[اس تحریر کا مقصد ایک وسیع تر سیاق میں تہذیبوں کی نشأۃِ ثانیہ کے ایک روشن خیال اور ترقی پسند تصور کو سامنے لانا ہے۔ یہ ایک فکری مقالہ ہے اور تحقیقی نقطۂ نظر سےاس میں ترمیم کی گنجائش موجود ہے۔ رجعت پسند ، ترقی پسند اور روشن خیال کے الفاظ کو ان کے مجرد معنوں میں استعمال کیا گیا اوران کا تعلق کسی خاص مکتبِ فکر یا نظریے سے وابستہ افراد سے نہیں ہے۔ ] مغربی تہذیب کے ہمہ جہت غلبہ و استیلاکے ردِّعمل میں جزیرہ نما ہند کی مختلف قوموں کےبنیادپرست روایتی یا ایک لفظ میں رجعت پسندذہنوں میں اپنی تہذیبی جڑوں سے مراجعت اور ان کی مدافعت پر مبنی بظاہر ایک طاقتوراحیائی شعور پیدا ہوا ہے، اور اسی بنا پر ان کے اندرسے ایسی دینی، ثقافتی اور سیاسی تحریکیں ظہور میں آئی ہیں جو اپنی تہذیبوں کے ‘سنہرے ماضی ’ کو ازسرنوِ زندہ کرنا چاہتی ہیں، لیکن اس کی واقعی جستجو سے زیادہ اس کا رومانی تصور تہذیبوں کے رجعت پسند عناصر کو متحرک رکھتا ہے اور اسی کے زیرِ اثر وہ زندگی کے ہر شعبے میں انقلابی نوعیت کی اصلاحات کرنا چاہتے ہیں۔وہ اپنے مذہب اور تہذیب کے ایک‘مکمل نظام ِ حیات’