نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

ایک داعی سے مکالمہ

[میں نے فیس بک پر جولائی ۲۰۱۲ عیسوی میں ’’دعوتی نقطہ نظر کی خامیاں‘‘ کے عنوان سے ایک نوٹ لکھا تھا۔ درج ذیل تحریر میرے اسی نوٹ پر جناب سید سعادت اللہ حسینی صاحب کے ایک تبصرے کا تفصیلی جواب ہے جو اسی زمانے میں لکھی گئی۔] محترم سید سعادت اللہ حسینی صاحب آپ نے لکھا ہے: ’’ طارق صدیقی صاحب کو دوستانہ مشورہ یہ ہے کہ وہ فیس بک پر اس قدر طویل اقتباسات کی تحریر میں وقت ضائع کرنے کی بجائے کچھ بنیادی کتابوں کے مطالعہ پر توجہ دین تو حقیقت کی تلاش آسان ہوگی۔ آپ کے نوٹ اس بات کی چغلی کررہے ہیں کہ آپ نے اسلامی متکلمین کی بنیادی کتابیں بھی نہیں پڑھی ہیں اور نہ فلسفہ اور منطق کی بہت ہی بنیادی درسی کتابیں بھی پڑھ پائے ہیں۔‘‘ یہ طویل اقتباسات نہیں طویل تبصرے ہیں۔ طوالت یا اختصار سے وقت ضائع نہیں ہوتا۔ مختصر تحریریں بھی تضیع اوقات ہو سکتی ہیں اگر ان سے کسی کو فائدہ نہ ہو رہا ہو۔ خود آپ کا تبصرہ بھی فیس بک کے عام تبصروں سے زیادہ طویل ہے۔ رہی بات فیس بک پر لکھنے کی تو آپ خود اپنی تقریروں میں فرماتے ہیں کہ انٹرنیٹ نے بے آوازوں کو آواز دی ہے، سو مجھے بھی ایسا ہی ایک بے آواز شخص سمجھ لیجیے۔ می

دعوت، ادعائیت، تحکمیت

عالم اسلام میں، تمام تر فکری، مذہبی، تہذیبی و ثقافتی، سیاسی، اور تاریخی اختلافات، تنازعات اور تفرقوں، اورتمام ترگروہ بندیوں، تحریکوں، فرقوں اور مسلکوں کے باوجود، کم از کم ، یہ بات متفق علیہ ہے کہ اسلام ایک آسمانی یا الٰہی مذہب ہے۔ امتِ واحدہ کے مختلف فیہ اور متنازعہ امور کی موجودہ کثرت کے فکری، فقہی، تحریکی اور فرقہ وارانہ صورت حال میں، اور اعتدال پسند، انتہا پسند، بنیاد پرست اور ترقی پسند اسلام کی مغربی تقسیموں کے موجودہ عالمی منظرنامہ میں، اسلام وہ ہے، عالم اسلام کے افراد، مقامی معاشرے، تہذیبیں ، مکاتب، مسالک، خانقاہیں، فرقے، تنظیمیں اور تحریکیں جس کی مشق کرتی ہیں؛ اسلام وہ ہے، مسلمان، اپنے تمام تراختلافات، تنازعات اور مناقشات کے باوجود، جس پر انتہائی شرح صدر اور یقین کامل کے ساتھ، اور انتہائی سختی یا کم از کم انتہائی اصرار کے ساتھ، عمل پیرا ہیں— کچھ ایسی سختی یا اصرار کے ساتھ کہ زیادہ تر مسلم اجتماعیتیں خود کو ایک ساتھ ‘برحق’، ‘فرقہ ناجیہ’، یا کم ازکم خود ہی کو ’حق سے قریب ترین‘ سمجھتی ہیں؛ کچھ ایسی سختی یا اصرار کے ساتھ کہ وہ، ’مغرب زدہ‘ تقسیموں کے مطابق خواہ اعتدال پسند

مقلد اور شاگرد کا فرق

(ہندی سے ترجمہ، اصل متن: اوشو) جو کچھ تمہارے اندر خوبصورت ہے اسے چھپا کر رکھو، اسے ظاہر نہ کرو۔ تمہارے اندر جو بھی سچا، حقیقی اور بیش قیمت ہے وہ چھپانے کے لائق ہے کیونکہ جب بھی حق کو دل میں چھپا کر رکھا جا تا ہے تو وہ دل میں چھپے بیج کی طرح پھوٹتا اور نشوونما پاتا ہے، ٹھیک زمین میں گہرے دبے بیج کی طرح۔ اسے باہر مت اچھالو۔ اگر تم نے بیج کو ہر ایک کو دکھانے کے لیے سڑک پر پھینک دیا تو وہ عبث ہی مر جائے گا۔ مر کر پھر وہ درخت اور نئے بیجوں کو پیدا نہ کر سکے گا۔ ٹھیک ایک بیج کی ہی طرح، تمہارے اندر جو بھی حسن، خیر اور حق ہے اس کی دیکھ بھال کرو۔ اس کا مظاہرہ نہ کرتے ہوئے، اسے دل میں چھپا کرنشو و نما پانے کے لیے جگہ دو۔ لیکن ہر شخص کے ذریعے ٹھیک اس کا الٹا کیا جاتا ہے۔ جو بھی غلط ہے، اسے تم چھپاتے ہو، تم نہیں چاہتے کہ وہ دوسروں پر ظاہر ہو۔ جو بھی قباحت آمیز ہے، اسے تم چھپاتے ہو اور جو بھی تمہارے اندر خوبصورت ہے، اگرچہ وہ حقیقت میں خوبصورت ہو یا نہ ہو، تم اسے بڑھا چڑھا کر اسے مشتہر کرتے ہو۔ یہی سب سے بڑی مصیبت ہے کیونکہ جو حسین تر ہے، وہ ضائع ہو جاتا ہے اور جو قبیح تر ہے اس کی نشوونما