نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

دعوت، ادعائیت، تحکمیت

عالم اسلام میں، تمام تر فکری، مذہبی، تہذیبی و ثقافتی، سیاسی، اور تاریخی اختلافات، تنازعات اور تفرقوں، اورتمام ترگروہ بندیوں، تحریکوں، فرقوں اور مسلکوں کے باوجود، کم از کم ، یہ بات متفق علیہ ہے کہ اسلام ایک آسمانی یا الٰہی مذہب ہے۔ امتِ واحدہ کے مختلف فیہ اور متنازعہ امور کی موجودہ کثرت کے فکری، فقہی، تحریکی اور فرقہ وارانہ صورت حال میں، اور اعتدال پسند، انتہا پسند، بنیاد پرست اور ترقی پسند اسلام کی مغربی تقسیموں کے موجودہ عالمی منظرنامہ میں، اسلام وہ ہے، عالم اسلام کے افراد، مقامی معاشرے، تہذیبیں ، مکاتب، مسالک، خانقاہیں، فرقے، تنظیمیں اور تحریکیں جس کی مشق کرتی ہیں؛ اسلام وہ ہے، مسلمان، اپنے تمام تراختلافات، تنازعات اور مناقشات کے باوجود، جس پر انتہائی شرح صدر اور یقین کامل کے ساتھ، اور انتہائی سختی یا کم از کم انتہائی اصرار کے ساتھ، عمل پیرا ہیں— کچھ ایسی سختی یا اصرار کے ساتھ کہ زیادہ تر مسلم اجتماعیتیں خود کو ایک ساتھ ‘برحق’، ‘فرقہ ناجیہ’، یا کم ازکم خود ہی کو ’حق سے قریب ترین‘ سمجھتی ہیں؛ کچھ ایسی سختی یا اصرار کے ساتھ کہ وہ، ’مغرب زدہ‘ تقسیموں کے مطابق خواہ اعتدال پسند

مقلد اور شاگرد کا فرق

(ہندی سے ترجمہ، اصل متن: اوشو) جو کچھ تمہارے اندر خوبصورت ہے اسے چھپا کر رکھو، اسے ظاہر نہ کرو۔ تمہارے اندر جو بھی سچا، حقیقی اور بیش قیمت ہے وہ چھپانے کے لائق ہے کیونکہ جب بھی حق کو دل میں چھپا کر رکھا جا تا ہے تو وہ دل میں چھپے بیج کی طرح پھوٹتا اور نشوونما پاتا ہے، ٹھیک زمین میں گہرے دبے بیج کی طرح۔ اسے باہر مت اچھالو۔ اگر تم نے بیج کو ہر ایک کو دکھانے کے لیے سڑک پر پھینک دیا تو وہ عبث ہی مر جائے گا۔ مر کر پھر وہ درخت اور نئے بیجوں کو پیدا نہ کر سکے گا۔ ٹھیک ایک بیج کی ہی طرح، تمہارے اندر جو بھی حسن، خیر اور حق ہے اس کی دیکھ بھال کرو۔ اس کا مظاہرہ نہ کرتے ہوئے، اسے دل میں چھپا کرنشو و نما پانے کے لیے جگہ دو۔ لیکن ہر شخص کے ذریعے ٹھیک اس کا الٹا کیا جاتا ہے۔ جو بھی غلط ہے، اسے تم چھپاتے ہو، تم نہیں چاہتے کہ وہ دوسروں پر ظاہر ہو۔ جو بھی قباحت آمیز ہے، اسے تم چھپاتے ہو اور جو بھی تمہارے اندر خوبصورت ہے، اگرچہ وہ حقیقت میں خوبصورت ہو یا نہ ہو، تم اسے بڑھا چڑھا کر اسے مشتہر کرتے ہو۔ یہی سب سے بڑی مصیبت ہے کیونکہ جو حسین تر ہے، وہ ضائع ہو جاتا ہے اور جو قبیح تر ہے اس کی نشوونما

سماجی علوم کا نصب العین اور طریقہ کار

یہ موضوع بحث کے تفصیلی مطالعے کے بعد لکھی گئی کوئی باضابطہ، مربوط اور منظم تحریر نہیں ہے۔اس میں سائنسی اور سماجی علوم کے نصب العین اور طریقہ کار کے سلسلے میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے اس کی نوعیت صرف ایک سرسری اور طائرانہ نظر کی ہے۔ سائنسی و سماجی علوم میں اوپر اور دور سے جو کچھ نظر آتا ہے بس اسی کو پیش نظر رکھ کر ایک بے ضابطہ سا مقدمہ قائم کیا گیا ہے ۔ اس لیے اس تحریر کو مصنف کی طرف سے حرف آخر نہ سمجھا جائے۔ ایک موجودہ دور میں علوم و فنون کی درس و تدریس کو دو بڑے حصوں کے تحت انجام دیا جاتا ہے۔ ایک کا نام سائنس ہے اور دوسرے کا آرٹس۔ سائنس کے تحت طبیعیات (فزکس)، حیاتیات (بایولوجی)، کیمیا (کیمسٹری) اور ان تینوں بنیادی سائنسی علوم سے مرکب متعدد علوم آتے ہیں مثلاً بایو کیمسٹری، بایو فزکس۔ سائنس کے عملی انطباق (پریکٹیکل ایپلی کیشن) کو تکنالوجی کہتے ہیں۔ اسے بھی سائنس کے ساتھ ہی رکھا جاتا ہے. آرٹس کے تحت مذہبیات، منطق، ریاضی، فلسفہ، ادبیات عالیہ، فنون لطیفہ (رقص وموسیقی، مصوری، مجسمہ سازی) سماجیات، سیاسیات، معاشیات، نفسیات، جغرافیہ وغیرہ جیسے علوم آتے ہیں۔ آرٹس کے تحت آنے والے علوم کی جن شاخوں (

رٹو اور

ایورسٹ پر گیان کا سورج اگا تھا پورب ہی میں اگا تھا پورب ہی میں پیارے طوطا بھائیو جھوٹ موٹھ مت گاو اتنا اب دھرتی ہے گتی مئے گول فرار ہو گیا سورج پشچم سات سمندر پار اِدھر بھی جل دیوتا گرج رہے تھے ڈر جاتے تھے طوطا پن میں لوگ پشچم پیر دھریں تو کیسے لہروں سے لڑتے بھڑتے ہٹلر ہی آتے تھے سچ مچ ہٹلر ہی آتے تھے ریل چلانے گاووں کو شہر بنانے جیسے نئے کولمبس آج انت رکش سے مل کر پھینکیں جگ مگ جال طلسم پیارے طوطا بھائیو اب آنکھ میچ کر سانس کھینچ کر گاو اوم ڈبلو ڈبلو ڈبلو دنیا بن گئی گاوں 2006

نو مینس لینڈ (میل فی میل پالیٹکس)

پڑھو اے بی سی ڈی جتنے مرد ہیں اتنی عورتیں یعنی برابر برابر تو سنسد میں بھی ، فوج میں بھی دونوں ہوں گے برابر برابر نہ ایک کم نہ ایک زیادہ بلکہ پردھان منتری بھی دو ہوں گے ایک مرد ، ایک عورت مرد مردوں کا پردھان منتری عورت عورتوں کی پردھان منتری مگر ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں دو پردھان منتریوں سے ایک دیش نہیں چل سکتا اس لیے پارٹیشن بہتر ہے مردوں کا دیش الگ عورتوں کا دیش الگ دونوں دیشوں کی اپنی سنسد اپنی سرحد ، اپنی فوج اور جہاں پر دونوں دیشوں کی سیما ریکھا ملے گی وہ نو مینس لینڈ ہوگا —”اور ایچ آر ڈی کا کیا ہوگا بھین جی؟“ ایچ آر ڈی کا کیا ہوگا ، ا یچ آر ڈی کا کیا ہوگا ! ہم مشین نہیں عورتیں ہیں مردوادیو سمجھے ایچ آر ڈی کا کام نومینس لینڈ میں ہوگا! ”تھینک یو بھین جی ، پاسپورٹ کے چکر سے تو نجات ملی !“ 2006

دانو اور پری

ناری تم لوک کتھا کی وہی پری ہو دور گگن سے اس دھرتی پر کریڑا کرنے جو آتی تھی یہیں بس گئی یہیں بس گئی ؟ نہیں نہیں اک دانو نے پکڑ لیا تھا جس کے جھلمل نبھ پنکھوں کو دھر پوَرُش سے کتر دیا تھا جس کے تن کو تن کے من کو اس دانو نے بس اک چھن میں رشتوں ناتوں سمبندھوں کے کرُور جال میں جکڑ لیا تھا پھر ُیگ جانے کتنے بیتے پنکھ رَہِت اُن بیاکل ڈَینوں کی تڑپھن میں سونا چاندی ، ہیرے موتی لعل ، جواہر ، نیلم روبی مٰخمل ،ریشم، خوشبو سب نیوچھاور سب نیوچھاور اس کے تن پر پھر بھی من تھا چھٹ پٹ چھٹ پٹ جیسے جل بن مچھلی سورج، چندا اور ستارے گنگا ،جمنا اور ہمالَے آتی جاتی ساری رِتوئیں کلی، پھول اور تتلی، بھونرے سب روتے تھے اس کے دکھ پر یہ کہتے تھے اڑ جا وپھرمُکت گگن میں پنکھ لگا کر نقلی او ری پگلی 2005