے کا آرٹس۔ سائنس کے تحت طبیعیات (فزکس)، حیاتیات (بایولوجی)، کیمیا (کیمسٹری) اور ان تینوں بنیادی سائنسی علوم سے مرکب متعدد علوم آتے ہیں مثلاً بایو کیمسٹری، بایو فزکس۔ سائنس کے عملی انطباق (پریکٹیکل ایپلی کیشن) کو تکنالوجی کہتے ہیں۔ اسے بھی سائنس کے ساتھ ہی رکھا جاتا ہے. آرٹس کے تحت مذہبیات، منطق، ریاضی، فلسفہ، ادبیات عالیہ، فنون لطیفہ (رقص وموسیقی، مصوری، مجسمہ سازی) سماجیات، سیاسیات، معاشیات، نفسیات، جغرافیہ وغیرہ جیسے علوم آتے ہیں۔ آرٹس کے تحت آنے والے علوم کی جن شاخوں (