نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

خدا خدا کیجے: مودودی اسلام پسندوں کا تصورِ ادب

11 جنوری 2014 کو میں نے عبدالحمید عدم کی درج ذیل نظم فیس بک پر پوسٹ کی تھی : شیخ صاحب خدا خدا کیجیے یہ حسیں عورتیں یہ تصویریں رحمت ایزدی کی تفسیریں جن کے ہونٹوں میں آب حیواں ہے جن کے چہروں کا نام قرآں ہے جن کے گیسو نگار خانے ہیں جن کے زیر نگیں زمانے ہیں جن کی ضو سے چراغ روشن ہیں زندگی کے ایاغ روشن ہیں جن کی آنکھوں سے مئے ٹپکتی ہے آب کوثر سی شئے ٹپکتی ہے یہ جہنم میں جانے والی ہیں آپ کی منطقیں نرالی ہیں شیخ صاحب خدا خدا کیجے یہ مغنی یہ دلربا ساحر یہ مصور یہ خوشنوا شاعر جن کی باتوں سے پھول جھڑتے ہیں زندگی کے اصول جھڑتے ہیں جو ستاروں کو نور دیتے ہیں طور کو برق طور دیتے ہیں نگہت گل ہے گفتگو جن کی موج دریا ہے ہاؤ ہو جن کی جن سے یزداں کلام کرتا ہے جن کو سورج سلام کرتا ہے یہ جہنم میں جانے والے ہیں آپ کے فلسفے نرالے ہیں شیخ صاحب خدا خدا کیجے یہ عبائیں یہ داڑھیاں یہ صفیں اجلی اجلی نظر فریب کفیں ! یہ نگاہوں کے سرمگیں ڈورے وعظ میں انگبیں کے ہلکورے عنبروعود کے لطیف غلاف ! نام یزداں پہ ہر گناہ معاف مغبچوں کی حسیں مناجاتیں ...