نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

     یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈی
حالیہ پوسٹس

احقاق حق کا صراط مستقیم

دنیا میں مختلف عقائد اور نظریات کی بقا و ترقی کا دارومدار بہت سی باتوں پر ہے۔ ان میں سے ایک ہے " اپنے عقیدے یا نظریے سے متعلق ہر سوال کا جواب دینا اور اس کی خامیوں کی پردہ پوشی ہرگز نہ کرنا۔" لیکن یہ صرف ایک معقول طریقہ ہے اعلی درجے کی روش نہیں۔ اعلی درجے کی روش جس سے بڑھ کر کوئی اور راہ ہو ہی نہیں سکتی وہ کچھ یوں ہے۔ "اپنے عقیدے یا نظریے کے خلاف خود ہی غور و فکر کرتے رہنا اور جیسے ہی اس کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی خرابی یا غلطی معلوم ہو، اس کو فوری مشتہر کر دینا۔ اس طریقے کے مقابلے میں جتنے طریقے ہیں وہ سب کے سب ادنی اور پست درجے کے ہیں۔ ایک عالی دماغ شخص کے عقائد و نظریات کا یہی حال ہوتا ہے کہ سب سے پہلے وہی انہیں سخت تنقید و تنقیص کا ہدف بناتا ہے اور اسے مسترد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور اس میں اگر وہ کامیاب نہ ہو سکے تو اسے دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے لیکن ہر لمحہ اس تاک میں لگا رہتا ہے کہ کب اس کو اپنے عقائد و نظریات کی کوئی کمی معلوم ہو اور کب وہ خود اسے سب سے پہلے سامنے لائے۔ اور اگر کوئی دوسرا اسے سامنے لائے تو وہ خود سب سے پہلے لپک کر اس کو قبول کرے۔ اگر ہم دنیا میں معرو

عقیدہ کی تبلیغ یا صداقت کی جستجو؟

ادھر کچھ عرصے سے میں کیا دیکھتا ہوں کہ اچھے خاصے ذہین افراد کی ذہنی و فکری صلاحیتیں ادنی درجے کی جاہلانہ یا منتقمانہ بحثوں کی نذر ہوئی جا رہی ہیں لیکن انہیں اس کا شعور نہیں کہ وہ سوائے مزید لغویت پھیلانے کے کوئی فلسفیانہ کارنامہ انجام نہیں دے پا رہے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے تو زندگی اور کائنات سے متعلق اصل حقائق کی تہہ تک پہنچنے میں اہم سنگ میل نصب کر سکتے تھے۔ میں یہاں کسی شخص کا خصوصیت سے نام نہیں لوں گا بلکہ چند باتیں عمومی طور پر احباب کے گوش گزار کرنا چاہوں گا۔

بے ‏سمتی

جو لوگ یہ دعوی کریں کہ ان کے پاس ایک مکمل نظام حیات ہے جس میں دنیا کے ہر مسئلے کا حل موجود ہے لیکن ماضی و حال کی تاریخوں میں اپنوں اور غیروں سے وہ دست و گریبان ہوں، ہر قسم کے علمی، تہذیبی,معاشرتی اور دیگر قسم کے مسائل میں وہ گرفتار ہوں، بے پناہ قدرتی اور انسانی وسائل سے مالامال ہونے کے بعد بھی وہ ٹیکنالوجی میں اس قدر پسماندہ ہوں کہ ابھی تک اپنی زبانوں میں کمپیوٹر سائنس کے لیے انسٹرکشن سیٹ آرکیٹکچر تک نہ لکھ سکے ہوں اور زندگی کے ہر شعبے میں سوائے خدا کی دی ہوئی فطری نعمتوں کو چھوڑ کر سخت تہی دامنی، محتاجی اور بیچارگی میں مبتلا ہوں، ایسے لوگوں سے کیا یہ نہیں پوچھنا چاہیے

ارطغرل غازی والی فلمی حکمت عملی

حالیہ دنوں میں ارطغرل غازی نامی سیریل نے مذہب کے نام پر جو غیرمعقول رجعت پسندانہ کیفیت ہمارے نوجوانوں کے ذہنوں میں پیدا کر دی ہے، اس کو کم لوگ ہی محسوس کر سکتے ہیں۔ غیرمعقول میں نے اس لیے کہا کہ یہ سیریل جس مذہبی طنطنے کے ساتھ تیار کیا گیا ہے اس کے چند ہی سین دیکھنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ اسلام کی سچی ترجمانی نہیں کرتا اور اسلام کے نام پر ایک خاص قسم کا فریب دیتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ میں اس نکتے کو ثابت کروں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ جس تاریخی کردار ارطغرل کو اس سیریل میں پیش کیا گیا ہے، ہمارے بعض ماضی پرست اردو مبصروں نے اس کا عقیدہ اور

بیرون دریا کچھ نہیں

یہ حقیقت ہے کہ قدیم تہذیبیں مثلاً مصری، یونانی، ایرانی، ہندوستانی وغیرہ سب اپنے دور کی انتہائی ترقی یافتہ تہذیبیں تھیں۔ قرون وسطی کی جس تہذیب کو اسلامی کہا جاتا ہے وہ بھی نہایت ترقی یافتہ تھی۔ ان سب تہذیبوں کے علمی اور فنی کارناموں پر ہماری جدید تہذیب کی بنیاد ہے۔ لیکن ہماری قدیم اور وسطی تہذیبوں کے بہت سے تاریک پہلو بھی تھے اور ان کو جاننا ضروری ہے تاکہ ان سے بچ کر ترقی کی نئی منزلوں تک پہنچا جائے۔ ایک رجعت پسند صرف اپنی تہذیب کے روشن پہلو کو ہی دیکھتا ہے اور تاریک پہلوؤں کو نظرانداز کر دیتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی