نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

مقلد اور شاگرد کا فرق

(ہندی سے ترجمہ، اصل متن: اوشو) جو کچھ تمہارے اندر خوبصورت ہے اسے چھپا کر رکھو، اسے ظاہر نہ کرو۔ تمہارے اندر جو بھی سچا، حقیقی اور بیش قیمت ہے وہ چھپانے کے لائق ہے کیونکہ جب بھی حق کو دل میں چھپا کر رکھا جا تا ہے تو وہ دل میں چھپے بیج کی طرح پھوٹتا اور نشوونما پاتا ہے، ٹھیک زمین میں گہرے دبے بیج کی طرح۔ اسے باہر مت اچھالو۔ اگر تم نے بیج کو ہر ایک کو دکھانے کے لیے سڑک پر پھینک دیا تو وہ عبث ہی مر جائے گا۔ مر کر پھر وہ درخت اور نئے بیجوں کو پیدا نہ کر سکے گا۔ ٹھیک ایک بیج کی ہی طرح، تمہارے اندر جو بھی حسن، خیر اور حق ہے اس کی دیکھ بھال کرو۔ اس کا مظاہرہ نہ کرتے ہوئے، اسے دل میں چھپا کرنشو و نما پانے کے لیے جگہ دو۔ لیکن ہر شخص کے ذریعے ٹھیک اس کا الٹا کیا جاتا ہے۔ جو بھی غلط ہے، اسے تم چھپاتے ہو، تم نہیں چاہتے کہ وہ دوسروں پر ظاہر ہو۔ جو بھی قباحت آمیز ہے، اسے تم چھپاتے ہو اور جو بھی تمہارے اندر خوبصورت ہے، اگرچہ وہ حقیقت میں خوبصورت ہو یا نہ ہو، تم اسے بڑھا چڑھا کر اسے مشتہر کرتے ہو۔ یہی سب سے بڑی مصیبت ہے کیونکہ جو حسین تر ہے، وہ ضائع ہو جاتا ہے اور جو قبیح تر ہے اس کی نشوونما

سماجی علوم کا نصب العین اور طریقہ کار

یہ موضوع بحث کے تفصیلی مطالعے کے بعد لکھی گئی کوئی باضابطہ، مربوط اور منظم تحریر نہیں ہے۔اس میں سائنسی اور سماجی علوم کے نصب العین اور طریقہ کار کے سلسلے میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے اس کی نوعیت صرف ایک سرسری اور طائرانہ نظر کی ہے۔ سائنسی و سماجی علوم میں اوپر اور دور سے جو کچھ نظر آتا ہے بس اسی کو پیش نظر رکھ کر ایک بے ضابطہ سا مقدمہ قائم کیا گیا ہے ۔ اس لیے اس تحریر کو مصنف کی طرف سے حرف آخر نہ سمجھا جائے۔ ایک موجودہ دور میں علوم و فنون کی درس و تدریس کو دو بڑے حصوں کے تحت انجام دیا جاتا ہے۔ ایک کا نام سائنس ہے اور دوسرے کا آرٹس۔ سائنس کے تحت طبیعیات (فزکس)، حیاتیات (بایولوجی)، کیمیا (کیمسٹری) اور ان تینوں بنیادی سائنسی علوم سے مرکب متعدد علوم آتے ہیں مثلاً بایو کیمسٹری، بایو فزکس۔ سائنس کے عملی انطباق (پریکٹیکل ایپلی کیشن) کو تکنالوجی کہتے ہیں۔ اسے بھی سائنس کے ساتھ ہی رکھا جاتا ہے. آرٹس کے تحت مذہبیات، منطق، ریاضی، فلسفہ، ادبیات عالیہ، فنون لطیفہ (رقص وموسیقی، مصوری، مجسمہ سازی) سماجیات، سیاسیات، معاشیات، نفسیات، جغرافیہ وغیرہ جیسے علوم آتے ہیں۔ آرٹس کے تحت آنے والے علوم کی جن شاخوں (

رٹو اور

ایورسٹ پر گیان کا سورج اگا تھا پورب ہی میں اگا تھا پورب ہی میں پیارے طوطا بھائیو جھوٹ موٹھ مت گاو اتنا اب دھرتی ہے گتی مئے گول فرار ہو گیا سورج پشچم سات سمندر پار اِدھر بھی جل دیوتا گرج رہے تھے ڈر جاتے تھے طوطا پن میں لوگ پشچم پیر دھریں تو کیسے لہروں سے لڑتے بھڑتے ہٹلر ہی آتے تھے سچ مچ ہٹلر ہی آتے تھے ریل چلانے گاووں کو شہر بنانے جیسے نئے کولمبس آج انت رکش سے مل کر پھینکیں جگ مگ جال طلسم پیارے طوطا بھائیو اب آنکھ میچ کر سانس کھینچ کر گاو اوم ڈبلو ڈبلو ڈبلو دنیا بن گئی گاوں 2006

نو مینس لینڈ (میل فی میل پالیٹکس)

پڑھو اے بی سی ڈی جتنے مرد ہیں اتنی عورتیں یعنی برابر برابر تو سنسد میں بھی ، فوج میں بھی دونوں ہوں گے برابر برابر نہ ایک کم نہ ایک زیادہ بلکہ پردھان منتری بھی دو ہوں گے ایک مرد ، ایک عورت مرد مردوں کا پردھان منتری عورت عورتوں کی پردھان منتری مگر ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں دو پردھان منتریوں سے ایک دیش نہیں چل سکتا اس لیے پارٹیشن بہتر ہے مردوں کا دیش الگ عورتوں کا دیش الگ دونوں دیشوں کی اپنی سنسد اپنی سرحد ، اپنی فوج اور جہاں پر دونوں دیشوں کی سیما ریکھا ملے گی وہ نو مینس لینڈ ہوگا —”اور ایچ آر ڈی کا کیا ہوگا بھین جی؟“ ایچ آر ڈی کا کیا ہوگا ، ا یچ آر ڈی کا کیا ہوگا ! ہم مشین نہیں عورتیں ہیں مردوادیو سمجھے ایچ آر ڈی کا کام نومینس لینڈ میں ہوگا! ”تھینک یو بھین جی ، پاسپورٹ کے چکر سے تو نجات ملی !“ 2006

دانو اور پری

ناری تم لوک کتھا کی وہی پری ہو دور گگن سے اس دھرتی پر کریڑا کرنے جو آتی تھی یہیں بس گئی یہیں بس گئی ؟ نہیں نہیں اک دانو نے پکڑ لیا تھا جس کے جھلمل نبھ پنکھوں کو دھر پوَرُش سے کتر دیا تھا جس کے تن کو تن کے من کو اس دانو نے بس اک چھن میں رشتوں ناتوں سمبندھوں کے کرُور جال میں جکڑ لیا تھا پھر ُیگ جانے کتنے بیتے پنکھ رَہِت اُن بیاکل ڈَینوں کی تڑپھن میں سونا چاندی ، ہیرے موتی لعل ، جواہر ، نیلم روبی مٰخمل ،ریشم، خوشبو سب نیوچھاور سب نیوچھاور اس کے تن پر پھر بھی من تھا چھٹ پٹ چھٹ پٹ جیسے جل بن مچھلی سورج، چندا اور ستارے گنگا ،جمنا اور ہمالَے آتی جاتی ساری رِتوئیں کلی، پھول اور تتلی، بھونرے سب روتے تھے اس کے دکھ پر یہ کہتے تھے اڑ جا وپھرمُکت گگن میں پنکھ لگا کر نقلی او ری پگلی 2005

بھیتر کی یاترائیں

بلی ، کتے ، گدھے ، بندر، سور پیارے پیارے اور بھیانک ، گندے یا نالی کے کیڑے بھِن بھِن یا مکھی مچھر، تتلی بھونرے بھَن بھَن سب جیتے ہیں اوپر اوپر عام سطح پر باہر باہر اِس مایا سے اُس مایا پر جا پڑتے ہیں جبری جبری بے خبری میں نہیں جانتے سب کایا ہے فانی جو ظاہر ہے سب چھایا ہے جانی ظاہر باہِر کوئی حقیقت نہیں ہے ایسی تیسی اس دنیا کی چل بھیتر جا فلس فلس فس ہاں بھیتر جا رینگ رینگ کر سرک سرک کر اپنے اندر ڈوب خودی میں اُب ڈُب اُب ڈُب پھر باہر آ کھول کے آنکھیں دیکھ یہ دنیا، سندر اور بھیاوہ ہے قدموں میں آنکھ بچھائے لوٹ رہے ہیں کس شردھا سے سب دوپائے جیت لیا نا آخر تو نے بھیتر جا کر اس دنیا کو مردِ قلندر مرد ِسکندر اس مایا کو، اس مدیرا کو چھان لیا ناآخر جی لینا ہے ٹھان لیا نا آخر! 2009

ملتِ مرحوم

ہم تاریخ میں دفن ہیں اور تہذیب ہمارا کفن ہے اورزبان ہمارے ماتم کا گیت اور مذہب ہمارے قبرستان کی کانٹے دار گھیرا بندی جو باہر ہے وہ اندر آ سکتا ہے مگر اندر کے لوگ باہر نہیں جا سکتے کھلی فضا میں (2008)