نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

تہذیبیں، نشأۃِ ثانیہ، ترجمہ

[اس تحریر کا مقصد ایک وسیع   تر سیاق   میں تہذیبوں کی نشأۃِ ثانیہ کے ایک   روشن خیال اور ترقی پسند تصور کو سامنے لانا ہے۔ یہ ایک فکری مقالہ   ہے   اور تحقیقی   نقطۂ نظر سےاس میں ترمیم کی گنجائش موجود ہے۔ رجعت پسند ، ترقی پسند اور روشن خیال کے الفاظ   کو ان کے مجرد معنوں میں استعمال کیا گیا   اوران کا تعلق کسی خاص مکتبِ فکر یا نظریے سے وابستہ افراد سے نہیں ہے۔ ] مغربی تہذیب کے ہمہ جہت غلبہ و استیلاکے ردِّعمل میں جزیرہ نما ہند کی مختلف قوموں کےبنیادپرست روایتی یا ایک لفظ میں رجعت پسندذہنوں میں اپنی   تہذیبی جڑوں سے مراجعت   اور ان کی   مدافعت پر مبنی   بظاہر ایک   طاقتوراحیائی شعور پیدا ہوا ہے، اور   اسی   بنا پر   ان کے اندرسے   ایسی دینی، ثقافتی اور سیاسی   تحریکیں ظہور میں آئی ہیں جو   اپنی تہذیبوں   کے ‘سنہرے ماضی ’ کو ازسرنوِ   زندہ کرنا چاہتی ہیں، لیکن اس کی واقعی جستجو سے زیادہ اس کا رومانی تصور تہذیبوں کے رجعت پسند عناصر کو متحرک رکھتا ہے اور اسی کے زیرِ اثر وہ زندگی کے ہر شعبے میں انقلابی نوعیت کی اصلاحات کرنا چاہتے ہیں۔وہ اپنے مذہب اور تہذیب کے ایک‘مکمل نظام ِ حیات’

اسلامی ہند میں فلسفہ کی روایت

فلسفہ و سائنس  کے فروغ میں مادری و تہذیبی زبان کے لزوم پر میں نے  ۳ مارچ ۲۰۱۲ عیسوی کو فیس بک پر ایک نوٹ لکھا تھا۔ میرا موقف یہ تھا کہ  عظیم فلسفے مادری یا تہذیبی زبان میں ہی  وجود میں آ سکتے ہیں۔ چونکہ ہم نے آزادی کے بعد بھی برصغیر میں انگریزی زبان کے تسلط کو برقرار رکھا، اس لیے ہمارے ہاں مغربی ممالک جیسے عظیم خلاق فلاسفہ کے ظہور کا امکان ہی سرے سے ختم ہو کر رہ گیا۔ اس پر کئی احباب نے مثبت و منفی تبصرے کیے۔ انہیں میں سے ایک صاحب نے درجِ ذیل تبصرہ کیا تھا:    جناب طارق صاحب، آپ نے فرمایا: ’’میں سمجھتا ہوں کہ دور جدید میں برصغیر ہندوپاک، بلکہ عالم اسلام کے اکثر ملکوں میں بھی، عظیم فلسفی یا سائنسداں اس لیے پیدا نہ ہو سکے کہ برطانوی استعمارکے خاتمے کے بعد بھی پوری اکادمک دنیا پرانگریزی جیسی غیر موزوں زبان (مذکورہ بالا معنوں میں) کا تسلط قائم رہا‘‘ مجھے صرف یہ جاننا ہے کہ برطانوی استعمار اور اس کے ساتھ انگریزی زبان کے تسلط سے قبل کم از کم پانچ سو سالوں میں برصغیر میں کون سا عظیم فلسفی پیدا ہوا۔ بلکہ ہماری پوری تاریخ میں عظیم فلسفیوں کی مجموعی تعداد کیا ہے؟ میں  کوئی محقق تو ہو

ترجمہ میں تقلیب ، انتقال اور ارتقا کے تصورات

(۱) کیا ترجمہ ایک زبان  کے اصل متن کے مفہوم کو دوسری زبان میں بدلنے کا نام ہے جس میں معانی آلودہ ہو جاتے ہیں؟ ہدفی زبان میں اصل متن  کی زبان کے عین مساوی لفظ نہیں مل  سکتا کیونکہ ایک زبان کے  حقیقی متبادل الفاظ  دوسری زبان میں اگر ملتے بھی ہیں تو ان کے خواص اور تاثرات سے ہاتھ دھو لینا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ ناموں کے بھی اپنے صوتی خواص ہوتے ہیں اور وہ بھی ایک زبان سے دوسری زبان میں داخل ہو کر اپنا تاثر بدل دیتے ہیں۔ انگریزی کا لنڈن اردو میں لندن ہوجاتا ہے اور ان دونوں الفاظ سے ذہن میں دو مختلف تاثر پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح کرشن چندر اردو میں کرشن چندَر ہوجاتا ہے اور پریم چندر پریم چند۔ اس لیے ایک زبان کےایسے الفاظ بھی دوسری زبان میں آکر بہ اعتبارِ معنی اگر نہیں بدلتے تو بہ اعتبار تاثر منقلب ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ ژاک دریدا اپنے انٹرویو کے مجموعے پوزیشنس میں کہتا ہے: … for the notion of translation we would have to substitute a notion of transformation: a regulated transformation of one language by another, of one text by another. we will never have, and in fact have never had, to do w